محمد غزالی خان
ہندوستان میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا یونین ہال میں لگی محمد علی جناح کی تصویر کو لے کر حکمراں جماعت کے ایک رکن پارلیمنٹ کی اس مانگ کے بعدکہ ایک ملک دشمن کی تصویر وہاں سے ہٹا ئی جائے، ٹیلی ویژن، اخبارات اور سوشل میڈیا پر تقسیم ہند اور اس میں جناح کے کردار سے متعلق بحث جاری ہے۔
یاد رہے کہ 2 مئی کو انتہا پسند ہندو تنظیموں کے مسلح کارکنان نے یونیورسٹی میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی جنہیں طلبا اور یونیورسٹی کے حفاظتی عملے نے روک دیا تھا اور ان میں سے کئی کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا تھا جنہیں بعد میں بغیر کسی قانونی کارروائی کے رہا کر دیا گیا تھا۔ اگلے روز جب طلبا جلوس کی شکل میں پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کروانے جا رہے تھے تو پولیس نے ان پر لاٹھیوں سے حملہ کیا جس کی وجہ سے کئی طالب علم شدید زخمی ہو گئے تھے۔
ہندوؤں کی نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے اس مقامی رکن پارلیمنٹ ، جو محض ہائی اسکول پاس ہے، کے کھڑے کئے گئے اس شر میں خیر کا ایک پہلو یہ نکلا ہے کہ جس ملک میں آج تک تقسیم کا تمامتر الزام مسلمانوں پرتھونپا جاتا رہا ہے وہاں تقسیم کے اصل کرداروں یعنی گاندھی، نہرو اور پٹیل پر کھل کر بحث ہو رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ خود آر ایس ایس کے بانیوں کی غداری اور انگریزوں کے ساتھ ان کی ساز باز کھول کھول کر بیان کی جارہی ہے۔ اللہ کرے اس سے مزید خیر پیدا ہو اور اللہ کرے وہ نسل جس کا اُس وقت کی سیاست یا اُس فیصلے سے دور دور کا تعلق نہیں مگر اسے آج بھی غداری کا الزام برداشت کرنا پڑ رہا ہے ، اس موقع سے فائدہ اٹھائے ، خود اپنے آپ کو حقیقت سے آشنا کرے اور ان میں الزام لگانے والوں کو منہ توڑ جواب دینے کی ہمت پیداہو۔ بہرحال یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ طلبا یونین ہال کے ایک کونے میں لگی جناح کی تصویر محض ایک بہانہ ہے اور اصل مقصد ملک میں فرقہ وارانہ نفرت میں مزید اضافہ کر کے سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔
یہ سطور لکھے جانے تک طلبائے علیگڑھ کا دھرنا جاری ہے اور وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ یونیورسٹی پر حملہ کرنے والے انتہا پسند ہندوؤں کے خلاف قانوی کر روائی کی جائے۔ انھوں نے جناح کی تصویر یونین ہال سے ہٹانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا ہے کہ یہ تصویر ان کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے اور اگر حکومت وقت چاہتی ہے کہ یہ تصویر وہاں سے ہٹائی جائے تو باضابطہ طور پر قانو ن منظور کرے کہ جناح کی تصویر لگانا غیرقانونی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جناح کی تصویر ہندوستانی پارلیمنٹ اور ممبئی ہائی کورٹ سمیت کئی مقامات پر لگی ہوئی ہے۔
