علما ء کی مسلکی عصبیت اور تنگ نظری کی قیمت امت کو چکانی پڑ تی ہے

محمد غزالی خان

کئی برس پہلے ایک دینی چینل پرعجیب سے حلئے میں ایک صاحب کو دیکھا تھا۔ جس طرح ان کے چاہنے والے ان کے آگے پیچھے بچھے جارہے تھے ، اس سے اندازہ ہوا کہ موصوف  ایک خاص  مسلک کے ماننے والوں میں نہایت عقیدت و احترام کی نظرسے دیکھے جاتے ہیں۔ حضرت کی چند تقریریں سن کر جو تاثرقائم ہوا اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ البتہ ایک انٹرویو ضرور نقل کروں گا جس میں یہ پوچھے جانے پر کہ حضرت آپ تو مستقل مجالس اور دیگر سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں تو مطالعے کا وقت کب ملتا ہے، جناب والا  نے اپنی مخصوص اور بڑی سی مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا:

’ ’سہی بات بتادوں؟ میں پڑھتا ہی نہیں‘‘۔

 انٹرویو یوٹیوب پر کہیں موجود ہوگا۔محترم  کے اس انکشاف پر حیرت یا تعجب کرنے کے بجائے عقیدت میں ڈوبے ہوئے انٹرویوورز نے زور زور سے سبحانﷲ کی صدائیں لگائیں۔ انٹرنیٹ پر تھوڑی سرچ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ موصوف مولانا ہاشمی میاں کے نام سے مشہورہیں اور ان کے عقیدتمندوں نے انہیں ’’غازی ملت‘‘ کا خطاب دیا ہوا ہے۔

مذکورہ واقعہ ان کے تازہ ترین بیان  نیز  سوشل میڈیا اور کچھ اردو اخبارات میں ان کے حالیہ  بیان پرجاری تنقید اور بحث کی وجہ سے یاد آگیا ہے۔

کچھ سنجیدہ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے لوگوں کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جانا چاہئے اور اس بیان کو بھی نظر انداز کردیا جانا چاہئے۔ مگر کیا  موصوف کی باتوں کو نظر انداز کرنا مسئلے کا حل ہے؟  ان کے عقیدتمند  بر صغیر اور ان تمام ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں جہاں ہندوستانی  یا اردو جاننے بوجھنے والے لوگ آباد  ہیں ۔ان کے مریدین کے  نزدیک حضرت کی زبان سے نکلاہو ہر لفظ   جیسے ایمان کا حصہ بن جاتا ہے۔ 

جن قارئین نے بیان نہ سنا ہو،  ان کی دلچسپی کے لئے اس کے کچھ اقتباسات یہاں پر من و عن نقل کئے جا رہے ہیں۔ حضرت نے طویل انٹرویو کے دوران فرمایا:

