دیوبند: محبت اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک بستی جسے دشمنوں نے بدنام کیا

 

نام کتاب: دیوبند: تاریخ کے آئینے میںمصنف : ڈاکٹر عبید اقبال عاصم
صفحات:
512
ناشر: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند

ہندی ترجمہ: ऐतिहासिक नगरी  देवबन्द
صفحات: 528
قیمت: 600 روپئے
ملنے کا پتہ: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند

تبصرہ: محمد غزالی خان

دہلی سے تقریباً 93 میل دور صوبہ اترپردیش کا ایک چھوٹا اور پرامن قصبہ ہے۔ نائن الیون کے بعد اس کے خلاف کئے گئے مغربی پروپیگنڈے اور بعد میں اسے ہندوستان کے ہندوتوا انتہا پسندوں کے  ذریعے بدنام کرنے کی کوشش کے باوجود یہ ایک اتحاد و رواداری  اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی والی بستی ہے۔ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک بھر کے تناؤ بھرے ماحول میں پولس کی زیاتی کے علاوہ، جس میں اندھا دھند فائرنگ کر کے چھ نوجوانوں کو شہید کردیا گیا تھا، یہاں کبھی کوئی فساد نہیں ہوا یہاں تک کہ 1947 میں بھی نہیں جب تقریباً پورا برصغیرفرقہ وارانہ جنون اور تشدد میں مبتلا تھا۔ اس قصبے کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا عالم یہ  رہاہے کہ جنگ عظیم اول کے وقت جب افغانستان میں پناہ لئے ہوئے مجاہدین، جن میں سے اکثر کا تعلق دارالعلوم دیوبند  یا اس کے اکابرین سے تھا،  نےآزادی نے پہلی دسمبر 1915 کو ہندوستان کی پہلی حکومت کا اعلان کیا توصدر راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کو بنایا۔

مگر نائن الیون اور پھر گجرات میں سابر متی ایکسپریس کی آتش زدگی اور اس کے بعد پھیلائی گئی  اسلام مخالف نفرت کے ماحول میں بھلا دیوبند کیسے محفوظ رہ سکتا تھا جسے بغیرثبوت کے متشدد اسلامی بنیاد پرستی کے گڑھ کے طورپر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ بدقسمتی سے افغانستان میں سابقہ اورموجودہ حکومتوں کی کچھ احمقانہ حرکتوں اور ناعاقبت اندیشی نے اس پروپیگنڈے میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔

بہر حال ملک کے بدلتے ہوئے حالات میں ایک سے ایک بڑا جاہل صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں پہنچ گیا جوعام حالات میں نگرپالیکا کے لئے بھی منتخب کئے جانے کے لائق بھی نہیں تھا۔ ایسے ہی برجیش سنگھ نامی ایک شخص، جو دیوبند کو کوئی اسلامی نام سمجھ رہا تھا،  نے دیوبند کا ایم ایل اے منتخب ہونے کے فوراً بعد اعلان کردیا کہ وہ دیوبند  کا نام بدلوانے کے لئے اسمبلی میں تجویز پیش کرے گا۔

ایسے حالات میں ڈاکٹر عبید اقبال عاصم کی کتاب، ’ دیوبند: تاریخ کے آئینے میں‘ اور اس کا ہندی ترجمہ ’ایتہاسک نگری دیوبند‘قصبے کی تاریخ کو محفوظ کرنے اور اس کے بارے میں نئی نسل کو روشناس کرانے میں بہت معاون ثابت ہوگی۔ اتفاق سے دیوبند مصنف اور اس تبصرہ نگار دونوں کا آبائی وطن ہے۔

قصبے کی قدامت کے بارے میں عاصم صاحب رقم طراز ہیں: ’دیوبند میں آباد قدیم ترین مندر، ’’دیوی کنڈ‘‘ کے عقیدت مندوں، پجاریوں اور کچھ مورخین کے مطابق اس کا تذکرہ ’’مہا بھارت‘‘ میں بھی ملتا ہے۔ راقم سے خود پجاریوں نے بتایا کہ مہا بھارت کے دو تین بند ایسے ہیں جن میں دیوبند کا ذکر صراحت سے ہے کہ، ’’یہ قصبہ کورو پانڈو کے عہد حکومت میں آباد تھا۔‘‘ (’’ہندو سنسکرتی کا ایک کیندر‘‘ نرائن نند سرسوتی، ص 2 سے منقول)

عاصم صاحب ’’تاریخ سہارنپور‘‘ کے مصنف منشی نند کشور (تاریخ اشاعت 1868 ، سہارنپور) کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے دیوبند کو ہزار سال پرانا قصبہ بتایا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ’’جغرافیہ سہارنپور‘‘ (سن اشاعت 1866 ، سہارنپور) کے مصنف مولانا فصیح الدین کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ یہ قصبہ بکرما دتیہ کے دور سے بھی پہلے کا ہے۔