محمد علی جناح کی یہ تصویرطلبا یونین ہال میں 1938 سے ان تمام بڑی شخصیات کی تصاویر کی طرح لگی ہوئی ہے جو وہاں آچکی ہیں اور جنہیںیونین کی روایت کے مطابق تاحیات رکنیت دی گئی تھی۔ جس دن انتہا پسند ہندوؤں نے یہ ہنگامہ کیا اس دن تاحیات رکنیت یونیورسٹی کے پرانے طالب علم ، اس کے سابق وائس چانلر اور سابق نائب صدر جمہوریہ ہند حامد انصاری کو دی جانی تھی۔ حامد انصاری صاحب نے انتہا پسندوں کی سخت مذمت کی ہے۔ مذمت کرنے والوں میں جہاں سیاسی اور سماجی شخصیات شامل ہیں وہیں ہندوستان کے سابق ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف اور مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر لیفٹنٹ جنرل ضمیر الدین شاہ اور سابق پرو وائس چانسلر برگیڈےئر (ریٹائرڈ) سید احمد علی صاحب شامل ہیں جنہوں الگ الگ ویڈیو ریکارڈڈ بیانات میں انتہا پسندوں کی سخت مذمت کی ہے۔
جہاں تک جناح اور مسلمانوں پر تقسیم کی ذمہ داری کا سوال ہے 1970 اور 1983 میں خفیہ اور سرکاری دستاویزات (secret and official documents) کی اشاعت (Transfer of Power 1942۔47)، جو اس وقت تک لندن کی انڈیاآفس کی تحویل میں تھے، کے بعد ان واقعات کے نئے پہلوؤں کا انکشاف ہوتا ہے ۔ ان دستاویزات کی روشنی میں جو حقائق سامنے آتے ہیں ان کے مطابق گاندھی جی، پنڈت نہرو اور ولب بھائی پٹیل تقسیم کے اتنے ہی ذمہ دار تھے جتنا کہ محمد علی جناح۔ مولانا آزاد نے اپنی کتاب انڈیا ونز فری ڈم میں اس کی پوری تفصیلات دی ہیں۔ مولانا کے بقول (راقم الحروف کے پاس کتاب کا انگریزی نسخہ ہے لہٰذا یہاں پر ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے) ’’یہ بات ریکارڈ پر آجانا ضروری ہے کہ جو شخص ماؤنبیٹن کے منصوبے کا سب سے پہلے شکار ہوا وہ سردار پٹیل تھے۔شاید اس وقت تک پاکستان جناح کیلئے اپنی بات منوانے اور سودے بازی کا ایک بہانہ تھا۔ مگر پاکستان کی مانگ میں وہ حدود سے تجاوز کر گئے تھے۔ ان کی اس حرکت سے سردار پٹیل اس قدرعاجز آگئے تھے کہ اب وہ تقسیم پر یقین کرنے لگے تھے۔۔۔ویسے بھی ماؤن بیٹن کے آنے سے پہلے بھی وہ 50% تقسیم کے حق میں تھے۔ ان کا یقین تھا کہ وہ مسلم لیگ کے ساتھ کام نہیں کر سکیں گے۔ وہ یہ بات کھل کر کہہ چکے تھے کہ اگر مسلم لیگ سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے تو اس کیلئے انہیں تقسیم بھی قبول ہو گی۔ شاید یہ کہنا نا مناسب نہ ہو گا کہ ولب بھائی پٹیل ہی تقسیم کے اصل معمار تھے۔‘‘
یہ بھی عجیب ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر بتایا جاتا تھا۔ اور یہ خطاب کسی اور نے نہیں سروجنی نائیڈو نے دیا تھا۔ 1910 میں جناح نے منٹو مارلے ریفارم کے تحت مسلمانوں کیلئے علیحدہ الیکٹوریٹ کی مذت کی تھی باوجود اس کے کہ اس سے انہیں ذاتی طور پر فائدہ ہوا تھا۔ انھوں نے گاندھی جی کو مشورہ دیاتھا کہ خلافت تحریک کاساتھ دے کر وہ مسلمانوں میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ نہ دیں اور گاندھی جی پر الزام لگایا تھا کہ ایسا کرنے سے انھوں نے صرف ہندوؤں اور مسلمانون کے درمیان ہی نہیں بلکہ خود مسلمانوں اور حتیٰ کہ باپ بیٹے میں بلکہ ہر ادارے میں اختلافات اور تقسیم پیدا کردئیے ہیں۔‘‘
