سید نیاز احمد
میرے دوست اور امپیکٹ انٹرنیشنل کے سینئرکلیگ سید نیازاحمد صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک دلچسپ اورایمان افروز پوسٹ شیئرکی ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اس تحریرکا اردو ترجمہ یہاں پیش کیا جارہا ہے — غزالی
جب لاک ڈاؤن میں آپ گھرمیں قید ہوکررہ جائیں اورجسمانی طورپراپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لئے آپ کو کوئی شغل نہ سمجھ میں آرہا ہو تو آپ کسی دماغی ورزش کا سہارا لیتے ہیں یا پرانی یادوں میں گم ہوجاتے ہیں۔
تلاشِ معاش یا پیشہ ورانہ زندگی میں بہت سے لوگوں کو مختلف ممالک کا سفرکرنا پڑجاتا ہے۔ اپنی زندگی میں، میں نے برطانیہ، مشرق وسطیٰ اوربرصغیرہندوپاک میں کام کیا ہے۔
میں نے کئی دہائیوں تک سعودی عرب میں میڈیا اور درس وتدریس کے میدان میں خدمات انجام دی ہیں۔ ان میں کنگ عبدالعزیزیونیورسٹی اور ام القراء یونیورسٹی میں طلبا اور، سی سی ٹی وی کے ذریعے، طالبات دونوں کیمپسوں میں پڑھانا شامل ہے۔ یہ بھی ایک عجیب و غریب تجربہ تھا جس میں طالبات مجھے دیکھ سکتی تھیں مگر میں انہیں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ میں نے 20 سال سے زیادہ تک عرب نیوزاور سعودی گزٹ میں کالمز لکھے ہیں، تقریباً پانچ سال تک سعودی گزٹ کی میگزین کے مذہبی سیکشن کی ادارت کی اور حج کے دوران سعودی ٹیلی ویژن پرمعلوماتی پروگرام پروڈیوس بھی کئے اورپیش بھی۔
ان جگہوں پرکام کرنے کی وجہ سے بہت سے مقامات کو قریب سے دیکھنے اورمختلف شخصیات سے ملاقات کا موقع ملا۔ ان میں علماء، ڈاکٹر، انجینئرز، تاجر، صنعت و حرفت اورمیڈیا کے میدان میں کام کرنے والے مرد اورخواتین شامل ہیں۔ جی ہاں ! عرب نیوز میں خواتین بھی کام کرتی تھیں مگروہاں اس وقت ایک قسم کی ’سوشل ڈسٹینسنگ‘ پرعمل کیا جاتا تھا۔
ایک مرتبہ ایک دوست، جن کا نام اب یاد نہیں رہا، کے مکان پرمیری ملاقات ایک عالم دین اور نہایت ہی نفیس شخص شیخ شرقی سے ہوئی جوکئی دہائیوں سے سعودی عرب میں مقیم تھے۔ تلاشِ علم اورحرمین کی محبت انہیں 40 کی دہائی میں ہی سعودی عرب کھینچ لائی تھی۔ یہ ایک یادگارشام تھی۔ شیخ نے ہمیں اپنے ان دنوں کے تجربات سے مستفید کیا جب سعودی عرب میں آمدورفت کی عام سی سہولت بھی تعیش تھی۔
ایک واقعہ جوشیخ نے بیان کیا وہ میرے ذہن میں آج بھی تازہ ہے۔ ان دنوں جدہ اور مکہ کے درمیان کوئی بس سروس نہیں تھی۔ اونٹوں پر قافلوں کی شکل میں عازمین حج کے آنے جانے کے لئے کچی اورگرد آلود سڑک کو غنیمت سمجھا جاتا تھا۔ مگرعازمین حج کی رہزنی یا انہیں قتل کردیا جانا انہونی واقعات نہیں تھے۔ البتہ اس گردآلود افق پر امید کی ایک کرن یہ تھی کہ ایک وین ہرہفتہ شاہی ڈاک لے کر جدہ سے مکہ مکرمہ جایا کرتی تھی۔ اس وین میں ایک یا دو نوجوانوں کوبھی سوارکرلیا جاتا تھا۔ چند دوستوں کی مدد سےشیخ شرقی بھی مکہ مکرمہ جانے والی اس وین میں سوارہونے میں کامیاب ہوگئے۔ سخت راستے کے ذریعے اتنا لمبا سفر کوئی آسان سفرنہیں تھا۔
ان کا پہلا اسٹاپ بحرة تھا جو اس وقت آدھے راستے کی مسافت پر ایک بے رونق سا گاؤں تھا جہاں یہ لوگ کچھ کھانے پینے اورسستانے کے لئے رک گئے۔ وہاں پرکھانے کے نام پر ان تربوزوں کے علاوہ کوئی چیز دستیاب نہیں تھی جو چند دیہاتی بیچ رہے تھے۔ دوکاندارکے پاس تربوز کاٹنے کے لئے چھری تک نہیں تھی جو اس نے پتھرمارکر توڑے اورانہیں پیش کئے۔ یہ تربوز اس مختصرسی جماعت اور وین کے ڈرائیورکے درمیان تقسیم ہوا۔ مگرشرقی صاحب نے گاؤں کے ان بچوں کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دے دی جو قریب میں کھیل کود رہے تھے۔
یہ واقعہ بیان کرتے وقت شیخ شرقی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرآئیں اور انہوں نے بتایا: ’’یہ تربوزکھا کر وہ بچے بہت خوش اورمطمئن نظرآرہے تھے۔ مگران کی خوشی یہیں پرختم نہیں ہوئی، چلتے وقت ان بچوں نے ہم سے ہاتھ ملایا اور جوکچھ انہوں نے کہا وہ ایمان افروز تو ہے ہی مگرکسی کو بھی ہلا کر رکھ دے گا۔ انہوں نے کہا، ’الحمدللہ، اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کوتمام انسانیت کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ یہ آپﷺ ہی کی برکت کا نتیجہ ہے کہ اس تربوز میں ہمیں بھی شرکت دعوت دی گئی۔‘‘