محمد غزالی خان
ہندوستان میں بے باک، غیر جانب دارانہ اور اصولی صحافت کے ایک عظیم اور آخری کردار ، کلدیپ نیرکل رات اپنے مداحوں اور جن کمزور طبقات کیلئے وہ مسلسل آواز اٹھاتے رہے، کو سوگوار کر کے 95 برس کی عمر میں چل بسے۔ ان کی پیدائش 14 اگست 1923 کو پاکستانی شہر سیالکوٹ میں ہوئی تھی۔
آنجہانی خشونت سنگھ اور آنجہانی کلدیپ نےئر بے باک صحافت میں میرے ہیرو تھے۔ ایک کا انتقال 20 مارچ 2014 کو ہوا تھا دوسرا آج اس دنیا کو خیر باد کہہ گیا۔
دونوں نے تقسیم ہند کے بعد پنجاب سے دہلی ہجرت کی تھی۔ مگربے پناہ انسانیت سوز واقعات اور تباہ کاریوں کا شکار ہونے کے باوجود اور ایل کے اڈوانی جیسے فرقہ وارنہ منافرت سے بھرے بہت سے لوگوں کے برعکس، دونوں حق گوئی اور غیر جانب دارانہ صحافت کے اصولوں پر کار بند رہے۔
دونوں نے عدم برداشت اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف علم جہاد بلند کئے رکھا ۔ دونوں اردو زبان کے دلدادہ تھے مگر کلدیپ نیر صاحب نے اردو کی ترقی اور فروغ کی کوششوں میں بھی اپنا کردار نبھانے کی پوری کوشش کی۔انہیں مولانا حسرت موہانی کے ساتھ کام کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا اور بقول ان کے،جیسا کہ انھوں نے ایک انٹرویومیں بتایا تھا، مولانا کہ مشورے پر ہی انھوں نے اردو صحافت کو چھوڑ کر انگریزی میں لکھنا شروع کیا تھا ۔
کلدیپ نیر صاحب کے نام سے میری یادیں زمانہ طالب علمی سے وابستہ ہیں جب میں ہائی اسکول میں انگریزی کے اپنے استاد، جو خود مشرقی پنجاب کے مہاجرتھے، کو کلدیپ نیر صاحب کی ادارت میں نکلنے والا مشہور روزنامہ انڈین ایکسپریس پڑھتے اور کسی دن غلطی سے کوئی دوسرا اخبار پہنچائے جانے پر ڈلیوری بوائے اور جو اخبار ہاتھ میں آتا اس کے مدیر پر بڑ بڑاتے سنتا تھا۔
اپنی بے با کی وجہ سے انہیں اندرا گاندھی کے عتاب کا شکار ہونا پڑا اور ایمرجنسی کے دوران قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ایمرجنسی کے بعد 1977 میں جب کلدیپ نیر صاحب کی کتاب ججمنٹ آئی تو میں ان دنوں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں طالب علم تھا اور میں نے کتاب مولانا آزاد لائبریری سے مستعار لے کر پڑھی تھی۔
انہیں پہلی مرتبہ یونیورسٹی کے کینیڈی ہال آڈیٹوریم میں دیکھا تھا جہاں وہ نینشنل انٹیٹیگر یشن سوسائٹی کے ایک سیمینار سے خطاب کرنے آئے تھے۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب وہ مغربی بنگال کے ڈپٹی اسپیکر کلیم الدین شمس صاحب کی تقریر پر بغیر نام لئے برسے تھے اور کہا تھا: ’’کچھ تقریرروں کے دوران ،میں آنکھ بند کر کے بیٹھ گیا اور مجھے ایسے محسوس ہوا کہ میں سن 47 میں ہوں۔ ‘‘ انھوں نے مزید کہا تھا :’’ایسی باتوں سے ہندو فرقہ پرستی کو فروغ ملے گا اور ہندو فرقہ پرستی آپ کو کھا جائے گی۔‘‘
عام طور پر ایسی باتیں مسلمانوں سے برداشت نہیں ہوتیں مگر ان کی باڈی لینگویج، اخلاص اور ان کے دلائل سے ہال میں موجود ہر کوئی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اورجہاں تک مجھے یاد ہے کسی نے اس پر خاص رد عمل کا اظہار بھی نہیں کیا تھا۔
طلبا ء یونین کے صدر جاوید حبیب صاحب مرحوم کے ساتھ ان کے نزدیکی روابط تھے۔ اس تقریر کے اگلے روز ہی انہیں یونین ہال میں طلباء یونین کی تاحیات اعزازی رکنیت دی گئی تھی۔ وہاں پر جاوید حبیب صاحب کی پیش کش کو قبول کرنے سے پہلے کلدیب نیر صاحب مائک پر آئے اور طلبا ء سے پوچھا کہ اس پر کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں۔ جواب میں ہر جانب سے ’’نہیں ‘‘ کی آواز آئی۔ اور کلدیپ نیر صاحب نے دستخط کرکے تاحیات رکنیت قبول کرلی۔
