برج کورس کے ڈائریکٹر راشد شاز کی تبدیلی کی حقیقت

ایس ایم انور حسین (سابق صدر طلبا یونین مسلم یونیورسٹی علیگڑھ)

راشد شاز صاحب کی سبکدوشی سے متعلق  میرے ایک مختصر سے نوٹ پر سوشل میڈیا  کے ذریعے سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔  واضح رہے کہ میں نے نہ راشد صاحب کی سوچ کی تائید کی تھی اور نہ ماضی یا حال کی ان کی مبینہ سرگیوں اور سیاست کی۔  میرا ایک اصولی موقف تھا۔ بہر حال علیگڑ ھ کے میرے ساتھی  ایس ایم انور حسین نے، جن کا راشد صاحب کے ساتھ برج کورس میں کچھ دنوں کا ساتھ رہا ہے اور انہوں نے ان کا کام  بہت قریب سے دیکھا ہے اپنے اس اختلافی مضمون میں تشویشناک سوالات کھڑے کئے ہیں ۔ ایک بات کا مجھے بہرحال اعتراف کرنا پڑے گا کہ شاز صاحب سے متعلق سوالات میرے ذہن میں بھی تھے مگر میں ہمیشہ حسن ظن سے کام لیتا رہا۔ مگر انور صاحب نے اپنے سوالات میں جو الزامات لگائے ہیں وہ بہت سنگین ہیں۔  عام طور پر ذاتی بلاگز پر اپنے ہی مضامین شائع کئے جاتے ہیں۔ مگر قارئین کی معلومات اور راشد صاحب کے پس منظر کو سمجھنے کی غرض سے  یہاں انور صاحب کا مضمون  من و عن شائع کیا جارہا ہے۔ اگر راشد شاز صاحب اس کا جواب دینا چاہیں گے تو اسے بھی شائع کیا جائے گا محمد غزالی خان

حدیث رسول ﷺ ہے کہ جس نے لوگوں (کے احسانات) کی قدر نہ کی اس نے اللہ (کے احسانات) کی بھی قدر نہ کی۔ لہٰذا اصل مسئلے کی جانب آنے سے پہلے میں ﷲ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ راشد شاز صاحب سے  میرا کوئ ذاتی اختلاف اور عناد نہیں ہے۔ میرے اور انکے تعلقات چار دہائیوں پر محیط ہین اور میں انکا احسان مند بھی ہوں۔ آج سے تقریبا چار سال پہلے علی گڑھ مین اپنے بچون کے ساتھ قیام پذیر تھا اور علیل چل رہا تھا ۔اس زمانہ میں راشد صاحب نے خود مجھ سے رابطہ کرکے چاب پر برج کورس آنے کی بات کی۔  جب میں ان سے ملنے گیا تو انہوں نے اصرار کرکے برج کورس کے بچوں کو انگریزی پڑھانے کی ذمہ داری دی۔ تین انگریزی کے استاذ تھے۔ مجھے انہوں نے عملاً انگریزی کا انچارج بنا کر رکھا۔ چونکہ ان دنوں میری طبیعت خراب رہتی تھی میں کہاں تک میں اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کر پایا مجھے نہیں معلوم۔ لیکن راشد صاحب نے آخری دن تک شعبہ انگریزی کی ذمہ داری میرے ہی کاندھوں پر چھوڑے رکھی۔ ۔کبھی کوئ سوال نہیں کیا اور نہ میری کسی کوتاہی پر گرفت۔ لیکن مجھے یہ احساس برابر ستاتا تھا کہ شاید میں اپنی صحت کی وجہ سے اپنے کام کے ساتھ انصاف نہیں کر پا رہا ہون۔ انکا دوسرا احسان یہ بھی تھا کہ انہوں نے دوسرے اساتذہ کے مقابلہ میں میرا مشاہرہ تقریباً دو نا رکھا تھا۔ ہاں اس ایک سال کی مدت میں میں نے کچھ ایسی باتوں کا مشاہدہ کیا جو میری نظروں میں ٹھیک نہیں تھیں۔  

غزالی خان صاحب  نے جناب راشد شاز صاحب کی ڈائریکٹر شپ کے عہدہ سبکدوشی پر جس رد عمل کا اظہار کیا ہے وہ   ان کی عجلت بازی کا اظہار ہے۔ انہوں نے    راشد شاز صاحب کی سبکدوشی کی دو وجوہات بتائی ہیں   : پہلی  یہ  کہ انہوں نے بابری مسجد کے مقدمہ میں سپریم کورٹ فیصلہ پر تنقید کی تھی اور دوسری  یہ  کہ انہوں نے برج کورس کے بچوں وائس چانسلر صاحب کے ساتھ دہلی بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔

