شاہین باغ تحریک سے متعلق دو کتابوں پر دو باتیں

شاہین باغ تحریک کی تاریخ

نام کتاب CAA & NRC اور تحریک شاہین باغ

تالیف عبدالرحمٰن قاسمی

صفحات: 248

قیمت: 250 روپئے

ناشر:  Markazi Publications, S-17/4 Jogabai Ext, Jamia Nagar, New Delhi-110025

نام کتاب: Shahen Bagh: From ‘Anti-National’ to Nation Saviour

مصنف: اسد

صفحات: 264

قیمت: 400 روپئے

ناشر: Zavia Publications, K-59, Abul Fazl Enclave, Jamia Nagar, Okhla, New Delhi-110025

تبصرہ: محمد غزالی خان

عام انتخابات کی دستک کے ساتھ ہی ہندوستان کی ہندوتوا حکومت نے بدنام زمانہ شہری ترمیمی قانون (سی اے اے) کے نفاذ کا اعلان کردیا ہے۔  کہنے کو تو یہ قانون بظاہر پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے غیرمسلم شہریوں کو ہندوستانی شہریت دینے کے لئے بنایا گیا ہے، لیکن یہ نام نہاد قانون دراصل ہندوستان کے آئین کے سیکولرکردارکو ہندووانے کی جانب ایک قدم ہے جو اپنے تمام شہریوں کو مذہب، ذات پات اور رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر برابری کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔

اس شاطرانہ قانون سے جڑی سب سے خطرناک شق شہریوں کے قومی رجسٹر (این آرسی) کا تعارف ہے جس میں ان تمام لوگوں کے نام درج ہوں گے جو یہ ثابت کرسکیں کہ وہ یا ان کے اجداد چوبیس مارچ 1971 کو بنگلہ دیش بننے سے پہلے ہندوستان آئے تھے۔ جو غیرمسلم یہ ثابت نہیں کر سکیں گے ان کے پاس ہندوستان کی شہریت لینے کے لئے تیزرفتار راستہ موجود ہوگا۔ البتہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کے پاس ایسے کسی ثبوت کی عدم موجودگی میں انہیں ہٹلری دور کے جرمنی کی طرح کیمپوں میں رکھا جائے گا۔

اس امتیازی قانون سے سب سے زیادہ متاثرہونے والے صوبہ آسام کے مسلمان ہیں جہاں کے ہندوتوا وزیراعلیٰ ہمانتا بسوا شرما کے ایک بیان کے مطابق این آر سی کے حتمی مسودے سے خارج کیے گئے 16 لاکھ ناموں میں سے سات لاکھ مسلمان تھے۔ انہوں نے کہا کہ فہرست میں پانچ لاکھ بنگالی ہندو، دو لاکھ آسامی ہندو (ذات اکسومیا اور کوچ-راجبونگشی) اور ڈیڑھ لاکھ گورکھے ہیں۔ اسکرول کے مطابق، اس نے یہ نہیں بتایا کہ باقی 3.5 لاکھ افراد کون تھے۔

حقوق انسانی کی تنظیموں نے سی اے اے کو ہندوستانی آئین بر گہری ضرب قرار دیا ہے۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل ہندوستان کے چیئر آف بورڈ آکار پٹیل نے اسے ایسا: ’متعصبانہ‘ قانون قرار دیا ہے ’جو مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو جائز قرار دیتا ہے اور جسے بنایا ہی نہیں جانا چاہئے تھا۔‘

یہ متعصبانہ قانون 2019 میں لایا گیا تھا مگر دہلی کے شاہین باغ میں مسلمان خواتین کے پر امن اور کامیاب دھرنے کے پیش نظراس وقت اسے نافذ نہیں کیا گیا۔  شاہین باغ کا یہ احتجاج پندرہ دسمبر 2019 سے 24 مارچ تک جاری رہا۔ شاہین باغ کی دلیر خواتین سے ترغیب لیتے ہوئے ہندوستان بھر کے 210 مقامات پر ایسے ہی دھرنے شروع ہوگئے۔ ان میں بنگلور(کرناٹک)، ممبئی (مہاراشٹر)، مالیرکوٹلہ (پنجاب)، رانچی (جھارکھنڈ)، لکھنؤ، کانپوراور دیوبند (اترپردیش) شامل ہیں۔  دہلی کے احتجاج کی مناسبت سے خواتین کے ان مظاہروں کو بھی ’شاہین باغ‘ کے ہی نام سے موسوم کیا گیا۔

