ایس۔ ایم۔ انور حسین
سابق صدرطلبہ یونین مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
محبانِ علی گڑھ اور جانثارانِ سرسید کو کل ہی یہ مژدۂ جاں فزا ملا ہوگا کہ تقریباً تین ہفتوں سے فیس میں اضافہ کو لے کر جاری طلبہ کا دھرنا اور بھوک ہڑتال، پوری یونیورسٹی میں کلاسوں کا بائیکاٹ، عبداللہ گرلز کالج میں لڑکیوں کا احتجاج ، عبداللہ ہال کی طالبات اور کالج کی انتظامیہ کے مابین ٹکراؤ اور تکرار کی صورتِ حال، اور یونیورسٹی کے اردگرد اور وائس چانسلر لاج کے آس پاس اتر پردیش پولیس کی بڑی تعداد میں موجودگی، طلبہ اور پولیس میں بڑھتے ہوئے ممکنہ تصادم کا خطرہ ، سب کل صبح ساڑھے چار بجے اپنے اختتام کو پہنچ گیا تھا۔ رات کے آخری پہر، یعنی صبحِ کاذب کے وقت وائس چانسلر صاحبہ جائے دھرنا پر پہنچیں، طلبہ کے مطالبات کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا اور بھوک ہڑتال پر بیٹھے طالب علموں کو جوس پلا کر سب کو اپنے اپنے ہاسٹل واپس جانے پر راضی کر لیا۔ اس طرح یونیورسٹی کسی سنگین بحران میں داخل ہونے سے بچ گئی۔ لیکن کل شام سے صورتِ حال پھر بدل گئی ہے اور لگتا ہے دھرنا، کلاسوں کے بائیکاٹ اور بھوک ہڑتالوں کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر جاری ہو جائے گا۔
کل شام وائس چانسلر آفس سے جاری کردہ ایک خط میں کہا گیا ہے کہ جاری طلبہ کی فیس میں زیادہ سے زیادہ بیس فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ (گویا نئے داخلوں پر فیس کا اضافہ بیس فیصد سے لے کر چالیس یا اس سے بھی زیادہ کا ہو سکتا ہے، جب کہ ایک اطلاع کے مطابق طلبہ کو صرف دو فیصد سے لے کر دس فیصد تک کے اضافے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔) دوسرے، پراکٹر کی برخاستگی کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ دھرنے میں شامل بعض طلبہ کو ڈسپلنری کمیٹی کے سامنے بلانے کی بات بھی کہی گئی ہے۔
طلبہ کو جیسے ہی وائس چانسلر آفس کے اس خط کا علم ہوا وہ ایک مرتبہ پھر بھڑک اٹھے۔ کل رات کے وقت ہی طلبہ کی ایک بڑی تعداد بابِ سید پر جمع ہو گئی تھی اور دیر رات گئے تک وہاں موجود رہی۔ سینیئر اساتذہ نے سمجھا بجھا کر انہیں اپنے کمروں میں واپس بھیج دیا تھا، لیکن آج کلاسوں میں طلبہ کی تعداد کافی کم تھی۔ اطلاعات کے مطابق طلبہ میں شدید غم و غصہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے اور وائس چانسلر نے دھرنا اٹھانے اور غیر معینہ بھوک ہڑتال ختم کرنے کے لیے جو شرائط طے کی تھیں ان کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ بہرکیف، اس خط کے شائع ہونے کے بعد حالات ایک مرتبہ پھر دھماکہ خیز صورتحال اختیار کر گئے ہیں ۔ اندر ہی اندر دھواں سلگ رہا ہے اور کب شعلہ بھڑک اٹھے کچھ کہنا مشکل ہے۔
مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آج کل جس صورتِ حال سے گزر رہی ہے، وہ یونیورسٹی انتظامیہ کی اپنی نااہلی اور ناعاقبت اندیشی کی پیداوار ہے۔ فی الوقت تو طلبہ نہ دھرنے پر ہیں اور نہ بھوک ہڑتال پر، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یونیورسٹی کے حالات اندر سے انتہائی کشیدہ ہیں۔ مختلف معاملات ایسے ہیں جن کو لے کر طلبہ اور اسٹاف دونوں میں کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔ پچھلے تین ہفتوں سے طلبہ کا احتجاج و دھرنا جاری تھا۔ کچھ طلبہ کئی دنوں سے غیر معینہ بھوک ہڑتال پر بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے دو کی حالت نازک بھی بتائی جا رہی تھی۔
