محمد غزالی خان
’ہمیں پتھروں کے عہد میں پہنچادیا گیا ہے۔ نہ ہمارے پاس موبائل فون چھوڑا گیا ، نہ لیپ ٹاپ۔ این آئی اے کے لوگوں نے بتایا کہ ایک صحافی کے گھر پر صبح کےچار بجے چھاپا مارنے کے عظیم کا م کا حکم اوپر سے دیا گیا ہے۔ وہ اتنے بے صبرے تھے کہ گھرمیں داخل ہونے کے لئے گھر کی دیوار پھلانگ دی۔‘ یہ ٹویٹر پر لکھے گئے وہ جملے ہیں جسے دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین اور ملی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے ان کے گھراور دفتر پر قومی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کے اہلکاروں کے چھاپے مارے جانے کے بعد پوسٹ کیا تھا۔
اس کارروائی کے بعد جب نوجوان صحافی اور مصنف محمد علم اللہ ڈکٹرظفرالاسلام صاحب سے اظہارہمدردی اور یکجہتی کرنے پہنچے تو وہاں کا منظر اپنی فیس بک پر کچھ یوں بیان کیا، ’ دل بہت اداس ہے ،ابھی ابھی ملی گزٹ کے آفس سے واپس آرہا ہوں ، پورا آفس جہنم بنا ہوا تھا ، ساری چیزیں بکھری پڑی تھیں ، رات چار بجے پولس نے چھاپا مارا اور ساری چیزیں نہ صرف بکھیر کر رکھ دیں بلکہ لیپ ٹاپ ، موبائل ،کمپیوٹر سبھی کچھ لیکر چلی گئی ، یہاں تک کہ جو کیش پڑا تھا وہ بھی نہیں چھوڑا ۔ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب کے بہت سارے مسودات اٹھا لئے گئے ، ان میں قران مجید کا انگریزی ترجمہ جس پر دسیوں سال سے ڈاکٹر صاحب کام کر رہے تھے وہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ڈاکٹر صاحب کی سیکڑوں کتابیں ، مسودہ ، خطوط اور کاغذات۔ اس میں ڈاکٹر صاحب کی تقریبا 600 صفحات پر مشتمل وہ یادداشت بھی شامل ہے ، جس پر میں اور ڈاکٹر شاہد الاسلام صاحب گذشتہ ڈیڑھ سال سے کام کر رہے تھے۔‘
یاد رہے کہ ڈاکٹر خان کے دفترمیں 7 مئی 2020 کو بھی چھاپا مارا گیا تھا۔ اس وقت بہانہ ان کی ایک ٹوئیٹر پوسٹ اورایک ہندوتوا کارکن کی پولیس میں شکایت کو بنایا گیا تھا، جس میں ڈاکٹر خان پردستورکو پامال کرنے اورفرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوشش کا الزام لگایا گیا تھا۔
اس وقت ان کی گرفتاری سپریم کورٹ کی وکیل وریندرا گروورکے مداخلت کی وجہ سے رک گئی تھی، جب وکیل صاحبہ نے دلیل دی تھی کہ ڈاکٹر خان کی عمر 72 سال ہے اورانہیں بڑھاپے کی عام بیماریاں لاحق ہیں لہٰذا تعزیرات ہند کی رو سے ڈاکٹرخان کو تفتیش کے لیے ان کے گھر سے کہیں اور نہیں لیجایا جا سکتا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس مرتبہ ڈاکٹرخان کے خلاف سمن جاری کئے جانے کے بعد انہیں گرفتارکرلیا جائے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ملت کے لئے بہت بڑا حادثہ ہوگا ۔
ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی اپنے علم و تحقیق اور کاموں کی وجہ سے ڈاکٹر خان کو جو شناخت ملی ہے وہ کم ہی لوگوں کے حصے میں آیا ہے ۔ ہندوستان میں مسلم مسائل کے تئیں ان کی درد مندی اور حق کے لئے ڈاکٹر خان کا ڈٹ جانے والا رویہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے۔ ڈاکٹرخان سے ہندوتوا حکومت کی ناراضگی اوران پر غصے کی اصل وجہ ہندوستانی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم اور نا انصافی کے خلاف ان کا بے خوف اور مسلسل آواز اٹھاتے رہنا ہے۔ ایشیا ٹائمز کو دئے گئے ایک طویل انٹرویو میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا، ’ میں نے سن 2000 میں ملی گزٹ اس وقت نکالا جب میری اچھی ملازمت تھی ،سعودی کے اخبار الریاض میں کرسپانڈینٹ کے طور پر کام کر رہا تھا ۔ اس میں میری بہت اچھی تنخواہ تھی۔ میں نے سوچا کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں ۔ الریاض میں ملازمت کا یہ سلسلہ چار پانچ سال تک چلا ،اس درمیان ہم نے جب گجرات کے مسلمانوں کے ساتھ حکومتی سطح سے کی جانے والی زیادتیوں سمیت کئی اہم ایشوز کو زور دار انداز میں الریاض میں اٹھایا تو یہیں سے خبروں کو لیکر اختلافات شروع ہو گئے ، پھر ایک دن ہندوستان میں تعینات سعودی سفیر نے مجھے بلاکر کہا کہ ہم ہندوستان سے اچھے تعلقات بنانا چاہتے ہیں اور آپ تعلقات خراب کرنے کی کوشش کرتے ہو ۔ سفیر نے کہا کوئی ایسی چیز نہ ارسال کریں جو حکومت کے خلاف ہو ۔ یہ پابندی مجھے راس نہ آئی اور پھر آگے چل کر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا ۔‘
