اس ماہ کی تیرہ تاریخ کو 1951 میں آج سے چوہتر سال قبل ایک بے لوث اور نڈر مجاہدِ آزادی، عظیم شاعر، اور بے باک صحافی مولانا حسرت موہانی اس جہان فانی کو چھوڑ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔
اردو زبان میں اُن کی شاعری، بیباک صحافت، اور پرجوش حب الوطنی پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ تاہم، اُن کی مشہور غزل ’چپکے چپکے رات دن‘ جسے غلام علی نے گایا ہے، کے علاوہ حسرت موہانی کی خدمات غیراردو دنیا میں زیادہ تر نظر انداز کی گئی ہیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان میں اس عظیم قومی رہنما نے جو کچھ دیکھا اور سہا، خود اردو حلقوں میں بھی اس کے بارے میں معلومات بہت کم ہیں۔
حسرت موہانی نے 1947 سے 1949 کے دوران پیش آنے والے دردناک مناظر کو اپنی ذاتی ڈائری میں قلم بند کیا تھا۔ ایک طویل عرصہ تک یہ ڈائری ایک نجی ذخیرے میں دفن رہی جو ایک تحقیقی کام کے دوران مشہور مورخ فرانسس رابنسن کے ہاتھ میں آگئی۔
چند سال قبل، پروفیسر رابنسن نے اس غیر مطبوعہ ڈائری پر برٹش لائبریری میں ایک نہایت بصیرت افروز تبصرہ پیش کیا تھا۔ میں اُس وقت اُن کی گفتگو میں شریک تھا اور اس دلچسپ گفتگو کو ریکارڈ بھی کرلیا تھا، مگر بدقسمتی سے وہ ریکارڈنگ کسی طرح حذف ہو گئی۔ چند دن قبل، مجھے اس پوڈ کاسٹ کا لنک برٹش لائبریری کی ویب سائٹ پر مل گیا۔
ذیل میں اُس گفتگو کے بیشتر اقتباسات کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے، جنہیں وضاحت کے لیے تھوڑا سا ایڈٹ بھی کیا گیا ہے۔
— محمد غزالی خان
حسرت کی زندگی بزبانی پروفیسر فرانسس رابنسن
میں نے ابھی حال ہی میں مولانا جمال میاں فرنگی محلی کی سوانح حیات مکمل کی ہے، جو لکھنؤ کی فرنگی محل کی علمی روایات میں پروان چڑھنے والی آخری دو یا تین شخصیات میں سے ایک تھے۔ وہ 1940 کی دہائی میں مسلم لیگ کے اعلیٰ کمانڈ کے رکن بھی تھے، اور 1950 اور 60 کی دہائیوں میں پاکستان کی سیاست میں ایک معمولی شخصیت تھے۔
ان کے کاغذات میں ان کی ڈائری بھی شامل تھی، جو 1930 کی دہائی کے آخر سے شروع ہو کر اکیسویں صدی تک جاتی ہے، جو میری کتاب کا بنیادی ستون بنی۔
لیکن ان کے کاغذات میں حسرت موہانی کی ڈائریاں بھی تھیں، جو جنوری 1947 سے دسمبر 1949 تک کے عرصے کا احاطہ کرتی ہیں۔ آج شام میں انہی کے بارے میں بات کروں گا۔ اصل حالت میں یہ سب خط شکستہ میں ہیں — جو کہ اتنے چھوٹے حروف میں لکھی گئی ہے کہ اسے پڑھنا بہت مشکل کام ہے۔ انہیں استعمال کرنے کے لئے محمود جمال اور مجھے انہیں خط نستعلیق میں لکھوانا پڑا۔
[…] وہ [حسرت موہانی [ ہندوستان کے ممتاز مسلم ادیبوں میں شمار ہوتے تھے اور ایک اہم سیاستدان تھے۔ ان کا تعلق اناؤ ں کے قصبہ ’موہان‘ کے ایک چھوٹے زمیندار خاندان سے تھا، جو لکھنؤ کے قریب واقع ہے۔ خاندانی روایت کے مطابق، تیرہویں صدی کے آغاز میں ان کے جد امجد سید محمود نے ایران کے شہر نیشاپور کے قریب موہان نامی مقام سے آکر اس قصبے موہان کی بنیاد رکھی تھی۔ اس لحاظ سے، حسرت موہانی یقیناً اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے — ایرانی نژاد، سادات خاندان کے وارث ۔ ان کے آبا و اجداد شاعر، حکیم، عالم اور صوفی تھے۔
ان کی والدہ کے والد، علی حسن موہانی، نے فرنگی محل سے تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں منصف مقرر ہوئے اور اُن لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے 1854 میں آگرہ میں لوتھرن مشنری ڈاکٹر فنڈر کے ساتھ مناظرہ کیا تھا۔ جن لوگوں نے اس مناظرے کی مختلف تفصیلات پڑھی ہیں، وہ غالباً اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ مناظرہ مسلمانوں نے جیتا تھا۔
[حسرت نے] ابتدائی تعلیم خاندانی مکتب سے حاصل کی، اور بعد ازاں ایک سرکاری اسکول میں داخلہ لیا، جہاں 1899 میں انہوں نے صوبہ متحدہ (یو پی) میں اول پوزیشن حاصل کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علمی لحاظ سے نہایت ذہین اور ہوشیار نوجوان تھے۔ اسی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں علیگڑھ میں سرکاری وظیفہ ملا۔
علیگڑھ میں، ان کا میل جول اشرافیہ سے ہوا — ضروری نہیں ان کا تعلق ان کے اپنے جیسے زمیندار طبقے سے رہا ہو۔ [یہاں] وہ ایک ممتاز شاعر اور مقرر کے طور پر جانے گئے۔ 1903 میں علیگڑھ سے اخراج کیے جانے کے بعد انہیں صرف امتحانات دینے کی اجازت دی گئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب حکام کے خلاف صف آرا ہونے کا ان کا رجحان سامنے آیا۔
1903 میں ہی میں انہوں نے ادبی رسالہ ’اردوئے معلیٰ‘ شائع کرنا شروع کیا […] جسے وہ وقفے وقفے سے 1937 تک نکالتے رہے۔