 لیکن یہ دونوں باتیں صداقت سے دور ہیں ۔پہلی بات تو راشد شاز صاحب نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ابھی تک کوئ بیان دیا ہ ہی نہیں ہے۔ ہاں انکا ایک آدھے گھنٹہ کا لیکچر ویڈیو you tube پر موجود ہے۔ جو دراصل انکا سپریم کورٹ کے فیصلے پر کوئی رسمی بیان نہیں ہے۔ بلکہ بحیثیت ڈایریکٹر راشد صاحب ہر ہفتہ کسی دن سارے طالب علموں اور طالبات کو ایک کلاس روم میں جمع کرکے کبھی حالات حاضرہ کے اوپر اور کبھی اسلامی موضوعات کے اوپر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔انکی تقریر کو ریکارڈ کرنے کے لئے کیمرہ اور دوسرے آلات لگے رہتے ہین۔ بعد میں انکی اس تقریر کو برج کورس کا اسٹاف you tube پراپلوڈ کردیتے ہیں۔ یہ ویڈیو بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

میں  نےپورا ویڈیو دیکھا پے اور اس  آدھے گھنٹے کی تقریر میں کوئی ایک جملہ بھی ایسا نہیں ہے جس کے متعلق کوئی یہ کہہ سکے کہ اس میں سپریم کورٹ پر تنقید کی گئی ہو۔سپریم کورٹ تو دور حکومت پر بھی کوئی تنقیدی جملہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ صرف مسلم قائدین اور پرسنل بورڈ پر برسے ہیں۔ انداز بیان بہت سنجیدہ اور مدلل  ہے۔انہوں نے جو نکات اٹھاے ہیں اور جو بحث پیش کی ہے  ان سے میں اسی فیصد اتفاق کرتا ہوں اور بعض اپروچ کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہوں۔


آج مسلہ یہ نہیں ہے کہ انہیں ڈایریکٹر شپ کے پوسٹ سے جو ہٹایا گیا ہے وہ درست ہے یا غلط۔ موجودہ وائس چانسلر کے موقف کے سلسلے میں میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ وہ لوکل ہیں۔جوڑ توڑ کے ماہر ہیں۔ پوری یونیورسٹی خصوصاً   اساتذہ کو وہ اچھی طرح جانتے ہیں ۔خرید و فروخت کے ماہر ہیں۔اور پور ی یونیورسیٹی کو وہ کیرٹ یا اسٹک کے اصول پر چلا رہے ہیں۔بد  ترین اساتذہ جن کا نہ کوئی علمی معیار ہے، نہ تحقیقی اور نہ انتظامی وہ  انکی ٹیم میں شامل ہیں۔جیسا کہ میں نے کہا کہ وہ اساتذہ اور غیر اساتذہ سب کی مخلتف لابیوں سے اچھی طرح واقف ہیں اسلئے ساری یونیورسٹی کی  انہوں زبان اور ضمیر دونوں ہی خرید رکھی ہے۔ اب دیکھئے راشد صاحب کو ہٹانے کے لئے انہوں نے کس کا استعمال کیا۔ ایک تحریکی سرگرم نسیم احمد خان صاحب کا۔ وہ راشد صاحب کے ذاتی دوستوں میں ایک ہیں۔انہوں نے بڑے اطمینان سے ڈایریکٹر کا آفس سنبھال لیا اور راشد صاحب کو اسی عمارت میں پیچھے کا ایک کمرہ دیدیا۔


اب آئیے اس بات کی طرف کہ راشد صاحب کو ڈایریکٹر کے عہدہ سے ہٹایا گیا۔ کیا اسکی وہ قانونی اور اخلاقی مدافعت کر سکتے  ہیں۔ قانونی طور پر تو بالکل نہیں۔ کیونکہ انکی اصل تقرری تو شعبہ انگریزی میں  بحیثیت بطور پروفیسر کے ہے۔ APCAME کی ڈایریکٹر شپ تو ایک اضافی ذمہ داری تھی۔ بنیادی نہیں۔اور راشد صاحب نے پچھلے چھ سال میں بحیثیت انگریزی کے پروفیسر کے کوئی بنیادی ذمہ داری درس و تدریس اور تحقیق کی نہیں نبھائی۔ انہوں برج کورس کا  استعمال اپنے ذاتی جاگیر کی طرح کیا۔