اس کے بعد ڈاکٹر خان نےمسلمانوں کی تعمیر و ترقی کے لئے جو کام شروع کیا وہ کچھ عناصر کو نہیں بھایا اور انھوں نے ان کے کام میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ، ملی گزٹ پر مقدمات کے انبار لگائے گئے تو ان کے اوپر بے بنیاد الزامات لگا کر ان کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی ۔ یہاں پر یہ بات بھی ذکر کرنے کی ہے کہ ڈاکٹرخان دہلی اقلیتی کمیشن کی تاریخ کے وہ پہلے چیرمین تھے جنہوں نے اپنے تین سالہ دور میں اس نیم مردہ ادارے میں نئی زندگی پھونک کراسے اس قابل کردیا تھا کہ یہ وہ کردار ادا کرے جس کے لئے یہ بنا تھا۔ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے یہ ادارہ محض ایک دکھاوا تھا۔
ڈاکٹرخان کی تمام تحریریں اور سرگرمیاں عوام کے سامنے ہیں لہٰذا ہندوتوا حکومت کے لئے سب سے زیادہ آسان کام ان کی تنظیم پر بے بنیاد اور فرضی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا لازام لگادیا جائے، تنظیم کے فلاحی کام بند کردئے جائیں اور ڈاکٹرصاحب اوردیگرمسلم تنظیموں کے ذمہ داران کو جیلوں میں ڈال دیا جائے۔
چیریٹی الائنس نے مظفرنگر مسلم کش فسادات 2013 کے بعد متاثرین کے لئے کئے جانے والے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے علاوہ بے گھرہوئے افراد کے لئے باقائدہ ایک رہائشی کالونی بھی تعمیر کی ہے۔ اسکے تحت کئی اسکول بھی چلتے ہیں ۔
فروری 2020 کے دہلی کے مسلم کش فسادات کے فوراً بعد ڈاکٹرخان نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اوران کی راحت رسائی کا کام کیا تھا۔ البتہ مرکزی حکومت کا سب سے زیادہ غصہ اس بات پر ہے کہ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت میں ڈاکٹرصاحب اپنے قانونی اختیارات استعمال کرتے ہوئے پولیس اور انتظامیہ کے بہت سے مسلم دشمن کاموں اورمسلم دشمنی کے ایجنڈے کے نفاذ میں مستقل رکاوٹ بنے رہے۔
ہندوتوا حکومت نے کوئی اور کام کیا ہو یا نہ کیا ہو ایک کام اس نے نہایت کامیابی کے ساتھ انجام دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس نے ہندوؤں کے ذہنوں میں اس بات کو اچھی طرح پیوست کردیا ہے کہ اس نے ’مسلمانوں کا سبق سکھادیا ہے‘۔ اندھ بھکتوں کو ملک میں تیزی سے ابتری کا شکار ہوتی ہوئی امن وامان کی صورتحال اور گرتی ہوئی معیشت سے کوئی سروکارنہیں۔ وہ مسلمانوں کی تباہی سے خوش ہیں کیونکہ انہیں یہ بتادیا گیا ہے کہ شہری بل کے نفاذ اورمسلمانوں کے شہریت ختم کرنے کے بعد ان کی املاک ہندوؤں کو دے دی جائیں گی۔
جہاں تک مسلمانوں کو سبق سکھانے کا تعلق ہے، یہ کام نریندرمودی نہایت مستقل مزاجی کے ساتھ کررہے ہیں۔ 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کے دوران انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ، جو عام طورپر فسادات کا شکار بنتے ہیں، مسلم اشرافیہ کوخاص طورپر نشانہ بنایا جائے۔ لہٰذا تقسیم ہند کے بعد یہ پہلا مسلم فسادتھا جس میں مسلمان جج، شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد اوربڑے تاجرخاص طورپر نشانہ بنے تھے اور سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کے زندہ حالت میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلتی آگ میں پھینک دیا گیا تھا۔
حالیہ دنوں میں ان کی خیراتی تنظیم چیریٹی الائنس کو دہشت گردی سے جوڑنا، رات کی تاریکی میں ان کے گھر پر چھاپہ ماراجانا اوران کے گھروالوں کو ڈرانا اورحراساں کرنا اسی مہم کی ایک کڑی ہے جس کے ذریعے مسلمانوں کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جب ان کی اشرافیہ محفوظ نہیں تو عام مسلمان کس گنتی میں ہے۔
