برطانیہ کی حقوق انسانی کی تنظیم کا ہندوستان میں ہجومی تشدد کے خلاف دوسرا مظاہرہ؛ برطانیہ میں ہجومی تشدد کے واقعات پر بے چینی

محمد غزالی خاان

لندن:برطانیہ کی حقوق انسانی کی تنظیم ساؤتھ ایشیا سالیڈارٹی گروپ (ایس اے ایس جی) نے ہندوستان میں اقلیتوں اور دلتوں پر ہجومی تشدد کے واقعات کے خلاف بیداری مہم کے سلسلے کا دوسرا احتجاج برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے مہاتما گاندھی کے مجسمے کے سامنے اتوار کے روز کیا۔

مظاہرین نے ہجومی تشدد کے شکار مقتولین کی بڑی بڑی تصاویر ہاتھوں میں اٹھا رکھی تھیں اور وہ ہندوتوا، برادری واد اور برہمن واد کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔مظاہرے میں دیگر تنظیموں اور عام شہریوں نے بھی شرکت کی جس میں آسام کے ۔’’میا ‘‘ شعرا کی نظمیں بھی پڑھی گئیں جنہیں صرف نظمیں لکھنے کی پاداش میں ایف آئی آرز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک پلے کارڈ جس پر لکھا تھا، ’’آئین کا دفاع کرو ؛ مودی کی ہندو فسطائیت کا مقابلہ کرو‘‘ مہاتما گاندھی کے مجسمے کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا۔

ایس اے ایس جی کی ایک ترجمان نے کہا: ’’ہندوستان میں عام انتخابات کے نتائج کے بعداقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں، کے خلاف تشدد کے واقعات میں تیزی آگئی ہے۔ جو خطرناک حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ اب تو مسلمانوں کے خلاف تشدد کیلئے کسی بہانے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ جے سری رام اور دیگر مذہبی نعرے قتل اور خون خرابے کی دعوت عام میں بدل گئے ہیں۔ دلتوں پر حملے، زنا بالجبر اور قتل کے واقعات کی تعداد آسمان کو چھونے لگی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وکلا، صحافیوں اور سماجی کارکنوں پر حملے جاری ہیں، انہیں قتل کیا جا رہا ہے یا وحشیانہ قوانین کے تحت ان پر مقدمے عائد کئے جا رہے ہیں، اور ہندوستان میں ہٹلر کو قدر کو نظر سے دیکھنے والے برسر اقتدار ہیں۔ ہم یہاں پر مودی اورامت شاہ کو یہ پیغام دینے کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں کہ دنیا ان کی حرکتوں کو دیکھ رہی ہے اور یہ کہ ہم ہندوستان میں فسطائیت کا جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔‘‘

مظاہرے میں 23 مئی کو عام انتخابات کے نتائج آنے سے لے کر اب تک ہونے والے حملوں کی تفصیلات پڑھ کر سنائی گئیں جس میں کہا گیا ہے کہ: ’’اب جبکہ بی جے پی کی جڑیں ملک کے طول و عرض میں پھیل چکی ہیں کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اقلیتوں کیلئے (مذہبی، ذات پات ، صنف یا کسی اور اعتبار سے) یہ مشکل وقت ہے۔ جب سے یہ جماعت دوبارہ بر سر اقتدار آئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک منافرت کی بنیاد پر ہونے والے حملوں کو نزدیک سے دیکھنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ مسئلہ ہر جگہ موجود ہے ، اس میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہر جگہ یہ اپنی جڑیں گہری سے گہری تر کرتا چلا جا رہا ہے۔

’’بے یار و مددگار مسلمانوں پر حملوں اور انہیں ہندو مذہبی نعرے (وہی نعرے جو بی جے پی کے ارکا ن پارلیمنٹ مسلمان اور دیگر سیکولر ارکان کو دیکھ کر پارلیمنٹ میں لگاتے ہیں) لگانے کیلئے مجبور کئے جانے کی کہانیاں اتنی زیادہ ہیں کہ ان سب کا یہاں ذکر کرنا مشکل ہے۔ ان واقعات کا ارتکاب کرنے والے عام طور پر انتہا پسند ہندو ہیں جو براہ راست سنگھ پریوار کی مشینری سے منسلک ہیں۔ بہت سے کیسز میں انہیں ان جرائم کی کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے اور بعض اوقات مقامی پولیس اور انتظامیہ ان کی مدد کرتی ہے۔ کبھی کبھی تو کار روائی خود متاثرین کے ہی خلاف ہوتی ہے جبکہ مجرموں کو دندناتے گھومتے پھرنے کیلئے چھوڑدیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں شدت پسند ہندوتوا اب کو ئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے بلکہ کھلی حقیقت بن چکا ہے۔ہندوستان کی سب سے کمزور اقلیتوں کیلئے ہندو راشٹرا قائم ہو چکا ہے۔‘‘

مظاہرے میں ہندوتوا کی بھینٹ چڑھائے جانے والے شہدا کے نام پڑھ کر سنائے گئے جس کے بعد کچھ مظاہرین نے مودی کے ماسک پہن کر علامتی خون سے اپنے ہاتھ لال کر کے ہوا میں لہرائے اور ’’مودی ، مودی تم چھپ نہیں سکتے تم نے نسل کشی کی ہے‘‘؛ ’’مودی تمہارے ہاتھوں پر خون ہے‘‘ اور ’’مودی ہم تمہارے جرائم سے واقف ہیں۔‘‘ کے نعرے لگائے۔

ہندوستان میں تیزی سے پھیلتی ہوئی فرقہ واریت سے برطانیہ کے ہندی نژاد شہریوں میں کافی بے چینی ہے۔ اس ماہ کسی گمنام گروہ نے عالمی ورلڈ کپ کے دوران لندن میں لاردز کرکٹ گراؤنڈ کے اطراف میں ایک الیکٹرانک اشتہاری گاڑی سے گشت کروایا جس پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا End Mob lynching (ہجومی تشدد بن کرہ) اور Save Minorities in India (ہندوستان میں اقلیتوں کو بچاؤ)

اس ماہ کے شرو ع میں لیبر پارٹی کے سینئر رکن پارلیمنٹ جوناتھن ایشورتھ ،جن کے حلقہ انتخاب لیسٹر ساؤتھ میں ہندوستانیوں کی بڑی آبادی ہے، نے وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ کو ایک خط لکھ کر ان سے بتایا ہے کہ، ’’میرے حلقہ انتخاب میں بسنے والے مسلمانوں نے مجھ سے رابطہ کیا ہے اور ہندوستان میں مسلمانوں پر جاری حملوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔‘‘

انھوں نے مزیل لکھا ہے ، ’’ہندوستان میں صوتحال نہایت تشویشناک ہے۔ وہاں سے مذہبی بنیاد پر کئے جانے والے قتل، حملوں، فسادات، امتیاز، غارت گیری اور مذہب پر عمل کرنے پر پابندی کی خبریں آرہی ہیں۔ میرے حلقے کے لوگوں کو تشویش ہے کہ حکومت ہند مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کو روکنے کیلئے خاطر خواہ اقدام نہیں کر رہی ہے۔‘‘

دریں اثنا ایک دوسرے گروپ نے پولیس افسرسنجیو بھٹ کو انصاف دلانے کی مہم شروع کی ہے اور اس سلسلے میں ایک ویب سائٹ http://www.justiceforsanjivbhatt.org.uk بھی لانچ کیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.