میرا اپنا ایک سال کا بہت قریب سے مشاہدہ ہے کہ برج کورس کا استعمال طالب علموں کی علمی صلاحیت کو آگے بڑھانے کے لئے کم اور  نا پختہ اور نا تجربہ کار ذہونوں کی تبدیلی (indoctrination) کے لیئے زیادہ ہوتا ہے۔

کچھ لوگ راشد صاحب کا شمار’’ بڑے اسلامی مفکروں‘‘ میں  کرتے ہیں ۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ لیکن انکا اپنا دینی مطمع نظر کئی مقامات پر چودہ سو سال کی اسلامی فکر سے ٹکراتا  ہے۔ وہ بقلم  خودمفکر، محدث  ،فقیہ ، مفسراور دین کے نئے شارح  سب ہی کچھ ہیں۔لہٰذا مدرسہ کے جو بچے انکے ہاتھ لگتے ہیں وہ انکی اپنے اعتبار سے indoctrination کرتے ہیں۔لہٰذایہ بچے جو کچھ سیکھ کر مدارس سے آتے ہیں،  جو اسلامی اقدار وہاں انکو بتاتے گئے ہیں اسکا انکو anti-dote دینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مخلوط کلاسز کو بڑھاوا دیا جاتا ہے اور دوچار مہینوں میں برج کورس میں لڑکے لڑکیوں کا اختلاط اور ارتباط اتنا بڑھ جاتا ہے کہ اگر آپ اندر کی جانب لان کی طرف پہنچ گئے ہیں  تو آپکو احساس ہوگا کہ آپ جے این  یو  میں  پہنچ گئے ہیں۔آپس میں قہقہہ ،چھینا جھپٹیاں، لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان روا ہے۔


اب آئیے ایک دوسرے پہلو پر۔ وہ ہے راشد شاز صاحب کی تقرری کا ۔ہم اسکے قانونی اور اخلاقی پہلو دونوں کا جائزہ لینگے۔ کیا راشد صاحب بتاسکتے ہیں کہ انکی تقرری قانونی اور اخلاقی حیثیت سے جائز ہے؟ آپ کہیں گے کہ وائس چانسلر کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی بڑے اسکالر کو اپنی صوابدید پر پروفیسر بنا سکتا ہے۔آپکی بات درست ہے آپ ایک’’ عالمی اسکالر‘‘ ہیں۔لیکن کیا پی ایچ ڈی کے بعد آپ کا انگریزی ادب یا زبان کے اوپر کوئ کام ہے؟  جواب ہے نہیں۔آپکے علم میں یہ بات ہوگی کہ آپکی پی ایچ ڈی کا ٹاپک بھی انگریزی سے کم اور عرب travelogue پر زیا دہ تھا۔

اب آپ بتائیں کہ آپ جیسا ’’عالمی مسلم لیڈر‘‘ اور ’’ مفکر اسلام‘‘     OIC   کا مستقل مندوب  کیسے بنا اور اس حیثیت کو آپ کے ضمیر نے قبول کرنا کیسے کیسے  گوارہ کیسے کیا؟     آپ کہیں گے کہ آپ CPCAME میں پروفیسر کی پوسٹ تھی ہی اور APCAME کے ڈایریکٹر بننے کے لئےپروفیسر ہونا ضروری تھا۔ بات درست ۔لیکن کیا اپنی روزی حلال کرنے کے لئے آپ پر لازم نہیں تھا کہ انگریزی ایم اے کی بھی دو چار کلاس لے لیتے۔


خیر یہ بھی جانے دیجئے آپ نے چھ سال میں برج کورس کی کیا خدمت کی؟ آپ کہیں گے کہ برج کورس کی وجہ سے بہت سے مدرسے سے نکلے ہوے بچوں کا داخلہ بی اے اور ایل ایل بی میں ہو جاتاہے۔ایل ایل بی کتنے بچوں کا داخلہ ہو پاتا ہے؟ ہر سال ایک دو بس۔ بقیہ بچے انٹرنل ہونے کی بنیادوں پر سب سے معمولی کورسوں میں داخلہ لے پاتے ہیں۔


