محمد غزالی خان
معروف صحافی اوربراڈ کاسٹر آصف جیلانی صاحب89 سال کی عمر میں لندن میں انتقال کر گئے۔ وہ تقریباً دو سال سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھے جسے انہوں نے بڑی ہمت کے ساتھ اپنے گھر والوں کے علاوہ کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔ آصف صاحب طویل عرصے تک بی بی سی اردو سروس سے وابستہ رہے۔ انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز ’روزنامہ امروز‘سے کیا جس کے بعد روزنامہ جنگ میں بحیثیت رپورٹر خدمت انجام دی۔ ہفت روزہ ’لیل و نہار‘ کے بھی کراچی میں نمائندے رہے۔ ریڈیو پاکستان کراچی سے بچوں کے پروگرام میں بچوں کا اخبار شروع کیا اور دوسرے پروگراموں میں حصہ لیا۔
روزنامہ ’جنگ‘کی 1973 میں لندن سے اشاعت شروع ہونے کے بعد انہیں نیوز ایڈیٹر مقرر کرکے برطانیہ بھیج دیا گیا اور بعد میں ایڈیٹر بنادیا گیا۔ دونوں ذمہ داریوں کو انھوں نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ نبھایا۔ 1959 میں انہیں ’جنگ‘کی جانب سے بحیثیت نمائندہ دہلی بھیجا گیا تھا جہاں 1965 کی ہند و پاک جنگ شروع ہوتے ہی انہیں گرفتار کر کے تہاڑ جیل بھیج دیا گیا۔ 1983 میں’جنگ‘سے مستعفی ہونے کے بعد انہوں نے بحیثیت سینئر پروڈیوسر بی بی سی اردو سروس سے وابستگی اختیار کرلی۔
آصف صاحب کئی کتابوں کے مصنف تھے اور مختلف اخبارات و جرائد کے لئے لکھتے تھے مگر بی بی سی اردو سے طویل وابستگی کے باعث اس کا مقبول پروگرام ’سیر بین‘ان کی شناخت بن گیا تھا۔ آصف جیلانی صاحب کی پیدائش 1934 میں علی گڑھ میں ہوئی تھی۔
1948 میں آصف صاحب نے اپنے والدین کے ساتھ پاکستان ہجرت کی اور سند ھ مدرسہ اور بعد میں سندھ مسلم کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد سندھ یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔
ان کی ابتدائی تعلیم ذاکر حسین صاحب کے دور وائس چانسلری میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہوئی تھی۔ ان کی اکثر تحریروں میں جامعہ ملیہ میں زمانہ طالب علمی اور تقسیم کے وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دہلی کے واقعات کی یادوں کا ذکر ملتا ہے۔ ان کی کتاب ‘وسط ایشیا نئی آزادی نئے چیلنج’ ایسے ہی ان کی یاد کا مرقع ہے، جس میں انھوں نے دہلی سے لیکر ماسکو تک کی کہانی کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ ان کی دوسری کتاب ‘ساغر شیشے لعل و گہر ہے’ جو آزادی کے بعد برصغیر میں رونما ہونے والے اہم خبروں کے واقعات کا ایک جامع بیانیہ ہے۔ جیلانی صاحب کی تجزیاتی صلاحیت پوری کتاب میں عیاں ہے، جو وضاحتی، معروضی اور غیر جانبدارانہ انداز میں لکھی گئی ہے۔
