محمد غزالی خان
ہندوستانی دارالحکومت نئی دہلی میں منعقدہ دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں والے بیس ممالک کی تنظیم جی 20 کے سربراہی اجلاس میں کی گئی ترک صدر طیب رجب اردوغان کی تقریرکے اس حصے کو ترک ذرائع ابلاغ یا ہندوستان میں چند اردو اخبارات کے علاوہ دنیا بھر میں تقریباً ہر جگہ یکسر نظرانداز کردیا گیا جس میں انہوں نے مغربی ممالک میں توہین قرآن اور’دیگر ممالک‘ میں اسلاموفوبیا کے رحجان کی مذمت کرتے ہوئے ان واقعات پر خاموش نہ بیٹھنے کا اعلان کیا تھا۔
اپنی تقریر میں ترک صدر نے متنبہ کیا کہ: ’ایک جہاں، ایک کنبہ اور[روشن] مستقبل— ان نظریات کو طاعون اعظم کی طرح پھیلتی ہوئی مسلم منافرت سے زبردست نقصان پہنچے گا۔ مسلمانوں اور پناہ گزینوں پر مسلسل حملے کیے جارہے ہیں۔ مغربی اور کچھ دیگر ممالک میں یہ حملےناقابل برداشت حد تک بڑھ رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ: ’ہم سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہئے کہ ہم ان واقعات پر خاموش بیٹھے رہیں گے۔‘ یہ باور کرواتے ہوئے کہ ’اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظورکی گئی قرارداد کے نتیجے میں پندرہ مارچ کو اسلاموفوبیا سے لڑنے کے دن کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے‘، ترک صدر نے جی 20 سربراہان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں موجود:’ممالک کو اسلاموفوبیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمے کے لئے پرعظم طریقے سے پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔‘
طیبب اردوغان کے دینی و ملی رحجان کے پیش نظر یہ خوش گمانی کرنا بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے جن ’ دیگر ممالک میں اسلاموفوبیا‘ کا ذکر کیا ہے ان کے ذہن میں یقیناً ہندوستان بھی رہا ہوگا۔ اوراس لحاذ سے ان کی تقریرپر کچھ نہ سے تو کچھ بہتر والی کہاوت صادق آتی ہے۔ کلام اللہ کی توہین اور مسلمانوں پر مظالم کے مسئلے کو اس اہم فورم پر اٹھانے کے لئے طیب اردوان قابال مبارکباد ہیں۔ البتہ اس کا کوئی خاص اثر ہندوتوا حکومت پر نہیں پڑے گا۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے پلیٹ فارم سے کبھی کبھار ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے رسمی سی تشویش کے اظہار اورکبھی کبھی کویت اسمبلی میں مذمتی قرارداد کےعلاوہ شاید ہی کسی مسلم ملک نے کبھی ہندوستانی مسلمانوں پرکئے جانے والے مظالم کے خلاف کھل کرکوئی احتجاج کیا ہو۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر پہلی اور شاید آخری مرتبہ کسی نے ہندوتوا اور آر ایس ایس کے خلاف کھل کر بات کی تھی تو وہ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان تھے جو ’فدائے ملت ثانی‘ حضرت مولانا محمود اسعد مدنی صاحب کو اتنی بری لگی تھی کہ وہ سیدھے پریس کانفرنس کرنے جنیوا پہنچ گئے تھے۔
بہرحال مسلم دنیا کی بے حسی کے باوجود ایک بھرم باقی تھا کہ ہندوستانی مسلامانوں کے تعلق سے مسلم ممالک کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کسی بھی مسلم ملک، بطور خاص مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہندوستانی سیاست داں باہمی تاریخی رشتوں کی بات ضرور کرتے تھے۔ مسلم ممالک کی بے حسی کی باربار دی گئی مثالوں کے باوجود گجرات مسلم نسل کشی 2002 کے بعد جب آنجہانی اٹل بہاری واجپائی شام کے دورے پر جانے والے تھے تو انہوں نے دورے پر جانے سے پہلے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا: ’میں شرمندہ ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں جن مسلم ممالک کا دورہ کرنے جا رہا ہوں وہاں کیا منہ دکھاؤں گا؟‘
مگر جیسا کہ ہر ہندوستانی مسلمان کو اندازہ تھا شام کیا کسی بھی مسلم ملک میں گجرات کے بارے میں ان سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا، ان کی عین توقع کے مطابق اور واجپائی جی کے خدشات کے برعکساس موضوع پر کوئی سوال نہیں کیا گیا۔ لہٰذا دورے سے واپسی پر یہ پوچھے جانے پر کہ کیا سابر متی ایکسپریس کی آتش زنی میں آئی ایس آئی ملوث ہو سکتی ہے، گجرات پر ان کی شرمندگی ہوا میں اڑ چکی تھی اور موصوف نے فرمایا:’ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ البتہ بادی النظر میں یہ ایک منصوبہ بند حرکت معلوم ہوتی ہے ۔‘
اپنے دورہ سعودی عرب پرنریندرمودی کو بھی ہندوستانی مسلمانوں اور سعودی عرب کے تعلق اور سعودی عرب کی مسلم دنیا میں اہمیت کا احساس رہا۔2016 میں بھی دورہ سعودی عرب کے دوران مودی جی نے سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان قدیم تعلقات کے ثبوت کے طور پر نہ یہ کہ محمد بن سلمان کو 629 میں تعمیرکی گئی کیرالہ کی چیمران مسجد کا ایک ماڈل شاہ سلمان کو پیش کیا بلکہ وزیر اعظم آفس نے باقاعدہ اس کی تصویر اور خبر بھی ٹوئیر پر پوسٹ کی۔