لفٹننٹ جنرل صاحب کے آپ بہت قریب تھے۔آپ جو کہتے تھے وہ سنتے تھے۔ بعض لوگوں کے مطابق آپ انکی آنکھ ناک کان تھے ۔اور اسکا غلط فائدہ آپ نے یوں اٹھایا کہ تواتر کے ساتھ مختلف فنکشنز کئے ۔ان لوگوں کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا جو اپنے بیانات میں آپکو حاجی پکارتے رہے۔ آپ نے  یو نیورسٹی میں ایک نئی  روایت کی بنیاد ڈالی ۔25 دسمبر کی رات کو آپ نے تمام طالب علموں و طالبا ت کے ساتھ جشن میلاد النبی اور کرسمس ڈے ایک ساتھ منایا  اوراسکی توجیہ یوں  پیش کی کہ  محمدﷺ   اور عیسٰیؑ  دونوں اسلام کے پیغمبر ہیں اور اسلیئے ہمیں ان کا جشن پیدائش منانا چاہیے۔کل کے ویڈیو میں جن پر آپ گرج برس رہے تھے ان میں سے بھی  دوچار لوگ آپ کے بھی مہمان ہوتے تھے۔


سابق وائس چانسلر سے اپنی قربت کی بنیاد پر آپ اپنی پسند کا  اسٹاف اٹھا لائے۔اور آپکا انداز ایسا ہی ہوتا تھا جیسے آپ یونیورسیٹی میں ایک parallel authority تھے۔
آگے ایک اورمشکل سوال ہے آپ کے لئے۔آپ ’’بین اقوامی مفکر اسلام‘‘  ہونے کے باوجود خود تو چور دروازے سے یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ وائس چانسلر سے قربت کی بنا کیاتھی؟ ہم یہ سوال نہیں اٹھاتے ۔لیکن کیا آپ ایمانداری سے کہہ سکتے  ہیں کہ آپ کی بیگم کی تقرری اسی برج کورس میں بحیثیٹ اسٹنٹ ڈایریکٹر قانونی اور اخلاقی معیار پر پوری اترتی ہے؟کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ آپکی بیگم کی علمی صلاحیت کیا ہے کیا انکے پاس پڑھانے کا تجربہ ہے؟کیا انکی پی ایچ ڈی کا مقالہ تحقیق کے معیار تک پہنچتا ہے؟ آپکے برج کورس میں اچھا پڑھانے والے عملے کے لوگ آپکی بیگم سے ہر لحاظ سے زیادہ  مستحق تھے۔ یہ حق تلفی کیا آپ کے اس مومنانہ فراست سے نہیں ٹکراتی جسکی آپ بار بار دہائی دیتے ہیں؟ کیا انکی تقرری کی بنیاد انکی رٹی رٹا ئی  اور ساتھ میں آپکی لکھی ہوئی تقریر نہیں تھی  جس میں  وہ اپنے وقت کے مستند، معروف و مقبول عالم دین کو مولوی اشرف علی تھانوی  کےنام سے مخاطب کرتی تھیں اور انکا مذاق اڑاتی تھیں، حقوق نسواں کے موضوع پر ؟


کیا آپ نے برج کورس کو اپنی سیاست اور طاقت کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا؟  آپ نے مدرسہ کے immature طالب علموں کوسمجھا بجھا کر ایک جمیعت العلمائے اسلام کے نام سے  ایک نئی تنظیم نہیں کھڑی کی؟ اور آپ انکی سر پرستی فرماتے تھے۔ جب ضرورت پڑتی تھی آپ اسی تنظیم کے عہدیداروں کو بلوا کر وائس چانسلرکی حمایت میں اور کبھی مخالفت میں بیان تیار کراتے تھے۔ بعد میں برج کورس کا اسٹاف اس بیان کو اردو دفاتر تک پہنچاتا تھا۔

آپ ایک لیفٹینینٹ جنرل سے بہت قریب تھے۔ جس فائل کو پرو وائس چانسلر نہیں منظور کرا پاتے تھے آپ ان سے دستخط کروالیتے تھے۔ کیوں اور کیسے آپ ایک فوجی جنرل کی ناک کے بال رہے۔ آج سویلین وائس چانسلر سے آپ کی پٹری نہیں بیٹھ رہی ہے۔اور برج کورس سے  آپ کے ایک ایک وفادار ساتھیوں کو ہٹا یا جا رہا ہے ۔اور آپ  وائس چانسلر کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ بحیثیت ملازم آپ وائس چانسلر کے روٹین فیصلوں کو جو ٹھکرا رہے ہیں  اسکی شہ آپکو کہاں سے ملتی ہے۔ وائس چانسلر کی پشت پناہی تو آر ایس ایس کر ہی ہے۔یہ سوال میں اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ  اس سے   پہلے کی آپ کی زندگی کی کہانی  بہت پیچیدہ ہے۔

 آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد دلی میں  ملی پارلیمینٹ بلائ تھی ۔ملی پارلیمینٹ کے لئے اندرون ملک اور بیرون ملک سے کافی چندے آئے اس زمانہ میں آپ نے بڑی جلالی کتابیں تصنیف کیں  ۔ مضامین لکھے اور رسالے روانہ کیے ۔ لوگوں کو جہاد اور قتال کی دعوت دی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دہلی کے مسلم محلوں کی دیواریں آپکے ان پوسٹروں سے ڈھک  گئی تھیں جن میں آپ نے مسلمانوں کو بوسنیا اور چیچنیا جہاد میں چلنے کی دعوت دی۔ انکے خاندان کی کفالت  کا ذمہ بھی لیا تھا۔ یہاں ایک بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ایس آئی  ایم(  جسے آج کل سیمی کہا جاتا ہے )  پراس کے ارکان کے  صرف ایک’’ غزنوی کی تلاش میں ہیں‘‘   گانے کے جرم میں پابندی  عائد کردی گئی تھی اور اس کے ارکان  برسہا برس جیلوں میں سڑتے رہے ۔یہاں تک کہ انکے سابق صدور بھی انکا ساتھ چھوڑ گئے۔ اس کے برعکس آپ نے جہادی لٹریچر بھی تیار کیا۔لوگوں کو جہاداور قتال کی دعوت بھی دی۔ ملی پارلیمینٹ کے لیئے باہر سے پیسے بھی لائے۔لیکن کسی پولیس پارٹی نے آپ سے پوچھ گچھ نہیں کی ۔کسی ED نے کبھی چھاپہ نہیں مارا۔ اور اوپر سے  آپ پر کسی کی نظر انتخاب پڑی بھی تو ایک آرمی جنرل کی۔


آپ ہی کی کرم فرمائی  سے مجھے جنرل صاحب کی تقریروں کو سننے کا موقع ملا اور اسی سے مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ جنرل صاحب تو کبھی آپکی کتا بوں سے لطف انداز نہ ہو پائیں گے ۔ پھر آخر اس پردہ زنگاری کے پیچھے کون ہے۔جو آپکو اندرون ملک بھی بچا رہاہے  اور بیرون ملک بھی آپکے سفر اور قیا م و   طعام   کا انتظام بھی کرتا ہے۔اور OICکا آپکو مستقل مندوب بھی  بنا رکھا ہے۔کیا آپ بتا سکتے ہیں OiC میں آپ کس ملک کی نمائندگی کرتے رہے ہیں اور کن بنیادوں پر آخر حکومت ہند کے کس عضو سے آپکے اتنی گہری جڑے ہیں کہ چاہے کانگریس کی حکومت ہو یا بی جے پی کی؟ آپ نے جس قسم کا لٹریچر پچھلی دو تین دہائی قبل شائع کیا ہے ، جس انداز سے قوم کو جہاد کی ترغیب دینے کی کوشش کی ہے ، جس طرح ایک باقاعدہ  دئے گئے پتے پر لوگوں اپنے پاسپیورٹ اور فوٹو گرافس جمع کرنے کی کھلے عام دعوت دی تھی،  کیا اسکے بین السطور کچھ پڑھنے یا دیکھنے کی ضرور ت نہیں  پڑتی ؟ آخر وہ کون ہے جو آپ کو ایک آر ایس لنکڈ وائس چانسلر کے مقابلہ میں آپکی پشت پناہی کر رہا ہے؟ آپ کہیں گے فراست ایمانی۔ میں کہوں گا پھر اس فراست ایمانی کے ساتھ آپ علی گڑھ میں کیا کر رہے ہیں؟  نکلئے اور سعودی اور مصر جیسی طاغوتی حکومتوں کے تختے پلٹیے۔برج کورس کو  اپنے دوست نسیم صاحب کے حوالے کیجئے۔