1907میں انہیں اس بات پر قید کیا گیا کہ انہوں نے برطانوی حکام کو اُس مصنف کا نام بتانے سے انکار کردیا تھا، جس نے’ اردوئے معلیٰ‘ میں ایک مضمون شائع کروایا تھا۔ یہ مصنف علیگڑھ کا کوئی طالب علم تھا جس نے مصر میں برطانوی تعلیمی پالیسی پر تنقید کی تھی۔ [اس کا نام نہ بتانے پر] حسرت موہانی کو دو سال قیدِ بامشقت کی سزا ہوئی۔
1913میں جب مسلمانوں کی جانب سے برطانوی حکومت کے خلاف احتجاج میں زیادہ شدت آئی تو حسرت تحریک خلافت اور عالمی اسلامی مسائل سے اور زیادہ وابستہ ہو گئے۔ مثلاً 1913 میں وہ کانپور مسجد کے معاملے میں پیش پیش تھے، اور اسی دوران وہ اس مشہور سازش میں شامل ہوگئے جو ’رِیشمی رومال سازش‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس میں عبیداللہ سندھی، محمود الحسن، حسرت موہانی اور دیگر شامل تھے، جو افغان قبائل کو برطانیہ کے خلاف بغاوت پر اُکسانا چاہتے تھے۔ 1916 کے آغاز میں جب وہ سرحد کی طرف جا رہے تھے تو گرفتار کر لئے گئے اور باقی جنگ کے دوران قید میں رہے۔
1920کی دہائی میں، ان کے نظریاتی خیالات میں تبدیلی آنا شروع ہوتی ہے اور وہ سوشلسٹ فکر میں گہری دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ وہ کانپور میں منعقد ہونے والی کمیونسٹ پارٹی کی کانفرنس کے استقبالیہ کمیٹی کے چیئرمین بنتے ہیں۔ لہٰذا 1920 اور 1930 کی ابتدائی دہائی کے دوران عمومی طور پر کمیونزم میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ لیکن 1930 کی دہائی میں، ہندو احیاء پرستی کے اثر کے تحت — خصوصاً جب یہ اثر انڈین نیشنل کانگریس پر ظاہر ہوتا ہے تو وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔
1937میں، لکھنؤ اجلاس میں، حسرت موہانی مکمل آزادی کو مسلم لیگ کی پالیسی بنانے کی قرارداد پیش کرتے ہیں۔
1939 میں، وہ گیارہویں مرتبہ حج ادا کرتے ہیں۔ وہاں سے وہ جمال میاں کے ساتھ بغداد جاتے ہیں، جہاں وہ عبدالقادر جیلانی کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ لیکن دراصل، ان کی خواہش یہ تھی کہ وہ یورپ کے راستے برطانیہ جائیں اور ہندوستان کے سیکرٹری آف اسٹیٹ سے مل کر حالات کی وضاحت کریں۔ وہ بیروت اور اٹلی سے گزرتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے پاس کوئی ویزا نہیں ہوتا، لیکن کسی نہ کسی طرح وہ فرانس اور پھر لندن پہنچ ہی جاتے ہیں۔
وہ ہندوستان کے سیکرٹری آف اسٹیٹ سے ملاقات کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ اس ملاقات کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا، لیکن یہ سب کچھ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ رکاوٹوں سے قطعاً نہ گھبرانے والے انسان تھے۔ اگر انہیں لندن جانا ہے تو چاہے جنگ چھڑنے والی ہو چاہے، ان کے پاس ویزا نہ ہو، وہ ضرور جائیں گے۔
اپنے آخری برسوں میں، یعنی 1946 سے — جو کہ اُن کی ڈائری کے مندرجات کا دورانیہ بھی ہے — وہ یو پی قانون ساز اسمبلی، کانپور میونسپل بورڈ اور ہندوستانی پارلیمنٹ کے رکن بھی بنتے ہیں۔ لہٰذا وہ نمائندہ حیثیتوں کے ایک اچھے خاصے مجموعے کے حامل ہوتے ہیں۔
وہ 1951 میں فرنگی محل میں وفات پاتے ہیں اور وہیں فرنگی محل باغ میں دفن کیے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وفات کے وقت انہوں نے کہا: ’یہ سب لوگ میرے گرد کیوں رو رہے ہیں؟ یہاں کوئی انوکھا واقعہ تو نہیں ہو رہا۔‘ لیکن یہ سب ان کی فطرت کے عین مطابق تھا۔ حسرت واقعی اپنی ذات میں ایک مکمل شخصیت تھے۔ وہ نڈر تھے، اصولوں کے پابند تھے۔ اور یہ وصف ان کی ڈائری سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے۔
میں ڈائریوں (1947–1949) کو درج ذیل عمومی حصوں میں تقسیم کرنے جا رہا ہوں:
- ہندوستانی مسلمانوں کی حالت کا مقامی سے قومی سطح تک جائزہ: ڈائری ہمیں بتاتی ہے کہ اس وقت مسلمان کن حالات سے گزر رہے تھے۔
- حسرت بحیثیت ادیب، اخبار نویس، موثرپیامبر، اور شاعر: اس سے ایک ادبی شخصیت کی روزمرہ زندگی کا کچھ اندازہ ہوتا ہے۔
- حسرت کی روحانی اور خوابوں کی دنیا: میں ان خوابوں میں خاص دلچسپی رکھتا ہوں جو یہ لوگ دیکھا کرتے تھے۔
- کچھ منتشر لیکن بصیرت افروز نکات۔
ہندوستانی مسلمانوں کی حالت
تو، بات شروع کرتے ہیں ہندوستانی مسلمانوں کی حالتِ زار سے، جو اُس وقت خاص طور پر شمالی ہندوستان میں نہایت مشکل دور سے گزر رہے تھے۔ یہ ڈائری حسرت کی سرگرمیوں کو بے حد خوبی سے ظاہر کرتی ہے، خاص طور پر جب وہ کانپور میونسپل بورڈ کے رکن کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ وہ اسکولوں کا دورہ کرتے ہیں۔ ایک اسکول جس کا وہ دورہ کرتے ہیں، وہ محمد علی جوہر جونیئر اسکول فار گرلز ہے۔ وہ راشننگ جیسے بڑے مسئلے سے نمٹ رہے ہیں، جو جنگ کے بعد کا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اُس وقت ہندوستان میں راشننگ اتنا ہی بڑا مسئلہ تھا جتنا برطانیہ میں۔