اس کا جواب گاندھی جی نے یہ دیا کہ (مولانا) محمد علی اورخود ان کیلئے خلافت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ محمد علی کے لئے یہ ایک مذہبی فریضہ ہے اور میرے لئے یہ اس لئے مذہبی فریضہ ہے کیونکہ ایساکرنے سے میں گائے کومسلمانوں کے چھوروں سے محفوظ کر سکتا ہوں۔ معروف صحافی مارک ٹیلی اور مینو مسانی نے نے اپنی کتاب From Raj to Rajiv, (BBC Books. London 1988) مینو مسانی، جو 1945 میں قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے، کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھوں نے بتایا ’’۔۔۔نہرو سمیت اکثر لوگ بے صبرے ہو گئے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ مسلمان یہاں سے جلد از جلد رخصت ہوں تاکہ وہ اپنے گھر کے خود مالک ہوں۔نہرو اور جناح کی ذاتی انا متحدہ جمہوری ہندوستان کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئی تھی۔
دیگر پہلوؤں کے علاوہ1947 میں پاکستان کے قیام کی سب سے بڑی ایک وجہ مسلمانوں کا یہ خوف تھا کہ ہندوؤں کی اکثریت میں وہ محفوظ نہیں رہیں گے۔ یہ خوف بلاوجہ نہیں تھا۔ مہاتما گاندھی کے پوتے اور معروف صحافی راج موہن گاندھی کے مطابق،’’1937 میں وزارتوں میں مسلمانوں کو منصفانہ حصہ نہ دے کر کانگریس نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔اس نے حقیقت سے نگاہیں چرا رکھی تھیں۔۔۔حقیقت سے منہ موڑنے کا یہ رویہ 1980 میں بھی موجود تھا۔ کانگریس میں موجود بہت سے ہندوؤں کو ایک شخص ایک ووٹ سے متعلق مسلمانوں کے خوف کاعلم ہی نہیں تھا۔۔۔ہندوستانی انداز بیان کے بجائے ہندو اصطلاحات کے استعمال نے علیحدگی پسندی کے رجحان کو تقویت پہنچائی۔‘‘ (Understanding the Muslim Mind, Penguin Books, Delhi, 1990 )
کانگریس میں موجود ہند و قومیت کے جارحانہ رویے اور عناصر کے تئیں راج موہن گاندھی نے کچھ لحاظ کا مظاہرہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محمد علی جناح کے اس جارحیت کو محسوس کرنے سے بہت پہلے 1924میں دوسرے محمد علی(جوہر) نے اس چیز کو بھانپ لیا تھا۔ مولانا ماجد دریابادی کے بقول،’’ہندو مسلم فسادات کو کوئی 21 ء اور 22 ء میں جانتا بھی نہ تھا۔ 24 ء میں اس کی وبا پوری طرح پھوٹ چکی تھی اور جیل جاتے وقت محمد علی ملک کی جو فضا چھوڑ گئے تھے، اب اس کے بر عکس تھی۔ بات بات پر بد گمانی اور بے اعتمادی۔ ایک طرف شدھی اور سنگھٹن کا زور، دوسری طرف اس کے جواب میں تبلیغ و تنظیم۔ بات شروع ہوئی سیاست سے اور پہنچ گئی دھرم اور ایمان تک۔ اب سب کو گاندھی جی کے چھوٹنے کا انتظار تھا، کہ دیکھئے مہاتما جی آکر اس زہر کا کیا تریاق پیش کرتے ہیں۔ گاندھی جی مارچ میں بالآخر چھوٹے، اور آخر مئی میں ان کا مفصل بیان ہندو مسلم اتحاد پر ان کے انگریزی ہفتہ وار ینگ انڈیا میں نکلا۔۔۔ کہیں سے ینگ انڈیا آیااور مولانا جو اس کے لئے ہمہ انتظار و اشتیاق تھے۔ جلدی جلدی اسے پڑھ گئے۔ مگر پڑھ کر کچھ زیادہ خوش نہیں ہوئے۔۔۔اتنا یاد پڑتا ہے کہ گاندھی جی کے بعض ہندو مشیروں اور مقربان خاص پر مولانا بہت بگڑے۔ ان لوگوں سے یوں بھی بہت زیادہ خوش نہیں رہا کرتے تھے۔ ہندو پبلک لیڈروں میں مولانا دل سے مداح و معترف صرف دو شخصوں کے تھے۔ ایک پنڈت جواہر لال (نہ کہ ان کے والد ماجد پنڈت موتی لال کے)دوسرے مدراسی صدر کانگریس سری نواس آئنگرکے۔ باقی اکثر کو تو وہ کم عقل یا غالی یا متشدد سمجھتے تھے۔ اور بعض کو تو کھلم کھلا بد دیانت و غیر مخلص۔‘‘ (محمد علی ذاتی ڈائری کے چند ورق، صدق فاؤنڈیشن، لکھنؤ)