One comment

  1. جو کچھ پہلے لکھ چکا ہوں اسے دوبارہ نقل کر رہا ہوں۔ حدیث رسول ﷺ ہے کہ جس نے لوگوں (کے احسانات) کی قدر نہ کی اس نے اللہ (کے احسانات) کی بھی قدر نہ کی۔ لہٰذا اصل مسئلے کی جانب آنے سے پہلے میں ﷲ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ راشد شاز صاحب سے میرا کوئ ذاتی اختلاف اور عناد نہیں ہے۔ میرے اور انکے تعلقات چار دہائیوں پر محیط ہین اور میں انکا احسان مند بھی ہوں۔ آج سے تقریبا چار سال پہلے علی گڑھ مین اپنے بچون کے ساتھ قیام پذیر تھا اور علیل چل رہا تھا ۔اس زمانہ میں راشد صاحب نے خود مجھ سے رابطہ کرکے چاے پر برج کورس آنے کی بات کی۔ جب میں ان سے ملنے گیا تو انہوں نے اصرار کرکے برج کورس کے بچوں کو انگریزی پڑھانے کی ذمہ داری دی۔ تین انگریزی کے استاذ تھے۔ مجھے انہوں نے عملاً انگریزی کا انچارج بنا کر رکھا۔ چونکہ ان دنوں میری طبیعت خراب رہتی تھی میں کہاں تک میں اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کر پایا مجھے نہیں معلوم۔ لیکن راشد صاحب نے آخری دن تک شعبہ انگریزی کی ذمہ داری میرے ہی کاندھوں پر چھوڑے رکھی۔ ۔کبھی کوئ سوال نہیں کیا اور نہ میری کسی کوتاہی پر گرفت کی۔ لیکن مجھے یہ احساس برابر ستاتا تھا کہ شاید میں اپنی صحت کی وجہ سے اپنے کام کے ساتھ انصاف نہیں کر پا رہا ہوں۔ انکا دوسرا احسان یہ بھی تھا کہ انہوں نے دوسرے اساتذہ کے مقابلہ میں میرا مشاہرہ تقریباً دو نا رکھا تھا۔ ہاں اس ایک سال کی مدت میں میں نے کچھ ایسی باتوں کا مشاہدہ کیا جو میری نظروں میں ٹھیک نہیں تھیں۔

    جہاں تک برج کورس کے تعلق سے میرے مشاہدات کا تعلق ہے جو کچھ میں نے اپنے مضمون میں بیان کیا ہے ایک مرتبہ پھر ﷲ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ وہی ہے جو کچھ میں نے وہاں دیکھا تھا۔ اور چونکہ ایک سال کے دوران برج کورس کے بہت سے بچے میرے قریب آچکے تھے اور وہ میرے برج کورس چھوڑنے کے بعد بھی جب کبھی میں علی گڑھ جاتا تھا مجھ ملنے آتے تھے۔ ان کے ساتھ اکثر نئے طلبا بھی ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ جب کبھی علی گڑھ جاتا ہوں تو کچھ نہ کچھ برج کورس کے بچے اب بھی ٹکرا جاتےہیں اور انکے اصرار پر کبھی کبھار انکے ساتھ بیٹھ کر چائے سے بھی لطف اندوز ہو لیتا ہوں۔ جب تک میرا ٹھکانہ صاحب باغ تھا یہ بچے مجھ سے ملنے میری قیام گاہ پر آتے تھے۔ اب چونکہ میرا ٹھکانہ علی گڑھ میں FM Tower کے سے آگے چلا گیا ہے۔ اسلئے یہ سلسلہ اب ٹوٹ گیا ہے۔ اس لئے میں کہنا چاہتا ہوں کہ میں برج کورس کی صورت حال سے ہمیشہ کافی حد تک واقف رہا۔ دوسری وضاحت میں یہ بھی کردوں کہ میں اللہ کے فضل سے کبھی در بدر نہیں پھرا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ اور ہر حال میں میری سفید پوشی کی حفاظت کی ہے۔

    برج کورس میں پہلی بات تو مجھے جو کھٹکی تھی وہ یہ کہ مجھے احساس ہونے لگا تھا کہ برج کورس کا استعمال ایک ذاتی ادارے کے طور پر ہو رہا ہے اور شاز صاحب اپنے ذاتی رجحانات اور نظریات کی تبلیغ میں برج کورس کا استعمال کررہے پیں۔ برج کورس کی لائبریری کا ایک بڑا حصہ انکی تصنیفات سے بھرا نظر آتا تھا۔ برج کورس کا اسٹاف ان کتا بوں کی پرنٹنگ سے لیکر پوسٹ کرنے تک میں استعمال ہوتا تھا۔ میں راشد شاذ صاحب کے علمی مقام سے واقف تھا گوکہ انکی بہت ساری فکر سے اختلاف رکھتا تھا۔ پھر تقریباً روزانہ ڈیڑھ دو گھنٹہ وہ طلبا و طالبات کو خطاب کرتے تھے اور ان تقریروں میں ایسی باتیں بھی ہوتی تھیں جن پر سواد اعظم کا اجماع نہیں ہے۔ بلکہ بہت ساری باتوں کے سلسلے میں میں نے انکی فکر کو سواد اعظم کی ڈگر سے ہٹا ہوا پایا۔ بیچارے طلبا بڑے تحمل سے ساری باتوں کو سنتے تھے۔ بے بس بھی ہوتے تھے۔ بعض طلبا بعض باتوں پر اعتراض بھی کرتے تھے۔ لیکن بہر کیف راشد شاذ راشد شاذ ٹھہرے یہ مدارس کے نصف راستہ طے کئے ہوئے طلبا انکے دلائل اور حوالوں کے آگے کہاں ٹک پاتے۔

