محمد غزالی خان
’’خان صاحب ابھی تم اس جگہ گئے نہیں ہو تمہیں اندازہ نہیں کہ اس جگہ میں کیسی کشش ہے‘‘ یہ ایک بہت ہی نزدیکی دوست کے وہ جملے ہیں جو اس نے تقریباً 18 یا 19 سال پہلے اس وقت کہے تھے جب میں اسے چوتھے یا پانچویں حج پر نہ جانے کی ترغیب یہ کہہ کردے رہا تھا کہ حج ایک مرتبہ فرض ہے اور کیونکہ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ حجاج کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لہٰذا جو لوگ حج کر چکے ہیں انہیں وہاں بار بار جاکر اس تعداد میں اضافہ نہیں کرنا چاہئے۔ نہایت مخیر اور نیک کاموں میں خاموشی کے ساتھ حصہ لنے والے ایک ایسے شخص کو جس کی شاید اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بھی قبول کر رکھی ہے کہ ’’ اللہ تو جسے بھی صاحب ثروت بنائے اسے دل بھی بڑا دے ‘‘ میں یہ مشورہ بھی نہیں دے سکتا تھا کہ وہ حج پر آنے والے اخراجات کسی اور نیک کام پر خرچ کردے۔
2013 میں باری تعالیٰ کے در بار سے بلاوا آگیا اور اہلیہ اور بڑ ے بیٹے حمزہ کے ہمراہ اس سعادت کے لئے روانہ ہوا تو والدین اور بہت ہی قریبی دوستوں کے علاوہ کسی سے اس کا ذکر نہ کیا۔ کیونکہ میں سمجھتا تھا، اور یہی اب بھی سمجھتا ہوں، کہ دوسری عبادات کی طرح حج بھی خاموشی کے ساتھ کیا جانا چاہئے۔ مگر واپسی پر کچھ اس خیال سے کہ شاید میرے تجربے سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ جائے اور کچھ اپنی کیفیت دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شئیر کرنے کی غرض سے ایک مضمون لکھا تھا ۔ مگر اس حرکت کے ریا کاری کے زمرے میں آجانے کے خدشے کے سبب اشاعت کیلئے نہیں بھیجا ۔ آج جب دوسرے لوگوں کو اس عظیم سعادت پر جاتے دیکھ رہا ہوں اور دل سے دعا کر رہا ہوں کہ اللہ ہر مسلمان کا حج قبول فرما اور وہاں کی جانے والی دعاؤں کو شرف قبولیت عطا فرما، اُس سفر کا ایک ایک منظر نگاہوں کے سامنے گھوم رہا ہے ۔ ایک عجیب سی کیفیت طاری ہے اور دل چاہ رہا ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ روانہ ہو جاؤں، رہ رہ کر اپنے عزیز دوست کے الفاظ کانوں میں گونج رہے ہیں ’’ خان صاحب ابھی تم اس جگہ گئے نہیں ہو تمہیں اندازہ نہیں کہ اس جگہ میں کیسی کشش ہے ‘‘۔ اور یہی وہ کیفیت ہے جو تین سال قبل لکھے گئے اس مضمون کو اشاعت کیلئے بھیجنے پر مجبور کر رہی ہے:
کوئی بھی عبادت اللہ کی رضا کیلئے اور خالق حقیقی کی بارگاہ میں بندے کی عبودیت کا اظہار ہوتی ہے۔ لہٰذا سفر حج پر جانے والوں اور اس سعادت کے بعد واپس آنے والوں کیلئے کئے جانے والے جشن نما اہتمام اور دعوتوں کا فلسفہ سمجھنے سے میں ہمیشہ ہی قاصر رہا ہوں۔ ہر ایک مسلمان کی طرح حج بیت اللہ کا ارمان ہمیشہ دل میں رہا مگر ، غلط یا صحیح، ہمیشہ یہ خیال بھی دل میں رہا کہ جب کبھی اللہ تعالیٰ اس سعادت سے نوازے گا تو خاموشی کے ساتھ اس کی بارگا ہ میں حاضر ہوں گا اور اپنے گناہ معاف کرواکر واپس آجاؤں گا۔ حاجی سے دعا کی درخواست کا پہلے بھی قائل تھا اور آج بھی ہوں۔مگر اپنے معاملے میں یہ سوچتا رہا کہ جب ایک مسلمان کی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کیلئے دعا کے قبول ہونے کی بشارت اللہ کے چہیتے رسول ﷺ نے دیدی تو پھر اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ کوئی مجھ سے دعا کے لئے کہے۔ مزا تو تب ہے کہ یاد دہانی کے بغیر میں اپنے دوست احباب کو دعاؤں میں یا د رکھوں۔
اس بڑی سعادت کی اپنی خواہش اور اہلیہ کے جنون کی حد تک حج کے شوق کے باوجود کبھی اپنی کم ہمتی اور کبھی حقیقی مجبوریوں کی وجہ سے اپنی خواہش کو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا سکا اور نہ ہی کسی سے اس کا اظہار ہی کیا۔ یہاں تک کے کہ اہلیہ کو یہ گمان ہونے لگا کہ حج پر جانے کی نہ میری نیت ہے اور نہ خواہش۔ اس سال اہلیہ ، 25 سالہ بیٹے حمزہ خان، اور خوش دامن کے دباؤ کو خالق حقیقی کی جانب سے حاضری کی دعوت سے تعبیر دیتے ہوئے لبیک کہدیا مگر ویزا اور ٹکٹ ہاتھ میں آجانے تک کسی سے اس کا ذکر تک نہ کیا۔ عملی صحافت میں میرے استاد اور والد کی طرح محترم ، امپیکٹ انٹرنیشنل کے مدیر حاشر فاروقی صاحب کا خیال تھا کہ بتادینے سے دوسروں کو ترغیب ہوتی ہے۔ اس کا تجربہ مجھے اس وقت ہوا جب میں نے اپنے قصد حج کے بارے میں اپنے نہایت ہی مہربان اور مخلص دوست اور سینئر صحافی جلیل احمد خان سے کیا۔ مبارکباد اور دعائیں دینے کے بعد انھوں نے کہا، ’’ اگر تم مجھ سے ذکر کر دیتے تو میں ساتھ چلتا ‘‘ ۔ اس وقت اپنی حماقت پر شرمندگی بھی ہوئی اور تکلیف بھی۔ بس اپنے تجربات اور مشاہدات پر مبنی اس مضمون کے ذریعہ اپنی غلطی کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ شاید کسی پڑھنے والے کو اس سے ترغیب ملے۔
پہلی اکتوبر کو ہیتھرو ائیر پورٹ سے اہلیہ اور بیٹے حمزہ خان کے ساتھ مدینہ منورہ کیلئے براہ راست سعودی ایئر لائن کے طیارے میں روانگی ایک خواب سا معلوم ہوتی تھی ۔ مدینہ ایئر پورٹ سے باہر نکلتے ہی ٹریول ایکسپریس، کمپنی جس کے ساتھ ہم سفر حج کیلئے نکلے تھے، کے ایک کارکن کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ welcome to the city of the Prhpet (PBUH)” ” ( شہر نبیِ ﷺ میں خوش آمدید ) سن کر عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی۔ ’’ کیا ہم واقعی شہر نبی میں ہیں؟ ‘‘ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا اور درود کا ورد شروع کردیا۔
شہر میں داخل ہوتے ہی حاجیوں کے غول کے غول سڑکوں پر چلتے نظر آئے اور کچھ ہی دیر بعد ہمیں ہمارے ہوٹل پر اتار دیا گیا۔ ہوٹل میں داخل ہوتے ہی ایک اشاریے پر نظر پڑی جس پر لکھا تھا ” way to Prophet’s Mosque ” ۔ دل چاہا کہ بس اس راستے پر نکل پڑوں۔ مگر ابھی کمرے کی چابی لے کر سامان وہاں چھوڑنا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد فجر کی اذان کی آواز آئی۔ اس وقت تک بھی ہمیں یہ اندازا نہ تھا کہ یہ اذان مسجد نبوی سے آ رہی ہے جو ہوٹل کے بالکل برابر میں ہے۔ بس لفٹ میں داخل ہو کر دوسرے لوگوں کے پیچھے پیچھے چلنا شروع کردیا ۔ ہوٹل سے باہر نکلتے ہی سامنے مسجد نبوی کا صحن روشنیوں سے منور تھا۔ بھیڑ اتنی تھی کہ ہمیں نماز سڑک پر ادا کرنی پڑی۔ روضۂ مبارک پر حاضری کا شوق مجبور کر رہا تھا کہ بھیڑ کو چیرتے ہوئے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا لیں۔ مگر یہ ادب کا اعلیٰ ترین مقام ہے جہاں کسی انسان کو تکلیف پہنچانا تو درکنار ایک چیونٹی کو مارنا بھی گناہ ہے ۔ ظہر ، اثر ، مغرب اور عشاء میں نمازیں تو مسجد میں ادا کرنے کی سعادت نصیب ہو گئی مگر روضہ مبارک تک پہنچنا اور روضتہ الجنہ پر دو نفلوں کی ادائیگی ممکن نظر نہیں آتی تھی۔ عشاء کے بعد مسجد کے صحن میں کھڑے ہم سوچ رہے تھے کہ کون سا وقت مناسب ہوگا جب ہم سے کسی کو تھوڑی سی بھی تکلیف نہ ہو، کہ ایک جانب سے ایک بنگلہ دیشی جو وہاں پر گزشتہ آٹھ سال سے صفائی کا کام کر رہا ہے ، نمودار ہوا اور اس نے بتایا کہ عشاء کی نماز کے تقریباً دو یا ڈھائی گھنٹے بعد دونوں کام آسانی کے ساتھ کیے جاسکتے ہیں ۔ اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے بغیر کسی پریشانی کے ممبر نبویﷺ کے پاس پہنچ کر ہم نے اطمینان کے ساتھ دو دو نفلیں پڑھیں اور روضہ مبارک پر حاضری دینے کی غرض سے آگے بڑھے۔ ایک عجیب کیفیت تھی۔ کبھی یہ خیال کہ مجھ جیسا گناہ گار آ ج کس منہ سے اس پیارے نبی کے امتی ہونے کی حیثیت اس مقام پر حاضری دے گا اور کبھی اس پیاری ہستی کے وصال پر اس کے ان متوالوں کے کرب کا خیال جو یہ خبر سن کر کہ آپﷺ کا دانت مبارک شہید ہوگیا اپنا دانت توڑ دیتے اور جو صدمے سے نڈھال اپنے ہوش اس قدر گنوا دیتے کہ تلوار نکال کر کھڑے ہوجائیں کہ اگر کسی نے اس بات کو دوبارہ منہ سے ادا کیا تو قتل کر دیا جائے گا۔ ان خیالات میں گم تمام دنیا سے آئے ہوئے عاشقانِ رسول ﷺ کی صف میں شامل ہونے کی بمشکل ہمت کی۔
روضۂ مبارک پر نبی کے شیدائیوں پر عجیب کیفیت تھی جن میں سے کچھ اپنے جزبات سے ایسے مغلوب تھے کہ وہاں پر موجود مذہی پولیس کے اہلکاروں کے ہاتھ سے اشاروں اور ’’حاجی ممنوع، حاجی ممنوع ‘‘ کہہ کر منع کرنے کے باوجود کبھی روضۂ مبارک کے نزدیک کی محرابوں کو بوسہ دے رہے تھے تو کبھی کود کود کر آگے بڑھ کر روضہ کی جالیوں کو چھونے کی کوشش کررہے تھے۔ مگر قطار میں مجھ سے آگے کھڑے ایک پاکستانی کے حبِ رسول اور ادب رسولﷺ کی جو کیفیت میں نے دیکھی اس پر بے تحاشہ رشک ہوتا ہے۔ معلوم نہیں وہ کون تھا۔ بس نگاہیں نیچی اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اس کی کیفیت بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں۔ اس کی کیفیت کا حال جب بھی کسی سے بتاتا ہوں تو خود اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رہتا۔ کون جانتا ہے اس جم غفیر میں آپﷺ کیسے کیسے چاہنے والے موجود ہوں گے میں تو صرف ایک کی کیفیت دیکھ کر اس پر رشک کر رہا ہوں۔