آصف صاحب سے لندن میں میری پہلی ملاقات میری سسرال میں ہوئی تھی۔ ان کے گھرانے اور میری سسرال کے گھریلو مراسم تھے۔ اس کے بعد ان سے میری دوسری ملاقات، بلکہ ملاقاتوں کا سلسلہ ’امپیکٹ انٹرنیشنل‘کے دفتر میں شروع ہوا۔ ’امپیکٹ انٹرنیشنل‘ کے مدیر اور صحافت میں میرے مرحوم استاد اور محسن محمد حاشر فاروقی صاحب سے ان کا گہرا تعلق تھا، جہاں وہ ہر جمعے کو تشریف لاتے اور امپیکٹ کے دفتر میں، ’جنگ‘ اور بی بی سی میں آسف صاحب کے ساتھی میرے ایک اور محسن اور استاد جلیل احمد خان مرحوم اور سلیم صدیقی صاحب (سابق میئر لندن بارو آف ہیکنی) کے ساتھ لنچ کے بعد چائے پر مختصر سی نشست جمتی جس میں دنیا جہان کی باتیں ہوتیں۔ چونکہ جیلانی صاحب ایک جہاں دیدہ شخصیت تھے تو ان کی باتیں اور تجربے سننے کے لائق ہوتیں، جس سے ان کی علمیت اور گہرائی کا اندازہ ہوتا۔
سوانح عمریاں پڑھنے یا تجربہ کار اور سینئر لوگوں سے ان کے تجربات اور مشاہدات سے متعلق سوالات کرنا میرا بچپن کا شوق ہے۔ ان نشستوں میں، میں آصف صاحب سے کچھ نہ کچھ ان کی یادوں کے بارے میں پوچھ ہی لیتا۔ انہیں بھی اپنے تجربات شیئر کرکے غالباً سکون سا ملتا تھا۔ ایک مرتبہ پاکستانی حکمرانوں کی لاعلمی اور وہاں کے اخباروں کی سنسنی خیزی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دہلی میں بحیثیت صحافی چند ماہ گزارنے کے بعد جب وہ پاکستان واپس گئے تو انہیں اور پاکستان کے دہلی میں مقیم دو اور صحافیوں کو ایوب خان نے خاص طور پر بلوایا۔ ملاقات کے دوران ایوب خان نے ہندوستان کی اصل صورتحال کے بارے میں سوال پوچھا۔ آصف صاحب کے بیان کے مطابق: میں نوجوان، نڈریا بے احتیاط تھا، میں نے صاف صاف بتادیا کہ ہندوستان بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی جانب گامزن ہے۔ ہندوستان میں جب ہم پاکستانی اخبارات میں ہندوستان کی مزید تقسیم ہونے کی خبریں پڑھتے ہیں اور وہاں کبھی سینٹ کی فیکٹری کی تعمیر تو کبھی کوئی اور بڑے ترقیاتی منصوبے کے بارے میں پڑھتے ہیں تو شرم آتی ہے۔ اس پر ایوب خان کا غصہ صاف ظاہر تھا اور میرے سینئروں نے سمجھا کہ اب میری شامت آگئی۔ ایوب خان نے اپنے پرسنل سیکریٹری کو بلایا اور غصے بھرے لہجے میں کہا سنو یہ کیا بتا رہے ہیں۔ اس کے بعد ایوب خان نے پھر پوچھا کہ صحیح معلومات کے لئے ہمیں کون کون سے اخبارات اور کتابیں پڑھنی چاہئیں ان کی فہرست بنا کر دو۔ اور سیکریٹری صاحب سے کہا کہ فوری طور پر یہ کتابیں اور اخبارات منگانے کا انتظام کرو۔
وڈیروں کی تعلیم نسواں سے دشمنی کی ایک مثال بیان کرتے ہوئے ایک مرتبہ انہوں نے بتایا کہ کراچی میں ان کے والدین کسی وڈیرے کے کرائے دار تھے۔ یوں تو وڈیرا بڑے رکھ رکھاؤ والا شخص تھا مگر کیونکہ اس کی دو چھوٹی چھوٹی بچیاں اسکول نہیں جاتی تھیں اور کھیلتی ہوئی آصف صاحب کی والدہ کے پاس آجایا کرتی تھیں۔ انہوں نے بچیوں کو پڑھانا شروع کردیا۔ معلوم ہونے پر وڈیرے کی بیوی اور خود اس نے سخت برہمی کا اظہارکیا۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ آصف صاحب کے والد مولانا عبدالواحد سندھی کا تعلق سندھ سے تھا جو معلوم نہیں کس سن میں علیگڑھ اور بعد میں دہلی منتقل ہوگئے تھے جہاں انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں بحیثیت استاد خدمات انجام دیں۔
