محمد غزالی خان
’صورتحال ایسی تھی کہ پاکستان ایک narrative بیان کر رہا تھا۔ وہ narrative یہ تھا کہ انڈین مسلز اس [دفعہ 370 ہٹائے جانے کے] معاملے میں انڈیا کے ساتھ نہیں ہیں۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا تھا۔ کل کی بھی اگر آپ ان کی تقریر سنیں گے خان صاحب کی، یونائٹڈ نیشنز میں جو کری ہے انھوں نے، اس سے بھی انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کچھ جملے ان کے ایسے ہیں جن سے واضح پیغام دیا ہے کہ انڈین مسلمز تنگی محسوس کررہے ہیں اب اوروہ ہتھیار اٹھا سکتے ہیں۔ یہ کل کا ہے ان کا یونا ئٹد نیشنز کا۔ اس کا مطلب یہ کہ اب جو یہاں پر خدانخواستہ، internal یا external کوششوں سے کوئی بھی حادثہ ہوگا سوئی سیدھے سیدھے انڈین مسلز پر آئے گی ۔۔۔ ذرا سا آپ باریکی سے اس کو دیکھیں گے، تو خانصاحب اس وقت گھرے ہوئے ہیں ساری دنیا میں۔ اس بات کو لے کر کہ انہوں نے، ان کے یہاں دہشت گردی کو پالا پوسا ہے اور اس کو جوان کیا ہے اور اسکو tool [آلے ] کے طور پر use [استعمال ]کیا ہے الگ الگ جگہوں پر ، الگ الگ موقعوں پر۔ اس بات کو لے کر وہ گھرے ہوئے ہیں ۔ اور کرنا انہیں آگے پھر بھی ہے یہی کام۔ تو وہ انڈیان مسلز کو ابھی سے کٹگھڑے میں کھڑا کر رہا ہے۔‘
یہ وہ وضاحت ہے جو جمعیت علمائے ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب نے جنیوا میں اپنی پریس کانفرنس سے متعلق مفتی یاسر ندیم الواجدی صاحب کے ’سرجیکل اسٹرائیک‘ پروگرام میں دی ہے, اور ہم نے اسے انھیں کے الفاظ میں من و عن نقل کر دیا ہے تاکہ قارئین کو ان کی زبان دانی اور معیار کا بھی اندازہو جائے ۔
یقیناً پاکستان کی جانب سے کسی بھی ایسی کوشش کی پر زور مذمت اورمخالفت کی جانی چاہئے جس سے مسلمانان ہند کو کسی بھی قسم کے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان نے واقعی ایسی کوئی بات کہی ہے جوجمعیت یامسلمانان ہند کی کسی بھی تنظیم کو جنیوا جا کر پریس کانفرنس جیسا غیر معمولی قدم اٹھانے پر مجبور کرے؟ ۔
پچاس منٹ سے زیادہ کی اپنی تقریر میں عمران خان نے ماحولیاتی آلوگی کے خطرات، یوروپ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلائی گئی نفرت ، مسلم خواتین کے حجاب پر ناجائز پابندی اور سب سے بڑھ کر وقفے وقفے سے رسول کریم ﷺ کی شان میں کی جانے والی گستاخی سے مسلمانان عالم کو ہونے والی دلی تکلیف کا ذکر کیا ۔ اقوام متحدہ کی پوری تاریخ میں کسی مسلم سربراہ کی یہ سب سے زیادہ جرات مندانہ تقریرتھی ، جس میں نہ یہ کہ مغرب میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کی حقیقت بیان کی گئی بلکہ کسی بھی مسلمان کیلئے جو سب سے زیادہ قابل مسرت بات ہےاور جس کیلئے عمران خان قابل مبارکباد ہیں، وہ یہ ہے کہ پہلی مرتبہ اس بین الاقوامی پلیٹ فارم پرناموس رسولﷺکےبارے میں بتایا گیا اور مغرب اور مغربی سربراہان مملکت کو باور کرایا گیا کہ اپنے نبی کیلئے مسلمان اپنی جان تک دینے کو تیار رہتا ہے۔