عام طور پر لوگ حاجیوں سے دعا کی درخواست کے ساتھ ساتھ روضۂ مبارک پر ان کا سلام پہنچانے کی فرمائش بھی کرتے ہیں اور مجھ سے یہ کام والدین اور بہن بھائیوں کرنے کو کہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم اس کی شرعی حیثیت کیا ہے نہ مجھے یہ معلوم تھا کہ اس ذمہ داری کو کیسے اور کن الفاظ میں ادا کیا جائے۔ بس اپنا سلام عرض کرنے کے بعد بڑی ہمت کرکے یہ صرف یہ کہہ پایا، ’’ یا رسول اللہ ﷺ میرے والدین اور بہن بھائیوں نے آپ کے اس گناہ گار امتی کو ان کا سلام آپ تک پہنچانے کو کہا ہے۔‘‘
باہر نکل کر میں نے حمزہ سے آپﷺ کے وصال پر صحابہ اکرام کے کرب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سوچو اس جگہ نبی کے ان شیدائیوں پر کیا بیتی ہو گی۔ میری بات سے اتفاق کرتے ہوئے اس نے کہا، ’’میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ اس مسجد کی توسیع میں رسول، اہل بیت اور صحابہ کی یاد گار عمارتوں کو مسمار کرنے میں جس شخص نے پہلا کلہاڑا چلایا ہوگا زندگی بھر اس کی تکلیف کی کیفیت کیا رہی ہو گی۔ باوجود اس کے کہ یہ کام مجبوری میں کیا گیا اور اس توسیعی منصوبے پر تمام تر اعتراضات کے باوجود ہم سب اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ میں اگر ان مزدوروں یا انجینئروں میں شامل ہوتا جو اس منصوبے پر کام کر رہے تھے تو میں کبھی نہ چاہتا کہ وہ پہلا شخص میں ہوتا ‘‘ اس پہلو پر میں نے پہلے کبھی نہیں سوچا تھا۔ میں نے کہا کہ کبھی بھول سے اور کبھی حالت مجبوری میں انسان سے ایسے کام سرزد ہوجاتے ہیں یا اسے کرنے پڑتے ہیں جن کی تکلیف تو بہر حال اسے زندگی بھی رہتی ہوگی۔ مثال کے طور پر جنگ احد میں حضرت خالد بن ولید ، جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ، کے کردار کی وجہ سے مسلمانوں کی شکست اور آپ ﷺ کا دانت مبارک شہید ہوجانا۔ جب کبھی خالد بن ولیدؓ کو ان دو واقعات کی یاد آتی ہوگی تو ان پر کیا بیتتی ہو گی۔ یا پھر اس کی مثال یہ ہو سکتی ہے کہ حمل کے ساتویں یا آٹھویں مہینے میں والدین کو ڈاکٹر یہ بتائیں کہ پیدا ہونے والا بچہ یا تو ماں کے پیٹ میں یا پیدا ہوتے ہی فوت ہوجائے گا اور یہ کہ اس سے ماں کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ایسی حالت میں حمل ضائع کروانا والدین کیلئے کس قدر تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔
مگر سوچتا ہوں کہ مسجد نبوی اور مسجد حرام کی توسیع سے متعلق یہ بات صحیح ہو سکتی ہے ، بڑے بڑے ہوٹلوں کی تعمیر کیلئے آپ ﷺ ، ازواج مطہرات اور اسلامی تاریخ کی نامور شخصیات سے منصوب عمارتوں کے مسمار کئے جانے کا لالچ، بے غیرتی اور بے حسی کے سوا اور کیا جواب ہو سکتا ہے۔ ہم تو برطانیہ میں دیکھتے ہیں کہ معمولی سے معموی حیثیت کی تاریخی عمارت کی کس طرح حفاظت اور دیکھ ریکھ کی جاتی ہے۔ بہر حال یہ تو ایک طویل اور علیحدہ بحث ہے۔ جو لوگ تاریخی اور متبرک آثار کے تحفظ کے قائل نہیں معلوم نہیں، انہیں اس وقت کیسا لگتا ہے جب وہ غارِ حرا یا احد کی پہاڑی دیکھتے ہوں گے۔ کیا ایسے مقامات دیکھ کر ان کے تصور میں وہ واقعات زندہ نہیں ہوتے۔