ایک سابق طلبہ یونین عہدیدار کی حیثیت سے طلبہ کو میرا مشورہ یہی ہوگا کہ آئندہ اگر کبھی انہیں بھوک ہڑتال پر جانے کی نوبت آجائے تو برائے کرم غیر معینہ بھوک ہڑتال کے بجائے ریلے ہنگر اسٹرائیک (Relay Hunger Strike) کا راستہ اپنائیں۔ ہر روز پانچ یا دس طلبہ چوبیس گھنٹے کے لیے علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھیں۔ اس طرح ان کی طاقت اور حمایت و حرارت میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا اور یونیورسٹی بھی کسی امکانی سنگین ہنگامے یا تشدد آرائی سے محفوظ رہے گی اور کسی بھی طرح کی اشتعال انگیزی اور شرانگیزی کا خطرہ کم ہو جائے گا۔ ورنہ خدا نخواستہ اگر کسی ہڑتالی طالب علموں میں سے کسی کی حالت بگڑ جاتی ہے تو طلبہ میں اشتعال پیدا ہو سکتا ہے جسے سنبھالنا طلبہ کی منتخب یا غیر منتخب قیادت کے بس سے باہر ہو جائے گا۔ طالب علموں کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اپنے جائز حقوق اور یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے تحفظ و بقا کی لڑائی انہیں ہی لڑنی ہے اور اس کے لیے قربانیاں بھی دینی ہیں۔ مگر خود کو اس طرح بچا کر چلنا ہے کہ خدا نخواستہ اگر یونیورسٹی میں کہیں آگ بھڑکے تو وہ اسے خود بجھا سکیں۔ بقول مجازؔ:
یہاں آگ ہم ہی نے لگائی ہے، یہاں آگ ہم ہی بجھائیں گے۔
لیکن اس بات کا دھیان رہے کہ کہیں ایسی آگ نہ بھڑک اٹھے جس میں آپ خود بھی جل جائیں اور آپ کی مادرِ علمی بھی جھلس جائے۔
قریباً تین ہفتوں سے جاری طلبہ کا یہ احتجاج اتنا شدید تھا کہ عبداللہ گرلز کالج کی طالبات بھی کثیر تعداد میں اپنی پرووسٹ اور پرنسپل کے منع کرنے کے باوجود دھرنے کے مقام پر اپنی حمایت درج کرانے کے لیے پہنچ گئی تھیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ عبداللہ گرلز کالج اور عبداللہ ہال کی انتظامیہ اپنی طالبات کے غم و غصہ اور احتجاجی تیور کو قابو میں رکھنے میں ناکام رہی تھیں۔ ورنہ عام طور پر طالبات اپنی پرنسپل اور پرووسٹ سے نہ نظر ملا کر بات کرتی ہیں نہ اونچی آواز میں۔ اور جو کبھی نہیں ہوا، وہ بھی اس مرتبہ دیکھنے میں آیا کہ نابینا طلبہ بھی کثیر تعداد میں سڑک پر اپنی چھڑیاں پٹختے ہوئے دھرنا گاہ پر جمع ہو گئے تھے۔ (آج کی تازہ اطلاعات کے مطابق سینٹینری گیٹ یعنی پرانی جنگی پر کچھ نابینا طلبہ دھرنے پر بیٹھے ہیں اور انہوں نے سینٹینری گیٹ کو بند کر دیا ہے۔)
طلبہ کی ایک بڑی تعداد بابِ سرسید پر جمع تھی۔ ان کے اندر غم و غصہ تھا، نعرہ بازی ہو رہی تھی اور دوسری طرف اتر پردیش کی پولیس بابِ سرسید کے باہر کھڑی تھی۔ پولیس کی ایک بڑی نفری پراکٹر آفس سے شعبہ عربی تک بھی گشت کر رہی تھی اور طلبہ اور پولیس میں ٹکراؤ کا خدشہ بڑھتا جا رہا تھا۔
