محمد غزالی خان
پاکستانی شہر سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے وحشیانہ قتل اور قاتلوں کا اس کی جلی ہوئی لاش کے ساتھ سیلفیاں لینا خود ان کی گراوٹ اور غیرانسانی سوچ کا جیتا گتا ثبوت ہے۔ ایسے درندے کسی بھی معاشرے کے لئے کینسر کی حیثیت رکھتے ہیں اور جب کینسر آخری مراحل میں پہنچ جائے تو زندگی بچانے کے لئے جراحی کے ذریعے متاثرہ حصے کو جسم سے جدا کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہ جاتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ قاتلوں کو سرعام پھانسیاں دے کر معاشرے کو اس بیماری سے محفوظ کیا جائے تاکہ ذاتی مفادات اور اختلافات کی خاطر مذہب کو استعمال کرنے والوں کو عبرت حاصل ہو۔
اللہ نہ کرے کسی بھی معاشرے کو اب کبھی ایسا ظلم اور درندگی دیکھنی پڑے۔ بہرحال اس سانحے میں تھوڑا سا خوش کن پہلو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر، اخبارات میں اور ہرسطح پر اس کے خلاف شدید رد عمل کا اظہارکیا جارہا ہے اورمجرموں کے لئے سخت سے سخت سزا کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
غریب الوطنی میں ایک بے بس انسان پر ایسی صفاکی کے رد عمل میں انسانی ہمدردی کا جاگنا، انسانی جزبات بھڑکنا اورمشتعل ہونا فطری عمل ہے۔ اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ بلکہ سچ بات یہ ہے کہ جس وحشی پن کا مظاہرہ اس وقت کیا گیا ہے اس کے اظہارکے لئے الفاظ میرااساتھ نہیں دے رہے۔
مگر ذرا ٹھہرئے! کیا اس حیوانی حرکت کی مذمت میں اتنا توازن کھودینا جائز ہے کہ ہندوستان میں حکومت کی پشت پناہی اور خاموش اکثریت کی تائید سے کئے جانے والے مظالم اور پاکستان کے کچھ جاہل جنونیوں کے جرم کو ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور پھر یہ کہا جائے کہ دونوں جگہ ایک ہی سی ذہنیت پنپ رہی ہے؟
ایک مرتبہ پھر واضح کردوں کہ جہاں تک جرم کی سنگینی اور گھناونے پن کا تعلق ہے بلا شبہ ہندوستان میں گؤ رکشا اور سیالکوٹ میں توہین مذہب کے نام پر کئے گئے تازہ واقعے ، یا پاکستان میں اسی طرح کے ماضی میں کے جرائم اور قتل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مگر کیا ایسا معاشرہ جو مذہب کے نام پر کی جانے والی غنڈہ گردی پرخوشیاں منائے، جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو ہیرو کے طورپر پیش کرے اور ان کی آخری رسومات قومی پرچم میں لیپٹ کر انکی عزت افزائی کرے، جہاں کی اکثریت کا یہ حال ہو کہ حکومت کی اندرونی اور بیرونی ناکامیوں کے باوجود یہ کہہ کر معاف دے کہ، ’کچھ بھی ہو مودی نے مسلمانوں کو ان کی اوقات دکھادی‘ اور وہ معاشرہ جہاں سیاست داں، مذہبی قائدین، صحافی، ایکٹوسٹس سب ایک زبان میں اپنے یہاں کئے جانے والے جرم کی کھل کرمذمت کررہے ہوں، ایک زمرے میں رکھے جانے چاہئیں؟
اس مرحلے پر ہمارے لئے کہنا مشکل ہے کہ پاکستانی حکومت قاتلوں کو سخت سزائیں دے کر انہیں ان جیسے دوسرے عناصر کے لئے نشان عبرت بنائے گی یا نہیں، مگر اب تک جو حالات ہیں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے واقعے کی سخت مذمت کی ہے اور مجرموں کوقرارسزا دینے کی یقین دہانی کی ہے۔ دلوں کا حال اللہ جانتا ہے، مگربظاہرپاکستان کا ہرطبقہ سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل پرسرمشار اور متاسف نظرآتا ہے۔