مگر کیا کہا جائے اس ’عالم دین‘ کو جسے پوری تقریر میں صرف ایک ایسا جملہ سنائی دیا جسے وہ مفاد پرستی کی اپنی سیاست کو پورا کرسکے۔ عمران خان وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے آر ایس ایس کی فسطائیت اور مسلم دشمنی کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا ہے ۔اپنی تقریر میں انھوں نے بتایا کہ ہٹلر اور مسولونی آر ایس ایس کے بانیان کے ہیرو تھے اور انہیں کی طرح یہ تنظیم بھی آرین نسل کی برتری پر یقین رکھتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اپنی فسطائی سوچ کی وجہ سے ہی اس تنظیم نے مہاتما گاندھی کا قتل کروایا تھا۔
عمران خان نے گجرات کے مسلم کش فسادات میں نریندرمودی کے کردار، مسلمانوں کے قتل عام اور تباہی کا ذکرکر تے ہوئے بتایا کہ بحیثیت وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے آر ایس ایس کے غنڈوں کو 2002 کے فسادات میں تین دن تک مسلمانوں پر قیامت ڈھانے کی کھلی چھوٹ دی تھی ۔ انھوں نے یا دلایا کہ گجرات فسادات کے بعد نریندرمودی کے امریکہ میں داخلے پر پابندی تھی۔ انھوں نے آر یس ایس کی مسلم دشمنی کے بارے میں بتاتے ہوئے کشمیرمیں مظالم کا ذکرکرنے کے بعد کہا:
’کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس سے وہ 180 ملین مسلمان جو آٹھ ملین کشمیریوں کے [گھروں میں] بند کئے جانے کو دیکھ رہے ہیں، ان میں اس کی وجہ سے انتہا پسندی پیدا ہو سکتی ہے؟ اور [دنیا بھر کے] 13 بلین مسلمانوں پراس کا کیا اثر ہو گا جو[اس ظلم کو] دیکھ رہے ہیں اورجنہیں معلوم ہے کہ یہ صرف اسلئے ہورہا ہے کہ کشمیری مسلمان ہیں۔‘
بس اس آخری حصے کے ایک جملے نے ہمارے حضرت مولانا کو جنیوا میں بی جے پی حکومت سے اپنی وفاداری کا دفاع کرنے کا موقع فراہم کردیا۔ ارے مولانا! ، مسلمانان ہند کی لاشوں پر اپنی قیادت کی عمارت عمران خان نےنہیں آپ نے کھڑی کی ہوئی ہے۔ انٹر ویو کے دوران باربار یہ بتائے جانے کے باوجود کہ عمران خان کی تنقید صرف آرایس ایس پر تھی اور انہوں نے کہیں ہندوستانی مسلمانوں کو مخاطب نہیں کیا، مدنی صاحب مصر رہے کہ عمران خان نے مسلمانان ہند کو پھنسانے کی کوشش کی ہے۔
جوقارئین، کشمیر، بالخصوص وہاں پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالے سے ہند و پاک تعلقات پر نظر رکھے ہوئے ہیں ، وہ خوب جانتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر آرایس ایس کے بدنما فسطائی چہرے سے اگرکسی نے پہلی بار نقاب اٹھایا ہے تو وہ شخص عمران ہی خان ہیں۔ انہوں نے یہ کام اقوام متحدہ میں اپنی تقریر سے پہلے شروع کر دیا تھا اور یہ ان کے بیانات کا ہی اثر تھا ، جس کی وجہ سے موہن بھاگوت کو بین الاقوامی میڈیا کے سامنے اچھا بن کر آنے اور یہ کہنے پر مجبورہونا پڑا کہ اگرآرایس ایس کا کوئی رکن ہجومی تشدد میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف ان کی جماعت اقدامات کرے گی۔