جہاں ایک طرف روضۂ نبی پر اس قدر روحانی مناظر دیکھنے کو ملے وہیں مسجد نبوی کے باہر وہ کچھ بھی دیکھا جو بیان کرتے ہوئے بھی دکھ ہوتا ہے۔ سفید باریش اور حلیے سے بڑے دیندار لگنے والے ایک صاحب نے بڑے تپاک سے سلام کیا اور بتایا کہ وہ اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ حج کیلئے آئے تھے کہ مسجد نبوی میں جیب کٹ گئی اور دو ہزار ریال نکال لئے گئے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کہانی میں کتنی صداقت تھی مگر نہ تو موصوف کے چہرے پر کوئی پریشانی کے آثار تھے اور نہ ایک اجنبی سے مدد مانگلتے ہوئے جھجک تھی۔ سوچتا ہوں کہ خدا نہ خواستہ اگر واقعی کسی کے ساتھ ایسا حادثہ ہو جائے تو کیا وہ بازار میں کھڑا ہو کر کسی اجنبی سے اس طرح مدد مانگے گا؟ ایک خاتون ، جو تقریباً ہر نماز کے بعد ایک چھوٹے بچے کو گود میں اٹھائے بھوکی ہونے کی دہائی دے کر ہر ایک سے مدد مانگ رہی تھی، نے میرا پیچھا بھی کیا۔ اس وقت میری جیب میں واقعی نہ برطانوی اور نہ ہی کوئی سعودی سکہ تھا۔ جب میں نے معذرت کی تو کہنے لگیں کوئی بات نہیں اپنی کرنسی دے دیجئے میں تبدیل کروالوں گی۔ میرے یہ بتانے پر کہ میرے پاس اپنے ملک کی کرنسی بھی نہیں تھی موصوفہ نے فوراً میری اصلاح کی اور بتایا ، ’’دیکھئے آپ مسجد نبوی کے سامنے ہیں یہاں جھوٹ نہ بولیں۔‘‘
تیسرے دن مدینہ منورہ سے مکہ کیلئے روانگی ہوئی۔ یہاں بھی اس مقام کو ایک چھوٹی سی لائبریری میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں آپ ﷺ کی ولادت ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ معلوم نہیں اور کتنے تاریخی مقامات کو مسمار کیا جا چکا ہوگا۔
احرام مدینہ ہی سے باندھ لیا گیا تھا کیونکہ جس جگہ سے میقات شروع ہوتی تھی وہاں پر بہت ہی معقول انتظام ہونے کے باوجود حاجیوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے یہ نہایت مصروف جگہ ہے۔ مکہ فجر سے شاید ایک دو گھنٹے پہلے ہی پہنچے تھے۔ ہوٹل کی کھڑکی کا پردہ ہٹا کر باہر دیکھنا چاہا تو اللہ اکبر سامنے روشنیوں سے منور حرم کے بیچوں بیچ کعبہ تھا۔ بس کیسے بیان کیا جائے اس کیفیت کو۔ نماز فجر سڑک پر پڑھنی پڑی سیدھے طواف کیلئے حرم میں داخل ہوئے۔ دل چاہتا تھا کہ ملتزم کے پاس پہنچ کر دعا کریں مگر نزدیک پہنچنے کے باوجو کسی کو تکلیف دئیے بغیر وہاں رکنا ممکن نہیں۔ کعبے کو پہلی بار دیکھنا بھی ایک ایسا تجربہ ہے جسے بیان کرنا ممکن نہیں۔ بس اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج اپنے کچے چٹھے کے ساتھ خالق حقیقی کے سامنے پیشی ہو گئی مگر سزا کیلئے نہیں اپنی بد اعمالیوں پر ندامت کے اظہار اور رحیم آقا سے سب کچھ معاف کروانے کے لئے۔