میں نے شروع میں ہی کہا کہ اگر انتظامیہ نے سوجھ بوجھ سے کام لیا ہوتا تو معاملہ اتنا طول نہ پکڑتا۔ میری نظر میں اگر انتظامیہ نے ضابطہ کی کارروائیوں پر عمل کرتے ہوئے فیس میں منطقی اضافہ کیا ہوتا ، طلبہ کو اعتماد میں لیتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہوتا اور اس سال کے ایڈمیشن پراسپیکٹس ہی میں اس کا اندراج کر دیا ہوتا تو یہ معاملہ اتنا نہ بھڑکتا۔ مگر انتظامیہ نے نہایت خاموشی سے فیس میں اضافہ کا یکطرفہ فیصلہ کر لیا، وہ بھی اعتدال کو نظر انداز کرتے ہوئے۔ اور جب طلبہ نے اس پر احتجاج کیا تو یونیورسٹی پراکٹر نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔
طلبہ انتہائی پُرامن انداز میں احتجاج کر رہے تھے۔ نہ کوئی پرتشدد واقعہ ہوا تھا نہ توڑ پھوڑ۔ ایک پُرامن احتجاج و مظاہرے کو دبانے کے لیے اچانک اتر پردیش پولیس بڑی تعداد میں کیمپس میں داخل ہوئی، طلبہ کو زد و کوب کیا، طالبات کے ساتھ بھی ناروا سلوک اپنایا، اور کچھ کو زبردستی گھسیٹ کر کیمپس سے باہر لے جانے کی کوشش کی۔ دو طالب علموں کو شاید اٹھا کر لے بھی گئے اور ان پر ایف آئی آر بھی درج ہوئی۔
میں یہاں طلبہ کے صبر و ضبط اور تحمل کی داد دیتا ہوں کہ وہ مشتعل نہیں ہوئے، نہ پولیس سے الجھے اور نہ پراکٹر آفس میں آگ لگائی۔ اگر طلبہ آئندہ بھی اسی صبر و ضبط کے ساتھ خود کو منظم رکھیں تو وہ آنے والے دنوں میں یونیورسٹی انتظامیہ کی زیادتیوں اور یا یونیورسٹی کے خلاف ہونے والی کسی بھی داخلی یا خارجی سازش ، سب کا مقابلہ کر سکیں گے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یونیورسٹی کے اندر پولیس کس کی اجازت سے داخل ہوئی؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ نہ پراکٹر ذمہ داری قبول کرتے ہیں نہ وائس چانسلر صاحبہ۔ آئی پی ایس رجسٹرار کس درد کی دوا ہیں، کچھ معلوم نہیں۔ مزید یہ کہ یونیورسٹی انتظامیہ پولیس کی اس غیر مطلوبہ دراندازی کی مذمت کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پراکٹر صاحب یہ فرماتے سنے گئے کہ لڑکے چونکہ سڑک پر نماز پڑھنے کی تیاری کر رہے تھے اس لیے پولیس کو روکنا پڑا۔ پراکٹر تقریباً وہی منطق دہرا رہے ہیں جو آج کل بھاجپا اور سنگھ پریوار کی ہے: ’’سڑک پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ نماز پڑھنی ہے تو مسجد جاؤ یا اپنے کمرے میں۔‘‘ حالانکہ جہاں طلبہ نماز پڑھنا چاہتے تھے وہ عام شاہراہ نہیں بلکہ یونیورسٹی کی داخلی سڑک ہے۔ اور سو سال سے زائد عرصے سے یہی روایت رہی ہے کہ طلبہ اپنے احتجاجی مقام پر ہی نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ مسلم یونیورسٹی ہے۔ نماز، اذان، مسجد، تراویح، اجتماعی افطار، میلاد النبیؐ کی محفلیں اور سیرت کے جلسے سب اس کا حصہ ہیں۔
دشواری یہ ہے کہ وائس چانسلر نعیمہ آپا اپنے شوہر کی مدد سے، سابق بھاجپائی وائس چانسلر طارق منصور صاحب کی جوڑ توڑ سے اور مقامی بھاجپائیوں کی عنایت سے وائس چانسلر تو بن گئی ہیں، لیکن انہیں خود اپنے مرتبے اور منصب کا ادراک نہیں ہے۔ وہ ایک ایسی سنٹرل یونیورسٹی کی وائس چانسلر ہیں جس کا شمار ملک کی قدیم ترین اور اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے، اور جسے کبھی مشرق کا آکسفورڈ اور کیمبرج کہا جاتا تھا۔ انہیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ ضلع انتظامیہ کی ماتحت نہیں ہیں۔
