محمد غزالی خان
گزشتہ دنوں ہندوستان میں مسلمان سوشل میڈیا صارفین کے درمیان وزیر برائے اقلیتی امورمس اسمرتی ایرانی کی قیادت میں ایک وفد کو مدینہ منورہ میں لیجائے جانے پرشدید بحث چھڑی ہوئی تھی۔
مس ایرانی نے آٹھ جنوری کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئیٹر) پرمسجد نبوی اور مسجد قبا کے بالکل قریب متعدد تصاویر پوسٹ کیں اورتفصیلات دیتے ہوئے لکھا: ’آج میں مدینہ کے تاریخی سفر پرنکلی جو اسلام کے متبرک ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس میں مسجد نبوی کی بیرونی حدود، احد اور مسجد قبا کے بیرونی حدود شامل ہیں۔۔۔‘
بی جے کے حمایتی مس ایرانی کے دورہ مدینہ کو اسلام پر ہندوتوا کی فتح سے تعبیر کررہے ہیں۔ ایکس پر ان کے پیغام پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک صارف نے لکھا: ’ایک سخت مسلم ملک میں حجاب نہ پہن کر آپ نے اپنی اصل طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے لئے آپ قابل مبارکباد ہیں۔‘
یاد رہے سعودی حکومت نے مدینہ منورہ میں غیر مسلموں کے داخلے پر سالہا سال سے لگی پابندی کو مئی 2021 میں اٹھالیا تھا۔ مسلمان صارفین نے ہندوستانی وفد کے مدینہ منورہ میں داخلے پر سخت برہمی کا ظہار کیا ہے جن میں سے اگر سب نہیں تو بہر حال ان کی اکثریت غیرمسلموں پر مشتمل تھی۔ صارفین بالعموم وفد کو مدینہ لیجائے جانے اور بالخصوص مس ایرانی اور وفد میں شامل دیگر خواتین کی اس دیدہ دلیری اوراس متبرک شہر کے تئیں بے احترامی پر برہم ہیں جس کا مظاہرہ انہوں نے وہاں ننگے سررہ کر کیا۔
مسلم پولییٹکل کونسل آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے اپنی بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی فیس بک وال پر لکھا: ’سعودی عرب آل سعود کی ملکیت ہے ، اپنی قلمرو میں جو چاہیں فیصلہ کریں مگر حرمین بھی کیا انہیں کی ملکیت کا حصہ ہیں؟ پھر حرمیں سے وابستہ امت محمدی بھی کیا ان کی رعیت ہیں؟‘ مزید تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا: ’واضح کیا جانا چاہئے کہ کیا حرمین مقدس سعودی عرب کے تفریحی مقامات ہیں؟‘
بہت سے نوجوان صارفین اس واقعے پر مسلم قیادت کی خاموشی پر بھی ناراض نظر آئے جسے انہوں نے سعودی علی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2023 کا نتیجہ قرار دیا جس کے تحت سعودی عرب کو تیزی کے ساتھ مغربی ثقافت کی جانب ڈھکیلا جارہا ہے۔
کچھ صارفین نے تیس دسمبر کو مڈل ایسٹ مانیٹر پر شائع ہوئی ایک رپورٹ بھی شیئر کی جس میں کہا گیا ہے کہ:’’ سعودی عرب کی مذہبی شناخت کو مزید قومی رنگ دینے کی جاری مہم کے بیچ وہاں کے سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد مطالبہ کر رہی ہے کہ قدیم دیوی دیوتاؤں کو مملکت کے ورثے کے طور پر دوبارہ متعارف کروایا جائے۔
’’سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر ایک صارف نے قدیم دیوی عزیٰ اور اس کے گرد ادا کی جانے والی رسومات کی تصاویر اور سعودی عجائب گھروں میں رکھے گئے اس کے خاکوں کی تصاویر پوسٹ کیں۔ صارف کے بقول : ’ماضی سے مستقبل تک عزیٰ کا وجود ہمیشہ رہا ہے۔‘ اس نے مزید لکھا کہ سعودی : ’اپنے ماضی سے ہمیشہ جڑے رہےہیں۔ ‘ اور ’اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس وقت ہم مسلمان ہیں یا نہیں۔‘‘‘
ان ناراض صارفین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی سربراہی والی ہندوستانی حکومت کے اس وفد کی غیر معمولی مہمان نوازی کو یہ دریدہ دہن جماعت اور اس کے حمایتی اسلام پر ایک اور فتح کے طور پر استعمال کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے دورے جیسی مثالوں سے بی جے پی کے قائدین بیرون ملک جتنا بھی کھلے ذہن اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوں ، مگر اندرون ملک جیسے جیسے عام انتخابات نزدیک آرہے ہیں ان کی جارحیت نیز مسلم دشمنی اور منافرت میں شدت آتی جارہی ہے۔ ہندوتوا حامی مبلغین کھلے عام مسلمانوں کے خلاف تقریریں کر رہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کام کے لئے انہیں کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
