محمد غزالی خان
سیکولر جماعتوں ، بالخصوص کانگریس، کے ہاتھوں بار بار دھوکا کھانے اور ناامید ہونے کے باعث کچھ مسلمانوں میں نہایت خطرناک سوچ پیدا ہو گئی ہے۔ ان کے خیال میں بی جے پی اور دیگر نام نہاد سیکولر جماعتوں میں کوئی فرق نہیں ۔ ان جماعتوں کی بار بار کی وعدہ خلافی اور دھوکہ دہی سے اکتا ئے ہوئے ہمارے یہ بھائی سوال کرتے ہیں کہ اگر ’’مودی وزیر اعظم بھی بن جائے تو اور کو ن سی قیامت آجائے گی؟ وہ کون سی نا انصافی ہے جو دوسروں نے ہمارے ساتھ نہیں کی ہے۔ آنے دو اسے بھی دیکھ لیں گے۔‘‘ یہاں پر ان نام نہاد مدبرین اور قائدین کی بات نہیں کی جا رہی ہے جنہوں نے اصولوں اور عزت نفس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ضمیر کا سودا کر کے بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ ہمارا منشاء تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ مخلص مگر نا امید عام مسلمانوں سے ہے۔ اﷲ کرے ووٹ ڈالتے وقت ان کی وہ سوچ ان پر غالب نہ آئے جس کا اظہار ذاتی ملاقاتوں اور سوشل میڈیا پر سننے اور پڑھنے کو ملا ہے ۔
بات اگر مسلم کش فسادات کی ہوتی تو شاید بی جے پی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کو ایک صف میں کھڑا کرنا قابل فہم ہوتا۔ مگر معاملہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ جیسا کہ ماضی میں بی جے پی کے دور اقتدار اور گجرات کے کئی سال کے تجربات سے ثابت ہوتا ہے مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد فسادات تو شاید نہ ہوں اور اس کے بر عکس مکمل سکون قائم ہو جائے مگر یہ سکون قبرستا ن کا سکو ن ہو گا۔
یہ بات ذہن میں رکھی جانی چاہئے کہ سنگھ پریوار دھوکے اور جھوٹ کا تو ماہرہے ہی مگر اس کے نام نہاد ’’گجرات کے تجربے‘‘ نے اس کی شاطرانہ صلاحیتوں کو اور زیادہ نکھا ردیا ہے۔ وہ مسلم کش فسادات اور مسلمانوں کے خلاف کھلے عام نفرت پھیلانے کو اقتدار تک پہنچنے کے ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اقتدار میں آتے ہی تشدد اور نفرت انگیزی کی اس پالیسی کی جگہ ہندوتوا کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کی مہم لے لیتی ہے۔ اقتدار میں آتے ہی مسلم کش فسادات کی جگہ ہندواحیا ء کا نفاذ لے لیتا ہے۔گجرات اور جن ریاستوں میں بی جے پی ماضی میں حکومت کر چکی اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
ہندوتوا کے جس ایجنڈ ے پر عمل کرتے ہوئے زعفرانی جنگجوؤں نے مختلف اوقات میں حکومتی سطح پر جو اقدامات کئے ہیں اور جن باتوں کا اطلاق کیا ہے ان کی چند ایک مثالیں یہ ہیں۔
اتر پردیش میں1992 میں بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کے دور حکومت میں بابری مسجد شہید کی گئی۔ کلیان سنگھ نے اپنے دوسرے دور حکومت میں ہندو احیاء پرستی کے دیگر اقدامات کے علاوہ 1997 میں سرکاری اسکولوں میں سرسوتی پوجا اور وندے ماترم کا گایا جانا ضروری قرار دیا۔ اس کے بعد سے آج اس روایت عمل کیا جا رہا ہے جسے کوئی دوسری حکومت ختم نہیں کر پائی۔