عمران خان نے صرف ایک ایسے خدشے کا اظہارکیا تھا جس کا خطرہ ہندوستان کا ہر سنجیدہ مسلمان محسوس کرتا ہے اور کشمیر کی وجہ سے نہیں بلکہ آئے دن کے ہجومی تشدد اوراس تذلیل کی وجہ سے جس کا سامنا معصوم نوجوانوں کو آئے دن کسی نہ کسی شکل میں کرنا پڑرہا ہے ۔مگر نہ تو ہندوستان میں کسی اورجماعت کوعمران خان کےکسی بیان یا اس کے بعد اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر میں وہ پہلو نظرآیا جو مدنی صاحب کونظرآگیا اور نہ ان کی تقریر کے دوران موجود مختلف سربراہان مملکت کو ڈر لگا کہ عمران خان ان کے ممالک میں نوجوانوں سے افغان جہاد کی طرح کشمیرپہنچ جانے اور جہاد شروع کرنے کی اپیل کررہے ہیں۔ مگر’اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی‘ کے مصداق ہمارے ملک کے مفکراعظم نے بڑی دورتک بھانپ لیا۔ بار بار اپنی حماقت کا ثبوت دیتے ہوئے فرماتے رہے کہ عمران خان ہندوستانی مسلمانوں کا نام استعمال کررہے ہیں۔
مفتی یاسر صاحب نے کئی چبھتے ہوئے اوربرجستہ سوالات کئے، مگر مدنی صاحب نے کسی ایک سوال کا بھی سیدھا جواب نہیں دیا اور مستقل بات کو گھماتے رہے۔ کاش کوئی اس عالم دین کو اﷲ تعالیٰ کا یہ حکم یاد دلادے کہ: ’باطل کا رنگ چڑھاکر حق کو مشتبہ نہ بناوٴاور نہ جانتے بوجھتےحق کو چھپانے کی کوشش کرو‘ (سورة البقرة آیت نمبر ۴۲) ۔
مگر اس بے
غیرتی کو کیا نام دیا جائے کہ ایک ماہ سے زیادہ کرفیو، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروس
کا بند کیاجانا، مریضوں کوادویات سے محروم کیاجانا، خواتین کی عصمت دری، بچوں کا
اغوا، کشمیریوں پر کئے جانے والے وہ مظالم ہیں جن کی تصدیق کئی ہندوستانی صحافیوں
نے کی ہے۔ مگر واہ رے حق نمک ادا کرنے والے مولانا ! فرماتے ہیں کہ کشمیر میں کوئی
کرفیو نہیں ہے اورکشمیری اپنے آپ کو احتجاجاً بند کئے ہوئے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا
اس جھوٹ پر کیا تبصرہ کیا جائے۔شاید اکبر الہ آبادی نے ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا
تھا :
خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
یہ حضرت جنیوا کیوں گئے اورکس کے کہنے پر گئے ہوں گے اسے سمجھنا کسی بھی ذی شعور شخص ک کے لئے مشکل کام نہیں ہے۔ جس آسانی کے ساتھ انہوں نے جنیوا میں کانفرنس کرڈالی اوریورپی ارکان پارلیمنٹ کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا، اتنی آسانی کے ساتھ تو مقامی میڈیا کے ساتھ مقامی سطح کی پریس کانفرنس بھی نہیں ہوپاتی۔ کس نے یہ انتظامات کئے ہوں گے، مدنی صاحب کے بھکتوں کے علاوہ اس کا اندازہ کرنا کسی کیلئے بھی مشکل نہیں ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ جمعیت کو ہی بار بار کیوں وضاحتیں دینے کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ سکھوں کو خالصتان تحریک کے تعلق سے صفائی دینے کی ضرورت کبھی نہیں پڑی، موصوف نے سوال پر سوال کیا کہ کیا پوری تحریک میں خالصتان تحریک کی مخالفت اور ہندوستان کا ساتھ دینے کا کوئی ریکارڈ نہیں ملتا؟