حالانکہ وہ خود ایک علیگ ہیں، اور طالب علمی سے لے کر ریسرچ تک اور ریسرچ سے تدریس تک سارا سفر انہوں نے یہیں طے کیا ہے، لیکن انہیں شاید نہ اپنے منصب کے وقار و بلندی کا پتہ ہے اور نہ ادارے کی رفعت و عظمت کا احساس۔ اگر انہیں اس بات کا احساس ہوتا تو وہ گزشتہ سال ایک مقامی پرائیویٹ یونیورسٹی کے کانووکیشن میں (جس کے عہدیداران علم پھیلانے پر کم اور مہنگی فیس کے عوض سستی ڈگریاں اور ڈپلومے بانٹنے میں زیادہ یقین رکھتے ہیں) بحیثیت مہمانِ اعزازی کیسے اور کیوں کر شریک ہوتیں، جہاں ایک غیر اہم سا فرد مہمانِ خصوصی کے طور پر براجمان تھا۔ یہ ان کی بھی توہین تھی اور ان کے ادارے کی بھی۔ کاش کہ انہیں اپنے پروٹوکول کا خود خیال ہوتا۔
وائس چانسلر کا پروٹوکول پراکٹوریل عملے کے جلو میں اور ’’آگے بڑھو، پیچھے ہٹو‘‘ کے شور میں نکلنے کا نہیں ہوتا، بلکہ ضلع انتظامیہ سے معاملہ ہو یا صوبائی انتظامیہ سے مشاورت، انہیں اس بات کا احساس رہنا چاہیے کہ علی گڑھ جیسی سنٹرل یونیورسٹی کی وائس چانسلر کی حیثیت سے وہ ان کی ماتحت اور ملازم نہیں ہیں۔ ان کی بنیادی ذمہ داری ادارے میں تعلیمی نظام کو صحت مند خطوط پر چلانا اور طلبہ و اساتذہ میں تنقیدی فکر (Critical Thinking) اور سائنسی مزاج (Scientific Temperament) کو پروان چڑھانا ہے، اور ضلع یا صوبائی انتظامیہ کا کام صرف معاونت و اعانت ہے۔ وہ جب چاہیں ان سے غیر مشروط مدد طلب کر سکتی ہیں، لیکن صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کو یہ حق ہرگز نہیں کہ وہ وائس چانسلر یا یونیورسٹی کے فیصلوں میں مداخلت کریں۔
یونیورسٹی انتظامیہ کو شاید حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہے۔ کل کی ایک غیر مصدقہ اطلاع یہ بھی تھی کہ پولیس پراکٹر آفس کی طرف سے یونیورسٹی میں داخل ہو چکی تھی اور وہاں سے لے کر شعبۂ عربی تک اس کا گشت جاری تھا۔ اگر اطلاع درست ہے تو یہ ایک بڑی انتظامی غلطی تھی، ایک قسم کی اشتعال انگیزی، جو کسی بھی وقت طلبہ اور پولیس کے درمیان ٹکراؤ کا سبب بن سکتی تھی۔
فیس میں اضافے کے معاملے نے اتنا طول کیوں پکڑا؟ کس کے اشارے پر؟ کن کے مشورے پر؟ ابھی یہ سوالات قیاس آرائیوں کے دائرے میں ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ نئے کنٹرولر کی تقرری کے لیے سلیکشن کمیٹی ہونے والی تھی، اسی کو روکنے کے لیے اچانک فیس میں اضافے کا یہ ’’منی بم‘‘ چھوڑا گیا۔ لیکن یہ طے ہے کہ کچھ ایسی طاقتیں ہیں جو نہیں چاہتیں کہ وائس چانسلر اور طلبہ کے درمیان مفاہمت کی کوئی راہ نکلے۔
یونیورسٹی میں پروفیسروں کی وفاداریاں بڑی تہہ در تہہ اور پیچ در پیچ ہوتی ہیں، جنہیں سمجھنا آسان نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وائس چانسلر کو طلبہ سے ڈرایا جا رہا ہے اور طلبہ کو وائس چانسلر کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے۔ ورنہ طلبہ کے مطالبات ایسے نہیں تھے جنہیں مانا نہ جا سکے۔ طلبہ کا تین ہفتوں سے احتجاج، دھرنا اور کئی دنوں سے بھوک ہڑتال جاری تھا … لیکن وائس چانسلر کو کل صبح توفیق ہوئی کہ وہ جائے دھرنا پر احتجاجی طلبہ کو منانے پہنچیں۔