اچانک نمودارہونے والے مسلمان خواتین کے شروع کئے گئے یہ مظاہرے اتنے منظم اور پر امن تھے کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنے بغیر نہ رہ سکے جس سے حکومت کی سبکی ہونے لگی۔ انہیں روکنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد ہندوتوا حکومت کے ایجنٹوں، اس فسطائی سوچ  کی لابی کرنے والوں، سوشل میڈیا  ٹرولوں اور اس کے ہمنوا ذرائع ابلاغ، جسے عرف عام میں گودی میڈیا کہا جاتا ہے، نے احتجاج میں شامل افراد کے خلاف نہایت پراگندہ مہم شروع کردی۔  مگر انہیں  دلیر مسلم خواتین کی ہمت شکنی میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جس   کے بعد مکروہ اذہان نے شمال مشرقی دہلی میں مسلم کش فساد برپا کروادیا۔ اس فساد میں 53 ہلاکتیں ہوئیں، 581 لوگ زخمی ہوئےاور کروڑوں روپئے کی املاک تباہ و برباد کردی گئیں،جان و مال کا زیادہ نقصان مسلمانوں ہی کا ہوا۔

زیر تبصرہ دو کتابیں شاہین باغ تحریک کی مرتب تاریخ میں قیمتی اضافہ ہیں۔ ’سی اے اے، این آر سی اور شاہین باغ’ دارالعلوم دیوبند کے نوجوان طالب علم مولانا عبدالرحمٰن قسمی صاب، جو ’نگارشات ڈاٹ کام‘ نام کے پورٹل کے مدیر بھی ہیں، نے مرتب کی ہے جبکہ ‘Shaheen Bagh: From “Anti-National” to Nation Savior’ صحافی اور ’اوکھلا ٹائمز ڈاٹ کام‘ کے مدیر اسد کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

عبدالرحمٰن قاسمی نے اس مظاہرے، جسے انہوں نے بجا طورپر ’تحریک‘ کا نام دیا ہے، کے تمام زاویوں اور پہلوؤں کو یکجا کیا ہے۔ ان کی کتاب میں ہندوستان کے دو معروف صحافیوں، ڈاکٹر ظفرالاسلام خان، ایڈیٹر ’ملی گزٹ‘ اور سابق چیئرمین دہلی اقلیتی کمیشن، ودود ساجد ، ایڈیٹر روزنامہ ’انقلاب‘ اور محمد نوشاد نوری قاسمی ، استاذ دارالعلوم وقف دیوبند، کے تحریر کردہ تعارف شامل ہیں۔

عبدالرحمٰن قاسمی صاحب نے کتاب کا انتساب ’سی اے اے اور این آر سی مظاہرہ کے نوجوانوں‘، ’پس دیوارزنداں جانباز جیالوں‘، اور’شاہین باغ تحریک کی شاہین صفت خواتین کے نام‘ کرتے ہوئے سی اے اے اور این آر سی کی تفصیلات، اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں، مسلمانوں کے تئیں حکومت کا غیرمنصفانہ رویہ  اور خواتین شرکاء کے خلاف گودی میڈیا کی ناشائستہ مہم سمیت اس تحریک کا نہایت جامع انداز میں احاطہ کیا ہے۔

 شاید یہ اپنے انداز کی واحد کتاب ہے جس میں عام طورپر دنیا داری سے ناوقف دبّو قسم کی مسلمان خواتین کی ہمت، تدبراور ملی جذبے کے ساتھ چلائی گئی خالصتاً خواتین تحریک پرروشنی ڈالی گئی ہے جنہوں نے ثابت کردیا کہ ضرورت پڑے تو مسلم خواتین بڑی سے بڑی دشواری کے سامنے  سینہ سپر ہونے کی جرت رکھتی ہیں۔

عبد الرحما ن قاسمی نے تحریک کے مرد اور خواتین شرکاء کے معاشرتی اور تعلیمی پس منظر کے ساتھ ان کا مختصر تعارف بھی کتاب میں شامل کیا ہے جنہیں  دہشت گردی اوربغاوت جیسے الزامات لگا کر جیلوں میں ڈال دیا گیا جن میں بہت سے ابھی تک جیلوں میں بند ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان شرکاء میں سے کسی کا مجرمانہ سرگرمیوں میں حصہ لینا تودرکنار، ان کی اکثریت کا شاندار تعلیمی ریکارڈ ہے۔

یہ انوکھا احتجاج 101 دن چلا جس میں ہر عمر کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین سے لے کر ان عورتوں  تک نے شرکت کی جن کی زندگیاں گھر گھرستی سنبھالنے میں گزری تھیں۔ یہ دلیر خواتین کھلے آسمان تلے دن اور رات بارش اور دسمبر کی سخت سردی جھیلتی رہیں مگر اپنے موقف پر قائم رہیں۔ مگر کرونا وبا کے بعد یہ کامیاب اور پرامن احتجاج منسوخ کرنا پڑا جبکہ شرکاء کے عزم کا عالم یہ تھا، جیسا کہ ’دی وائر‘ نے ایک خاتون کو نقل کرتے ہوئے لکھا: ’ہمیں معلوم ہے کہ کرونا وبا جان لیوا مرض ہے مگر ہمارے لئے سی اےاے، این پی آر اور این آر سی اسی طرح مہلک ہیں۔‘