اس کے برعکس مسلمانوں کو قانون کی رسمی کارروائی کے بغیر ہی فوری طور پر سزا دے دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اپنے صیہونی دوستوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مدھیہ پردیش کے قصبے شاپور میں گیارہ جنوری کو ایک ہندو جلوس پر پتھر پھینکنے کے الزام میں رحیم پٹیل نامی ایک مسلمان کے گھر پر بلڈوزر چلا کر زمین دوز کردیا گیا ۔ اطلاعات کے مطابق آٹھ جنوری کو ہندوتوا تخریب کاروں کا ایک جلوس مسلم اکثیریتی علاقے میں داخل ہوا اور مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی کی۔ ابتدائی طور پر تلخ کلامی کے بعد معاملہ پتھر بازی تک پہنچ گیا ۔ پچیس لوگوں کے خلاف ایف آر درج کر کے سب کو گرفتار کرلیا گیا اور ان کے مبینہ لیڈر کے گھر پر بلڈوزر چلادیا گیا۔ سزا کے مستحق قرار دئے گئے یہ تمام افراد مسلمان ہیں جبکہ کسی ایک غیر مسلم کے خلاف رپورٹ تک درج نہیں ہوئی۔
ایک دوسرے واقعے میں عدالت نے مدھیہ پردیش کے شہر اجین سے تعلق رکھنے والے ایک اٹھارہ سالہ نوجوان عدنان منصور کو معصوم قرار دے کر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدنان کے چھوٹے بھائی اور دوست کو گزشتہ سال ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔ ان تینوں کو گزشتہ سال 17 جولائی کو اپنے مکان کی چھت سے ایک مذہبی جلوس پر تھوکنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم 151 دن تک عدالتی حراست میں گزارنے کے بعد عدنان محنت مشقت سے بنائے گئے اپنے والدین کے گھر میں نہیں بلکہ ان کے ساتھ کرائے کے گھر میں رہے گا کیونکہ اس کا گھر ضلع انتظامیہ نے ہندوتوا شرپسندوں کی مانگ پر مکان کی چھت سے ایک مذہبی جلوس پر تھوکنے کے الزام میں ایک گھنٹے کا نوٹس دے کر ڈھول باجے کے ساتھ مسمار کردیا تھا۔ مالی تنگی سے پریشان عدنان کے والد نے نویں کلاس کے طالب علم اس کے چھوٹے بھائی کو اسکول سے اٹھالیا ہے۔
ایک اور واقعے میں چودہ جنوری کو میونسپل کارپوریشن آف گریٹر ممبئی نے اندھیری علاقے میں کئی دہائیوں پرانے مدرسے گلشن احمد رضا اور مسجد طاہرہ کو شہید کردیا۔ اسی قسم کے خطرے کا سامنا پچھلے دنوں دہلی میں ڈیڑھ سو سال پرانی سنہری باغ مسجد کو تھا جسے نئی دہلی میونسپل کارپوریشن نے شہید کرنے کا فصلہ کرلیا تھا ۔ مسجد بچانے کی مسلمانوں کی دن رات کی کوششوں اور دہلی ہائی کورٹ میں مسجد کے امام عبدالعزیز کی جانب سے دائر کی گئی ایک عرضی کے بعد بچایا جا سکا۔
جبکہ دوسری جانب 200 سالہ قدیم ماموں بھانجے کے مزار کو جو شاہی عیدگاہ کے سامنے اور قومی دارالحکومت میں جھنڈے والان مندر کے قریب واقع ہے، بدھ جنوری کو رات کی تاریکی میں منہدم کر دیا گیا۔ محکمہ تعمیرات عامہ (پی ڈبلیو ڈی) نے پولیس کے ساتھ مل کر اس انہدام کی کارروائی کو انجام دیا۔ تاریخی مزار کو مسمار کرنے کا عمل صرف ایک دن پہلے اس کی دیواروں پر چھٹیوں کا نوٹس چسپاں کرنے کے بعد ہوا۔ اس تیزی سے تباہی نے مسلم کمیونٹی میں بڑے پیمانے پر تشویش اور بے اطمینانی کو جنم دیا، کیونکہ یہ مزار وقف بورڈ کے دائرہ اختیار میں 123 جائیدادوں کا حصہ تھا۔ بورڈ کے سرکاری ریکارڈ میں اس کی شمولیت کے باوجود، دہلی وقف بورڈ اس تاریخی مقام کی حفاظت کرنے میں ناکام رہا، جس سے اس کے متولیوں اور اہلکاروں کی اہلیت پر شکوک پیدا ہوئے۔