’’سعودی عرب، کویت ، دبئی، ابو ذہبی اور ’’جتنے وہابی وائرس سے متاثرہ ممالک  ہیں وہ تبلیغی جماعت کی طاقت ہیں۔ اسی لئے [امیر تبلیغی جماعت مولانا سعد کو] گرفتار کرنے میں تکلیف ہو رہی ہے، ان کو جیل بھیجنے میں تکلیف محسوس ہو رہی ہے، ان پر 304 لگا تو دیا، اس پر عمل کرنےمیں تکلیف ہو رہی ہے،  کیونکہ ہندوستان دیکھ رہا ہے ، یہ جاہل لیڈرمگر اس کے پیچھے عرب دنیا ہے جو خود بھی یزیدی بن چکی ہے، جو خود بھی خارجیت زدہ ہے، جو دہشت گرد ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی آتنکوادی ہیں ، جتنے بھی ٹیررسٹ ہیں، جو مسلمان بن کر دہشت گردی کرتے ہیں۔۔۔ لشکر طبیہ ہے، حزب المجاہدین ہے، طالبان ہیں، القاعدہ ہیں، یہ سب کے سب وہابی وچار دھارا کے لوگ ہیں۔ ان سب کا فائنانسر سعودی عرب ہے۔ اور سنئے آپ یہ وہابیوں کہ ہلکے میں مت لیجئے گا ۔۔۔ انہوں نے مسلمانوں کی ضروریات کو دھیان میں رکھ کر سنگٹھن بنایا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ مسلمان بچوںمیں، سنی مسلمان بچوں کو دین میں دلچسپی ہے ، ان کے لئے دارالعلوم دیوبند بنایا، ندوہ بنایا۔ انہوں نے دیکھا کہ سنی مسلمانوں میں جن بچوں میں روزہ نماز کا بڑا ذوق و شوق ہے، ان کے لئے تبلیغی جماعت بنایا، انہوں نے دیکھا کہ سنی مسلمانوں میں وہ کون لوگ ہیں جنکو ایجوکیشنل دلچسپی ہے ، ایکیڈیمک مزاج رکھتے ہیں ان کے لئے جماعت اسلامی بنایا ۔ کون شر پسند ہے، فسادی ہے اس کے لئے انہوں نے سیمی بنادیا، حزب المجاہدین بنادیا، لشکر طیبہ بنادیا ہے ۔ جس مزاج کا جس کو پاتے ہیں اس مزاج کی ایک آرگنائزیشن بنادیتے ہیں۔ یہ سب الگ الگ دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن میں شکر ادا کروں گا اپنے پروردگار کا کہ تبلیغی جماعت کی حمایت میں جماعت اسلامی کو بھی دیکھ رہا ہوں، ندوة العلماءکو بھی دیکھ رہا ہوں اور دیوبند کی بڑی بڑی شخصیتیں ، ان کے وہ جو شیخ الحدیث ہیں، شیخ التفسیر ہیں ان کو دیکھ رہا ہوں ۔ معلوم ہوا کہ الکفر ملۃ واحدہ کی بہترین مثال آج جو ہے ہمارے سامنے آگئی ہے۔ ہم یہ عرض کر رہے ہیں کہ [بہت زور دیتے ہوئے] کہ جڑ کاٹنے سے فتنہ ختم ہوگا۔ پتیاں کاٹنے سے نہیں۔ تبلیغیوں کو گرفتار کرنے سے بہتر ہے کہ اس تبلیغی جماعت کی جڑ تک پہنچئے اور وہاں جا کر اس جڑ کا خاتمہ کریں تا کہ نہ کوئی زہریلی پتیاں پیدا ہوں ، نہ کوئی زہریلا پھل برآمد ہو۔‘‘ 

ہاشمی میاں کی زہر افشانی اور فتنہ انگیزی سے ہندوستا ن کا ہر با خبر مسلمان واقف ہے ۔ مگر اس حقیقت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ سینے میں بھڑکی ہوئی مسلکی عصبیت کی آگ بجھانے کے لئے موجودہ حالات کو استعمال کرنے والے وہ پہلے شخص نہیں ہیں۔ یہ کام سب سے پہلے ایک اہل حدیث عالم، جن کا نام یاد نہیں آرہا ہے، نے ڈیڑھ دو سال قبل دیوبندیوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرکے کیا تھا۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد دیوبندیوں کو امن پسند ثابت کرنے اور حکومت سے اپنی حب الوطنی کا تمغہ حاصل کرنے کے لئے مولانا بد الدین اجمل نے بھری پارلیمنٹ میں اہل حدیثوں پر تیرچلائے تھے۔ ان تینوں میں تقریری صلاحیت یا لفاظی میں ہاشمی میاں اول ہیں تو ظاہرہے ان کے حملے بھی اسی لحاظ سے تیز  اور دھار دار  ہیں۔

ہم جیسے گناہ گاروں کو ’علمائے دین‘ اور ‘وارثین انبیاء‘ کا احترام کرنے کی تلقین کرنے والوں سے مودبانہ درخواست ہے کہ اب امت کے حال پر رحم فرمائیں۔ جہاں تک آپ کے علم، تقوے اور تقدس کی بات ہے  تو اس  کے لئے  بس مصطفیٰ خاں شیفتہ کا  یہ شعر دماغ میں آتا ہے: 

اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت * دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

مولانا بدرالدین اجمل صاحب بہت بڑے  کاروباری اور سیاسی شخصیت ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں جتنی دولت سے نوازا ہے، سخاوت کے لحاظ سے اتنا ہی بڑا دل بھی دیا ہے۔ اپنی دولت کو وہ جس طرح فلاحی کاموں میں دل کھول کر خرچ کرتے ہیں ،شاید اس کی دوسری مثال ہندوستان میں نہ ہو۔ ان کے فلاحی کاموں میں بہترین ہسپتال، اسکول اور کالجز اور بہت سے بڑے بڑے کام شامل ہیں۔ مسلک اہل حدیث کے ماننے والوں پر حملے کے بعد جب ان پر چاروں طرف، بشمول دیوبندی حلقے کی جانب سے تنقید ہوئی تو انہوں نے اپنا بیان واپس لیا ، اس کے لئے عام معافی مانگی اور پارلیمنٹ کی کارروائی سے اپنے یہ جملے حذف بھی کروائے۔