وہ مزدور یونینوں سے بھی معاملہ کر رہے ہیں۔ وہ ایک با اصول شخص بھی ہوں گے، لیکن اس کے باوجود وہ انتخابات میں گڑبڑ کرتے ہیں اور ظاہر ہے، سفارش سے بھی کام لیتے ہیں۔ ’سفارش‘ ڈائری میں باربار استعمال ہونے والے الفاظ میں سے ایک ہے۔
یہ ڈائری ظاہر کرتی ہے کہ کانپور کے مسلمان کس قدر مشکل وقت سے گزر رہے تھے۔ مارچ 1947 سے شہر میں مسلسل پرتشدد واقعات جاری ہیں۔ مارچ میں، حسرت مسجدوں کے باہر مسلح محافظ تعینات کر رہے ہیں۔ اپریل میں وہ اُن مسلمانوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں جو ایک مخصوص محلے میں محصور ہیں، مگر ضلع کمشنر انہیں روک دیتا ہے۔
اپریل ہی میں، وہ راشن آفس کو اس لیے منتقل کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو راشن لینے کے لیے ایک سکھ گردوارے کے سامنے سے نہ گزرنا پڑے— یہ ایک دانشمندانہ اقدام تھا۔ وہ بار بار کانپور جیل کا دورہ کرتے ہیں کیونکہ اس وقت بغیر کسی قانونی کارروائی کے بڑی تعداد میں لوگوں کو قید کیا جا رہا ہے۔
اگست میں، وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ 15 اگست کو ہر شخص کو لائٹیں جلانے اور قومی پرچم لہرانے پر مجبور نہ کیا جائے— یہ بات خاصی دلچسپ ہے۔ مجھے تعجب ہوا کہ انہوں نے یہ سوچا بھی یا یہ کہ یہ ایک مسئلہ بن گیا تھا۔؟؟؟؟؟؟ اگست اور ستمبر میں، کانپور میں کرفیو نافذ ہے، جس سے سب کی زندگی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ وہ اُن مسلمانوں کی مدد کی کوشش کرتے ہیں جن کے اسلحے کے لائسنس چھین لیے گئے تھے۔ معزز سابق مسلمان چیف انسپکٹر جیسے لوگ شکایت کر رہے ہیں کہ ان کی پستولیں لے لی گئی ہیں۔ اور حسرت، چیف منسٹر جی بی پنت سے ملنے جاتے ہیں تاکہ یہ مسئلہ حل کر سکیں۔
اکتوبر میں، بلاک پرنٹرز یونین کے اراکین نے […] درخواست کی کہ انہیں کانپور میں ہی رہنے دیا جائے کیونکہ وہ اب اپنے گاؤں میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔ ویسے بھی، کانپور خود کافی غیر محفوظ تھا، تو ان کے گاؤں کی حالت کیسی ہوگی، اس کا کسی کو واقعی اندازہ نہیں۔
اکتوبر میں، کلکٹر نے کانپور کے تمام مسلم ہوٹل بند کروا دیے۔ اور مجھے شبہ ہے کہ یہ اس وجہ سے ہوا کیونکہ مسلم ہوٹل گائے کا گوشت یا دیگر اقسام کا گوشت فراہم کرتے تھے۔ اس وقت تک، میونسپل بورڈ ہندو اکثریت کے زیرِ اثر آ چکا تھا، اور انہوں نے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اس عمل کو روکنے کا فیصلہ کیا۔
دسمبر میں، حسرت نے اردو اساتذہ کو خوش آمدید کہا جنہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ اب وہ اردو اسکول بند کر دیں اور ان کی جگہ ہندی اسکول چلائیں۔ یہ فیصلہ یو پی حکومت کی طرف سے ایک خاصی من مانی کارروائی کا نتیجہ تھا۔ اور ظاہر ہے، ایک لحاظ سے حسرت ہی وہ شخص تھے جن سے رجوع کیا جانا چاہیے تھا، کیونکہ کوئی بھی شخص اردو کے بارے میں ان سے زیادہ فکر مند نہیں تھا۔ لیکن وہ اسمبلی میں معاملات درست کرنے کے اہل شاید نہ تھے۔
1948میں، کانپور میں مسلمانوں پر دباؤ کچھ کم ہوتا محسوس ہوا۔ لیکن 3 جولائی 1949 کو، حسرت نوٹ کرتے ہیں کہ ‘ایک نئی سڑک کی تعمیر کے سلسلے میں، کلکٹر کے حکم پر تمام مسلم دکانیں ہٹا دی گئی تھیں اور وہ سندھ سے آئے ہوئے ہندو مہاجرین کو دے دی گئی تھیں۔’ ان کی ڈائری دہلی میں اور عمومی طور پر مسلمانوں کی بدلی ہوئی حیثیت کو بھی بیان کرتی ہے۔
17نومبر 1947 کو، حسرت لکھتے ہیں کہ کرفیو کی وجہ سے وہ کانپور سے دہلی جانے کے لیے غازی آباد میں ٹرین سے اتر کر ایک لاری کے ذریعے سفر کرنے پر مجبور ہوئے — جو لوگ لکھنؤ سے دہلی گئے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ یہ کوئی خاص مشکل بات نہیں۔ لیکن، وہ کہتے ہیں، ‘ایک حقیقی خطرے کا احساس تھا کیونکہ جہاں بھی نظر جاتی، کوئی مسلمان دکھائی نہیں دیتا تھا۔’
اگرچہ وہ کرفیو توڑ کر لاری سے سفر کر رہے تھے پھر بھی خود کو بے حد غیر محفوظ محسوس کر رہے تھے۔
24نومبر 1947 کو وہ نوٹ کرتے ہیں کہ ’چاندنی چوک اجنبیوں کے قبضے میں ہے۔ ایک مسلمان وہاں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘
میری سمجھ کے مطابق، آزادی سے پہلے یہ علاقہ غالباً ایک بڑا مسلم علاقہ رہا ہوگا۔ لیکن اب یہ مکمل طور پر اُن لوگوں کے قبضے میں ہے جو اُس علاقے سے آئے ہیں جو اب پاکستان کہلاتا ہے۔