ہمیں مذہب کے نام پر پاکستان میں کی جانے والی غنڈہ کردی سے بالکل بھی انکار نہیں۔ نہ ہم ان واقعات کو نظرانداز کررہے ہیں جن میں عوام کے مذہبی جزبات بھڑکا کر انہیں قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر اکسایا گیا ہے اور قتل جیسے سنگین جرائم کا ارتکا ب کرایا گیا ہے۔ اور نہ ہم مگر سلمان تاثیر کے قاتل کو ہیرو بنا کرپیش کرنے کے قابل مذمت واقعے کے منکر ہیں۔ مگر وہ بھی ایک وقتی جنون تھا اوراس کی بھی پاکستانی معاشرے میں کھل کرمذمت کی گئی۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس واقعے میں قاتل اور مقتول دونوں کا تعلق ایک ہی مذہب سے تھا۔ یہ جرم کسی ایک مذہبی اقلیت کے خلاف نہیں ہوا تھا نہ یہ کسی منظم تحریک کا منصوبہ تھا جس کے عزائم پاکستان کی حکومت پر قبضہ کرکے کسی خاص اقلیت کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہو۔ اس دور میں پوری مسلم دنیا میں اسلام کے نام پر اقلیتوں کے ساتھ سب سے گھناونے مظالم داعش نے ڈھائے ہیں ۔ اس سے پہلے مذہب کے نام پر یا ناانصافیاں اپنے پچھلے دورمیں طالبان نے کی تھیں۔ مگر الحمدللہ داعش کو تو مسلمانوں کے کسی بھی طبقے نے صحیح العقیدہ یا معتبر گروہ تسلیم نہیں کیا۔ طالبان کی حماقتوں اورزیادتیوں (جن کے بارے میں موجودہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ اب وہ ان غلطیوں کو نہیں دوہرائیں گے) کو بھی عام مسلمانوں، یعنی اکثریت نے اچھی نظرسے نہیں دیکھا۔ الحمد للہ دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں کوئی فرد اپنے ہی ملک کے عوام کے خلاف نفرت بھڑکا کربرسر اقتدار نہیں آیا۔ ان میں سے بہت سوں کو تو خود مسلمانوں پر ظلم کرنے سے فرصت نہیں ملتی۔
بات طویل ہورہی ہے مگر کیونکہ جذبات کی رو میں بہہ کر بہت سے لوگ غلط موازنہ کرنے پر تل گئے ہیں اسلئے ضروری ہے کہ کچھ حقائق ایک مرتبہ یاد دلادئے جائیں۔
اس وقت ہندوستان کا وزیراعظم وہ شخص ہے جو گجرات مسلم کش فسادات 2002 کا مجرم ہے اور صرف اور صرف اپنے اسی ایک ’کارنامے‘ کی وجہ سے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر پہنچا ہے۔ یاد رہے جس وقت گجرات میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی تھی 25 اپریل 2002 کی اپنی رپورٹ میں بی بی سی کی نامہ نگار جِل میک گیورنگ نے لکھا تھا کہ برطانوی سفارتخانے کی: ’بی بی سی کے ذریعے حاصل کی گئی انتہائی مذمتی اندرونی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس تشدد میں نسلی صفائی کی تمام علامات موجود ہیں اور یہ کہ جب تک وزیراعلیٰ برسراقتدار ہے اس وقت تک ہندو اور مسلمانوں کے درمیان مصالحت ناممکن ہے۔۔۔ یہ لیک شدہ رپورٹ ہندوستان میں موجود برطانوی عہدیداران کی تحقیقات کا نتیجہ ہے۔۔۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اچانک شروع ہونے کی حقیقت سے اس کا دوردور کا واسطہ نہیں بلکہ یہ ایک ہندو تنظیم نے غالباً مہینوں پہلے اس کی منصوبہ بندی کی تھی۔۔۔‘
اس وقت اترپردیش کا وزیراعلیٰ وہ شخص ہے جس کی موجودگی میں ایک جلسے میں ہندونوجوانوں سے مسلمان عورتوں کی قبریں کھود کر ان کے ساتھ جنسی ہوس پوری کرنے کی تلقین کی گئی تھی۔ جس طرح مسلمانوں کے قاتلوں کو عزت دی گئی ہے اور جس طرح مظفرنگر فساد کے ملزمان کو حکومت نے معاف کرکے کلین چٹ دی ہے وہ کوئی راز نہیں۔
ہمیں یاد نہیں کہ پاکستان میں ہندوؤں یا عیسائیوں یا ان کی عبادت گاہوں پر حملہ آوروں کی حکومت نے پشت پناہی کی ہو۔ اس کے برعکس وہاں ان واقعات کی مذمت کی گئی اور مجرموں کو سزائیں دی گئیں۔ سر دست جنوری 2021 میں خیبرپختونخوا اورستمبر 2019 میں صوبہ سندھ کے ایک مندر پر حملے ذہن میں آرہے ہیں۔ اور کیونکہ بات مذہب کے نام پر غنڈہ گردی اور حکومتوں کے رویے کی ہورہی ہے لہٰذا بنگلہ دیش کے حالیہ ہنگاموں میں حکومت کی قابل تعریف کارکردگی اور بنگلہ دیش کے واقعات کو بہانہ بنا کیر تریپورہ میں بلوائیوں کو کھلی چھوٹ دئے جانےاور جن صحافیوں نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ان پر حکومتی جبر کا ذکرکرنا بے جا نہ ہوگا۔
پاکستان میں جس جس نے اب یا ماضی میں توہین مذہب کے نام پرقتل کئے ہیں وہ سب دوہرے مجرم ہیں: ایک تو قتل کے اور دوسرے توہین مذہب کے کیونکہ اپنے اس فعل سے انہوں نے اسلام اور مسلمان دونوں کو بدنام کیا ہے مگر پاکستانی معاشرے کی جنونیت اور جہالت کا موازنہ ہندوستانی نظریاتی ہندوتوا قاتلوں سے کرنا صریح زیاتی ہے۔