علیگڑھ مسلم یونیورسٹی: کیا ملت اور اولڈ بوائز نے ادارے سے دسبرداری کا فیصلہ کرلیا؟

amu protest

محمد غزالی خان / سید انور حسین

مادرِ علمی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے حالات پر جس شرمناک لاتعلقی اور مفاد پرستی کا مظاہرہ اس وقت ’علیل برادری‘  کر رہی ہے، اس کی مثال اس کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے۔ بادلِ نخواستہ فیس کے تعلق سے طلبہ کے چند مطالبات کی تو کچھ لوگوں نے تائید کی ہے، مگر پراکٹر صاحب کی زبان اور نماز سے متعلق موصوف کے بیان پر ان میں سے کسی نے بھی لب کشائی مناسب نہ سمجھی۔

مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق، یونیورسٹی میں مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ کورٹ، ایگزیکٹو کاؤنسل اور یونیورسٹی انتظامیہ پر پوری طرح حاوی ہے۔ مختلف لابیاں اور گروہ یونیورسٹی میں اپنے اپنے مفادات کے لئے کام کررہے ہیں  اور ڈھونڈنے سے بھی کوئی ایسا گروہ نہیں ملتا جو اپنی لابی سے اوپر اٹھ کر ادارے کے مفاد میں سوچتا ہو۔

دوسری جانب ہمارے اولڈ بوائز اور یونین کے سابق عہدیداران پر بھی یونیورسٹی کے حالات کے تئیں سرد مہری اور بے حسی طاری ہے۔ میں نے ایک پوسٹ میں محمد ادیب، ظفرالدین خان فیضان اور اختر الواسع صاحبان کے نام لے کر سوال کیا تھا کہ یہ سب کہاں ہیں۔ اس پر روزنامہ ’انقلاب‘ نے تینوں سے رابطہ کیا۔ تینوں نے حالات پر تشویش کا اظہار کیا، مگر شاید پھر مراقبے میں چلے گئے۔

سوچا تھا کہ اب اس موضوع پر کچھ نہیں لکھوں گا، مگر جب طلبہ کو خوف کے اس عالم میں بھی میدان میں ڈٹا دیکھتا ہوں تو دل کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کم از کم ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں تو ان کا ساتھ دیا جائے۔ بس اسی سوچ کے تحت، علیگڑھ کے پرانے ساتھی (انہیں اصرار ہے کہ میں ان کا تعارف اپنے جونیئر کے طور پر ہی کرواؤں) اور طلبہ یونین کے سابق صدر سید انور حسین—جو خرابیِ صحت اور ذاتی حالات کے باعث کوئی نمایاں کردار ادا نہیں کر پا رہے، مگر سوشل میڈیا پر اپنی دلی کیفیت کا مستقل اظہار کر رہے ہیں—سے واٹس ایپ پر بات چیت ہوئی۔ان کے تبصرے سے میں نے کر دئے۔ اس کے علاوہ پوری تحریر من و عن پیش کی جارہی ہے:

انور حسین کا تبصرہ

کیا کیا جائے؟ کیسے کیا جائے؟ یونیورسٹی پر ابن‌الوقتوں کا قبضہ ہے، اور ہمارے موجودہ اولڈ بوائز سرسید کے نام پر سرسید مخالف ذہنیت رکھنے والے لوگوں کو اپنے پروگراموں کی زینت بنا کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے سرسید کو خراجِ عقیدت پیش کر دیا اور ان کے تئیں اپنا فریضہ انجام دے دیا۔ مت بھولیے کہ طارق منصور کے زمانے میں مودی کو یونیورسٹی کے صد سالہ جلسے کا مہمانِ خصوصی مدعو کیا گیا تھا، مگر خود نہ آکر مودی نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کر کے علیگڑھ والوں کو ان کی اوقات دکھا دی۔ جن پروفیسروں نے مودی کی دعوت قبول کرنے پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور اس سلسلے میں مشترکہ بیان جاری کیا تھا، ان میں یونیورسٹی کے قدآور پروفیسر شامل تھے۔ یہ سب کے سب یونیورسٹی میں اسلامی نظریات کے لیے جانے جاتے تھے — لمبی داڑھی والے بھی اور مختصر داڑھی والے بھی، قاسمی بھی، تحریکی بھی اور تبلیغی پہچان رکھنے والے بھی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مکروہ حرکت میں ایک زمانے سے مطعون و معتوب  بائیں بازو کی  لابی کا کوئی  ایک بھی پروفیسر شامل نہیں تھا۔ آپ ان سب صاحبان سے ذاتی طور پر واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ انہیں یونیورسٹی میں دینی ذہن کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ جب ضمیروں میں اس قسم کے سمجھوتے شروع ہوں تو ادارے کو کون بچا پائے گا؟