مسلمانوں کو ہندو پوجا کرنے کے لئے مجبور کیا جانا اسکولوں اور کالجوں تک محدود نہیں رہا بلکہ اب دفاتر تک پہنچ چکا ہے۔ ایک دوست ، جو ایک اعلیٰ عہدے پر سرکاری ملازم ہیں، کے مطابق ’’میں نے راسخ العقیدہ مسلمانوں کو ہندو پوجا کرنے پر مجبور پایا ہے ۔ اس میں ایک صاحب کو جو باریش ہیں اور ایک شعبے کے صدر ہیں دیا جلا کر اور ناریل پھوڑ کر افتتاحی تقاریب کی شروعات کرتے دیکھاہے۔ سیکولرزم محض نام کیلئے ہے۔ آر ایس ایس اور ہندوتوا کا ایجنڈا آہستہ آہستہ اسکولوں اور دفاتر میں داخل ہو رہا ہے۔ مسلم قیادت غائب ہے۔ مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کی اسلامی تعلیم کے بارے میں سوچ کر نہایت تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
2000 میں بی جے پی کے وزیراعلیٰ رام پرکاش گپتا نے صوبے بھر میں سیاسی سادھوؤں کی مدد سے فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ دیا، دہشت و خوف کا ماحول پیدا کیا اورUP Hindu Religious Places (prevention of misuse) Act 1962کی جگہ UP Religious Places Bill لانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اقلیتوں ڈپٹی کمشنر کی اجازت کے بغیر عبادت گاہوں اور مذہبی مقامات پر معمولی سی ترمیم و تعمیر کرنا بھی محال ہو جاتا۔
2001 میں ایل کے اڈوانی کی سربراہی میں وزرا کے ایک گروپ نے Reforming the National Security System کے عنوان سے ایک رپورٹ مرتب کی ۔ جس میں مسلمانان ہند کو سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے بعد یوپی حکومت نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں ایس ایس ایو کو ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں مسلمان اور سکھ خاندانوں کی فہرستیں تیار کریں اور باہر سے آنے والوں کی تفصیلات درج کریں اور ان پر سخت نظریں رکھیں۔
2003 میں جب بی جے پی پوری اکثریت میں نہیں تھی تو اٹل بہاری واجپائی کی این ڈی اے حکومت نے آر ایس ایس کے قائد وی ڈی سروارکر کو پارلیمنٹ جیسی جگہ پر اعزاز سے نوازا اوراس انتہاپسند اور مسلم دشمن شخصیت کی تصویر سینٹرل ہال میں آویزاں کر دی اور سیکولر سیاست دان محض احتجاج کرتے رہ گئے۔
کوئی نریندر مودی سے کتنی بھی نفرت کرے مگر اس کی چالاکی اور عیاری سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ شخص بخوبی جانتا ہے کہ کب ہندو کارڈ کھیلنا چاہئے اور کب سیکولرزم کا لبادہ اوڑھنا چاہئے۔ جب فرقہ پرستی کو فروغ دینا اس کے مفاد میں تھا تو اس نے سابر متی ایکسپریس میں مرنے والوں کی لاشوں کا جلوس نکلوانے دیا، اپنے پیادوں کو مسلمانوں پر بد ترین مظالم ڈھانے کی کھلی چھوٹ دی جن کا سابر متی ایکسپریس کے ایک ڈبے کی آگ زنی سے دور دور کا کوئی واسطہ نہ تھا۔ البتہ جب اس نے حالات کو قابو کرنا چاہا تو ان خونخوار فسادات کے بعد مخدوش اور آتش گیر ماحول میں بھی اکشے دھام پر حملے کے بعد ایک معمولی سا واقعہ نہ ہونے دیا۔
جب تک وہ گجرات کی وزارت عظمیٰ پر قانع رہا مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتا رہا، ماحول کو مکدر کرتا رہا اور تین بار گجرات کا وزیر اعلیٰ متتخب ہونے میں کامیاب ہوتا رہا۔ مگر جیسے ہی بی جے کی قیادت نے اسے وزارت عظمیٰ کا خواب دکھایا ، جو مسلمانوں کی مدد کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا تھا تو اس نے سیکولرزم کو گلے لگالیا۔ 2002 میں اس نے مسلمانان گجرات کے قتل عام کو ایک عمل کا رد عمل کہہ کر جائز قرار دیا تھا اور اپنے کارناموں میں سے ایک کو یہ کہ کر فخریہ بیان کیا تھا ’’ہم نرمدا کا پانی شرمن میں لائے ہیں مگر کانگریس ہوتی تویہ کام رمضان میں کرنا چاہتی۔‘‘ البتہ 2014 کی انتخابی ریلی میں وہ بہار میں اس بات پر افسوس کر رہا تھا کہ بہار کے مسلمان اتنے غریب ہیں کہ حج کیلئے نہیں جا پاتے۔