کتاب میں بہت سے دلچسپ تاریخی واقعات کا تذکرہ ہے۔ مثلاً اپنے جہاد کے لئے مجاہدین کی بھرتی کے لئے 1868 میں سید احمد شہیدؒ کا دیوبند کا دورہ جب انہوں نے یہاں دس روز قیام کیا تھا۔ یہاں سے کتنے لوگ بھرتی ہوئے تھے، مصنف کے بقول اس کا کوئی اندازہ نہیں تاہم تاریخی دستاویزات کے مطابق: ’اس ضمن میں جو چند نام ملتے ہیں ان کا اجمالی تذکرہ [۔۔۔] درج ہے۔ ان مجاہدین میں دیوان لطف اللہ کی چوتھی پشت میں ایک صاحب محمد بخش  کے چار جوان العمر صاجزادے بھی شامل تھے جن میں سے تین شیخ بلند بخت، مقصود علی اور سید احمد عرف سلّو صاحب نے اس معرکہ میں جام شہادت نوش کیا، جب کہ چوتھے بھائی بعد میں حیات رہے اور دیوبند ہی میں وفات پائی۔‘ دیگر مجاہدین کے نام یہ ہیں: مولوی فریدالدین، سید مقبول عالم، مولوی شمساد الدین، شیخ رجب علی، مولوی بشیراللہ، غازی حفیظ اللہ، عبدالرزاق اور عبدالعزیز۔ کتاب میں ان سب کے بارے میں مختصراً بتایا گیا ہے۔

کتاب میں  1857 کی جنگ آزادی،  اُس  میں  علماء کے کردار اورانگریز حکومت کے سفاکانہ رد عمل پر پورا ایک باب ہے  اور ’تاریخ دیوبند‘ سے اقتباس نقل کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ:  ’صرف دیوبند میں 144 اشخاص کو پھانیسی پر لٹکایا گیا، آم کے جس درخت پر لوگوں کو پھانسی دی گئی ، اس کو راقم نے بھی دیکھا ہے، آم کا یہ درخت ’’سولی والا‘‘ کہلاتا تھا، 16 آدمیوں کو دس دس سال قید اور 20 کو تین تین سال کی سزا دی گئی۔ 34 اشخاص پر جرمانہ عائد کیا گیا اور اسی قدر افراد سے آئندہ پر امن رہنے کی ضمانت لی گئی، سات آدمی ایسے خوش قسمت تھے کہ ان کو کوڑے مار کر چھوڑ دیا گیا۔ مضافات کے تین گاؤں نذرآتش کردئے گئے۔‘ (ماخوذ  تاریخ دیوبند، مصنف سید محبوب رضوی، صفحہ 186، علمی مرکز دیوبند)

دیوان دروازہ (فوٹو بشکریہ عبدالرحمٰن سیف)

علاوہ ازیں جن پرآزادی کی لڑائی میں حصہ لینے کا معمولی شبہ بھی تھا ان کی جائدادیں ضبط کرلی گئیں۔ ان اقدامات کی زد میں خاص طورپر دیوبند کے شیوخ اور سادات پرپڑی۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ برطانوی سامراج کے خلاف اس لڑائی میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ مصنف کے بقول: ’اگرچہ یہ قصبہ شروع سے ہی آبادی کے اعتبار سے مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل رہا لیکن کسی بھی موقع پر اس نے برادران وطن کو فراموش نہیں کیا بلکہ اکثرو بیشتر یہاں کے لوگوں نے بہت سی تحریکات میں غیر مسلم حضرات کی قیادت کو فخریہ طور پرقبول کیا اور ان کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر تن من دھن سے ساتھ دیا۔‘

’آزادی کا منصوبہ اوردیوبند‘ کے عنوان سے ایک باب میں علمائے دیوبند کی اس منصوبہ بندی کے بارے میں بتایا گیا ہے جس کے تحت انہوں نے جہاد آزادی کو ملک اوربیرون ملک میں پھیلانے کی جدوجہد کی تھی۔ کتاب میں 29 اکتوبر 1929 کو دیوبند میں گاندھی جی کی آمد اوراہل دیوبند کی جانب سے پندرہ سو روپئے کا عطیہ دینے کی تفصیلات اوردارالعلوم کے اساتذہ اورفارغین کو افغانستان، ترکی اور حجاز بھیجے جانے کی تفصیلات دی گئی ہیں۔

دیوبند کے معروف عالم دین مولانا محمودالحسنؒ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ: ’وہ جس مسلح بغاوت کو برپا کرنے کے خواہش مند تھے اس کو محض مسلمانوں تک محدود نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ بلکہ انہوں نے پنجاب کے سکھوں، بنگال کے انقلابی جوانوں اور غدر پارٹی سے وابستہ حضرات کو اپنی تحریک میں شامل کرنے کی دعوت دی۔ اس کا ہیڈ کواٹر انہوں نے اپنی نگرانی میں دیوبند کو بنایا اور اس کی شاخیں دہلی، دینا پور، امروٹ، کراچی، کھید اور چکوال میں قائم کیں۔‘