ڈاکٹرخان نے ٹیلی فون پر مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ’انتخابات کے دوران سنسنی خیزی اور بے بنیاد اشوزپیدا کرنا ہندوتوا بریگیڈ کا آزمودہ طریقہ ہے۔ مگربہار کے انتخابات میں وہ یہ کام اس بے شرمی کے ساتھ نہیں کرپائے ہیں جیسے وہ عام طورپر کرتے ہیں۔ لہٰذا مسلمان تنظیموں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے یہ تاثردیا جارہے کہ ملک کے خلاف زبردست سازشیں رچی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا مقصد ہندوستانی مسلمانوں پر دباؤ ڈال کراور انہیں ڈرا دھمکا کر اس بات کی کوشش کرنا بھی ہے کہ وہ کشمیر میں کی جانے والے ظلم اور وہاں حکومت کی پالیسیوں پرخاموش رہیں۔ جبکہ ہندوستانی مسلمان ہمیشہ ملک کی سالمیت کے حق میں رہے ہیں اور اس بات پریقین رکھتے ہیں کہ اپنی سابقہ خصوصیت کے ساتھ کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے۔ مگر ہم کسی صورت حکومت کے ظلم کا ساتھ نہیں دے سکتے اور اس کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے۔‘
ڈاکٹرصاحب نے مزید کہا، ‘یہ لوگ چیریٹی الائنس کے ذریعے مجھے دہشت گردی میں ملوث کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہ سراسر جھوٹا الزام ہے۔ ہماری تنظیم بہت محدود پیمانے پر ضرورت مند بچوں کی اسکول فیس ادا کرنے، حاجت رووں کے کھانے وغیرہ کا انتظام کرنے، رہائشی امداد، بہت چھوٹے روزگارشروع کروانے میں لوگوں کی مدد دینے اور یتیموں اور بیواؤں کی مدد کا کام کرتی ہے۔‘
خان صاحب نے مزید کہا، ’وہ لوگ چیریٹی الائنس پر چھاپا مارنے کی غرض سے آئے تھے مگر ملی گزٹ، ہماری پبلشنگ کمپنی فیروس گروپ کی تمام فائلیں، کمپیوٹرز، ہمارے موبائلزاور یہاں تک کہ ہمارے ان عزیزوں کے موبائلز بھی لے کر چلے گئے جو اتفاقاً اس وقت ہمارے گھر پر موجود تھے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے یہ مشکل وقت ہے مگر نہ ہم ڈرے ہوئے ہیں نہ ہماری ہمت نے جواب دیا ہے۔ ہم اپنے جائز حقوق کے لئے قانونی اور پرامن طریقے سے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘
چیریٹی الائنس کے علاوہ دہلی میں جماعت اسلامی کے تنظیم ہیومن ویلفیئرفاؤنڈیشن سمیت این آئی اے نے کشمیر اور دہلی میں اور دیگر تنظیوں کے دفاتر پر بھی چھاپے مارے ہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی بہت سی مسلم تنظیموں کے ساتھ ساتھ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنیسٹی انٹرنیشنل جیسے بین الاقوامی تنظیموں نے ان واقعات کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ایک طویل بیان میں ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے، ’حکومت ہند دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی آڑ میں اختلاف رائے کی آزادی کو کچل رہی ہے۔۔۔ انتظامیہ نے کشمیر، دہلی اور بنگلور میں غیرسرکاری تنظیموں کے دفاتراورسرکردہ لوگوں کے مکانوں پر چھاپے مارے ہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’یہ چھاپے برسراقتدارجماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے شہری تنظیموں اورگروپوں پرکریک ڈاؤن کا ایک حصہ ہیں۔ حکومت تیزی کے ساتھ سیاسی مقاصل کے لئے تازیراتی مقدمے بنارہی لے جس میں سرکردہ لوگوں، صحافیوں، تعلیم یافتہ افراد ، طلبا اور دیگر لوگوں کے خلاف دہشت گردی اور بغاوت کی مبہم تعریف والے قوانین کے تحت مقدمے بنانا شامل ہے۔۔۔‘
ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے اپنے بیان میں حکومت ہند سے مطالبہ کیا ہے کہِ ’حکومت ہند کو شدت کے ساتھ اختلاف رائے کو کچلنے کی اس مہم پر فوری طور پر روک لگانی چاہئے۔‘
ایمنیسٹی کی قائم مقام سیکریٹری جنرل جولی ویہار نے کہا ہے، ’یہ چھاپے اختلاف رائے کو کچلنے کے حکومت ہند کے خطرناک عزائم کی جانب اشارہ دے رہے ہیں۔‘
تاہم مجھے اس بات پرحیرت ہے کہ اردو کے بہت سینئر صحافی جو عام طور پر ایسے معاملات پرجرا ت کے ساتھ لکھتے ہیں اس مسئلے پروہ سب خاموش ہیں۔