اپنی تقریر میں طلبا کو زندگی میں مثبت سوچ اور مثبت رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے انھوں نے بتایا تھا کہ وہ 1947 میں بحیثیت ’’شرنارتھی‘‘ دہلی آئے تھے جہاں انہیں فوٹ پاتھ پر بھی سونا پڑا تھا۔ بعدمیں انہیں اردو کے ایک اخبار میں نوکری ملی تھی جو مسلم لیگ کا حامی رہ چکا تھا۔ انھوں نے بتایا تھا: ’’میرے فرائض میں اخبار میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ ایڈیٹر صاحب کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا بھی تھا۔ اور چونکہ میں حساب میں کمزور تھا تو میری تنخواہ بھی کم کردی گئی۔‘‘ ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بتایا تھا : ’’ایک مرتبہ ایڈیٹر صاحب چھٹی پر چلے گئے اور مجھے اگلے روز کیلئے اداریہ لکھنا پڑا۔ میں موضوع کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک قاری کا غصے بھرا خط آیا جس میں اس نے پوچھا تھا کہ’ ’کیا تم اب بھی دو قومی نظریے پر یقین رکھتے ہو؟‘‘ بس میں نے اسی پر پورا اداریہ لکھ ڈالا اور جواب میں کہا کہ’ ’ہاں ہمارا اب بھی دو قومی نظریے پر یقین ہے اور یہ دو قومیں ایک غیریب اور دوسری امیر ہے ۔‘‘
دوسری مرتبہ میں نے انہیں 1990 میں لندن کے ہندوستانی سفارتخانے میں دیکھا تھا جب و ہ برطانیہ میں سفیر ہند تھے۔ میں ایک وفد کے ساتھ ان کے ساتھ ملاقات کرنے گیا تھا۔ میں اس وفد کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا مگر معاملہ اتنا حساس تھا کہ میرے پاس کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔ میرے تردد ، بلکہ شرمندگی کی وجہ یہ تھی کہ برطانیہ میں ہندوستانی مسلمانوں کی ایک تنظیم نے، جس سے میں بھی وابستہ تھا ، کلدیب نیر صاحب کے اعزاز میں ا یک عشائیے کا اعلان کیا تھا۔ مگر تنظیم کی اندرونی سیاست کی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچے کہ مقامی کشمیری تنظیموں کے نام سے کچھ دھمکی آمیز فون تنظیم کوکروادئے گئے تھے اور نتیجتاً یہ عشائیہ منسوخ کرنا پڑاتھا۔ میں اس فیصلے کاآخری وقت تک مخالف تھا۔ اس ملاقات میں انھوں نے تنظیم کے اس فیصلے پر اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا مگر ان کی گرمجوشی میں کسی طرح کی کمی نہیں تھی۔ اتفاق سے یہ ملاقات بقرعید کے تین چار دن بعد ہی ہوئی تھی اور مصافحہ کرتے ہی کلدیپ نیر صاحب نے کہا :’’آپ لوگ خالی ہاتھ آئے ہیں؟ بقرعید ہے اور یہ تین دن چلتی ہے۔‘‘
ظاہر ہے انسان غلطیوں اور تضادات کا مجموعہ ہے۔ ہر شخص سے غلطیاں ہوتی ہیں مگر جو لوگ اپنی غلطیوں کو محسوس کر کے فوراًاپنی اصلاح کرلیں وہ واقعی عظیم ہوتے ہیں۔ اپنے صحافتی کیرےئر کی سب سے سنگین غلطی کلدیپ نیر صاحب سے 2014 میں ہوئی تھی جب وہ اپنے عزیز اور بی جے پی لیڈر ارن جیٹلی کی انتخابی مہم میں حصہ لینے امرتسر پہنچ گئے تھے۔ ظاہر ہے اس پر ان کے بہت سے مداحوں کو سخت حیرت اور صدمہ ہوا تھا ۔ میں نے اس پر خود انگریزی میں ایک مضمون لکھا تھا (https://caravandaily.com/portal/17048/) مگر کلدیپ نیر صاحب کو جیسے ہی ان کی غلطی کا احساس دلایا گیا انھوں نے فوراً امرتسر سے دہلی کی راہ لی۔
جیٹلی کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کا ان کا فیصلہ شاید ذاتی تعلقات اوررشتہ داری والی لحاظ داری میں ہو گیا ہو گا ۔ بڑی بات یہ ہے کہ انھوں نے فوراً اپنی اصلاح کی ۔ اور کیسے نہ کرتے زندگی بھر انھوں نے بی جے پی کی مخالفت کی تھی یہاں تک کہ 2002 میں لکھے گئے ایک مضمون میں کہا تھا: ’’انتہا پسندی میں اپنی بصیرت سے محروم بی جے پی نوشتہ دیوا ر نہیں پڑھ پا رہی ہے۔ مسلمان جہادیوں نے پاکستان کو تباہ کر ڈالا ہے اور فوج کو واپس اقتدار میں لے آئے ہیں، جو اب بیرکوں میں واپس جانے کو تیار نہیں۔ ہندو جہادی ہندوستان میں ایک مذہبی حکومت قائم کرنے کے درپے ہیں۔ بی جے پی کو احساس نہیں کہ یہ کس قسم کی قوتوں کو فروغ دے رہی ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی اپنی ہی قیادت ان قوتوں کا پہلا نشانہ بنے۔ بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ اس طرح ایک سیکولر اور جمہوری ہندوستا ن کا وجود ختم ہو جائے گا۔ اقتدار کیلئے فرقہ پرستی کا کارڈ کھیلنا خود کشی کرنے کے مترادف ہے اور حکومت میں رہنے کیلئے اس کا استعمال قومی تباہی ہے۔‘‘