باوجود اس کے کہ پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 موجود ہے جس میں کسی بھی عبادت کی جگہ کی اس حیثیت میں تبدیلی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جو 15 اگست 1947 کو تھی، صوبہ اترپردیش میں بنارس کی گیانواپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگا ہ پر دعوے کی ہندوتوا مہم جوؤں اور تخریب کاروں کی دائر کردہ درخواستیں سماعت کے لئے منظور کرلیں اور اب ان مقدموں کی سماعت جاری ہے۔ ہندوتوا مہم جوؤں نے بدایوں، علیگڑھ، آگرہ اور میرٹھ کی جامع مسجدوں پر بھی مندروں کو مسمار کرکے تعمیر کئے جانے کے دعوے کر رکھے ہیں جبکہ ان کی فہرست میں ملک بھر کی سیکڑوں مساجد شامل ہیں۔
علاوہ ازیں گزشتہ سال دسمبر میں وزیر داخلہ امت شاہ نے مغربی بنگال میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بدنام زمانہ شہری ترمیمی قانون (سی اے اے) ، ’ملک کا قانون ہے جسے نافذ کرنے سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔‘ یاد رہے دسمبر 2019 میں دہلی کے شاہین باغ میں مسلم خواتین نے اس قانون کے خلاف کئی دنوں تک دھرنا دیا تھا جو آہستہ آہستہ ملک گیر تحریک میں تبدیل ہونے لگا تھا اور جسے لے کر ہندوتوا جماعت بی جے پی کے ارکان نے دہلی میں خونریز مسلم کش فساد برپا کیا تھا۔ بہر حال کرونا کی وجہ سے یہ دھرنا ختم کرنا پڑا تھا۔ اس میں مسلم علاقوں سے اندھا دھند گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں، جن میں ایک بڑی تعداد کو عدالت نے معصوم قرار دیکر بری کیا ہے۔
دریں اثنا سپریم کورٹ میں مسلمانان ہند کی دل کی دھڑکن تاریخی ادارے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے متعلق مقدمہ زیر سماعت ہے اور موجودہ حالات میں بحیثیت مسلم ادارہ اس کے مستقبل پر خطرے کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔
ا س پس منظر میں22 جنوری کو ایودھیا میں شہید بابری مسجد کی جگہ تعمیر کیے گئے نام نہاد رام مندر کی کے افتتاح کی زبردست تیاریاں جاری ہیں جس کی تشہیر بی جے پی حامی ٹی وی چینلوں پر دن رات جاری ہے۔
بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو ہندوتوا حامی ہجوم نے پولیس اور فوجی دستوں کی موجودگی اور میڈیا کیمروں کے سامنے شہید کیا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے جنرل سیکریٹری سیتا رام یچوری ، اور کانگریس صدر ملیکا کھرگےملیکا رجن کھڑگےسمیت متعدد سیاست دانوں نے مندر کے اففتاح میں شرکت کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ مودی ہندوؤں کے جذبات کو انگیختہ کر کے اس کا فائدہ الیکشن میں اٹھانے کی کوشش کرررہے ہیں۔ آر جے ڈی کے رہنما شوانند تیوارے نے کہا ہے کہ: ’ایودھیا میں رام سے زیادہ مودی نظر آرہے ہیں۔‘
نام نہاد رام مندر کے افتتاح کی خوشی میں سات ریاستوں میں اسکولوں اور سرکاروی دفاتر کی چھٹی کردی گئی ہے۔ اس جشن کو پورے ملک میں دیوالی کی طرح منایا جارہا ہے۔ بازوروں میں دکانوں پر زعفرانی جھنڈے لگائے گئے ہیں ۔ مسلمانوں کی دکانوں کو اس سے مستثنا نہیں رکھا گیا۔ اطلاعات کے مطابق ہندوتوا دہشت گرد نظریں رکھے ہوئے ہیں کہ کوئی مسلمان جھنڈا اتارے اور انہیں فساد شروع کرنے کا موقع مل جائے۔
طاقت کے نشے میں چور آر ایس ایس رہنما اور سمجھوتا ایکسپریس دھماکوں ، جن میں 43 پاکستانی اور 10 ہندوستانی شہریوں کی اموات ہوئی تھیں ، کےمجرم اندریش کمار نے مسلمانوں کو اس دن کی خوشی میں ، ’شری رام، جے شری رام، جے جے شری رام‘ کا ورد کرنے کو کہا ہے۔
بہر حال اس بات سے بے پرواہ کے مسلمان کیا محسوس کرتے ہیں اور ملک کے ہوش مند اور سنجیدہ لوگ کیا کہتے ہیں، مودی اپنے تمام مسلم مخالف اقدامات کو فخریہ بیان کرتے ہیں اور اپنے حمایتیوں کے سامنے ان اقدامات کو اپنی حکومت کے کارناموں کے طور پر گنواتے اور بتاتے ہیں۔ ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اتنی پھیل گئی ہے کہ ہندوتوا حامی ووٹر بی جے پی حکومت کی کمیوں اور ناکمیوں کو تسلیم کرتے ہیں مگر ووٹ مودی کو ہی دیں گے کیونکہ : ’انہوں نے مسلمانوں کو ان کی اوقات دکھادی۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ نفرت کے موجودہ ماحول میں مودی کا تیسری مرتبہ برسراقتدارآنا یقینی ہے۔