6 نومبر 1930 کو لندن سے اپنی بیٹی کے نام ایک خط میں مولانا محمد علی جوہر نے لکھا،’’جو خبریں بعض امریکن اخبارات کے ذریعے ملیں ان سے امید ہوتی ہے کہ ہندوستان کا مطالبہ متفق ہو ’’خدا ہم چنیں کنند’’کامیابی ہر حالت میں سخت مشکل ہے۔ مگر اس کے بغیر نا ممکن ہے۔ خدا کرے مہا سبھائی ذہنیت سمندر پار جا کر بدل جائے اور ہندوستان والوں کو اپنی غلامی کا صحیح احساس ہو جائے اور ایک دوسرے کو غلام بنانے کے خیال کو چھوڑ کر سب دوسروں کی غلامی سے نکلنے کی کوشش کریں۔ خدا ہم ہندومسلمان دونوں کو توفیق دے کہ ایک دوسرے کے ساتھ انصاف اور رواداری کا برتاؤ کریں اور غلامی سے اتنے بیزار ہوں کہ نہ دوسروں کی غلامی قبول کریں اور نہ دوسروں کو غلام بتانے کی کوشش کریں۔ آمین ثم آمین۔‘‘ ((محمد علی ذاتی ڈائری کے چند ورق، صدق فاؤنڈیشن، لکھنؤ)
مورخہ 26 دسمبر 1930کو تحریر کردہ ایک دوسرے خط میں مولانا نے ایک طویل خط اس دعا پر ختم کیا،’’۔۔۔سارے ہندوستان کا ہندو مسلم مسئلہ ایک ہے، قومی ہے اور تاریخی ہے، صوبہ دار نہیں ہے۔ صرف اصول پر ہر جگہ طے ہو گا اور وہ اصول یہ ہے کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو پوری قوت مسلمانوں کو دو اور تسمہ ہنود کے لئے اس طرح رہنے دو یعنی Power of Majority خواہ 5 یا 6 کی ہو یا 45۔40 کی ہواور Protection of Minority خواہ 45 کی ہو یا 40 کی۔ غضب یہ ہو رہا ہے کہ سکھوں اور انگریزوں کے بہانے سے پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی مجارٹی کو مینارٹی کیا جا رہا ہے۔‘‘ (محمد علی ذاتی ڈائری کے چند ورق، صدق فاؤنڈیشن، لکھنؤ)
اُس وقت اندر ہی اندر پھیلائی گئی نفرتوں کا اندازا کروانے کیلئے مولانا کی لندن میں19 نومبر 1930 کو گول میز کانفرنس میں کی گئی شہرہ آفاق تقر یر ’’اگر تم مجھے آزادی نہیں دے سکتے تو دفن ہونے کیلئے یہاں قبر دینی ہو گی‘‘ کے اقتباسات پیش کرنا بے جانہ ہو گا۔ ’’جو مسئلہ ہم سب کو یہاں پر پریشان کر رہا ہے وہ ایک تیسرامسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ ہندو۔مسلمان کا مسئلہ ہے۔ مگر حیقیت یہ ہے کہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ہندو مسلم مسئلہ۔۔۔ہمارا اپنا پیدا کیا ہو اہے۔ مگر پوری طرح نہیں۔ پراتی مثل تو یہ ہے کہ ’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ مگر یہاں پر کام بانٹ لیا گیا ہے۔ ہم خود اپنے آپکو منقسم کرتے ہیں اور آپ حکومت کرتے ہیں۔ جس وقت ہم یہ طے کرلیں گے کہ ہمیں اپنے درمیان پھوٹ نہیں پیدا ہونے دینا ہے آپ ہم پر حکومت نہیں کر سکیں گے، جیسے کہ اس وقت کر رہے ہیں۔ ہم یہاں پر اس عزم کے ساتھ آئے ہیں کہ اپنے درمیان پھوٹ نہیں پڑنے دیں گے۔۔۔‘‘
ان تمام سے پہلے برہمنوں کے سازشی ذہن کو سرسید احمد خان نے 1867 میں بنارس میں قیام کے دوران محسوس کر لیا تھا اور یہ اس نتیجے پرپہنچنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ اب یہ دونوں قومیں ایک ساتھ نہیں رہ پائیں گی۔ اس کی وجہ انہوں نے ان لوگوں کے دلوں میں چھپی ہوئی نفرت کو بتایا تھاجو تعلیم یافتہ تھے اور کہا تھا کہ نفرتوں کی یہ محض ابتدا ہے ۔ مستقبل میں جو زندہ رہیں گے وہ دیکھ لیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 3 نومبر 2015 کو انڈین ایکسپریس نے ایک مضمون شائع کیا تھا جس میں آر ایس ایس کے ترجمان راٹر دھرما کے حوالے سے یہ بات کہی گئی تھی کہ سنگھ کے قائد دین دیال اپادھیائے ’’ہندو مسلم اتحاد کے مخالف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہندو مسلم اتحاد بے معنی چیز ہے اور مسلمانوں کی خوشامد کے مترادف ہے۔