کاش مفتی صاحب ان حضرت کو علیحدگی پسندی کی مخالفت اور غیر ضروری خوشامد میں فرق بتاکر یاد دلادیتے کہ گولڈن ٹمپل پر حملے کے بعد گیانی ذیل سنگھ نے اپنا غصہ چھپایا نہیں تھا، خشونت سنگھ نے اپنا پدم بھوشن ایوارد احتجاجاً واپس کردیا تھا۔ 1994 کے سکھ مخالف فسادات میں ملوث افراد کو سکھوں نے آج تک معاف نہیں کیا اور بڑے بڑے کانگریسیوں کے کیریئر برباد کرڈالے۔
وہ آپ کی طرح بے غیرت نہیں کہ جانی اور مالی نقصان تو چھوڑ ئے گجرات، مظفرنگر اور اب کشمیر میں مسلمان ماؤں، بہنوں کی عصمت دری کو بھلا کر ظالم چاپلوسی اور تملق پسندی میں لگ گئے ہیں۔جمعیت کے بھکتوں کو یہ بتانے کیلئے کہ ایک خود دار سیاست دان اپنی ملت کے مفادات اور حمیت کو کتنا عزیزرکھتا ہے یہاں معروف برطانوی صحافی مارک ٹیلی کی کتاب Amritsar: Mrs Gandhi’s Last Battle کے چند اقتباسات کا ترجمہ پیش ہے، مارک ٹیلی لکھتے ہیں:
’سب سے زیادہ اہم سکھ شخصیت صدرذیل سنگھ کی تھی۔ انہوں نے مسز گاندھی کو بتا دیا تھا کہ گولڈن ٹمپل پرحملے نے ان کا سکون غارت کردیا تھا اوران کے افسران نے دیگرہندوستانیوں کو بتادیا تھا کہ پہلا سکھ صدرمستعفی ہونے پر غورکر رہا ہے۔ اس سے ایک ایسا آئینی بحران پیدا ہوجاتا جس کی کوئی مثال موجود نہیں۔۔۔ ذیل سنگھ گولڈن ٹیمپل جانے پر بضد رہے جس پر اندرا گاندھی کو بادل نخواستہ اتفاق کرنا پڑا۔ حالانکہ جرنیلوں نے انہیں [مسز گاندھی] کو بتادیا تھا کہ پریکرما ابھی شروع بھی نہیں ہوئی ہے اوروہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ وہاں سے تمام لاشیں اٹھالی گئی ہیں یا نہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتادیا تھا کہ وہ صدرکی حفاظت کی ضمانت بھی نہیں دے سکتے تھے ۔۔۔ بعد میں ذیل سنگھ نے بتایا کہ گولڈن ٹمپل کی حالت دیکھنے کے بعد وہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ سکے۔۔۔دہلی واپس آکرذیل سنگھ نے نیشنل فلم فیسٹول میں انعامات تقسیم کرنے کے اپنے پروگرام کو منسوخ کردیا ، مگراستعفیٰ دینے کا اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ اس کے بجائے انہوں نے مسزگاندھی سے کہا کہ وہ قوم کے نام اپنی تقریر خود لکھیں گےاور یہ کہ کانگریس اور اپنے پرانے حریف دربار سنگھ کو تنقید کا نشانہ بنا ئیں گے۔ مسز گاندھی کے نزدیک شاید صدر کو ان کے عہدے پر برقراررکھنے کیلئے یہ بہت معمولی سی قیمت تھی‘۔ (Jonathan Cape, London, 1985, p 193-4)
ہمیں وہ خبریں بھی یاد ہیں جو دسمبر 2013 میں اخبارات میں شائع ہوئی تھیں اور جن کے مطابق اپنے احمد آباد کے دورے پر آپ نے نریندرمودی کی بُلیٹ پروف گاڑی استعمال کی تھی۔
ہمیں تو مراد آباد کا وہ فساد بھی یاد ہے جس نے ہندوستان کے ہردرد مند مسلمان کوگہری تشویش اور غصے میں مبتلا کر دیا تھا اورجس پر سید شہاب الدین مرحوم (جی ہاں وہی شہاب الدین صاھب جن پر جمیعتی حلقے میں بی جے پی ایجنٹ ہونے کا الزام دیا جاتا تھا مگر کھل کر یہ بات کہنے کی کسی کی ہمت نہ ہوئی) اوربنات والا صاحب مرحوم نے پارلیمنٹ میں اور اعظم خان نے یوپی اسمبلی میں نہایت جرات مندانہ تقاریر کی تھیں، مگر کسی کے کان پرجوں نہیں رینگی تھی۔
