محمد غزالی خان
معروف نو مسلمہ برطانوی صحافی اور سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی سالی، لارین بوتھ نے کہا ہے کہ دنیا کومسئلہ کشمیر کے بارے میں صحیح معلومات نہیں ہیں جس کی وجہ سے یہ مسئلہ گزشتہ ۷۰ سال سے مستقل الجھتا چلا جلا جا رہا ہے۔ الجزیر ہ ٹیلی ویژن کے ساتھ بحیثیت پروڈیوسر اپنی وابستگی کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ : ’’ مجھے یاد ہے کہ نادانستہ طور پر ایک عرصے تک ہم ترکی کےسیاست داں فتح اللہ گلین کی ترجمانی کرتے رہے۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے بارے میں معیاری انگریزی میں لکھی ہوئ معلومات موصول ہوتی تھیں ۔ اپنی غلطی کا احساس ہمیں کافی عرصہ بعد ہوا۔ لہٰذا میڈیا اور ان کے نیوز روم پر تمام الزام ڈالنا بھی مناسب نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسٔلہ کشمیر پر انگریزی میں معلومات فراہم کی جائیں۔ ‘‘
سفید فام سیاست دانوں کو اپنا مسیحا تصور کرنے کی مسلمانوں کی عام روش پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اور اس ذہنیت سے اپنے آپ کو آزاد کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’مجھے یاد ہے جب میں لہبر پارٹی کی کانفرنس میں عرب سفرا ء کے ڈنرز میں جایا کرتی تھی، جہاں وہ ہر سال وہ ٹونی بلیئر کو دیکھ کر تالیاں بجایا کرتے تھے۔ جیسے انہیں کوئ بڑی نعمت نصیب ہو گئ ہو۔ ۔۔مجھے یاد ہے کہ لبنان کا سفیر ،جس کے ملک پر بمباری کی جا رہی تھی اور فلسطینی سفیر جس کے ساتھ برا برتاؤ کیا جا رہا تھا، ٹونی بلیئر کے لئے تالیاں بجاتے تھے۔ میں چاہتی ہوں کہ ہم سب یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اگر کوئ نیکی کرتا ہے تو اپنے لئے کرتا ہے ، اپنے سکون اور اپنی روح کی پاکیزگی کیلئے کرتا ہے۔ اگر کوئ اپنا فرض نبھاتے ہوئے کوئ نیک کام کرتا ہے بحیثیت ایک امت حیثیت اور ایک ایسی جماعت کی حیثیت سے جو انصاف کی خواہاں ہے ، ہمیں اس کا احسان مند بننے کی روش سے باز آجانا چاہئے۔ میں یہاں آئ ہوں تو اپنے لئے آئی ہوں کیونکہ یہ میرا فرض ہے۔ کشمیر کے مسٔلے میں میں نے دیر سے دلچسپی لی ہے جبکہ میں مشرف با اسلام نو سال قبل ہو چکی تھی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے شرم آنی چاہئے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ میں اب تک کہاں تھی اور یہ کہ اس مسٔلے پر میں نے پہلے کیوںآواز نہیں اٹھائ۔‘‘
موصوفہ لندن میں ، مسٔلہ کشمیر پر کشمیری اسکالر ڈاکٹر غلام نبی فلاحی کی کتاب “Kashmir Now and Then; Is there any solution”کی تقریب رونمائ میں بحیثیت مہمان خصوصی تقریر کر ہی تھیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل اور ہندوستان کو فلسطین اور کشمیر پر قابض رہنے کا خبط ہے ۔ اور ہندوستان اسرائیلی ہتھیاروں کے سب سے بڑے خریداروں میں سے ایک ہے جس نے ہتھیاروں کی خریداری پر گزشتہ دہائی میں ۱۰ بلین ڈالر خرچ کئے ہیں، اور ہندستانی پولیس دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے اسرائیل میں تربیت لے رہی ہے۔۔۔وہی طریقے جو اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے جن کے تحت مبینہ دہشت گردوں کے مکانات ، دوکانیں اور اسکول مسمار کر دئیے جاتے ہیں۔
کتاب کی تعریف کرتے ہوئے انھوں نے تقریب کے شرکا ء سے اس دستاویزی کتاب کو خریدنے، پڑھنے اور دوست احباب سے اس مسٔلے پر بات کرنے کی اپیل کی۔
تقریب میں لندن کی ایک این جی او، فیسیلیٹیٹ گلوبل کی بانی اور چیف ایگبیکیوٹو ثریا بوائڈ نے تقریب کے شرکا ء کو بتایا کی انھوں نے 28 مارچ 2018 کو جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے چالیسویں اجلاس میں شرکت کی تھی جس میں 2016 اور 2018 کے دوران کشمیر اور گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر مرتب کی گیٔ ایک رپورٹ پر بحث کی گئی۔ انھوں نے بتایا کہ اس ضخیم رپورٹ میں تقریباً 17 سفارشات کا تعلق ہندوستان اور 7 کا پاکستان میں انسانی حقوق سے تھا جن میں سے سب کی سب منظور کر لی گئیں۔ مس بوائڈ نے اقوام متحدہ کے طریقہ کار کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ جنرل اسمبلی ر کن ممالک میں حقوق انسانی سے متعلق معاملات انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں بھیجتی ہے جسے ان معاملات پر فیصلہ دینے کا حق حاصل ہے۔ اور جب یہ رپورٹ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے سامنے لائی گئی تو وہاں پر اتفاق رائے سے اس بات کی تائید کی گئی کہ حق خود ارادیت کشمیریوں کا حق ہے نہ یہ کوئی مذہبی مسئلہ ہے اور نہ ہندوستان کا داخلی مسئلہ ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ سکیورٹی کونسل اور اقوام متحدہ کے دیگر اداروں اور شعبوں میں ہندوستان کی موجودگی سفارشات کے نفاذ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ حکومت برطانیہ کا ذکر کرتے ہوئے مس بوائڈ نے بتایا کہ وہ اپنے معاشی مفادات کے پیش نظر چین کے مقابلے میں ہندوستان کو اہم گاہک سمجھتی ہے اور یہی کردار امریکی حکومت کا ہے۔
کشمیر وائس انٹرنیشنل (کے دی آئی) کے صدار ایم اے رینا نے کہا کہ مغرب میں رہنے والے وادی سے تعلق رکھنے والے کشمیریوں کا فرض ہے کہ وہ وادی میں ڈھائے جانے والے مصائب اور مظالم کو دنیا کے سامنے لائیں اور مسئلہ کشمیر کے باعزت حل میں مغربی دنیا کی مدد لینے کیلئے کام کریں۔ انھوں نے مزید کہا کہ جنگجوؤں اور ہندوستانی فوج کے درمیان جھڑپوں سے روز مرہ کی قتل و غارت گیری کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ کشمیریوں کو اندرون ہندوستان رائے عامہ ہموار کرنی چاہئے کیونکہ مسئلے کا حل دہلی سے شروع ہونا چاہئے۔ سینٹرل لندن میں رابطہ عالم اسلامی کے دفتر میں منعقد اس تقریب سے دیگر کشمیری مندوبین س نے بھی خطاب کیا۔
284صفحات پر مشتمل یہ کتاب میں چھ ابواب میں منقسم ہے جن کے تحت 1947 سے ان تمام مراحل سے متعلق مختلف موضوعات پر نامور شخصیات کے منتخب اور تاریخی مضامین شامل ہیں جن سے گزرتا ہوا دنیا کا یہ سب سے پرانا بین االاقوامی قضیہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلا جارہا ہے کتاب ھٰذا امازن سے خریدی جا سکتی ہے۔