البتہ تاریخ کے اس سانحے(پاکستانیوں سے معذرت کے ساتھ ہمارے لئے تقسیم بہت بڑا سانحہ ثابت ہوئی ہے) کا ایک پہلو جس پر ہندوستان اورپاکستان میں تقسیم کے ستر سال بعد بھی مسلسل بحث جاری ہے وہ یہ ہے کہ تقسیم سے مسلمانوں کو فائدہ ہوا ہے یا نقصان؟ اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ اس کی اصل قیمت مسلمانان ہند کو ہی ادا کرنی پڑی ہے اور اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کی اورکتنی نسلوں کوکب تک اور کتنی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ جہاں تک پاکستانی مسلمانوں کاتعلق ہے اس کے باوجود کہ وہ اس کے قیام کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے معجزہ اور انعام قرار دیتے ہیں، عملاً مستقل نا شکری میں مبتلا ہیں جس کی ابتدا اس ملک کے وجود میں آنے کے فوراً بعد ہی لسانیت، مذہب اور صوبائی عصبیت کی بنیاد پر ناانصافی کی شکل میں شروع ہوگئی تھی۔ جبکہ آپﷺ کی اتنی بڑی تنبیہ ہر دور اور ہر خطے کے مسلمانوں کیلئے موجود ہے کہ پرانی قومیں اسلئے تباہ ہوئیں کہ انہوں نے اپنے بڑوں اور چھوٹوں کیلئے الگ الگ اصول بنا رکھے تھے۔مملکت خدا داد میں جیسا مذاق اسلام کے ساتھ اس کے قیام سے لے کر آج تک کیا جاتا رہا ہے اور جس طرح کمزوروں کو کچلا گیا ہے اس پر کسی تبصرے کی گنجائش نہیں۔
اس سانحے کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ اس خطے کے مسلمانوں کیلئے یہ ویسی ہی آزمائش تھی جیسی قرون اوالیٰ کے مسلمانوں کیلئے جنگ جمل، جنگ صفین اور واقعہ کربلا۔ مگر کیا کیا جائے اس بد نصیبی کا کہ جس قوم کے پاس اللہ تعالیٰ کی کھلی ہدایت موجود ہو اور جس مذہب کی مقدس کتاب میں بار بار حالات اور تاریخی واقعات اور ان واقعات میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والی قوموں کی ہلاکت کی وجوحات پر غور کرنے کی ہدایت کی گئی ہو، اس کی اکثریت نے پچھلے واقعات سے کوئی سبق نہ لیا ۔ تقسیم کے بعد مسلمانان ہند کیلئے کانگریسی دور حکومت اپنی تمام تر خباثتوں کے باوجود شاید اللہ تعالیٰ کی جانب سے مہلت تھی۔ اس دوران ہمیں چاہئے تھا کہ اپنے گناہوں کیلئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے، آئندہ کی ہدایت کیلئے دعا مانگتے اور نئے حالات میں سر جوڑ کر بیٹھتے اور نئی حکمت عملی وضع کرنے پر غور کرتے۔ مگر افسوس صد افسوس تقسیم کے بعد جس طبقے کے ہاتھ میں قیادت آئی اس نے مسلمانوں سے اللہ کو چھوڑ کر کانگریس پر اندھا بھروسہ کرنے کی ترغیب دی۔ جب جب کچھ مخلص لوگوں نے سر جوڑ کر بیٹھنے اور کانگریس کی غلامی سے آزاد ہونے کی کوشش کی اس طبقے نے فوراً رخنہ پیدا کیا۔اس کی تفصیلات مضمون کو بہت طویل کردیں گی۔ لہٰذا اب مسئلے کے ایک اور پہلو پر بھی غور کر لیں۔