پچھلے چند سالوں کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ جب ہمارے یہ چوٹی کے اسلام پسند پروفیسر اور کچھ نمایاں اولڈ بوائز مودی اور حکومت کے حق میں خوش آمدانہ بیان دیتے ہیں تو اپنے اس طرزِ عمل کو سرسید کے انگریزوں سے روابط سے ماخوذ  بتاتے ہیں اور دوسروں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر آج کے حالات میں سرسید زندہ ہوتے تو وہ گجرات مسلم کش فسادات کے اصل ذمہ دار نریندر مودی   جیسے شخص سے دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہوتے۔ سوچیے! سرسید پر یہ کیسا  شرمناک بہتان ہے؟ وہ شخص جس نے انتہائی نامساعد اور ناقابلِ تصور حالات میں ملی اور دینی تشخص کے ساتھ ملت کو جینا سکھایا، اور جسے  ایک با بصیر حریت پسند شخصیت  تصور کیا جانا چاہیے، اس محسن کے ساتھ یہ کیسی ناانصافی اور احسان‌فراموشی ہے۔

1951 اور 1965   میں جب  علیگڑھ کے اقلیتی کردار پر حملہ ہوا تو ڈاکٹرعبدالجلیل فریدی صاحب جیسے لوگ اس کے دفاع میں میدان میں آگئے۔ مخلص اولڈ بوائز کے ایک بڑے گروپ نے ڈاکٹر فریدی کی کال پر لبیک کہا۔  مدیر’ دعوت‘ اور جماعتِ اسلامی سے وابستہ محمد مسلم صاحب اور مدیر ’ریڈینس‘

نے پوری قوت کے ساتھ  کانگریس حکومت  کے فیصلے کی مخالفت کی اور یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی مدافعت میں ڈٹے رہے۔ آج جماعتِ اسلامی میں ایک چہرہ بتا دیجیے جو اس معاملے میں کوئی فعال دلچسپی رکھتا ہو — سوائے اس کے کہ کبھی کبھار ڈیجیٹل دعوت میں کوئی مضمون لکھ مارا جائے۔  اولڈ بوائز کا عالم یہ ہے کہ سالانہ  ڈنر سے آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتے۔

غزالی  بھائی، حالات بہت مایوس کن ہیں۔ کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملتا جو اپنے یا اپنے گروہ کے مفاد سے اوپر اٹھ کر بولنے کے لیے تیار ہو۔ موجودہ ہنگامے میں پروکٹر کا کردار نہایت شرمناک رہا ہے، جو یونیورسٹی کے روایتی مزاج اور روایات کے بالکل برعکس ہے۔ لیکن چونکہ ایڈمنسٹریشن بلڈنگ میں بیٹھے ان کے ایک بڑے حمایتی کا تعلق اعظم گڑھ سے ہے، اس لیے اعظم گڑھ لابی وائس چانسلر کی مخالفت تو کر رہی ہے لیکن پروکٹر کے کردار پر ایک لفظ بولنے کو تیار نہیں۔ ایسے حالات میں ہم اور آپ کیا کر سکتے ہیں؟

حکومت جانتی ہے کہ اگر سرسید کے اس ادارے کا کَس بل توڑ دیا جائے تو پوری قوم برضا و رغبت طوقِ غلامی پہننے کو تیار ہو جائے گی۔جہاں تک حالیہ ہنگاموں کا تعلق ہے، پروکٹر ذمہ دار ہے بھی اور نہیں بھی۔ میری اس وقت کی معلومات کے مطابق جب پولیس بابِ سید سے یونیورسٹی میں داخل ہوئی تو وہ جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے۔ لیکن یہ بات  اور بھی  زیادہ خطرناک بات ہے کہ مقامی تھانہ اتنا خودسر ہو جائے کہ کسی اجازت کے بغیر یونیورسٹی میں داخل ہو جائے اور لڑکوں کو صرف اس لیے اٹھانے کی کوشش کرے کہ وہ وہاں نماز پڑھنے کے لیے جمع ہو رہے تھے۔

المیہ یہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ—پراکٹر سے لے کر کنٹرولر، OSD سے لے کر پرو وائس چانسلر تک—تمام کے تمام انتظامی اہلکار پولیس کی مذمت اور جواب طلبی کے بجائے لڑکوں کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ یہ انتہائی کمزور اعصاب والی انتظامیہ ہے، جو اندر ہی اندر اس بات کو تسلیم کر چکی ہے کہ  علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کوئی اقلیتی نہیں بلکہ خالص ایک سرکاری ادارہ ہے، لہٰذا سرکار یا پولیس کو ہر وقت معاملات میں مداخلت کا حق حاصل ہے۔

