ہندوتوا قیادت کے سابقہ دوروں کی طرح، گجرات نسل کشی 2002 کے مسلمان برطانوی شہدا کے لواحقین کو ایک بار پھر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا

 

محمد غزالی خان

برطانیہ میں موجود ہندوتوا کے حامیوں نے ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ دورۂ لندن پر خوشی کا اظہار کیا، جب کہ انسانی حقوق کی تنظیم ’ساؤتھ ایشیا سالیڈیریٹی گروپ‘(ایس اے ایس جی) اور دیگر اداروں نے برطانوی وزیراعظم سر کیر اسٹارمر کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی اختیار کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

گزشتہ روز، ایس اے ایس جی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر سوال اٹھایا: ’کیا اسٹارمر، اڈانی کی ماحولیاتی تباہ کاریوں کا معاملہ اٹھائیں گے؟ یا وہ مودی کی اس حالیہ مہم پر ان سے جواب طلب کریں گے جس میں مسلمانوں، بنگالیوں اور غریبوں کی املاک کو منہدم کیا گیا، انہیں شہریت سے محروم کیا گیا اور جبری طور پر بے دخل کیا گیا؟‘

تنظیم نے مزید سوال کیا: ’کیا مودی ان ہندوستانی تارکینِ وطن کے حق میں آواز بلند کریں گے جو برطانیہ میں رہتے ہوئے ’اجنبی‘ قرار دیے جا رہے ہیں؟ یا دونوں رہنما غزہ میں جاری نسل کشی میں اپنے ممکنہ کردار پر ایک دوسرے سے قربت اختیار کریں گے؟‘

اس دورے کے دوران نریندر مودی اور سر کیر اسٹارمر کے درمیان چھ ارب ڈالر کے آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے تک پہنچنے میں تین سال لگے، اور اس میں غیر قانونی نقل مکانی سے نمٹنے کے لیے ایک نیا مشترکہ منصوبہ بھی شامل ہے، جسے بھارت اور برطانیہ مل کر نافذ کریں گے۔

مودی کے حامیوں نے لندن میں واقع ان کے ہوٹل کے قریب جمع ہو کر ان کا پُرتپاک استقبال کیا۔ تاہم، مودی کے گزشتہ دوروں کی طرح اس بار بھی گجرات 2002 کے مسلم کش فسادات میں شہید ہونے والے برطانوی نژاد مسلم شہریوں—سعید داؤد، شکیل داؤد اور محمد اسوات—کے لواحقین کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان شہدا کی میتیں آج تک ان کے اہلِ خانہ کے حوالے نہیں کی گئیں۔

گجرات مسلم کش فسادات 2002 میں تقریباً 1,000 سے 2,000 افراد  ہلاک ہوئے تھے۔  اس وقت نریندر مودی اس ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔ ان فسادات کے بارے میں برطانوی ہائی کمیشن کی ایک خفیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان فسادات میں ’نسلی صفائی کی علامات پائی جاتی ہیں اور جب تک وزیر اعلیٰ اقتدار میں ہیں، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت ناممکن ہے۔‘

جب اس موقع پر یہ سوال اٹھا کہ آیا وزیراعظم کیر اسٹارمر یہ انسانی مسئلہ نریندر مودی کے سامنے اٹھائیں گے، تو برطانوی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

دوسری جانب  چھ  تنظیموں— لندن مائننگ نیٹ ورک، کلچرل نیٹ ورک، کلچر ان اسٹرینڈ، منی ریبیلئن، انڈیان لیبگ سالیڈارٹی، اور ساؤتھ ایشا سالیڈاریٹی گروپ —نے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے ہندوستانی ارب پتی صنعتکار اور مودی کے قریبی ساتھی گوتم اڈانی کی ماحولیاتی تباہی سے جڑی کوئلہ کی کان کنی کی سرگرمیوں پر برطانوی حکومت کی خاموشی کی سخت مذمت کی ہے۔

لندن مائنگ نیٹ ورک کی جانب سے جاری کئے گئے مشترکہ خط میں کہا گیا ہے: ’جب نریندر مودی برطانیہ کے دورے پر ایک تاریخی تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے آرہے ہیں، لندن مائننگ نیٹ ورک برطانوی حکومت، خصوصاً کوئلے کی کانکنی میں  لازمی معیار کے نفاذ  اور مودی کے قریبی اتحادی گوتم اڈانی—جو دنیا کے سب سے بڑے نجی کوئلہ پیدا کرنے والے ہیں اس کی پابندی کروانے سے انکار اور ناکامی کی سخت مذمت کرتا ہے۔‘ خط میں کہا گیا ہے کہ مودی اور اڈانی  ’وسطی ہندوستان  کے علاقے بستر میں مقامی آدیواسی لوگوں کے خلاف بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں کے ذمہ دار ہیں‘

خط میں الزام لگایا گیا:

’ آزاد تجارتی معاہدہ (ایف ٹی اے)  نوآبادیاتی دور کے استحصال کی ایک مثال ہے، جہاں عالمی شمال عالمی جنوب کے وسائل کے استحصال اور آلودگی سے منافع کماتا ہے۔ برطانیہ کو درج ذیل امور پر جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے:

  1. تجارت کے معاہدوں میں ماحولیاتی ذمہ داریوں کے نفاذ میں ناکامی، جس سے اڈانی جیسے کارپوریشنوں کو فوسل فیول منصوبے بڑھانے کی اجازت ملی؛
  2. مودی  حکومت کو جائز قرار دینا جو اختلاف رائے کو دبانے اور مقامی باشندوں کے حقوق اور ماحولیاتی انصاف پر کارپوریٹ مفادات کو ترجیح دیتی ہے؛
  3. ثقافتی شراکت داریوں اور مالی خدمات کے ذریعے اڈانی کی کوئلے کی سلطنت کو ماحول دوست ظاہر کرنا، جبکہ درحقیقت وہ برادریوں کو بے گھر کرنے اور ماحولیاتی تباہی تیز کرنے میں ملوث ہے۔‘

خط میں برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ:

’ایسے تجارتی معاہدوں کو مسترد کیا جائے جو کارپوریٹ منافع کے لیے ماحولیاتی انصاف کی قربانی دیتے ہیں۔ اڈانی کے کوئلہ منصوبوں کو مالی اور سیاسی حمایت دینا بند کی جائے، اور عوامی اداروں، جیسے سائنس میوزیم، کو فوسل فیول کی پروپیگنڈہ مہم سے الگ کیا جائے۔‘

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.