یاد رہے گجرات مسلم کش فسادات میں نریندرمودی کے کردار کے بارے میں بی بی سی کی نمائندہ جِل میک گورنگ نے اپنے ایک مراسلے میں ،جس کی بنیاد دہلی میں برطانوی سفارتخانے کی ایک لیک شدہ رپورٹ تھی، بتایا تھا کہ اس قتل عام میں:’نسلی صفائی کی تمام علامتیں موجود ہیں اور یہ کہ جب تک وزیراعلیٰ اقتدارپرفائز ہے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مصالحت ناممکن ہے۔ ‘
لیک شدہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزیدبتایا تھا کہ:’اچانک شروع ہوجانے [کے دعووں ] سے کوسوں دور، یہ ایک منصوبہ بند تشدد تھا جس کی منصوبہ بندی ایک انتہا پسند ہندو تنظیم نے حکومت کی مدد سے مہینوں پہلے کی تھی جس کا مقصد ہندو علاقوں سے مسلمانوں کا صفایا کرنا تھا۔۔۔ ‘
اس دوران ملک کے مختلف حصوں سے خود ساختہ گؤ رکشکوں کے مسلمانوں پر حملوں اور ہجومی تشدد کی متعدد واقعات کی اطلاعات بھی آئی ہیں۔
واضح رہے دنیا بھر میں قتل عام کے رحجانات پر نظر والے ماہرین پہلے ہی ہندوستان میں روانڈا جیسی نسل کشی دوہرائے جانے کا امکان ظاہر کرچکے ہیں۔
فلسطینیوں، یوغروں اور روہنگیا ؤں کی طرح ہندوستانی مسلمان بھی اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں جن کے معاملات سے مسلم دنیا کو کوئی دلچسپی نہیں۔ اس ضمن میں وہ 2016 میں سعودی عرب کی جانب سے دیے گئے اعلیٰ ترین شہری اعزاز سے نوازے جانے کو بطور مثال پیش کرتے ہیں جس کے نقشہ قدم پر چلتے ہوئے 2016 اور پھر 2018 میں ایران نے ان کا شاندار استقبال کیا ۔ ان دونوں مسلم ممالک کے بعد 2019 میں متحدہ عرب امارات نے مودی کو اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا جو 2002 کے مسلم کش فسادات کے بعد ’گجرات کا قصائی‘ کے نام سے شہرت کما چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسمرتی کا دورہ مدینہ اور مسجد نبوی کے قریب بھی سر نہ ڈھکنے نے مودی کے ’کارناموں‘ میں مزید ایک بڑے کارنامے کا اظافہ کردیا ہے جسے ہندوتوا حامی شرپسند، اسلام پر ہندوتوا کی فتح کے طور پر دیکھیں گے۔ فرقہ وارانہ نفرت کی بنیاد پر مودی کی کامیابی اور ان کے وزیر اعظم بننے کے امکانات کو یورپی سیاست دانوں نے 2013 میں ہی کرلیا تھا جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ لہٰذا ہندوستان کی بڑی مارکیٹ میں بھر پور فائدہ اٹھانے کے لئے انہوں نے موصوف پر 2013 ہی سے ڈورے ڈالنے شروع کردئے تھے۔۔
ان حالات میں ہندوستان سے باہر بسنے والے ہندوستانی مسلمانوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔اپنے بہن بھائیوں کے حالات سےدنیا کو باخبر کرنا ان کا دینی اور اخلاقی فریضہ بن جاتا ہے۔ اپنے علاقوں کے منتخب نمائندوں کو خطوط لکھنا، ان سے ملاقاتیں کرنا اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کو خطوط لکھنا وہ کام ہیں جن کے ذریعے باہر کی دنیا کو ہندوستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں باخبر کیا جا سکتا ہے اور ان سے ان مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی درخواست کی جا سکتی ہے۔ جن اخبارات اور چینلوں میں ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق معروضی خبریں چائع ہوتی ہیں انہیں خطوط لکھنا اور ان کی تعریف کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ خلیجی ممالک میں با اثر لوگوں تک بات پہنچانے کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے یہ وہاں کے لوگ خود بہتر جانتے ہوں گے۔