26نومبر 1947 کو، دہلی سے غازی آباد جاتے ہوئے جب وہ ایک لاری میں سوار ہوتے ہیں تو نوٹ کرتے ہیں کہ لاری پانچ مرتبہ روکی گئی، لیکن صرف مسلمانوں کی تلاشی لی گئی، کسی اور کی نہیں۔
5دسمبر 1947 کو، وہ لکھتے ہیں کہ، ’نئی دہلی میں ایک بھی مسلمان چہرہ نظر نہیں آتا۔‘
مجھے نہیں معلوم کہ کوئی مسلمان چہرہ ہندو چہرے سے کیسے پہچانا جا سکتا ہے۔ شاید انھوں نے کپڑوں سے بھی اندازہ لگایا ہو۔ بہرحال، وہ اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ نئی دہلی میں ایک بھی مسلمان چہرہ نظر نہیں آتا۔
23جنوری 1948 کو، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے پرانی دہلی میں صرف ایک مسلمان کو دیکھا۔ اگر آپ ان شہروں کی تاریخ کو مدنظر رکھیں، تو یہ ایک حیران کن بات ہے۔
5فروری 1948 کو، وہ لکھتے ہیں: ’میں حکومت کے مسلمانوں کے بارے میں اصل ارادے دیکھ رہا ہوں۔‘
کیونکہ [دوران سفر] حسرت دیکھتے ہیں کہ لکھنؤ اور اس سے آگے جانے والی ٹرین میں سوار مسلمان، جنہوں نے اپنے ٹکٹ خرید رکھے ہیں، سفر جاری کرنے کے لئے پولیس اور ریلوے کے اہلکاران سے زبردستی اضافی رقم وصول کرتے ہیں۔
19 فروری 1947 کو، وہ کہتے ہیں:
’اب بلی ماران اور گلاب پور میں کوئی مسلمان ہوٹل باقی نہیں رہا۔‘
جو لوگ دہلی کو جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ بلی ماران وہ جگہ ہے جہاں سر سید احمد خان نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ دراصل، مغل سلطنت کے آخری وزیر بھی وہیں کے تھے، کیونکہ وہ سر سید احمد خان کے نانا تھے۔ حسرت یہ بھی کہتے ہیں کہ انہیں اپنی پسندیدہ نہاری اور روٹی حاصل کرنے میں سخت دشواری ہو رہی ہے۔
جو لوگ نہاری کے بارے میں نہیں جانتے، ان کے لیے [بتاتا چلوں کہ] نہاری ایک شوربے دار سالن ہوتا ہے، جو بیف یا بکرے کے گوشت سے تیار کیا جاتا ہے، اور اس میں گودا بھی شامل کیا جاتا ہے، ساتھ ہی خاصے مصالحے ڈالے جاتے ہیں۔ یہ بہت مرغن کھانا ہوتا ہے، اور اکثر لوگ اسے کھا کر سیدھے سوجاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نہاری کی ایجاد دہلی اور لکھنؤ کے شاہی باورچی خانوں میں ہوئی تھی۔ حسرت کے لئے دہلی پہنچ کر لطف اندوز ہونے والی چیزوں میں نہاری خاص طورپر شامل تھی۔ مگر اب وہ اس سے محروم ہو چکے ہیں۔
23 فروری 1947 کو، اپنی ڈائری میں ان مسلم دنیا کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے وہ ایک دلچسپ بات کہتے ہیں جو میرے نزدیک نفسیاتی لحاظ سے بہت اہم بات ہے [وہ لکھتے ہیں:] ’میں حضرت نظام الدین کے عرس پر قل میں شریک ہوا [۔۔۔] میں اس میں پوری طرح محو ہو گیا۔ [اس دوران] مجھے محسوس ہوا کہ کوئی طاقت مسلم تاریخ اور ثقافت کو دہلی سے ختم نہیں کر سکتی۔ ]باوجود اس کے کہ] پچھلے 18 مہینے کافی مشکل رہے ہیں۔‘ [بہر حال] ان تجربات کے بعد یہ اُن کا تاثر تھا۔
پھر جون 1947 سے، حیدرآباد کی قسمت مسلمانوں کی حالت کی کسوٹی بن جاتی ہے۔ اور 16جون 1947 کو وہ لکھتے ہیں کہ ’آج حیدرآباد کے بارے میں ایک بیان آنے والا ہے۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ حیدرآباد کی آزادی کا احترام کیا جائے۔‘
ہندوستان کے اقدامات کے خلاف ذاتی احتجاج کے طور پر، وہ کہتے ہیں کہ اب وہ پارلیمنٹ میں اپنی تقریروں میں کوئی ہندی لفظ استعمال نہیں کریں گے — حسرت کی جانب سے ایک روایتی انداز کی مزاحمت تھی۔
جون سے اگست 1948 تک، اُن کی ڈائری حیدرآباد کے بارے میں تبصروں سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں ایک دلچسپ بات وہ یہ بتاتے ہیں ہے کہ وہ ریڈیو (وائرلیس) پر حالات و واقعات سن رہے ہیں۔ یہاں اچانک وائرلیس ایک اہم ذریعہ بن گیا ہے۔
میں آگے چل کر اُن چیزوں کی تفصیل دوں گا جو وہ وائرلیس پر سنتے ہیں۔ لیکن بہرحال، وائرلیس موجود ہے۔ اور ظاہر ہے، اُن کے گھر میں وائرلیس ہے جس پر وہ سب کچھ سنتے ہیں۔
17ستمبر 1948 کو، وہ نوٹ کرتے ہیں کہ نظام نے شکست تسلیم کر لی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شاید ایسا اس لیے ہوا ہے کیونکہ نظام کو شیعیت سے شغف ہوگیا تھا۔ یا شاید یہ ٹیپو سلطان [کے ساتھ کی غداری] کا بدلہ ہے۔ ان کے دماغ میں دلچسپ باتیں چل رہی ہیں۔ بہرحال، وہ [طنز کرتے ہوئے] کہتے ہیں کہ ’یہ پیش رفت انگریزی زبان کے ’پرفیکٹ (perfect) زمانے کی ایک افسوسناک مثال ہے۔
اس کے بعد، حسرت ہمیں بتاتے ہیں کہ حیدرآباد کے ہندوستانی وفاق میں انضمام کے بعد کیا اثرات مرتب ہوئے۔ فرنگی محل کے لوگ اس بات سے بہت پریشان ہیں کہ کہیں حیدرآباد سے ملنے والی گرانٹ بند نہ ہو جائے جس سے مدرسہ چلانے میں مدد ملتی ہے۔ حقیقت میں، حسرت قطب میاں کو، جو مدرسے کے نگران ہیں، اپنی پنشن سے پیسے دینا شروع کر دیتے ہیں تاکہ مالی فرق کو پورا کیا جا سکے۔ وہ انہیں تقریباً ہزار روپے ماہانہ دیتے ہیں، جو اس وقت ایک بڑی رقم تھی۔ اور ظاہر ہے، حالانکہ کہانی کا یہ ایک الگ حصہ ہے، جمال میاں کو ڈھاکہ جانا پڑتا ہے تاکہ کوئی روزگار حاصل کر سکیں اور مدرسہ و فرنگی محل کی مدد کر سکیں۔