ایک کمزور وائس چانسلر اور ان کو گھیرے ہوئے چند مفاد پرست پروفیسران کا ٹولہ—جنہوں نے برسہا برس سے کلاس روم کی شکل نہیں دیکھی اور ایڈمنسٹریٹو بلاک میں منشی گری کرتے کرتے یہیں بیٹھ کر پروفیسر اور وائس چانسلر کے مشیرِ خاص بن گئے—یونیورسٹی کو اس حال تک لے آئے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ یونیورسٹی میں ایک ’ میکرو سرجری ‘ کے ذریعے گند صاف کیا جائے، پروکٹر استعفیٰ دے اور وہ لوگ جو کلاس نہیں لیتے لیکن پروفیسر ایمیریٹس کی حیثیت سے یہاں موجود ہیں، اپنی تدریسی ذمہ داریاں سنبھالیں۔

رجسٹرار صاحب ایک آئی پی ایس افسر ہیں جن کا کردار، ایک علیگ ہونے کے باوجود، برٹش سرکار کے ریزیڈنٹ جیسا ہے، جسے ریاست یا رجواڑے کی فلاح سے زیادہ برٹش سرکار یا ایسٹ انڈیا کمپنی کے مفادات عزیز ہوں۔

یونیورسٹی، علیگ برادری اور ملی تنظیموں کو ان سب کی سبکدوشی کا مطالبہ کرتے ہوئے میڈم وائس چانسلر پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ اگر وہ مسلم یونیورسٹی کو اس کے پرانے خطوط اور سرسید کے وژن کے تحت چلا سکتی ہیں تو ٹھیک ہے، ورنہ وہ اپنی سائیکالوجی ڈپارٹمنٹ میں واپس چلی جائیں۔ اولڈ بوائز چاہیں تو یونیورسٹی کے حالات بدل سکتے ہیں، لیکن اولڈ بوائز کو جیل جانے کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ یہ ڈگر آسان نہیں۔

تازہ اطلاعات کے مطابق طلبہ کا موقف یہ ہے کہ کل وہ احتجاجاً بابِ سرسید پر یومِ آزادی منائیں گے اور جمعے کی نماز بھی وہیں ادا کریں گے۔ اس کو لے کر آج یونیورسٹی انتظامیہ اور ضلع انتظامیہ کے درمیان طویل میٹنگ ہوئی ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ ایس ایس پی اس بات پر اَڑے ہوئے ہیں کہ وہ سڑک پر نماز نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن یونیورسٹی انتظامیہ میں کسی کے پاس یہ زبان نہیں ہے کہ کہہ سکے کہ جہاں طلبہ نماز پڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ کوئی عام گزرگاہ نہیں بلکہ یونیورسٹی کی داخلی سڑک ہے۔ یونیورسٹی کی اپنی روایات ہیں، یہاں طلبہ ہمیشہ سے دھرنا اسپاٹ پر نماز ادا کرتے آئے ہیں۔ پولیس کی مداخلت اسی وقت ممکن ہے جب طلبہ تشدد پر اُتر آئیں یا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کریں۔ لیکن اس مسئلے پر پراکٹر اور دیگر انتظامی اہلکاروں کے منہ سے سوائے اس جملے کے—’ہم طلبہ کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ مان جائیں گے‘ —کوئی اور بات نہیں نکلتی۔ ضلع انتظامیہ کے آگے مرعوبیت کا یہ عالم آسمان نے نہ پہلے کبھی دیکھا ہوگا نہ سنا ہوگا۔

اور شاید طلبہ مان بھی جائیں، کیونکہ آج اکیڈمک کونسل کی ایک میٹنگ ہوئی ہے جس میں یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ فیس میں 15 سے 20 فیصد سے زیادہ اضافہ نہ کیا جائے۔

المیہ یہ ہے کہ نہ وائس چانسلر کو اس بات کا احساس ہے اور نہ ان کے مشیران کو کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی یوگی پولیس کی تابع نہیں۔ یہ ایک سینٹرل یونیورسٹی ہے، جہاں پولیس اسی وقت مداخلت کر سکتی ہے جب یونیورسٹی میں امن و امان کا مسئلہ انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر ہو جائے اور یونیورسٹی انتظامیہ مدد کی خواہش مند ہو۔ اس وقت پوری انتظامیہ دودھ پور تھانہ کے آگے سَرینڈر موڈ میں ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.