    میں اس بات کا قائل تھا کہ اگر برج کورس کو واقعی مدارس کے طلبا کے لئے جدید اور ساینٹیفک تعلیم کا راستہ کھولنا ہے تو برج کورس دو سالہ ہونا چاہیے۔تھا لیکن مجھے ایسا لگتا تھا کہ راشد صاحب کو کوا لیٹی سے زیادہ اعداد و شمار سے دلچسپی تھی۔

    خیر ایک سال گزارنے کے بعد میں وہاں سے نکل آیا تھا کیونکہ میں پوری دیانت کے ساتھ محسوس کرتا تھا کہ برج کورس ایک ذاتی پلیٹ فارم کے طور پر استعمال ہو رہا ہے جسکا مقصود خود نمائ اور اپنے نظریات کی اشاعت کا مرکز ہو رہا ہے۔ سوال یہ کے کل کوئی قادیانی ڈایریکٹر ہو جائے تو اسکو طلبا کے سامنے اپنے متنازع فیہ خیالات کی نشر و اشاعت کی اجازت ہوگی؟ اگر شیعہ ڈایریکٹر ہو جائے تو کیا یونیورسیٹی اسکو اس بات کی اجازت ے گی کہ وہ شیخین یا ازدواج مطہرات کے خلاف طلبا کے سامنے اپنے من گھڑت دلائل پیش کریں۔ اسی طرح اگر اہل حدیث سر براہ ہو جاے تو کیا وہ امام ابو حنیفہ کے خلاف لب کشائی کا مستحق ہو گا؟ اسکے علاوہ سال بھر یہی ہوتا رہا کہ ہر ہفتہ عشرہ کوئ فنکشن یا سیمینار ہوتا رہا جس میں زیادہ تر وائس چانسلر یا انکی اہلیہ یا پرو وائس چانسلر یا ان کی اہلیہ یا کبھی دونوں اور کبھی چاروں بطور مہمان موجود ہوتے تھے۔ طلبا قران پاک کی تلاوت، نعت اور ایک آدھ رٹی ہوئ تقریروں سے فراغت پاکر پھر راشد صاحب اور مہمانان کے خیالات سے مستفیض ہونے پر مجبور ہوتے تھے۔ ساری تگ و دو کے پیچھے مجھے ایک ہی چیز نظر آتی تھی۔ طلبا کے توسط سے سیلف پبلیسیٹی۔ ہو سکتا ہے یہ میری بد گمان رہی ہو۔

    میں نے یہ جو کچھ لکھا ہے وہ یہ کہنے کے لیئے لکھا ہے کہ راشد صاحب براہ کرم برج کورس کو کیمپس کی داخلی سیاست کا اکھاڑہ نہ بنائیں ۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ موجودہ وائس چانسلر سے انکی پہلی دن سے نہیں پٹ رہی ہے۔ انکی پہلی والی خود مختاری پر لگام لگائی جا رہی تھی۔ وائس چانسلر انکے اعتماد کے لوگوں کو برج کورس سے چھین رہے ہیں۔ وہ ٹکراؤ کی صحیح وجہ بتائیں اور پھر دیکھیں کے انکی حمایت میں بات اٹھتی ہے یا نہیں۔ لیکن اس سے پہلے وہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کی کوشش کریں۔ لیکن کسی عیار سیاستداں کی طرح وہ ایشوز کو گھمائیں نہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ انکی تقرری صحیح یا غلط شعبہ انگریزی میں ہے۔ ڈاریکٹری ایک روٹیٹری rotatory پوسٹ ہے۔ وہ چھ سال تک اسکے ڈایریکٹر رہ چکے۔ جو نئے ڈایریکٹر آج ہیں انکا شمار انکے دوستوں میں ہی ہوتا ہے اور دونوں میں کبھی افکار و نظریات کی ہم آہنگی بھی تھی۔ ابھی فکری یکسانیت کا کیا حال ہے مجھے نہیں معلوم۔ خیر وہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کی کوشش کریں۔ برج کورس جس مقصد کے لئے قائم کیا گیا اسکو اسکی ڈگر سے نہ ہٹا ئیں۔ طالبعلموں کو indoctrinate کرنا بند کردیں۔ یہ بچے مختلف مدارس سے پڑھ کر آئے ہیں انکو انکی سوچ اور عقیدہ پر رہنے دیں۔ پرانے اکابرین و مشاہرین امت جو اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں انکی تحقیر اور ہرزہ سرائی کا طلبا میں ماحول نہ پیدا کریں۔