ان حالات میں بھی آپ کے والد (اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ) خود ساختہ ’فدائے ملت‘ نہ یہ کہ اندرا گاندھی کی غلامی میں لگے رہے بلکہ دہلی بوٹ کلب پرعلیگڑھ کے احتجاجی طلباکا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے بھیجے گئے تھے۔ جس وقت مرحوم بوٹ کلب پر پہنچے ان پر سب سے پہلی نظر وسیم صاحب (بھنڈی) جوبعد میں وی پی سنگھ حکومت میں راجیہ سبھا رکن بھی ہو گئے تھے، کی پڑی اور انھوں نے فوراً زور دار آواز میں کہا ’وہ دیکھئے ملت کٹاؤ تحریک [یہ اندرا گاندھی کی حمایت میں مرحوم کی ’ملک و ملت بچاؤ تحریک‘ پر طنز تھا] کے بانی تشریف لاتے ہیں اور وہاں سے طلبا نے ان کو ذلیل کر کے واپس کردیا کیونکہ وہ اب دنیا میں نہیں رہے جو کچھ وہاں ہوا اس کی تفصیلات دینا مناسب نہیں۔ جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے وہ صرف اس لئے کہ یہ مسلمانان ہند اور جمعیت کی تاریخ کا حصہ ہے۔
اُن دنوں موصوف جہاں جہاں گئے مسلمانوں کے غصے اور احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ مظفرنگر کے پاس تو ان کی گاڑی پر پتھراؤ بھی ہوا تھا جس میں ان کے اور ان کے ایک بیٹے کے زخمی ہونے کی اطلاعات آئیں تھیں ، ہو سکتا ہے وہ محمود مدنی صاحب خود رہے ہوں۔
مرادآباد سے پہلے غالباً 1972 کا ایک اور واقعہ یاد آگیا جب مرحوم دیوبند جامع مسجد میں نماز جمعہ پڑھانے کیلئے تشریف لائے تو یوتھ مجلس کے کچھ نوجوان بغیر نماز پڑھے احتجاجاً مسجد سے باہر نکل آ ئے جن میں بدر کاظمی صاحب اور شاید مفتی یاسر صاحب کے والد محترم مولانا ندیم الواجدی صاحب شامل تھے۔ جو کچھ الفاظ بدر کاظمی صاحب نے وہاں کہے تھے اور جس پر مسجد میں موجود افراد نے زور دار قہقہہ لگایا تھا اسے یہاں نقل بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت یہ حضرات نوجوان تھے اور ہم بچے تھے اوران کے بےخوف ایکٹوزم نے ہمیں ان کا گرویدہ بنادیا تھا۔ یہ حضرات علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کی ہندوستان بھر میں چلائی گئی تحریک کے حصے کے طور پر دیوبند میں مختلف پروگرامز منعقد کر رہے تھے۔ ( دیوبند میں اُس وقت اسی طرح کی خبر گردش کر رہی تھی۔ البتہ متی ندیم الواجدی صاحب نے اس واقعے میں اپنی شمولیت کا انکار کیا ہے)
مدنی صاحب نے ڈاکٹرسید محمودؒ اورمولانا مولانا حفظ الرحمٰنؒ کا حوالہ دے کرعوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی مفاد پرستانہ خوشامد کو ان جری، مخلص اور قدآور شخصیات کی حکمت کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی ہے۔ 1958 کے کنوینشن کی تو بات کر رہے ہیں مگر نئی نسل کو یہ نہیں بتائیں گے کہ ملت کے یہ سپاہی بعد میں حکومت کی پالیسیوں سے اس قدر نالاں اور بیزار ہوئے کہ 12-11جون 1961 کومولانا حفظ الرحمٰن اور پروفیسر ہمایوں کبیر کو ڈاکٹر سید محمود کی صدارت میں ایک ’مسلم کنوینشن‘ کا انعقاد دہلی میں کرنا پڑا جسے حسب عادت حکومت نے پسند نہیں کیا۔ بقول سید صباح الدین عبدالرحمان :
’ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ پنڈت نہرو نے مسلم کنونشن کے انعقاد کو نا پسند کیا، مگر انھوں نے ان کی نا پسندیدگی کا خیال کئے بغیر دہلی میں یہ کنونشن طلب کیا، وہ اس کے صدر منتخب ہوئے۔ ملک کی آزادی کے تیرہ سال بعد مسلمانوں کا یہ پہلا بڑا اہم اجتماع تھا، اس میں ان کا خطبہ صدارت بڑا پر زور تھا۔۔۔پورا ملک ان کے خطبے کے بعض ٹکڑوں سے گونج اٹھا جس میں انھوں نے فرمایا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ اس وقت مجرموں ، غداروں اور دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، ہندوستان میں مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنا ہر گز برداشت نہیں کریں گے۔ ۔۔ان الزامات سے پنڈت جواہر لال نہرو پر ملے جلے اثرات مرتب ہوئے۔ ان کو اپنے پرانے رفیق کے اعتراضات سے دکھ پہنچا، اور وہ ڈاکٹر صاحب سے خفا ہوئے، مگر ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ اس کے ساتھ پنڈت جی کو یہ بھی کہنا پڑا کہ اگر چہ مسلمانوں کے دوسرے درجے کے شہری ہونے کی بات کو میں غلط سمجھتا ہوں ، مگر جب سید محمود جیسا شہری کہہ رہا ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے۔ یہ شرم کی بات ہے کہ اس طرح کاخیال مسلمانوں میں ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے پید ا ہو رہا ہے۔ ‘
مسلمانوں میں نفاق پیدا کرنے کی جمیعت کی مختصر تاریخ اس لنک پر پڑھی جا سکتی ہے
ذیل میں بدر کاظمی صاحب کا تبصرہ ضرور پڑھیں
بہت بروقت اور معلوماتی تحریر ۔
جب سے غزالی خان کا جمعیۃ پر یہ مضمون آیا ہے انباکس پوچھا جارہا ہے کہ کہ آخر کیا کہہ دیا تھا “جو تحریر میں نہیں لایا جاسکتا “میں نے مختصراً کچھ دوستوں کو بتایا بھی، رات میں دہلی سے شاہد حسن کا فون آیا جنہیں میں نے غزالی خان کے مضمون کا لنک بھیجا تھا، جو میرے اسوقت کے ساتھی اور دوست ہیں جو حال ہی میں آئ بی سے ایک بڑے آفیسر کے طور پر ریٹائرڈہوےہیں اور علیگ ہیں اور ہم سب دوستوں میں انکی یاد داشت سب بہتر اور اچھی ہے، انہوں نے قہقہے لگاتے ہوئے ایک ایک بات یاد دلائی اور کہا کہ اسے قلمبند کرنا چاہیے چونکہ یہ ہماری مشترکہ اور آپکی سیاسی زندگی کی پہلی سیڑھی ہے۔
بہرحال ہوا یہ تھا کہ اس زمانے میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار بچاؤ تحریک زور شور سے کیساتھ جاری تھی، میں قائد ملت ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی علیہ الرحمۃ کی قیادت میں جیل بھرو تحریک میں لکھنؤ سینٹرل جیل میں بند تھا، ہائ کورٹ نے ہماری گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سب کو رہا کر دیا تھا، میں مئ جون لکھنؤ جیل میں گزار کر دیوبند پہنچا تھا جس کی وجہ سے نوجوان دیوانہ وار میرے گرد ہجوم کرلیتے۔