پھر [ڈائری میں] حیدرآباد کے مسلمانوں پر انضمام کے اثرات بھی بیان کیے جاتے ہیں [اور بتایا جاتا ہے کہ] کچھ لوگ شمالی ہندوستان منتقل ہو رہے ہیں، اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں، بہت سے پاکستان چلے گئے۔ جب وہ منتقل ہوتے ہیں، خاص طور پر اگر وہ ٹرین کے ذریعے سفر کرتے ہیں، تو حسرت نوٹ کرتے ہیں کہ اُنہیں ٹرین کے سفر میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔ وہ کئی واقعات کا ذکر کرتے ہیں جن میں حیدرآباد سے آنے والی ٹرینوں سے تمام مسلمانوں کو اتار لیا گیا، اُن کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا اور تلاشی لی گئی۔ [مگر حسرت] یہ نہیں بتاتے کہ کیا اُنہیں لوٹا بھی گیا۔ البتہ وہ اس بات کا اشارہ ضرور دیتے ہیں کہ لوٹے جانے کا موقع وہاں موجود تھا۔
22 اگست 1949 کوحسرت اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ حیدرآباد سے ایک شخص ان کے پاس آیا ہے جو ان کے ہاں قیام پذیر ہے، اور وہ حیدرآباد کے ہندوستانی وفاق میں انضمام کے مسلمانوں کی نفسیات پر اثرات کے بارے میں بات کر رہا ہے…
اسی دوران جب حسرت حیدرآباد میں ہونے والے حالات کو نوٹ کر رہے تھے، وہ اتر پردیش (یو پی) میں اردو کی بقاء اور ہندوستانی آئین میں اس کے کردار کے لیے بھی جدوجہد کر رہے تھے۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں، اردو کو ہندوستانی آئین میں ایک سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔
لیکن اس سلسلے میں اُن کی ڈائری کے دو بیانات خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
- 12 اکتوبر 1948 کو، جب وہ یو پی کی قانون ساز اسمبلی جا رہے تھے، تو انہوں نے لکھا کہ پورا ایجنڈا سنسکرت زدہ ہندی کے فروغ پر مبنی معلوم ہوتا ہے۔ حسرت نوٹ کرتے ہیں کہ یو پی اسمبلی کی دیواروں پر آویزاں فارسی اشعار کو ہٹا دیا گیا ہے۔
انہوں نے لکھا: ’ایسی تنگ نظر حکومت قانون سازی نہیں کر سکتی۔‘
یہ بات دلچسپ ہے کیونکہ جمال میاں نے کانگریس میں موجود کچھ ہندو رہنماؤں، جیسے پنڈت مدن موہن مالویہ وغیرہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ کمال کی فارسی بولتے تھے، اور اسمبلی میں اپنے خطابات کے دوران اشعار کا استعمال بہت مؤثر انداز میں کرتے تھے۔ لہٰذا پہلا اہم واقعہ یو پی اسمبلی سے فارسی اشعار کو ہٹائے جانے کا ہے۔ - 27 جون 1949 کو، حسرت اظہار افسوس کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کی قسمت میں یہ دکھ بھی دیکھنا تھا جب انہیں صرف ہندی اخبار نظر آرہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ نہ اردو اخبار مل سکا اور نہ انگریزی، صرف ہندی اخبار دستیاب تھا۔
اور اب، اس زمانے میں مولانا جمال میاں فرنگی محلی نے اپنے اخبار’ ہمدم‘ کے لیے ایک نظم کہی، جو ہندی اور دیوناگری رسم الخط کے مسلط کیے جانے پر لکھی گئی تھی]…[
[پروفیسر رابنسن کی گفتگو انگریز ی میں تھی اور کیونکہ انہوں نے نظم کا انگریزی ترجمہ پیش کیا ہے اور کیونکہ اصل نظم مجھے انٹرنیٹ پر تلاش کرنے کے بعد بھی نہیں ملی، اس لئے پوری نظم حذف کی جاتی ہے۔ انگریزی ترجمہ اس بلاگ کے انگریزی سیکشن میں پروفیسر رابنسن کی گفتگو میں موجود ہے— محمد غزالی خان]
مسلمانوں کو درپیش تجربات میں تیسرا مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان کے قیام کے بعد ان کی نمائندگی کیسے ہونی چاہیے۔ اور یہ سوال ایسے وقت میں اٹھا جب مسلمان اپنے اقتدار کے زوال اور ہندوستانی سماج میں اپنی ثقافت کی گرتی ہوئی حیثیت کا سامنا کر رہے تھے۔ سوال یہ تھا کہ: ’ہم اپنے مفادات کی نمائندگی کیسے کریں؟‘
جولائی 1947 میں، حسرت اس بات پر مصرہیں کہ مسلمانوں کو آزاد ہند پارٹی یا سبھاش چندر بوس کے فارورڈ بلاک کے کسی اور دھڑے میں شامل ہونا چاہیے۔ ’لیکن جناح ہمارے پاس بات کرنے نہیں آئے جبکہ ہم اس [اہم] مسئلے پر بات کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے جواب دے دیا کہ وہ بہت مصروف ہیں۔‘
[پروفیسر رابنسن تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:] ’ہو سکتا ہے کہ جناح واقعی بہت مصروف ہوں، لیکن پاکستان کے قیام کے بعد مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کوئی غیر اہم مسئلہ نہیں تھا… مولانا جمال میاں، جو جناح کے بڑے مداح تھے، جناح پر ان کی سب سے بڑی تنقید یہی تھی کہ جناح نے تقسیم کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل میں خاطر خواہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اور اس موقع پر بھی، وہ ان کی رہنمائی کے لیے نہیں آئے۔‘