مگر 2023 میں مسلمانوں کے ’امت واحدہ‘ ہونے کے کھوکلے نعرے کی حقیقت اور رسول کریم کیﷺ اس حدیث پران کے ایمان کی حقیقت پر دنیا پر کھل چکی ہے جس میں آپﷺ نے فرمایا کہ ، مسلمانوں کو ایک دوسرے کا درد اس طرح محسوس ہونا چاہئے: ’جیسا کہ جسم کا حال ہوتا ہے اگر ایک عضو کو کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو جسم کے بقیہ اعظاء بے خوابی اور بخار کے ساتھ اس کا ساتھ دیتے ہیں۔‘ (بخاری، مسلم) ۔ سعودی عرب کی مودی محبت کی تو بات ہی کیا ایران نے بھی اسلام سے اپنے بلند و بانگ دعوں کا لحاظ نہ رکھا اور گجرات کے قصائی کی مہمان نوازی میں اسے کوئی شرم محسوس نہ ہوئی۔۔
ہندوستانی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پرسعودی خاموشی اور ہندوستانی حکومت کو ناراض نہ کرنے کی سعودی پالیسی کسی نئی حکمت عملی کا نتیجہ نہیں ہے۔ ملی گزٹ کے بانی و مدیر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’میں نے ملی گزٹ سن دو ہزار میں شروع کیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میرے پاس ایک عمدہ روزگارتھا اور میں ہندوستان میں سعودی روزنامے ’’الریاض‘‘ کا نمائندہ تھا۔ مجھے عمدہ تنخواہ ملتی تھی اور میں نے یہ کام تقریباً چھ سال کیا۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب میں نے دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ گجرات اور کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر بھی کھل کر لکھنا شروع کردیا۔ ایک دن مجھے دہلی میں سعودی سفیر نے طلب کرلیا اور صاف صاف الفاظ میں مجھ سے کہا: ’’ہم ہندوستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہ رہے ہیں اورآپ ہمارے تعلقات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘‘ انہوں مجھ سے حکومت ہند کے خلاف کچھ بھی لکھنے سے منع کیا۔ ایسی پابندی مجھے قابل قبول نہیں تھی۔ انہوں نے مالکان سے بھی بات کی ہوگی۔ اس کے فوراً بعد چھوٹی چھوٹی شکایتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور میں نے ’’الریاض‘‘ سے استعفیٰ دے دیا۔‘
ظاہر ہے کہ سعودی عرب کے ہندوستان کے ساتھ بڑے بڑے تجارتی معاہدوں سے اب فائدہ بھی ہندوتوا تاجاروں، صنعتکاروں یا ملازموں کو ہی ہوگا۔ اس سے ہندوستان میں مسلمانوں کو ’سبق سکھانے‘ کے ہندوتوا کے جزبے میں بھی یقیناً تیزی آئے گی۔ 2024 کے انتخابات میں نریندرمودی کے پاس ’مسلمانوں کو سبق سکھانے‘ کے دعوے کے ساتھ ساتھ اب اپنے چاہنے والوں کو دکھانے کے لئے بہت کچھ ہوگا۔ سیدھے سادے الفاظ میں سعودی عرب نے ہندوتوا حکومت کو ہندوستانی مسلمانوں کا خون بہانے کا کھلا لائسنس اور اپنے یہاں خوش آمدید کہنے کا اعلان کردیا۔
جس وقت ولی عہد فرما روائے سعودی عرب ہندوستان میں مسلم مخالف زہرپھیلانے لئے بدنام ٹی وی اینکروں سے مصافحے کر رہے تھے اس وقت نوح میں نا کردہ گناہوں کی پاداش میں بہت سے مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرکے کھلے آسمان تلے زندگیاں بسر کرنے پر مجبورکیا جا چکا تھا اور دیگر جیلوں میں بند تھے اور مہاراشٹر کے ستارا میں محض ایک سال قبل ان کے عقد میں آئی خاتون، جو امید سے ہیں، کے تیس سالہ سول انجینئرشوہر کفیل نورحسن کو شہید کردیا گیا۔
کسی فرد، گروہ یا قوم کی جارحیت اور احمقانہ سوچ کا علاج مزاحمت اور معاشی مفادات پر ضرب ہوتی ہے۔ یہاں توعالم یہ ہے کہ ایک طرف ملی قائدین کو مسلمانوں کو اپنا دفاع کرنے کی تلقین کرنے سے بھی خوف آرہاہے اور دوسری جانب مسلمانوں کے لئے سب سے مقدس جگہ کی حکومت نے اپنے ملک کے دروازے مسلمانوں کے خون کے پیاسے گروہ کے لئے کھول دیے اوربالواسطہ طور پر کہدیا کہ تم مسلمانوں کا خوب بہاؤ یا بیس کروڑ مسلمانوں کو سمندر میں دھکہ دے دو ہمارے اوپر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ ظاہر ہے جولوگ مسجد اقصیٰ پرروزافزوں حملوں اور ہرروز معصوم فلسطینیوں کے خون بہائے جانے کے بعد بھی صیہونی حکومت سے محبتیں بڑھا رہے ہی، جو چین میں یوغر مسلمانوں پر جاری مظالم کا دفاع کرچکے ہوں اور جو عمرہ کے لئے گئے ہوئے یوغروں کو صفاک حکومت کے حوالے کرچکے ہوں، ان سے کسی ملی غیرت کی توقع کرنا خود فریبی کے علاوہ کچھ اور نہیں۔
افسوس ان حالات میں بھی سر جوڑ کر بیٹھنے، نئی حکمت عملی تیار کرنے اور اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگنے کے بجائے مسلمان گمراہ گمراہ کے کھیل میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمارے قائدین کو حالات کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے آئندہ کے لا ئحہ عمل پر اتفاق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر (اقبال)