اردو اور ہندی کےتعلق سے ایک واقعہ سنا کر آصف صاحب ایک دلچسپ واقعہ سنایا کرتے تھے اور اس پرخود بھی خوب ہنسا کرتے تھے۔ ان کے مطابق جب شروع شروع میں وہ آکاش وانی سے ہندی بلٹن میں سنتے تھے کہ ’پاکستان نے سیما کا اُلنگھن کیا‘ تو مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ سوچتا تھا کہ پتہ نہیں کون سیما ہے جس کا النگھن پاکستان نے کردیا۔‘
تہاڑ جیل کا ایک واقعہ بھی انہوں نے سنایا تھا جسے کئی سال بعد اپنی فیس بک پر ایک تحریر میں قلم بند کردیا تھا۔ بہتر ہوگا مضمون کا متعلقہ حصہ انہی کی زبانی نقل کیا جائے۔ لکتھے ہیں:
’مجھے جب جیلر کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ انٹرنمنٹ آرڈر دیکھ کر پریشان ہوگیا جو میری گرفتاری کے وقت مجھے دیا گیا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس آرڈر کے تحت مجھے جیل کیوں بھیجا گیا ہے۔مجھے یا تو گھر میں انٹرن کیا جا سکتا تھا یا انٹرن کیمپ میں۔ وہ مغرب کا وقت تھا اور عین اس وقت جیل کے عقب میں پالم کے ہوئی اڈے پر بلیک آوٹ کا سایرن بجا۔ جیلر نے ہڑ بڑا کر جیل کے ایک عمل دار کو حکم دیا اسے قصوری چکی میں سٹ دے۔ عمل دار لالٹین اپنی چادر میں چھپائے مجھے جیل کے آخری سرے پر لے گیا جہاں ایک دروازے پر اس نے دستک دی، اندر سے ایک شخص نمودار ہوا عمل دار نے مجھے اس کے حوالہ کر دیا۔احاطہ میں دائیں جانب سبزہ تھا اور اس کے سامنے نو کوٹھریاں تھیں جن میں قیدی جن کے بیڑیاں لگی ہوئی تھیں کھڑے سلاخوں کے سہارے سو رہے تھے۔ قصوری چکیوں میں خطرناک قیدیوں یا جیل میں لڑائی جگڑا کرنے پر رکھا جاتا ہے۔ چکیاں اس لیے کہی جاتی ہیں کہ ایک زمانے میں چکیوں میں قیدیوں کو اناج پیسنا پڑتا تھا۔ حسرت موہانی بھی اپنی قید کے دوران چکی پیس چکے ہیں۔
’میرے احاطہ کے اندر آنے پر یہ سب قیدی ہڑ بڑا کر جاگ گئے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ کون نیا قیدی آیا ہے لیکن کسی کو میرے بارے میں کوئی علم نہیں تھا کہ میں کون ہوں جسے قصوری چکیوں کے بالکل آخری سرے پر بند کیا گیا ہے۔
’جس وقت مجھے گرفتار کیا گیا تھا اس وقت میں ٹیریلین کی بوشرٹ اور پشاور کی بھاری چپل پہنے ہوئے تھا۔ کسی قیدی نے میری یہ پشاوری چپل دیکھ کر شور مچا دیا کہ یہ پاکستانی کمانڈو ہے۔ دوسرے قیدی نے لقمہ دیا کہ اسے پالم ایر پورٹ کے قریب گرفتار کیا گیا ہے۔بس پھر کیا تھا قصوری چکیوں کے پورے احاطہ میں شور مچ گیا کہ ایک پاکستانی کمانڈو کو پکڑا گیا ہے۔