ستمبر 1947 میں، مسلم لیگیوں کا کہنا تھا کہ وہ کسی سوشلسٹ پارٹی یا سوشلسٹ اتحاد میں شامل نہیں ہو سکتے کیونکہ ایسا کرنا ان کے عقائد کے خلاف تھا۔ [مگر] حسرت کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو مذہبی جماعت [کے تصور کو چھوڑ کر] سوشلسٹ پارٹی تشکیل دینی پڑے گی، یا [ان کی رائے میں] سوشلسٹ پارٹی ہی [ان کے لئے واحد] راستہ ہے۔
اس وقت تک قیادت کا شدید فقدان ہو چکا تھا کیونکہ خلیق الزماں، جنہیں جناح نے پاکستان جانے کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کا قائد مقرر کیا تھا، خود پاکستان ہجرت کر چکے تھے۔ اور دسمبر 1947 تک جناح نے مدراس سے تعلق رکھنے والے محمد اسماعیل کو ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ داری سونپ دی۔ شاید یہ کوئی اچھا فیصلہ نہیں تھا کیونکہ اگر ایک مدراسی مسلمان شمالی ہند کے مسلمانوں کے مسائل اور ان کے تجربات کو صحیح طرح نہیں سمجھ سکتا تھا۔ چنانچہ 1947 کے آخر تک یہ بات طے نہیں ہو سکی تھی کہ آئندہ کس راستے کا انتخاب کیا جانا چاہئے۔
2 دسمبر 1947 کو، ابوالکلام آزاد لکھنؤ کے ایک ہوٹل میں مسلم لیگی قیادت سے خطاب کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کو تمام مسلم اداروں کو ترک کرکے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلینی چاہیے۔ مگر مسلم لیگی گروہ ، جس نے اپنی زیادہ تر زندگی کانگریس کے خلاف جدوجہد میں گزاری ہے، اس مشورے میں کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کرتے ۔
10مارچ 1948 کو مدراس کانفرنس میں، جو مسلمانوں کی سیاسی تنظیم کے مستقبل پر غور کے لیے منعقد کی گئی تھی، محمد اسماعیل یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ مسلم لیگ قائم رہنی چاہئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شمالی ہندوستان کی صورتحال سے کس قدر بے خبر تھے۔ لیکن وہاں موجود اکثریت یہ چاہتی ہے کہ مسلمانوں کو صرف ایک سماجی اور سیاسی جدوجہد کی جماعت کے طور پر منظم کیا جائے۔ اور مارچ 1948 میں یوپی مسلم لیگ کی قیادت بھی اسی موقف کی تائیر کرتی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو اپنے مفادات کی نمائندگی کے لیے کس قسم کی تنظیمیں اختیار کرنی چاہییں، حسرت کی ڈائری ہمیں اس بحث کے صرف اس مرحلے تک ہی بتاتی ہے۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں، یہ ایسا مسئلہ ہے جو مکمل طور پر کبھی ختم نہیں ہوا، بلکہ آج تک کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔
دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ حسرت ایک ادیب، اخبار کے مالک اور شاعر کے طور پر یہ واضح کرتے ہیں کہ اخبارات ان کی زندگی میں کتنی اہمیت رکھتے تھے۔ تین برسوں کے دوران وہ درج ذیل ہندوستانی اخبارات کا ذکر کرتے ہیں:
وحدت، دی پاینیر، دی پیپلز ایج، دی اسٹیٹس مین، ہمدم، الامان، نیو ایج، انجام، مدینہ، قومی آواز، ہندوستان ٹائمز، قومی اخبار، دی لیڈر اور زمیندار۔
یہ اخبارات کی خاصی بڑی تعداد ہے […] ان میں سے کئی اخبارات سنجیدہ نوعیت کے تھے۔ پاکستانی اخبارات میں وہ درج ذیل کا ذکر کرتے ہیں: ڈان، انقلاب، زمیندار، سیاست لاہور اور قاضی۔
حسرت کا ہر دن اس طرح شروع ہوتا تھا کہ وہ کئی اخبارات پڑھتے تھے۔ مثلاً جب وہ صبح سویرے کانپور سے لکھنؤ پہنچتے تو فوراً فرنگی محل یا شبلی بک اسٹور چلے جاتے تاکہ اخبارات پڑھ سکیں۔
جمال میاں کہتے ہیں کہ جب حسرت اخبار میں محو ہوتے تو ان سے بات کرنا ناممکن ہوتا، اور اگر کوئی مخاطب کرتا تو بس ان کا جواب صرف ’ہوں‘میں ہوتا تھا۔
سفر کے دوران حسرت اکثر اخباری دفاتر میں قیام کرتے۔ دہلی میں وہ وحدت اور الامان، لاہور میں زمیندار اور سیاست کے دفاتر میں ٹھہرتے۔ اور یہ تقریباً یوں تھا جیسے اخبار کے مدیران کے درمیان ایک خاص قسم کی اخوت پائی جاتی ہو، اور ہر ایک دوسرے اخبار والوں کو سفر میں سہولت دیتا ہو۔
حسرت اپنے پرانے اخبارات سنبھال کر رکھتے۔ ان کے اخبار کبھی بھی ردی میں نہیں جاتے تھے۔ ان کی ڈائری سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ہر سال گزشتہ برس کے اخبارات جلد بند کر کے محفوظ کر لیتے تھے۔
یہ کافی دلچسپ بات ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک کاغذ کوئی معمولی چیز نہیں تھا کہ بس پھینک دیا جائے یا اسے ’فش اینڈ چپس‘ لپیٹنے کے کام میں لایا جائے۔