مولانا کی یہ وسعت قلبی اور اور دیگر خوبیاں اپنی جگہ مگر جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ گلی میں رہنے والے ایک عام شہری سے لے کر وزیراعظم تک ہرشخص کی غلطی اس کے مرتبے کے لحاظ سے بدل جاتی ہے  اور اس  کے  سنگینی کی نوعیت بھی اسی کے حساب سے ہوتی ہے  اور اس کی قیمت بھی ا سی  لحاظ سے معاشرے کو ادا کرنی پڑتی ہے۔

مولانا بدرالدین اجمل کے معافی مانگنے سے وقتی طور پر تو معاملہ دب گیا تھا مگر جب جب  مسلمانان ہند میں مسلکی عصبیت کی بات ہوگی مولانا کے بیان کا حوالہ بھی دیا جائے گا۔ بہت سے چینلوں بشمول راجیہ سبھا ٹی وی پر چونکہ ان کا بیان لائیو بھی چلا تھا  تو ایک بڑے طبقے کے ذہن میں وہ ابھی محفوظ ہے اور یوٹیوب میں بھی ان کا یہ بیان موجود ہے ۔ جو لوگ پس منظر سے واقف نہیں ہوں گے وہ تو آپ اور اس جیسے لوگوں کی باتوں کو درست ہی مانیں گے ۔

یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ مولانا بدرالدین کی نظرمیں اہل حدیث گمراہ سہی مگرہیں مسلمان۔ اس کے برعکس ہاشمی میاں کی نظرمیں وہ تمام ادارے اور تنظیمیں جن پر موصوف نے تبرہ پڑھا ہے، مشرکین سے بدترہیں۔ اگرموصوف کو دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو بلا تامل مشرکین کا انتخاب کریں گے۔ وہ نہ اپنی روش بدلیں گے اور نہ اپنے بیان کے لئے معافی مانگیں گے۔

ذرا سوچئے ! جن تین شخصیات کے بیانوں کا  حوالہ اس مضمون میں دیا گیاہے، ان کے یہ بیان یوں ہی جزبات کی رو میں منہ سے تو  نہیں نکل گئے  ہوں گے ۔ تقریر کرنے سے پہلے تینوں نے سوچ لیا ہوگا کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں اور جو کچھ انھوں نے مختلف موقعوں پرکہا ہے وہ ان کی سوچ اور فکر کی عکاسی کرتا تھا۔   یاد رکھیے   جب تک ہماری سوچ اور فکر میں تبدیلی اور وسعت نہیں پیدا ہو گی یہ حماقتیں اسی طرح ہوتی رہیں گی اور ان کا ارتکاب کرنے والے ’’وارثین انبیاء‘‘ ہی ہوں گے جو مستقل اتحاد امت کا درس دینے کے ساتھ ساتھ ملت میں نفاق پھیلانے کا کام  کرتے رہیں گے۔ بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ ان قرآنی آایات کا کیا مطلب ہے:

’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو‘‘  (سورة ال عمران، آیت نمبر ۱۰۳)

’’جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں،141 ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے۔‘‘ (سورة الانعام، آیت نمبر ۱۵۹)

۔میں اپنی بات حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ کے رسول کی اس تلقین کے ساتھ ختم کروں گا جس میں آپ ﷺ نے فرمایا  تھا :

تَرَکْتُ فِيْکُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا: کِتَابَ اﷲِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ.

” میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں، اگر انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے یعنی اللہ کی کتاب اور اُس کے نبی کی سنت“

عام لوگوں میں بیداری کے  لیے دانش مند طبقہ کو بھی اس جانب توجہ دینا ہوگی ، جب تک قوم کو ہم ایسے لوگوں کی حقیقتوں سے واقف نہیں کرائیں گے ، سچ اور حقیقت کو چھپائیں گے ۔ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کو نہیں اپنائیں گے ذلت و خواری ہمارا مقدر ہوگا اور ایسے لوگ اسی طرح ملت کو ذلیل و خوار کرتے رہیں گے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.