یہ سوال اہم ہے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو طلبہ اور وائس چانسلر کے بیچ دیوار بنے ہوئے ہیں؟ علی گڑھ میں ہمیشہ کہا جاتا رہا ہے کہ وائس چانسلر ’’باپ‘‘ کی جگہ ہوتا ہے۔ موجودہ وائس چانسلر اس اعتبار سے ’’ماں‘‘ کی طرح ہیں۔ آخر نعیمہ آپا کس طرح کی ماں کی مانند ہیں جن کے دل میں اپنے بچوں کے لیے ممتا اور تڑپ نہیں جاگتی؟
نعیمہ آپا، IPS رجسٹرار اور پراکٹر تینوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ تعلیمی ادارے “moral authority” کے بل بوتے پر چلائے جاتے ہیں، باؤنسروں اور پولیس کے ذریعے نہیں۔
طلبہ کا دوسرا مطالبہ اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کرانے کا ہے، اور یہ ایک نہایت جائز مطالبہ ہے۔ انتظامیہ کو اس پر اعتراض نہیں، مگر اختلاف ’’مناسب وقت اور تاریخ‘‘ کے اعلان پر ہے۔ انتظامیہ کہتی ہے کہ مناسب وقت پر الیکشن کرا دیا جائے گا، لیکن ’’مناسب وقت‘‘ ایک مشکوک اور مبہم اصطلاح ہے۔ لہٰذا طلبہ کا یہ مطالبہ غلط نہیں کہ الیکشن شیڈول ابھی سے جاری کیا جائے۔ کم از کم تاریخ کا اعلان تو ہو سکتا تھا۔ اب جا کر یونیورسٹی نے دسمبر میں الیکشن کرانے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ تاخیر بہت زیادہ ہے۔ دسمبر میں الیکشن بھی ہوگا اور امتحانات بھی۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ اور اگر حسب وعدہ الیکشن ہو بھی جاتا ہے تو اپریل میں پھر امتحانات ہوں گے اور ساتھ ہی یونین کے سیشن کا خاتمہ۔ یعنی صرف تین سے چار ماہ کی مدت کی یونین بنے گی — یہ دراصل یونین کے بال و پر کاٹنے کی ایک کوشش ہے۔
طلبہ کا تیسرا مطالبہ پراکٹر کی برطرفی کا تھا۔ میرا ماننا ہے کہ وائس چانسلر کو یہ مطالبہ فوراً مان لینا چاہیے تھا، کیونکہ ایک چھوٹے سے معاملے کو جس طرح طول دیا گیا، اس میں پراکٹر کا کردار انتہائی منفی رہا اور یہ ان کی نااہلی کا مظہر بھی ہے۔ اور اگر پراکٹر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ’’حکامِ بالا‘‘ کے حکم پر پولیس کو اندر بلایا، تو انہیں خود ہی احتجاجاً مستعفی ہو جانا چاہیے۔
میڈم وائس چانسلر کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اگر یونیورسٹی میں آگ لگی اور ادارہ بند ہوا تو نہ ان کی کرسی بچے گی اور نہ یونیورسٹی کی ساکھ۔ سپریم کورٹ میں پہلے ہی اقلیتی کردار کا معاملہ زیرِ التوا ہے۔ اگر کوئی بڑا ہنگامہ ہوا تو یہ اس فیصلے پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ایگزیکٹیو کونسل کے وائس چانسلر کے امیدواروں کے انتخاب میں ان کے شوہر کی موجودگی پر سپریم کورٹ کا تبصرہ ان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ انہیں یہ اندازہ بھی ہوگا کہ جن کو انہوں نے وائس چانسلر کے انتخاب میں پچھاڑا تھا وہ اور ان کے حامی آج بھی کیمپس میں ان کے خلاف متحرک ہیں۔
اگر میڈم وائس چانسلر خود اعتمادی کے ساتھ اپنے شوہر اور سابق وائس چانسلر طارق منصور کے اثرات سے آزاد ہو کر، اور مقامی بھاجپائیوں کے دباؤ سے مرعوب ہوئے بغیر ایک آزاد وائس چانسلر کی طرح کام کرنا شروع کریں، اور موجودہ مشیروں سے ذرا فاصلہ بنائیں، تو حالات اب بھی سنور سکتے ہیں۔ بحیثیت طالب علم، ریسرچ اسکالر اور استاد انہوں نے علی گڑھ سے بہت کچھ سیکھا اور برتا ہے۔ اگر آج بھی وہ انہی اقدار کو سامنے رکھ کر یونیورسٹی کو چلائیں تو ان کی کرسی بھی محفوظ رہ سکتی ہے اور ادارہ بھی بڑے بحران سے بچ سکتا ہے۔