وہ ہمیشہ اس بات پر نظر رکھتے تھے کہ ان کی تقاریر اخبار میں شائع ہوئی یا نہیں، اور وہ اکثر اپنی نظمیں بھی اخبارات کو اشاعت کے لیے دیتے تھے۔
مگر ڈائری میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے یہ لگے کہ وائرلیس (جو ان کے کانپور والے گھر میں موجود تھا، جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں) کہ خبروں کے ذریعہ کے لئے اس نے اخبار کی جگہ لی ہو۔
حیدر آباد اور کشمیر سے متعلق خبریں وہ وائرلیس پر سنتے تھے اور غیردانسمندانہ طور پر کبھی کبھار پاکستانی نشریات بھی سن لیتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے وائرلیس پر پٹیل کے ہاتھوں وشاکھاپٹنم میں ایک بحری جہاز کے افتتاح کرنے کی خبر سنی۔ مگر ان کے لئے اخبار سب کچھ تھا۔ اس لحاظ سے وہ میرے دل کے بہت قریب ہیں۔
حسرت کی ادبی مصروفیات
اس ڈائری میں اُن کی شاعرانہ مصروفیات کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ دوسرے شعرا کے اشعار کی اصلاح کر رہے ہیں۔ آپ انہیں ریڈیو کے لیے اشعار لکھتے اور آل انڈیا ریڈیو پر کئی بار انہیں پیش کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ آپ انہیں اپنی شاعری کے مجموعے اشاعت کے لیے ترتیب دیتے، مشاعروں میں شریک ہوتے، اور مختلف شعرا سے ملاقات کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اس طرح آپ کو ایک محنتی شاعر کی عملی زندگی کا حقیقی اندازہ ہوتا ہے۔
حسرت کے خواب اور روحانی سلسلہ
اب تیسری بات، میں حسرت کی روحانی اور خوابوں کی دنیا کی طرف آتا ہوں۔ حسرت ایک پکے صوفی تھے اور وہ فرنگی محلی روایت سے وابستہ تھے۔ ان کے پہلے پیر مولانا عبدالباری کے والد عبدالوہاب تھے۔ وہ ہر سال موہان میں اپنے خاندان کے عرس میں شریک ہوتے۔ اس کے علاوہ وہ مکمل طور پر فرنگی محلی طرز پر چلتے تھے، سوائے ایک استثنا کے جس کا میں ذکر کروں گا۔ وہ فرنگی محل کے بزرگوں عبد الولی، عبد الوہاب، اور عبد الباری کے عرس میں شریک ہوتے۔ وہ بانسہ کے سید شاہ عبدالرزاق کے عرس میں بھی جاتے، جنہیں فرنگی محلی کئی نسلوں سے اپنی خوش بختی کا مرکز سمجھتے تھے۔ اور وہ اودھ کے معروف بزرگ احمد عبد الحق ردولوی کے عرس میں بھی شریک ہوتے۔ جمال میاں نے ان کے سجادہ نشین کی بڑی بیٹی سے شادی کی۔ جمال میاں کی طرح وہ بھی خواجہ معین الدین چشتی کے عرس میں اجمیر شریف جاتے تھے اور درگاہ کے متولیوں میں شامل تھے۔ لہٰذا، زیادہ تر اُن کی روحانی زندگی مکمل طور پر فرنگی محل کے طریقے پر مبنی تھی۔
یہاں پر ایک اور دلچسپ نکتہ ہے جس کی جانب میں توجہ دلانا چاہتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ حسرت کی شاعری سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ اپنی بہت سی نظموں میں کرشن سے اپنی محبت کا ذکر کرتے ہیں۔ اور جنم اسٹمی میں شرکت کرنے کے لئے ہر سال متھرا جایا کرتے تھے۔
مجھے معلوم ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ایسا کرتے تھے۔ مگر مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ ان کی ڈائری میں وہ کرشن کی جنم اشٹمی میں شرکت کا ایک مرتبہ بھی ذکر نہیں کرتے۔ ہو سکتا ہے کہ ہندو احیا پرستی نے ان کا نظریہ بدل دیا ہو۔ حالانکہ اس بات کا احتمال کم ہی ہے، لیکن ایسا ہونا ممکن ہے۔ بہر حال ایسا لگتا ہے کہ وہ جنم اشٹمی میں شرکت چھوڑ چکے تھے۔ [اس کے برعکس] حسرت عرس میں شرکت کا خوب ذکر کرتے ہیں۔
جون 1948 میں، فرنگی محل باغ میں قوالی کے بعد، انہوں نے تبصرہ کیا کہ عربی زبان نے وہاں موجود لوگوں کے دلوں میں عشق نبی کا جذبہ پیدا کردیا…
جون 1949 میں، انہوں نے لکھا کہ: ’میں فرنگی محل عرس میں شرکت کے لئے کسی طرح لکھنؤ وقت پر پہنچ گیا کیونکہ روحانی لحاظ سے یہ میرے لئے بہت اہم ہے۔‘ اور آپ کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ فرنگی محل کے عرس میں قوالی کے دوران حسرت کی لکھی ہوئی کئی نعتوں کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ یہ تو ان کی روحانی زندگی ہے۔
لیکن ان کے خوابوں کی زندگی بھی ہے۔ اور جمال میاں کی طرح، حسرت بھی اپنے خوابوں کو لکھتے ہیں۔ مجھے اس بات پر تو شبہ ہے کہ وہ تمام خواب لکھتے ہوں گے، مگر کم از کم کچھ تو ضرورلکھے ہیں۔
2 اپریل 1947 کو، وہ خواب میں نبی( کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کا بوسہ کرنے کے لیے دوڑتے ہیں۔ نبی نے مسکرا کر کچھ نصیحت دی۔ مگر وہ لکھتے ہیں کہ نصیحت وہ یاد نہیں رکھ پائے— خوابوں سے متعلق یہ بھی عام تجربہ ہے کہ جاگنے کے بعد خواب کا اہم حصہ یاد نہیں رہتا۔