واضح رہے کہ سنگھ پریوار نے انتہا پسندی پر سیکولرزم کا لبادہ اوڑھ کر مسلم دوستی کا پہلا ڈرامہ 1977 میں ایمرجنسی کے بعد ہونے والے انتخابا ت میں کیا تھا جس کے بعد اس کے ارکان بڑے بڑے عہدوں پر فائض ہو گئے اور اڈوانی جیسے شخص کے ہاتھوں وزارت اطلاعات و نشریات لگی۔ سنگھ پریوار نے اس دور کو ہندوتوا کے اپنے ایجنڈے کے اطلاق کیلئے بھر پور طریقے سے استعمال کیا جس کا اثر بی جے پی کی نام نہاد رام جنم بھومی تحریک اور اڈوانی کی رتھ یاتر ا میں ریٹائرڈ اعلیٰ فسران، پولیس اور فوج کے ریٹائرڈ ملازمین کی شمولیت کی شکل میں دیکھنے کو ملی۔ بابری مسجد کی شہادت میں ریٹائرڈ فوجی اہل کاروں کی شمولیت کو حال ہی میں کوبرا پوسٹ نے افشاں کیا ہے۔ نیز ممبئی کے سابق پولیس کمشنر ستیے پال سنگھ اور سابق فوجی سربراہ وی کے سنگھ کی بی جے پی میں شمولیت اس ذہر پر مکل اور افسوسناک تبصرہ ہے جو سنگھ پریوار نے پولس ، فوج اور سرکاری دفاتر میں پھیلا دیا ہے۔
جو لوگ اڈوانی کی دہشت گردی کو بھول چکے ہیں یا اس وقت اتنے کم عمر تھے کہ انہیں وہ دور یاد نہ ہو مشہور برطانوی صحافی اور قلم کار ولیم ڈالرمپل نے ہفتہ وار جریدے اسپیکٹیٹر کی 8 دسمبر 1990 کی اشاعت میں اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا:
“In the German winter of 1929 it was the political failure of the Weimar Republic and the onset of hyperinflation that ushered in the rise of National Socialists Party. In the winter of 1990 a similar course of events has brought to prominence the Hindu fundamentalist Bharatiya Janata Party (or BJP). In the 1984 election the BJP took only two seats. Last year they took 88. When Chandra Shekhar’s rag-tag government falls (and few expect it to survive much beyond the spring of 1991, most commentators predict that the BJP will sweep the whole northern India133 The man behind BJP’s rise to power is L.K. Advani133 BJP’s revolution has been preceded by a mysterious distribution of tens of thousands of inflammatory cassettes133 The cassettes openly encouraged anti-Muslim violence: ‘Our Motherland cries out for succour, cries out for martyrs who will cut the [Muslims] enemies of the nation to pieces’ says one I found in a market near my house. ‘We cannot suffer anymore the descendants of Babur [founder of the Mogul dynasty]. If this means a blood bath, then let there for once be a blood bath133 In Delhi drawing rooms fascism has become fashionable; educated people will tell you without embarrassment that it is about time the Muslims are disciplined-that they are dirty and fanatical, that they breed like rabbits. While chattering classes chatter, others take direct action. As I write, Old Delhi is in flames as Hindus and Muslims battle it out in the streets”.