جہاں وہ مرکزی حکومت کے تئیں احساسِ جواب دہی کے ساتھ اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، وہیں ایک دن ربِ وحدہٗ لا شریک لہ کے سامنے احتساب و مواخذہ کے عمل سے بھی گزرنا ہوگا۔ یہ احساس و احتضار ان کے لیے بھی بہتر ہوگا اور یونیورسٹی کے لیے بھی۔
نعیمہ آپا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اس عظیم الشان یونیورسٹی کی پہلی خاتون وائس چانسلر ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یونیورسٹی جس ہنگامی دور سے گزر رہی ہے اسے وہ اپنے لیے ایک موقع (opportunity) کے طور پر استعمال کر پاتی ہیں یا نہیں۔ انہیں اپنی اس “Caged VC” یا “Captive VC” والی امیج سے باہر نکلنا ہوگا۔ ان کی سب سے بڑی طاقت ان کا خاتون ہونا ہے۔ انہیں چاہیے کہ اپنی اس طاقت کو سمجھیں اور پراکٹوریل عملے یا باؤنسروں اور پرامپٹر کی مدد کے بغیر براہِ راست طلبہ سے تعلق (interaction) رکھیں۔
کاش میڈم وائس چانسلر یہ راز سمجھ سکتیں کہ طالب علم برادری دراصل وائس چانسلر کی طاقت ہوتی ہے، نہ کہ مسئلہ یا کمزوری۔
سچ یہ ہے کہ آج یونیورسٹی میں ایک “macro surgery” کی ضرورت ہے۔ عام طور پر اس قسم کی مہم کا شکار طلبہ بنتے ہیں، لیکن اس وقت ضرورت ہے کہ اساتذہ، انتظامی اہلکاروں اور مشیروں پر اس سرجیکل عمل کو نافذ کیا جائے۔ جن کا کام پڑھانا ہے، پہلے ان سے پڑھانے کا کام لیا جائے۔ اگر اضافی وقت میں وہ کلریکل یا ٹیکنیکل خدمات دینا چاہیں تو خوش آمدید، ورنہ ان کا بنیادی فریضہ تدریس اور تحقیق کو آگے بڑھانا ہے۔ فرائض چھوڑ کر نوافل کسی مسلک میں قابلِ قبول نہیں۔
چلتے چلتے محترمہ شیخ الجامعہ کی نذر کلیم عاجز کا ایک شعر:
نہ وہ محفل جمی ساقی نہ وہ پھر دورِ جام آیا
تیرے ہاتھوں جب سے میکدہ کا نظام آیا
It is alarming. It appears a deep conspiracy is being hatched to disturb the peaceful Campus of the AMU exploiting the situation with malafide intentions.
It is necessary to ensure that the present situation is resolved fulfilling the genuine demands of the students honestly and let them continue their studies in a peaceful atmosphere without using the force disturbing the University Campus.
ہر شخص اپنی وفاداری کرسی سے نبھائے گا اور ادارہ بیک سیٹ پر ہوگا تو کیا اساتذہ اور کیا اولڈ بوائز سب ایک ہی قطار میں ہیں۔
میڈم نے 10 سال کالج چلایا، آج کالج جس حال میں چھوڑا اس سے ان کی قابلیت کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ وہ کالج جس کا ایک نام تھا، شیخ عبداللہ کا خواب، وہ محض ایک پرائیویٹ کالج ہوگیا جہاں کسی کلرک سے بھی آپ سوال نہیں کرسکتے کہ کب آؤ اور کب چلے جاؤ۔ اُستاد بھی اُسی انداز میں ہیں، تنخواہ اُٹھانا ان کا جنم سِدھ حق ہے باقی سب بیکار ہے۔ ویمنز کالج کی بچیاں اس کی گواہی دیں گی بلکہ اسٹوڈنٹ فیڈ بیک کی اینالیسز اگر ایمانداری سے ہو تو حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اللہ ادارے کی خیر رکھے، ساتھ میں کالج کی بھی۔