12اکتوبر 1948 کو، انہیں خواب آیا کہ وہ کانپور کے سیاسی رہنما ذاکر علی سے ملے، اور وہ دونوں جواہر لال نہرو کے ساتھ تھے۔ درحقیقت، جواہر لال نہرو کا کردار جمال میاں کے خوابوں میں بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ نفسیاتی لحاظ سے یہ بہت دلچسپ ہے۔
21 اگست 1949 کو، حسرت نے نوٹ کیا کہ ’رات کے درمیان مجھے محسوس ہوا کہ میں نبی ( کریم ﷺ ) کے دربار میں حاضر ہوں اور میں نے حج بھی کیا ہے۔ یہ ایک بہت زبردست احساس تھا۔‘ جاگنے کے بعد حسرت نے ایک غزل لکھی۔
7اکتوبر 1949 کو، حسرت نے خواب میں اپنی دادی کو دیکھا جو ان کے لیے کچھ پکا کر لا رہی تھیں۔ پھر انہوں نے جناح صاحب کو دیکھا جو بازار جا رہے تھے—کیا جناح کبھی بازار جاتے تھے؟— اور ان کے ساتھ بازار گئے اور ان کے لیے کھانے کا انتظام کیا۔ انہوں نے اس خواب کی تعبیر یہ کی کہ وہ مسلمانوں کے لیے اچھے کام کر رہے ہیں اور جناح ان سے خوش ہیں۔
8 اکتوبر 1949 کو، انہوں نے خواب میں نہرو کو دیکھا۔
12 اکتوبر 1949 کو، انہوں نے خواب میں حیدرآباد کے نظام کو دیکھا جو ہندوستانی پارلیمنٹ کے ارکان سے خطاب کر رہے تھے۔
16 نومبر 1949 کو، ایک دل کو چھو لینے والے خواب میں وہ اپنی پہلی بیوی بیگم حسرت موہانی کو دیکھتے ہیں جو انہیں آرام دے رہی تھیں اور ان کو انار دے رہی تھیں۔ اگلے دن ان کی وفات کی برسی تھی۔
ڈائری میں کچھ متفرقات
اور آخر میں کچھ عجیب دلچسپ باتیں بھی ہیں۔ ان کی ڈائری میں، نہ آزادی کے دن کا اور نہ اس کے آس پاس کے دنوں کا کوئی ذکر ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کیونکہ آزادی ایک بہت بڑا واقعہ تھا، جس کا ذکر ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے اس کا ذکر صرف اس وقت کیا جب وہ کانپور کے شہریوں کی مدد کر رہے تھے۔
انہوں نے گاندھی کی وفات پر غم کا اظہار کیا اور جناح کی حصولیابیوں کی تعریف کی۔ [بلکہ] دونوں کی موت پر [ان کی تعریف کی]۔
وہ ہمیشہ قومی اور یو پی اسمبلی سے اپنا حاضری الاؤنس لیتے ہیں، اور وہ بالکل ہاؤس آف لارڈز کے رکن کی طرح ہیں۔ وہ بڑی احتیاط کے ساتھ سے یہ تفصیلات لکھتے ہیں کہ انہوں نے الاؤنس کب لیا اور کب اسے بینک میں جمع کروایا۔ جتنا زیادہ ہو سکے وہ پیٹرول کے کوپن حاصل کرکے خوش ہیں جو راشن سے مل رہا تھا۔ حالانکہ ان کے پاس گاڑی نہیں تھی، تو انہیں پیٹرول کوپن کی ضرورت کیوں؟ لیکن ظاہر ہے یہ کوپن ایک خاص قسم کی کرنسی کی حیثیت رکھتے تھے۔
پارلیمنٹ میں ان کا ایک بڑا مسئلہ اردو کی حفاظت تھا، جس پر وہ پہلے سے زور دیتے آئے تھے۔ اور 1947-49 کے دوران حسرت اکثر بیمار رہتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ ان کو پیشاب کی کوئی بیماری تھی، ممکنہ طور پر ان کا پروسٹیٹ بڑھا ہوا تھا، اور انہیں معدے کے مسائل بھی تھے۔ وہ اکثر مغربی دواؤں کے ساتھ ساتھ ساتھ یونانی دوائیں بھی لیتے تھے۔ حالانکہ جمال میاں کے دوست ڈاکٹر فریدی انہیں مشورہ دیتے تھے کہ ایسا کرنا بہت احمقانہ بات ہے۔ لیکن یہ دلچسپ بات ہے کہ لوگ جتنا زیادہ ممکن ہو دوا لیتے ہیں [اس امید پر کہ] شاید [ان میں سے] کوئی اثر کرے—یہ ایک دلچسپ رویہ ہے۔
13جولائی 1949 کو، جب حسرت کی عمر72 سال تھی، وہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رات میں ان کے عضوِ تناسل میں تناؤ پیدا ہوگیا، جسے انہوں نے حکیم عبدالرشید کی دوا کا اثر قرار دیا ہے۔ یہاں پر میں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جمال میاں بھی اپنی ڈائری میں ایسی باتوں کا ذکر کرتے ہیں۔
9 جون 1949 کو، حسرت نوٹ کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں کنگ جارج ششم کی سالگرہ کے موقع پر تعطیل تھی— یہ بات مجھے دلچسپی سے خالی نہیں لگی —1949 میں جارج ششم اگلے سال جنوری میں جمہوریہ قائم ہونے تک ہندوستان کا بادشاہ تھا۔ مجھے اس کا علم نہیں تھا اس لئے مجھے اس بات پر سخت حیرت ہوئی۔ حسرت، جو برطانوی حکومت اور بادشاہت کے سخت مخالف تھے، اس بات کا ذکر مختصراً کرتے ہیں اور کسی سخت ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔ مجھے یہ بات کافی عجیب لگی۔
آخر میں، میں امید کرتا ہوں کہ میں نے آپ کو حسرت کی ڈائری کا کچھ رمز دیا ہے۔ یہ ہمیں 1947 سے 1949 کے مشکل سالوں کی روزمرہ کے واقعات سے حقیقی طور پر جوڑتی ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ جمال میاں کی سوانح حیات لکھتے وقت اس نے اس وقت کی دنیا کو میرے سامنے زندہ کرکے پیش کردیا۔
جمال میاں کی ڈائری کی طرح، یہ بھی کوئی ادبی ڈائری نہیں ہے، لیکن اس سے ایک تاریخ دان کو یہ سمجھنے میں بہرحال مدد کرتی ہے کہ کسی اور مقام پر کسی اور وقت میں ایک انسان ہونے کے کیا معنی تھے۔ ممکن ہے کہ اس ڈائری کے مزید جلدیں بھی مل جائیں۔
What a beautiful urdu