محمد غزالی خان
لندن: بین الاقوامی رفاہی ادارے الخیر فاؤنڈیشن کے چیئرمین اور بانی امام قاسم رشید صاحب نے کہا ہے کہ تمام مشکلات اور اسلاموفوبیا کے باوجود مسلمانوں کو جس چیزکا احساس ہونا چاہئے وہ برطانیہ میں ترقی کے لئے ملنے والے مواقع ہیں۔
انہوں نے یہ بات لندن میں مسلم نیوزکے سالانہ تقسیم انعامات برائے حسن کارکردگی ’’ایوارڈز فار ایکسلینس 2023‘‘ میں شیڈو منسٹر انٹرنیشنل ٹریڈ گرینتھ تھامس، لندن میئر صادق خان، بے باک مسلم رکن پارلیمنٹ ناز شاہ، اور کئی ارکان پارلیمنٹ کی ان تقاریر کے بعد کہی جن میں برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف برتے جانے والے امتیاز اور یہاں پھیلے ہوئے اسلاموفوبیا کا اعتراف اور مذمت میں کی گئی تھی۔ امام قاسم صاحب نے کہا کہ: جو کچھ کہا گیا ہے مجھے اس سے اختلاف نہیں مگر میرا چیزوں کو دیکھنے کا انداز تھوڑا مختلف ہوتا ہے اور میں جس چیز پرزوردینا چاہتا ہوں وہ ان مواقعوں کا صحیح اور بروقت استعمال اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے اظہار تشکر ہے جو ہمیں یہاں دستیاب ہیں۔ خود اپنی مثال دیتے ہوئے امام صاحب نے کہا: ’’اس ملک میں پندرہ سال کا ایک نوجوان آیا تھا جو خود کبھی اسکول یا کالج نہیں گیا مگر وہ ایک پرائمری اسکول، دو ہائی اسکول، تین کامیاب اسلامی چینل اوررفاہی ادارہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا جو اب تک دنیا بھر میں چوتھائی ارب پاؤنڈ کی امداد تقسیم کرچکا ہے۔‘‘
امام صاحب نے کہا کہ کسی خلیجی یا مسلم ملک میں یہ کام ممکن نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ کئی سالوں سے متحدہ عرب امارات میں الخیرکا دفترکھولنے کے اجازت طلب کی جارہی ہے مگر اب تک کامیابی کے کوئی امکان نظر نہیں آرہے ہیں۔
امام قاسم رشید صاحب 1983 میں اپنے والد اور نامور عالم دین مولانا اظہارقاسمی صاحب، جو خود ایک ادارہ ساز شخصیت کے مالک تھے، کے ہمراہ کینیا سے برطانیہ آئے تھے۔ ان کا آبادئی وطن دیوبند ہے۔
اپنی تقریر میں مدیر مسلم نیوز احمد ورثی نے مسلمانوں کی خدمات اور مختلف میدانوں میں ان کی کارکردگی کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ تمام تر خدمات کے باوجود اسلاموفوبیا کسی طرح ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے جس کی ایک مثال گزشتہ سال اپریل میں دیا گیا ہوم سیکریٹری کا بیان ہے جس میں انہوں نے البانیہ کے مہاجروں اور پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں پر رکیک حملے کئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ لبرل ڈیموکریٹس اور اسکاٹش نیشل پارٹی اور یہاں تک کہ کنزرویٹیو پارٹی سمیت مسلمانوں کے کل جماعتی گروپ اے پی پی جی کی اسلاموفوبیا پر مبنی تعریف کو تسلیم کرلیا مگر کنزرویٹیو پارٹی کی حکومت نے اس تعریف کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ احمد ورثی صاحب کی تقریر کا ایک حصہ کنزرویٹیو حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ سے کم نہیں تھا جس میں انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی ابتری اور انہیں نظر انداز کیا جانا حکومت کے اپنے اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے۔
مسلم نیوز کی اس سالانہ تقریب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مسلمانوں کی غیرمعمولی کارکردگی کے لئے انعامات دئے جاتے ہیں جنہیں کوئی بھی نامزد کرسکتا ہے مگر اہل امید واروں کا انتخاب کلی طور پر آزاد ججوں کا ایک پینل کرتا ہے جن کا تعلق مختلف شعبوں سے ہوتا ہے۔ طب، انجینرنگ، تجارت، میڈیا، اپورٹس اور کسی غیر مسلم کو مسلمانوں کی غیر معمولی خدمات کے لئے دیئے جانے والے انعام سمیت کل چودہ انعامات تقسیم کئے جاتے ہیں جن کے نام بھی دلچسپ ہوتے ہیں اور مہمانان کو تقسیم کئے جانے والے خوبصورت بروشر کے ایک حصے میں ان شخصیت کی تفصیلات اور تاریخی اہمیت موجود ہوتی ہے جن سے یہ انعامات منسوب ہوتے ہیں مثلاً نئے تجارتی منصوبے اور اس میں کامیاب شخص کو ام المومنین خدیجہ ایوارڈ فار ایکسلینس اِن اینٹر پرائز، بین المذاہب اور بین النسلی تعلقات کے فروغ کے لئے غیر معمولی کام ک لئے البرونی ایوارڈ فار ایکسلنس ان کمیونٹی ریلیشنز، تعلیم یا غیر نصابی سرگرمیوں میں کامیاب بچوں کے لئے امام حسن اینڈ حسین چنلڈرنز ایوارڈ فار ایکسلینس، آرٹس میں غیر معمولی کام کے لئے الحمرا ایوارڈ فار ایکسلینس ان آرٹس، طبی میدان میں حسن کارکردگے کے لئے ابن سینا ایوارڈ فار ایکسلینس ان ہیلتھ، اور میڈیا میں بڑی خدمات انجما دینے والوں کے لئے ابن بطوطہ ایوارڈ فار ایکسلینس ان میڈیا وغیرہ۔
یہ انعامات نمایاں شخصیات کے ہاتھوں تقسیم کئے جاتے ہیں جن میں وزرا، ارکان پارلیمنٹ اور دیگر شعبوں کے اہم ذمہ داران شامل ہوتے ہیں۔ یہ تقریب اس لحاظ سے بھی بالکل منفرد ہوتی ہے کہ اس میں مختلف الخیال افراد اور مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان اور غیرمسلم شریک ہوتے ہیں۔