یوں تو ہندوستانی ذرائع ابلاغ کا رویہ مسلمانوں کے تئیں ہے ہی مخاصمانہ، مگر شاہین باغ کے احتجاج نے تو اسے مسلمانوں کے خلاف اپنی بڑھاس نکالنے اور انہیں ’غیر سماجی‘، ’قومی مفادات کے خلاف کام کرنے والے‘ اور پاکستانی ایجنٹ ہونے کا ایک اور موقع فراہم کردیا تھا۔ کہتے ہیں کہ قدرتی آفات میں جنگل کے جانور بھی ایک دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ مگر یہاں تو  اعلیٰ  تعلیم یافتہ اور ذمہ دارصحافی ہونے کے دعویداروں نے بے حسی اور گراوٹ میں جانوروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ اس کا ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد الزامات اور ذہر اگلنے کی اپنی روش پرقائم رہا۔

مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے ’کرونا جہاد‘ اور ’تھوک جہاد‘ جیسی اصطلاحات ایجاد کی گئیں جن کے ذریعے یہ تاثر عام کیا گیا کہ مسلمان کرونا پھیلانے کی مہم میں سرگرم عمل ہیں یہاں تک کہ مسلمان سبزی فروش پھل اور سبزیاں تھوک تھوک کر فروخت کر رہے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود ہوا کہ مسلمان بلا تفریق مذہب و ملت کرونا متاثرین کی مدد اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کر رہے تھے۔ بہت سے واقعات میں تو انہوں نے ان ہندوؤں کی آخری رسومات تک ادا کیں جن کی میتوں کو ان کے اپنے لواحقین چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ اسد کی کتاب Shaheen Bagh: From ‘Anti-National’ to Nation Saviour’ایسے ہی واقعات پر مبنی ہے۔

کتاب میں انہوں نے بہادر مسلمان نوجوانوں کی بے لوث کہانیوں کو یکجا کیا ہے جنہوں نے ضرورتمند وں کی ہرطرح کی مدد کی جو قارئین کے لئے باعث  ترغیب اور باعث تقلید  ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ایک پینسٹھ سالہ عربی ٹیچر محمد صغیر عباسی، جو ’سدھار ٹرسٹ‘ نامی غیرسرکاری تنظیم بھی جلاتے ہیں اور بہت سے کرونا متاثرین اور ان کے اعزہ کی مدد کررہے تھے، کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مغربی بنگال کے ایک شخص سدھیر کی والدہ کی موت ہوگئی۔ وطن سے دور دہلی جیسی جگہ میں وہ بے یارو مدد گار تھا۔ عباسی نے ان  سے کہا: ’پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم تمہاری ہرممکن مدد کریں گے۔ جیسی تمہاری ماں ویسی میری ماں‘۔ اور پھر سدھیر کی رہنمائی میں عباسی نے آخری رسومات کا سامان بھی خریدا اوراوکھلا کے شمشان میں سدھیر کے ساتھ اس کی آنجہانی والدہ کی آخری رسومات بھی ادا کروائیں۔ عباسی کے بقول: ’ضروری اشیاخریدنے سے لے کر ہولی فیلی ہسپتال سے شمشان  گھاٹ لیجانے تک تمام کام ہماری ٹیم نے انجام دیا۔‘

خوف اور افراتفری کے اس ماحول میں مسلمانوں کے ایسے کارناموں کے واقعات ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر مستقل آرہے تھے۔ مگر وقت گزرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کے احسان اور خدمات کو بھلادیا گیا اور میڈیا مسلم مخالف زہرافشانی کی اپنی روایتی روش پر واپس آگیا ہے جس کے قارئین اور ناظرین نے بے بنیاد واقعات پر یقین کرنا بھی شروع کردیا ہے۔

اسد مبارک باد  کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اپنی کتاب میں  مسلمانوں کی ایک اہم اور پر امن تحریک اوراس کے بعد کرونا وبا میں مسلمانوں کی خدمات کی تاریخ کو محفوظ کردیا ہے۔ امید ہے کہ ان کی کتاب انصاف پسند لوگوں کو مسلمانوں کی وہ خوبصورت اوراصلی شبیہ دیکھنے میں مدد دیں گی جو میڈیا کے بد دیانت پروپیگنڈے کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.