    اوپر جو میں طلبا اور طالبات کے اختلاط و اعتبار کی بات کی ہے اس سلسلے میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ اب پہلے جیسی کہ صورت حال نہیں ہے اور راشد شاذ صاحب نے صورتحال پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔ لیکن بقیہ جو سوالات میں نے اٹھائے ہیں میں ان پر قائم ہوں۔

    میرے ایک بہت ہی محترم عزیز اور سینیر ،جن کی شفقتون کا مین تاحیات ممنون و مزید متمنی رہونگا، نے میرے اس مضمون پر اپنے ایک ذاتی خط میں مجھ پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس بات کی شکایت کی ہے کہ میں نے راشد صاحب کی بیگم کو ذلیل کر ڈالا ہے۔ میرا اس ضمن میں صرف اتنا کہنا ہے کہ میں نے نہیں راشد صاحب نے خود اپنی بیگم کو ذلیل رسوا کرنے کا سامان کیا ہے۔ وہ عالمی قد کے مالک ہین۔ انکو یہ بات زیب نہیں دیتی تھی کہ وہ علی گڑھ کے عام پروفیسر وں کی طرح وائس چانسلر سے اپنی قربت کا اور شعبے میں اپنی ڈایریکٹری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مستحق افراد کو چھوڑ کر اپنی بیگم کو اسی شعبے میں اسسٹنٹ ڈایریکٹر بنا ڈالیں۔ اللہ نے آپ کو دنیاوی دولت، زمین و زر علمی قد اور عالمی مرتبے جیسی تمام نعمتوں سے نوازا ہے۔ پھر یہ کیا بوالہوسی ہے کہ اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی CPCAME پراکسی نہ کسی طرح کنٹرول قائم رکھنے کے لئے اپنی بیگم کا وقار بھی مجروح کرجائیں۔

    مجھے طعنے دئے جارہے ہیں کہ میں نے اس سے پہلے منہ کیوں نہیں کھولا۔ مروت اور احسان کا کسی حد تک پاس اگر جرم ہے تو یقیناً میں مجرم ہوں۔ ویسے بھی میں یونیورسٹی کے حالات پر چپ ہی رہتا ہوں اور یونیورسٹی سے بھی کافی دورہوں۔ لیکن کسی قد آور اسلامی شخصیت کو یونیورسٹی یا ملی معاملات میں غلط سیاسی راہ پر گامزن دیکھتا ہوں تو اپنی خاموشی کو توڑنا میری مجبوری بن جاتی ہے۔

    اور آخری بات یہ کہ جو لوگ مجھے جانتے ہیں وہ اس بات کی تائید کردیں گے کہ جس بات کو میں نے غلط سمجھا ہے اس کی مخالفت پر کھڑا ہوگیا۔ اس کیلئے یونورسٹی لکچررشپ بھی ٹھکرائی، سیاست دانوں (راجیو گاندھی،وی پی سنگھ، چندر شیکھر، ملائم سنگھ یادو اور دیگر کی بڑی بڑی آفرز بھی ٹھکرائیں) اورلمبے عرصے جیل بھی گیا۔ میں یہ دعویٰ بالکل نہیں کر رہا ہوں کہ جو کچھ میں نے کیا میں میرا ہر قدم صحہیح تھا۔ غلطیاں انسان سے ہوتی ہیں۔ مجھ سے بھی ہوئیں۔

    ایک مخلصانہ مشورہ یہ بھی ہے کہ موجودہ تکرار میں چاہے مجھ سے ہو یا وائس چانسلر سے، برج کورس کے نئے یا پرانے طالبعلموں کو نہ گھسیٹیں۔ بحث کے معیار کو وقار، سنجیدگی اور دیانت سے نیچے نہ اترنے دیں۔ ساتھ لوگوں سے بھی درخواست ہے کہ بحث کا معیار اگر ایکڈیمک ہی رکھیں تو اس میں سب کا اور یونیورسیٹی کا مفاد مضمر ہے۔ میں اپنی غلطیوں یا ممکنہ غلط بیانیوں کے لیے اللہ سے معافی کا خواستگار ہوں ۔اور جن لوگوں کو میری باتوں سے حقیقی جراہت پہنچی ہے ان سے بھی۔ اللہ کے نزدیک میں اپنی، ادارے کی اور انکی اصلاح کا متمنی ہون

    فقط والسلام۔
    انور حسین۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.