ثابق نیورولوجسٹ ڈاکٹر خالد خان صاحب، جنہوں نے اب اپنے آپ کو تبلیغ اسلام کیلئے وقف کیا ہوا ہے، ہماری رہنمائی کر رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے رہنمائی کاحق پورا پورا ادا کیا اور حج کے ارکان ، انگلی پکڑ کر چلانے والی کہاوت کے مطابق ادا کروائے۔ ڈاکٹر صاحب پر سلفیت کی چھاپ محسوس ہوتی ہے مگر ان میں نہایت انکساری ہے اور چاروں اماموں میں کسی کا نام بھی پوی عزت و احترام کے ساتھ لیتے ہیں۔ اپنی تقاریر میں اتحاد امت پر زور اور اس بات سے گریز کرنے کی تلقین کرتے رہے کہ اس مقدس سفر کے دوران آپ کے کسی فعل سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
طوافِ کعبہ کے وقت عام طور پر لوگ حجر اسود، جہاں سے طواف شروع ہوتا ہے، کے پاس پہنچنے کیلئے، اندر داخل ہونا چاہتے ہیں، اور بعض اوقات تو لائن بناکر ایسا کرتے ہیں، جو پہلے ہی سے طواف میں مصروف لوگوں کے ساتھ دھکّا مُکّی کئے بغیر ممکن نہیں۔ اگر بغیر اندر داخل ہوئے اور کعبہ کے بالکل پاس پہنچ کر طواف شروع کرنے کے بجائے تھوڑا باہر کی جانب ، جہاں ایک ہری بتّی جلتی ہے ، سے طواف شروع کیا جائے اور ہر چکر میں آہستہ آہستہ اندر کی طرف بڑھا جائے اور اسی طرح طواف ختم ہونے سے پہلے آہستہ آہستہ باہر کی جانب نکلا جائے تو کسی کو دھکا دینے یا کسی اور کے دھکّے سے بچا جاسکتا ہے۔
اسی طرح جمرات میں دور سے رمی کرنا (جمرات یا اصطلاح عام میں شیطان ) پر پتھر مارنا نہایت خطرناک ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر خالد صاحب بار بار اس بات کی تلقین بھی کرتے رہیں کہ جمرات میں کوئی شیطان نہیں رہتا لہٰذ جذبات سے مغلوب ہوکر پوری شدت سے بڑے بڑے پتھر دور سے مارنے کی کوئی ضرورت نہیں جس کے لئے آپ کو کہنی کندھے سے اوپر اٹھانی پڑے ۔ اگر کسی کو آپ کی کنکریاں نہ بھی لگیں اس بات کا تو بہر حال امکان ہے کہ اس بھیڑ میں آپ کی کہنی سے کسی کو چوٹ لگ جائے اور قیامت کے روز آپ کو اس کا حساب دینا پڑے۔
جہاں تک حج کے انتظامات کی بات ہے کوئی تنقید برائے تنقید ہی کرنا چاہے تو الگ بات ہے مگر ہم لوگ تو پہلی مرتبہ حج کیلئے گئے تھے اور انتظامات کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ البتہ منٰی میں ٹوائلٹ اور نہانے کی جو ناقص سہولیات ہیں؛ معلوم نہیں اس کا کیا جواز ہے اور کس پلیٹ فارم پر اور کون لوگ اس مسئلے کو اٹھا سکتے ہیں۔ حج جیسے جیسے گرمی میں آتا جائے گا حجاج کو اس کی وجہ سے اتنی ہی پریشانی اٹھانی پڑے گی۔ آج جب ، سعی سمیت، تمام ارکان عمدہ اور جدید سہولیات میں ادا کئے جارہے ہیں تو صرف اس چیز میں بے توجہی کیوں ہے۔
ایک اور بات جو ذہن میں رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ منٰی میں کوئی حجام کی دکان نہیں ہے۔ اگر آپ کا بال منڈوانے کا ارادہ ہو تو پہلے ہی عمرے کے بعد مکہ میں ہی کروالیں ۔ منٰی میں کافی پریشانی ہوتی ہے۔
یہ مضمون پہلے اسٹار نیوز پر شائع ہوا تھا