اسی تحریک کی وجہ سے جمعہ کا دن مخصوص کیا گیا تھا، چونکہ یوپی بھر میں لامتناہی دفعہ 144 کا نفاذ تھا اس بناء پر ہم نے جامع مسجد دیوبند کو اپنا مرکز احتجاج بنالیا تھا، مگر یہ اتنا آسان نہ تھا ایک تو دیوبند اور پھر مسجد میں سیاسی پروگرام، ہمیں اپنے آبائی وطن قصبہ پورقاضی ضلع مظفر نگر سے دیوبند آئے بمشکل پانچ یا چھ سال ہوے تھے،قبلہ والد صاحب مرحوم مجھے مولوی بنانا چاہتے تھے اسلئے انہوں نے اپنا تبادلہ دیوبند کرالیا تھادیوبند میں ہماری نانہالی رشتہ داریاں قاری محمد طیب علیہ الرحمۃ اور ایک دو خاندان میں ضرور تھیں، مگر یہاں ہمارا کوئی معاشرتی، خاندانی، یا سماجی پس منظر نہیں تھا۔
شہر کے رئیس نمبردار اولاد حسن جو کاکن نمبردار کے نام سے مشہور ایک ایسے بزرگ تھے جنکے خاندان کا شہر میں دبدبہ اور وقار تھا، نمبر دار انتہائی منکسرالمزاج، سادہ طبیعت و فطرت اور خدا ترس بزرگ اور ملی غیرت وحمیت کے پیکر تھے، اللہ تعالیٰ انکے درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین، شہر کےچئیرمین مولوی عثمان صاحب مرحوم جو آزادی کے بعد سے برابر چئیرمین چلے آتے تھے کانگریسی ہونے کی بناء پر ہمارے سخت مخالف تھے،مگر کاکن نمبردار آگے آئے اور انہوں نے ہمارے سر پر دست شفقت رکھا، جامع مسجد میں پروگرام کرنے کی آسانی پیدا کی، ہم جلسہ کرتے تو کچھ مخصوص ذہنیت کے لوگ اسے ناپسند کرتے اور اٹھکر جانا چاہتے تو نمبردار اپنی چھڑی یا ڈنڈا لیکر حوض کے پاس کھڑے ہوجاتے اور چلا کر کہتے بیٹھ جاؤ قوم فنا اور تباہ ہورہی ہے اور تمہیں غیرت نہیں آتی – – – خبردار – – – سب بیٹھ جائیں یہاں سے کوئی نہیں اٹھیگا، آہ کیا عظیم انسان تھے جو اس پردیسی کیلئے ڈھال بن گئے، اسوقت نمبردار کو یاد کرتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو ہیں اور یہی میرا انکو خراج عقیدت ہے۔
اسطرح دھیرے دھیرے ہم نے شہر کے سب بزرگوں کا نہ صرف اعتماد حاصل کرلیا بلکہ جملہ اخراجات بھی یہی بزرگان شہر پورا کرتے، ماسوائے مولوی عثمان مرحوم، اور اسعد صاحب مرحوم کے، بتایا جاتا ہے کہ مولوی عثمان صاحب سے جو خود بھی نماز جمعہ جامع مسجد میں ادا کرتے تھے انسے کہآ گیا کہ وہ اس کا تدارک یا حل تلاش کریں کہ مسجد کو سیاسی اکھاڑا بنا لیا گیا ہے، مولوی عثمان صاحب ایک زیرک سیاستدان تھے انہوں نے جواب دیا کہ بے وقوفی نا کرو اسوقت عوامی سطح پر انکی مخالفت حماقت اور اسکو( بدر کاظمی) کو لیڈر بنا دیگی، ان سے مایوس ہوکر یہی سب کچھ کہتے ہوئے اسعد مدنی صاحب سے درخواست کی گئ وہ جامع مسجد میں نماز ادا کریں لامحالہ آپ موجود ہوں گے تو نماز آپ ہی پڑھائیں گے، متولی صاحب کو بھی راضی کرلیا جائے گا، نماز کے بعد پند و نصیحت کرتے ہوئے آپ مسجد میں سیاسی پروگرام نہ ہونے دینے کی اپیل کریں گے تو یہ سلسلہ بند ہوجائے گا۔
اسعد صاحب اسکے لئے تیار ہوگئے چونکہ وہ خود بھی اس صورت حال سے پریشان اور خوف زدہ تھے وہ تشریف لے آئے، جیسے ہی خطبہ کی آذان شروع ہوئ اسعد صاحب ممبر پر تشریف فرما ہوئے، یہ صورت حال ہمارے لئے غیر متوقع اور پریشان کن تھی، چونکہ ہم اس سب سے لاعلم تھے، یہ منظر دیکھ میں خاموشی کے ساتھ آٹھ کھڑا ہوا اور باہر جانے لگا مجھے دیکھ کر حیرت انگیز طور پر ہر صف سے کچھ نوجوان اور لوگ کھڑے ہوگئے ہم لوگ صفیں پھلانگتے ہوئے جیسے ہی مسجد کے صحن میں پہونچے ہمیں دیکھ کر نمبردار چلائے، ’ابے کیا ہوا تم لوگ نماز چھوڑ کر کہاں جارہے ہو؟‘