کیا ہم ایمانداری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس خطے میں آٹھ سو سالہ دور حکومت میں مسلمانوں کا وہ کردار رہا ہے جس کا مطالبہ اسلام اپنے ماننے والوں سے کرتاہے؟ اگر اسلامی تعلیمات پر عمل کر لیا ہوتا تو اس خطے میں مسلمان اقلیت میں نہیں اکثریت میں ہوتے اور تقسیم کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ ہو سکتا ہے بہت سے قارئین کو یہ خیالی باتیں لگیں۔مگر ذرا انڈونیشیا اور ملیشیا کی مثال سامنے رکھیں کہ جہاں کبھی کوئی اسلامی فوج نہیں گئی وہ پورا علاقہ آج مسلم اکثریتی علاقہ ہے تو بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی۔ جو نفرت اور بدگمانی برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پھیلی ہوئی ہے اس کا موازنہ آپ اس چھوٹے سے واقعے سے کیجئے جو میں سنانے جا رہا ہوں۔تقریباً تین سال قبل اپنی اہلیہ ، بچوں اور کچھ عزیزوں کے ساتھ بڑے بیٹے کی شادی کیلئے میرا انڈونیشیا جانا ہوا۔جکارتہ میں شادی کے بعد ہم سب بالی گئے جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے ایک تفریحی جزیرہ ہے۔ یہ بھاری اکثریتی ہندو علاقہ ہے۔ ایر پورٹ پر اترتے ہی طرز تعمیر سے آپ کو اس کے ہندو ہونے کا احساس ہو جاتا ہے۔ ایک دن میں اور اہلیہ ہوٹل پر ہی رک گئے اور بچے گھومنے کیلئے چلے گئے ۔واپس آنے کے بعد انھوں نے بتایا کہ مغرب کا وقت ہو چکا تھا لہٰذا ایک جگہ لان میں انھوں نے جماعت کرنے کی غرض سے صف بنالی۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ خوبصورت لان مندر کا ہے اور پیچھے والی عمارت ایک مندرہے کہ انہیں کسی کے چیخنے کی آواز آئی۔بہو نے ترجمہ کر کے بتایا کہ پنڈت جی نماز شروع نہ کرنے اور انتظار کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ پنڈت ہاتھ میں ایک جا نماز لئے دوڑتا ہوا نکے پاس آیا اور ان کی جانب بڑھا دی۔ یہ جذبہ کسی میں زبر دستی سے نہیں بلکہ صرف اور صرف حسن اخلاق سے پیدا ہو سکتا ہے اور یہ چھوٹا سا واقعہ اس حسن اخلاق کی عکاسی کرتا ہے جو مسلمانوں نے غیر مسلموں کے تئیں اختیار کیا ہوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جیسا کہ ہم خبروں میں بھی پڑھتے رہتے ہیں اور سمدھانے والوں نے بھی بتایا تھا کہ القاعدہ اور داعش نام کا موذی مرض وہاں بھی پہنچ چکا ہے اور ماحول کر خراب کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔
بر صغیر کی ایک ہزار سال کی تاریخ، تقسیم کیلئے پیدا ہونے والے حالات اور بل آخر تقسیم کے نتیجے میں پورے خطے کے مسلمانوں کی حالت پر غور کیجئے تو یہی محسوس ہو گا کہ تقسیم اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک آزمائش تھی۔ جس طرح وہ کسی کو غریب بنا کر کسی کو صاحب ثروت بناکر، کسی کو معذور اور کسی کو طاقتور بنا کر آزماتا ہے اسی طرح اس نے مسلمانان ہند کو اقلیت بنا کر اور پاکستانیوں کو ایک ملک دے کر آزما یا تھا اور اس آزمائش میں دونوں ہی بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ اور اس میں پاکستانیوں کی زیادہ بڑی ناکامی ہے جن کو اُن کے اپنے دعوے کے مطابق کہ یہ ملک اسلام کی تجربہ گاہ کے طورپر بنایاگیا تھا انہیں یہاں پر ثابت کرنا چاہئے تھا کہ اسلامی عدل و مساوات اور سچا دین کیا ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس انھوں نے خطے میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پھیلی ہوئی نفرت کو مزید پھیلانے میں جلتی آگ میں تیل ڈالنے کا کام کیا ہے۔