’’1929 کے موسم سرما میںیہ جرمنی کی وائمرریپبلک کی ناکامی کے ساتھ تباہ کُن افراط زرتھا جس کی وجہ سے نیشنل سوشلسٹس پارٹی کا عروج ہوا۔ 1990 کے موسم سرما میں اسی طرح کے واقعات نے ہندو بنیاد پرست پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی (یا بی جے پی)کو مقبولیت دے دی ہے۔ 1984 کے انتخابات میں بی جے پی کو محض دو نشستیں مل پائی تھیں۔ گزشتہ سال اس نے 88نشستیں جیت لیں۔ جب چندر شیکھر کی بھان متی کا کنبہ والی حکومت گرے گی(اور کم ہی لوگوں کو 1991 کے موسم بہارسے آگے تک اس کے بچنے کی امید ہے) تو اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ شمالی ہندوستان میں بی جے پی سب کو بہا کر لے جا ئے گی ۔۔۔ بی جے پی کیلئے اقتدار تک کا راستہ صاف کرنے کے پیچھے جو شخص ہے اور اس کا نام ایل کے اڈوانی ہے۔۔۔بی جے پی کے اس انقلاب سے پہلے پر اسرار طریقے سے ہزاروں اشتعال انگیزکیسیٹس تقسیم ہوئے تھے۔۔۔ان کیسیٹس کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف کھلے عام تشدد کو فروغ دیا گیا ہے۔ ’ہمارا مادر وطن رضاکاروں کو پکار رہا ہے ، ان جاں بازوں کو پکا ررہا ہے جوقوم کے دشمنوں ] یعنی مسلمانوں[ کو ذبح کر کے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں‘ یہ ایک ایسی کیسیٹ میں کہا گیا ہے جو مجھے اپنے گھر کے نزدیک بازارسے ملا ہے ، ’ہم بابر ] سلطنت مغلیہ کا بانی[ کی اولاد وں کے ہاتھوں مزید ظلم برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر اس کیلئے سڑکوں پر خون بہانے کی ضرورت ہے توپھر ایک مرتبہ سڑکوں پر خون بہا ہی دیا جائے۔۔۔دہلی کے ڈرائنگ رومز میں فسطائیت ایک فیشن ایبل شے بن گئی ہے، تعلیم یافتہ لوگ بلا جھجک آپ سے کہیں گے کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کی تادیب کرہی دی جائے اور یہ کہ وہ گندے اور جنونی ہوتے ہیں، وہ خرگوش کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں۔جہاں ایک طرف زبانی جمع خرچ کرنے والے صرف باتیں کررہے ہیں تو دوسرے لوگ براہ راست اس پر عمل کررہے ہیں۔ جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں پرانی دہلی میں آگ لگی ہوئی ہے اور ہند و اور مسلمان یہ کام سڑکوں پرانجام دے رہے ہیں‘‘
جس طرح مودی نے آج تک گجرات کے فسادات کیلئے معافی نہیں مانگی ہے اسی طرح اڈوانی نے بھی بابری مسجد کو شہیدکرنے میں مذہبی جنونیوں کی قیادت کرنے اور ملک بھر میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلا نے کے لئے آج تک معافی نہیں مانگی ہے۔ تاہم اس کے چند سال بعد اڈوانی نے بھی سیکولرزم کا لبادہ اوڑھ لیا اور اپنی اس تبدیلی کے ثبوت کے طور پر اور پاکستان اور مسلمانان ہند کو خوش کرنے کیلئے جناح کی تعریف کر ڈالی جو اڈوانی اور جسونت سنگھ کا ایسا مشترکہ گناہ ہے جو آر ایس ایس کے نزدیک نا قابل معافی ہے۔
گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی بین الاقوامی سطح پر مذمت، امریکہ، جرمنی اوربرطانیہ کا نریندر مودی کو ویزا دینے سے انکار اور اندورن ملک غیر ہندوتوا عوام کی سخت مخالفت نے مودی اور ہندوتوا عناصر کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ تشدد سے انہیں زیادہ عرصے تک فائدہ نہیں ہو گا۔ خدا نہ خواستہ اگر یہ شخص مرکز میں اقتدار پر آگیا تو ظاہر ہے کہ بظاہر وہ سیکولرزم کا سب سے بڑا علمبردار، صلا ح جو اور نیک طبیعت شخص بن کر سامنے آئے گا۔ البتہ سیکولزم کی آڑ میں ہندوتوا کے ایجنڈے پر پورتنندہی سے کام کرے گا۔ مودی نے اپنے گجرات کے تجربے ، اپنے پیش رو اڈوانی اور واجپائی کی مثالوں اور کانگریس کے اس نرم ہندوتوا جس پر 1947 سے مسلسل عمل کیا جا رہا ہے، سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس طرح سخت گیر ہندوتوا پر نرم ہندوتوا کی مٹھاس اورترقی و اصلاحات کی پر فریب کشش گجرات اور مظفر نگر کے فسادات سے کہیں زیادہ خطرناک ہو گی جس کے اثرات مستقبل میں لمبے عرصے تک ظاہر ہوتے رہیں گے۔