’میرے پاکستانی کمانڈو ہونے کی ان قیدیوں پر ایسی دھاک بیٹھ گئی تھی کہ صبح جب بیڑیاں لگے قیدیوں کو ورزش کے لئے سبزے میں چھوڑا گیا تو ان میں سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ میری چکی کے قریب آئے۔ ان قیدیوں کی جس طرح بیڑیا ں لگی ہوئی تھیں اس سے لگتا تھا کہ یہ بہت خطرناک قیدی ہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ ان میں بیشتر قاتل تھے جو جب لڑتے تھے تو کہتے تھے کہ میں کوئی میں چور ہوں۔ میں نے چار خون کئے ہیں۔‘
آصف صاحب سے میری آخری تفصیلی بات حاشر صاحب کے انتقال کے بعد فون پر ہوئی تھی جب انہوں نے حاشر صاحب پر میرا مضمون پڑھنے کے بعد فون کیا اور مضمون کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اب مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں، تم نے تو ماشااللہ وہ سب کچھ لکھ دیا جو میں لکھنا چاہتا تھا۔ مجھے آصف صاحب کے اس تبصرے پر تعجب بھی ہوا۔ میرا کوئی مضمون انہیں اچھا لگتا تو ہمت افزائی کرتے ہوئے تعریف تو کردیا کرتے تھے مگر لکھنے سے جی چرانے کا یہ پہلا موقع تھا۔ اس وقت ان کی تحریریں آنا کافی کم ہوچکی تھیں۔ معلوم کرنے پر بس وہ یہی جواب دیتے کہ، ’کچھ نہیں، کاہلی ہے۔‘ وہ حاشر فاروقی صاحب کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوپائے تھے اور اس وقت بھی صرف طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے جنازے میں شرکت نہ کرنے کے لئے معذرت کرلی تھی مگرجس موزی مرض کا وہ سامنا کررہے تھے اس کا ذکر تک نہ کیا۔
ایک عرصے سے میں لندن میں پرانے لوگوں کی پروفائلیں لکھنا چاہ رہا ہوں اور شروعات آصف صاحب سے ہی کرنا چاہتا تھا۔ رمضان سے تقریباً ایک ماہ قبل، میں نے انہیں فون کیا اور اپنی خواہش ظاہرکی، جس پر آصف صاحب نے کہا کہ ہاں ضرور آئیں۔ میں خود فون کر کے بتادوں گا۔ اس بات چیت کے بعد میں دوسرے کاموں میں مصروف ہوگیا اور آصف صاحب کا بھی فون نہیں آیا۔ کیونکہ انہوں نے صحت اچھی نہ ہونے کا ذکر کیا تھا، یہ سوچ کر کہ یاددہانی کروا کر میں انہیں پریشان نہ کروں، خود ان کے فون کا انتظار کرنے لگا۔ مگر آج ان کے انتقال کی خبر کے بعد معلوم ہوا کہ مرحوم کس ہمت و صبر کے ساتھ کینسر جیسے خطرناک مرض کی سختی برداشت کررہے تھے۔ یہ اس خطرناک مرض کا اثراوراس کی تکلیف تھی جس کہ وجہ سے انہوں نے لکھنا بند کردیا تھا۔
آصف صاحب کہ دختر مریم جیلانی نے بتایا کہ: ’گزشتہ دو دنوں سے وہ بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور بالکل خاموش تھے۔ مگر ایک روز قبل (تین اپریل ) تکلیف بہت زیادہ بڑھ گئی، جس کے بعد انجکشن لگائے گئے۔ میں ان کا ہاتھ پکڑ کر کلمہ طیبہ کا ورد کرتی رہی اور دونوں بھائی اور امی نزدیک بیٹھے تھے کہ تقریباً بارہ بجے دوپہر انہوں نے ایک لمبا سا آخری سانس لیا اور روح پرواز کر گئی۔‘إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔
اللہ تعالیٰ آصف صاحب کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ان کے پسماندگان میں بیوہ (معروف شاعرہ اور افسانہ نگار محسنہ جیلانی)، دو بیٹے، عبید جیلانی اور جنید جیلانی اور بیٹی مریم جیلانی شامل ہیں۔