کیا برٹش مسلم نیٹ ورک مسلم کونسل آف برٹین کے متبادل کے طورپر تشکیل دی گئی تنظیم ہے؟


محمد غزالی خان

برطانوی مسلمانوں کی وفاقی تنظیم مسلم کونسل آف برٹین (ایم سی بی) کے نو منتخب سیکریٹری جنرل ڈاکٹر واجد اختر نے تنظیم میں اصلاحات لانے اور اس کی اوپن ہارٹ سرجری کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اپنی پہلی تقریر میں نومنتخب سیکریٹری جنرل نے کہا کہ 1997 میں جب تنظیم قائم ہوئی تھی اس وقت سے اب تک ہماری کمیونٹی، ہمارے ملک اور ہمارے چینلج اور مواقع ہرچیز میں تبدیلی آگئی ہے لہٰذا ہماری تنظیم کو بھی تبدیل ہونا چاہئے۔
ڈاکٹر واجد اختر پیشے سے ڈاکٹر ہیں۔ وہ گزشتہ پینتیس سالوں کے دوران برطانوی مسلمانوں کی مختلف حیثیتوں میں خدمات انجام دی چکے ہیں۔ ڈاکٹر واجد کو سابق سیکریٹری جنرل زارا محمد کی مدت پوری ہونے کے بعد ہفتے کے روز منعقد کئے گئے الیکشن میں نیا سربراہ منتخب کیا گیا ہے۔

ایک اور دلچسپ پیش رفت میں گزشتہ ہفتے برطانوی مسلمانوں کی ایک اور تنظیم برٹش مسلم نیٹ ورک بھی وجود میں آئی ہے۔ تنظیم کا باقاعدہ اعلان پچیس فروری کو کیا جائے گا۔ بیرونیس سعیدہ وارثی سمیت نئی تنظیم کو کئی سرکردہ شخصیات کی تائید حاصل ہے۔ واضح رہے حکومت نے مسئلہ فلسطین پر موقف کے باعث مسلم کونسل آف برٹین کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے جبکہ بہت سے ارکان پارلیمنٹ نے نئی تنظیم کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ مسلم نیٹ ورک کی شریک بانی عقیلہ احمد، جو حکومت کے ’اینٹی مسلم یہٹریڈ ورکنگ گروپ‘ کی چیئر بھی ہیں، نے اس بات کو سختی کے ساتھ رد کیا ہے کہ نئی تنظیم مسلم کونسل آف برٹین کی متوازی تنظیم ہوگی۔

مسلم نیوز پورٹل ’ہائفن‘ کو دئے گئے ایک انٹرویوں میں عقیلہ احمد نے کہا ہے کہ: ’ہم موجودہ مسلم تنظیموں کی طاقت میں اضافہ کریں گے۔ ہم ان کے مد مقابل ہیں اور نہ ان کا متبادل‘ مزید یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ نئی تنظیم میں ایم سی بی کو بھی شامل کریں گی، عقیلہ احمد نے کہا کہ: ’ہماری قدر تعاون کرنے کی ہے۔ لہٰذا ہماری تمام تر سوچ اس شاندار کام کی ہمت افزائی ہے جو کیا جارہا ہے۔ ہم مختلف تنظیموں کے ساتھ شراکت کے متمنی ہیں مگر فی الحال اس مقصد سے بہت دور ہیں۔‘

ایم سی بی 1997 میں قائم کی گئی تھی۔ یہ تنظیم 1988 میں سلمان رشدی کی بدنام زمانہ کتاب ’سیٹانک ورسز‘ کی اشاعت کے خلاف مہم چلانے کے لئے وقتی طور پرقائم کئے گئے ایک گروپ یو کے ایکشن کمیٹی آن اسلامک ایفیئرز (یو کے اے سی آئی اے) کو با ضابطہ طور پر ایک تنظیمی شکل دے کر اور نیا نام دئے جانے کے بعد وجود میں آئی تھی۔ اس وقت یہ مسلمانان برطانیہ کی سب سے بڑی تنظیم ہے جس سے ملک بھر کی پانچ سو تنظیمیں اور مساجد وابسطہ ہیں۔ ایم سی بی کئی سال تک ایم سی بی کنزرویٹو اور لیبر حکومتوں کے ساتھ مسلمانوں کے مسائل سے متعلق نمائندگی کرتی رہی مگر تنظیم کے کچھ عہدیداران کے کچھ بیانوں کو بنیاد بنا کر کنزرویٹو اور لیبر حکومتوں نے اس کا بائیکاٹ کردیا۔

تاہم ابھی نئی تنظیم کے مستقبل اور اس کے اغراض و مقاصد کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ ایم سی بی کے انتخابات سے چند روز قبل ایک نئی تنظیم کے قیام کا اعلان اس کے بارے میں بہت سے شبہات پیدا کرتا ہے۔ اس سے پہلے بھی برطانوی حکومت متوازی مسلم تنظیمیں کھڑی کرنے کی کوششیں کر چکی ہے مگر اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ البتہ اس مرتبہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ بہت سوچ سمجھ کر تیار کیا گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.