حاجی مستحسن متولی جامع مسجد کے بڑے صاحبزادے سرور عثمانی عرف چاندمیاں جو ان پروگراموں میں پیش پیش رہتے تھے گویا ہوئے کہ ’تایا مسجد میں سور گھس آیا ہے‘۔
یہ سنکر مسجد قہقہہ زار بن گئی مگر نمبردار نہیں سمجھے شائد وہ کچھ اونچا سنتے تھے، انہوں نے پھر چیخ کر مجھ سے کہا ادھر آ بتا کیا ہوا ہے میں نے کچھ آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ ’نمبردار مسجد میں اندرا گاندھی کے باڑے کا کتا گھس آیا ہے نماز کیسے ہوگی؟‘
نمبردار سمجھے کہ مسجد میں کوئی جانور گھس آیا ہے وہ اپنا ڈنڈا جس طرف پیتل کی موٹھ لگی ہوتی ہے اسے آگے کر اٹھ کھڑے ہوئے، اور ہم پر شفقت آمیز غصہ کرتے ہوئے یہ کہکر آگے بڑھے کہ ’یہ لڑکے حکومت سے لڑنے چلے ہیں مسلم محلوں کو پولیس چھاؤنی بنوادیا اور ایک کتے سے ڈر کر بھاگ رہے ہیں، – – – نکالو اسے نکالو اسے‘ کہتے ہوئے اندر مسجد میں پہنچنے کو تھے کہ لوگوں نے بمشکل تمام انہیں پکڑا اور انہیں ساری صورتحال سمجھائی۔
بہرحال جیسے تیسے نماز ہوئ، اسعد صاحب مرحوم تقریر تو کیا کرتے تا مرگ کبھی جامع مسجد نہیں آئے، غزالی میاں کے بقول مولوی ندیم نے اس واقعے میں شامل ہونے سے انکار کیا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ صحیح کہہ رہے ہوں، مگر اس موقع پر انہیں اتنا یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یوتھ مجلس میں میمبر شپ لیتے ہوئے سب کے ساتھ انہوں نے بھی’قرآن ہاتھ میں‘ لیکر حلف اٹھا یا تھا کہ زندگی میں کبھی ملی مفادات سے صرف نظر نہیں کرینگے، یہ تو انہیں یاد ہی ہوگا، بہرحال انہیں یہ بھی یاد دلادوں کہ جب دیوبند کے اسی فیصد مکانوں اور دکانوں پر کالے جھنڈے لگے تھےتو مولوی فضیل جو اسوقت کی جمعیۃ الطلبا کے صدر تھے طلباء کے ساتھ اسعد مدنی صاحب سے ملے تھے اور شکوہ کیا تھا کہ کہ جمعیۃ العلماء اس مسئلہ پر خاموش کیوں ہے تو اسعد صاحب نے غصہ میں کہا تھا کہ جاکر جناح کی قبر پر لات مار و، میں نے جامع مسجد میں زندگی کی پہلی تقریر میں جبکہ میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں جواب دیتے ہوئے مسلم یونیورسٹی یوم حیات سے یوم ممات تک کا مقدمہ پیش کرتے ہوے کہا تھا کہ، ’قائد اعظم کا مزار تو دور بہت دور کراچی میں ہے جہاں بلا وقفہ چوبیس گھنٹے تلاوت قرآن اور دعا و سلام پڑھا جارہا ہوتا ہے اور پھر وہاں گارڈ بھی موجود رہتے ہیں اسلئے اگر کوئی یہ کہے کہ مولانا آزاد اور حسین احمد مدنی کی قبریں کیوں نہ ادھیڑی جائیں تو یہ انتہائی قابل مذمت ہوگا اسی طرح اسعد صاحب کا یہ کہنا قابل مذمت شرمناک اور افسوسناک ہے، ہمیں ایسے مواقع پر بزرگوں کو لعن طعن کرنے کے بجائے اصل مسائل پر توجہ دینا اور انکا حل تلاش کرنا چاہئے،
Masha Allah