محمد غزالی خان
اسلامی ریاست کے نام پر جو حماقتیں اورزیادتیاں طالبان نے کی تھیں وہ اپنے آپ میں ’’اسلامی ریاست‘‘ سے کسی سمجھدار اور عقل و دانش رکھنے والے شخص کو متنفرکرنے کے لئے کافی تھیں، پھر بھی جو کمیاں طالبان نے چھوڑدی تھیں وہ داعش نے اپنی درندگی اوروحشی پن کے ذریعے پوری کردیں۔ اب اسلام اوراسلامی ریاست کے خلاف دنیا بھر میں نفرت کا یہ عالم ہے کہ اس سے کسی بھی مہذب اورانصاف پسند شخص پرلرزہ طاری ہوجاتا ہے، یہ نفرت اتنی گہری ہے کہ دور دور تک اس کے ختم ہونے کے آثار نظرنہیں آتے، اب اللہ تعالیٰ ہی کوئی معجزہ دکھا دے اوردنیا میں واقعی کوئی صالح اسلامی ریاست وجود میں آجائے اور دنیا کے سامنے نظام عدل کا ایک نمونہ دیکھنے کو ملے تو یہ الگ بات ہے۔
بہت سے احباب سوچیں گے کہ موجودہ حالات میں اس مسئلہ اوراس موضوع پر بحث چھیڑنے کا کیا مطلب ہے۔ میں بھی اتفاق کرتا ہوں۔ اس بحث کا اس وقت واقعی کوئی تُک نہیں۔ بس آج سورة المائدة کی تلاوت اور اس کا ترجمہ پڑھتے ہوئے مندرجہ ذیل حصوں پر پہنچنے کے بعد خیال آیا کہ جن لوگوں کا اصرار ہے کہ مسلمانوں کو محض قرآن کو ماننا چاہئے وہ بھی اس بات پر مصر ہیں کہ اسلام میں ریاست کا کوئی تصور نہیں اور یہ کہ اسلامی ریاست خاص طور پر مولانا مودودی اورسید قطب کے ذہن کی اپج ہے۔ اس خیال کے لوگ عام طور پر ایک غلطی یہ بھی کرتے ہیں کہ شاید ان کے نزدیک اسلامی ریاست اور مولویوں کی حکومت ایک ہی شئے ہے۔
یہاں پر صرف سورة المائدة کے وہ حصے نقل کئے جارہے ہیں جن میں اللہ تعالی کے نازل کردہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے کا نا صرف یہ کہ حکم دیا گیا ہے بلکہ ایسا نا کرنے والوں کو فاسق، ظالم اور کافر تک کہا گیا ہے۔
ان آیات پر غورکیجئے اورسوچئے کہ دنیا کی کون سی ریاست اپنی عدالتوں کے ہوتے ہوئے آپ کو ان احکمات پرعمل کرنے کی اجازت دے گی؟ اس کے برعکس وہ تو قرآنی احکامات کی خلاف ورزی کرنے کا حکم دیں گی اور آپ کچھ نہیں کر سکیں گے۔ جس طرح مغربی ممالک نے ہم جنسیت کو جائز قرار دیا ہوا ہے اور مرد اور عورت کو بغیر شادی کے ایک ساتھ رہنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ یہ بیماری ہندوستان میں پہنچ ہی چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا رحم فرمائے ہندوستان میں تو اورکیا کیا ہونا باقی ہے، بس خدا وند مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔
جو دوست بھی اس پوسٹ پر تبصرہ کرنا چاہیں یہ بات ذہن میں ضرور رکھیں کہ موضوع داعش، طالبان اور اسلام دشمن طاقتوں کی سازشیں نہیں بلکہ یہ ہے کہ اسلام میں ریاست کا تصور ہے یا نہیں ؟
بہرحال ان آیات کے ان حصوں پر غور کیجئے اور سوچئے۔
’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسُول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں اُن کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سُولی پر چڑھائے جائیں، یا اُن کے ہاتھ اور پاوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلا وطن کردیے جائیں۔ یہ ذلّت و رسوائی تو اُن کے لیے دُنیا میں ہے اور آخرت میں اُن کے لیے اس سے بڑی سزا ہے۔۔۔‘‘ (5:33)
(اس آیت میں جلاوطنی کی سزا پر توجہ دییجیے۔ کیا یہ بغیرریاست کے ممکن ہے؟)
’’ اور چور، خواہ عورت ہو یا مرد، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ اُن کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا۔ اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے اور وہ دانا و بینا ہے ‘‘ (5:38)
’’ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک ہے؟۔۔۔ ‘‘ (5:40)
’’۔۔۔ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں ‘‘ (5:44)
’’ توراة میں ہم نے یہودیوں پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، اور تمام زخموں کے لیے برابر کا بدلہ۔ پھر جو قصاص کا صدقہ کردے تو وہ اس کے لیے کَفّارہ ہے، اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔‘‘ (5:45)
’’۔۔۔ جو اللہ نے اس میں نازل کیا ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔‘‘ (5:47)
’’ ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اُس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبَان ہے۔ لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اُس سے مُنّہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو‘‘ (5:48)
’’ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اُس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کرلیا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ اِن لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں۔‘‘ (5:49)