ممکن ہے کچھ قارئین کو مولانا محمودالحسنؒ کے بارے میں معلوم نہ ہو اسلئے مختصراً یہ بتادینا مناسب ہو گا کہ وہ ہندوستان کے بڑے علماء میں سے ایک تھے اوربرطانوی حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کیا ہوا تھا۔ انہیں حجاز (موجودہ سعودی عرب) سے گرفتارکرکے مالٹا میں چار سال مقید رکھا گیا۔ جن لوگوں نے مولانا کو آخری غسل دیا ان کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ مولانا کے جسم پر تشدد اور اذیت پہنچائے جانے کے متعدد نشانات باقی رہ گئے تھے مگر اللہ کے اس ولی نے اپنی زندگی میں کبھی کسی سے اپنے اوپر کئے گئے مظالم کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔

جنگ کے آزادی کے تعلق سے مصنف نے لکھا ہے: ’1930, 32,40, 42ء کی  انگریز مخالف تحریکات میں دیوبند کے ہندومسلمان بھائیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور قید و بند کی  مشکلات  کو جھیلا۔ 1947ء میں ملک کی آزادی کے بعد مسلم مجاہدین آزادی کی ایک ٹولی ملک سے ہجرت کر گئی، جو باقی رہے ان میں دارالعلوم دیوبند سے  منسلک بیش تر علماء نے کسی بھی سرکاری وظیفہ یا ااعزاز کو پالینے سے یہ کہہ کرانکار کردیا کہ، ’’آزادی کی لڑائی انہوں نے یہ وظیفہ یا اعزاز حاصل کرنے کے  لئے نہیں بلکہ دینی و مذہبی فیرضہ سمجھ کر لڑی تھی جس کا اجر اللہ عطا فرمائے گا۔ ہم یہ معمولی سا اجر لے کر اپنے اخروی اجر کو ضائع نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ یہاں تک کہ دارالعلوم دیوبند کے  صدر مدرس جنگ آزادی کے  عظیم مجاہد مولانا سید حسین احمد مدنی کو پدم بھوشن، دم شری اور بھارت بھوشن اوزاز تک کی پیش کش کی گئی ۔ انہیں پارلیمنٹ کی ممبری کے عزاز سے نوازنے کی تجویز بھی رکھی گئی لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا۔‘

بدقسمتی سے اتنی تابناک تاریخ کے باوجود 71 فیصد مسلم آبادی والے اس قصبے کے ساتھ منفی امتیاز کا رویہ روا رکھا گیا۔ میڈیا ہی میں نہیں بلکہ آزادی کے بعد تمام حکومتیں اسی روش پرقائم رہیں۔ دوارکان اسمبلی اور دو ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ کبھی اس قصبے کو اسمبلی یا پارلیمنٹ میں مسلمان نمائندہ نصیب نہیں ہوا۔ مزید یہ کہ  چیرمین شپ کے انتخابات میں حکمراں جماعت بی جے پی نے رہی سہی کسر پوری کردی اور دھاندلی کے ذریعے اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے شخص کو چیئرمین بنوادیا جو دیوبند کا رہنے والا بھی نہیں ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ 1948 سے 1960 تک دیوبند اور کیرانہ کو مشترکہ پارلیمانی حلقہ انتخاب بنائے رکھا گیا۔ اس دوران تمام انتخابات ہندو راجپوت امیدوار نے جیتے۔ مگر 1964 میں غیورعلی خان، جن کا تعلق جلال آباد سے تھا، ڈاکٹر منوہر لوہیا کی جماعت سوشلٹ  پارٹی، جس کا انتخابی نشان برگد کا درخت تھا، کے ٹکٹ پر الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ نتیجہ اس وقت کی وزیراعظم محترمہ اندرا گاندھی کے  لئے کسی صدمے سے کم نہیں تھا۔ لہٰذا انہوں نے دیوبند کو ہری دوار کے ساتھ شامل کردیا اور بعد میں اسے شڈیول کاسٹ کے لئے محفوظ سیٹ قرار دے دیا۔

کتاب میں’دیوبند حلقہ اسمبلی‘ ک عنوان سے شامل ایک باب میں مسلمانوں اور تمام انصاف پسند لوگوں کے لئے بہت سی دلچسپ معلومات فرہم کی گئی ہیں۔

مصنف رقم طراز ہیں کہ طویل مدت سے منتخب ہوتے آرہے ایم ایل اے ٹھاکرپھول سنگھ: ’69 ء کے وسط مدتی انتخابت میں اپنی گرتی ہوئی صحت کے سبب وہ حصہ نہیں لے پائے تو اس علاقے کی باگ ڈور کے لئے کانگریس نے ایک اور ٹھاکر امیدوار ٹھاکر مہاویر سنگھ پر زور آزمائی کی، جن کا سیدھا مقابلہ علاقے کی مقبول ترین شخصیت حاجی جمیل احمد نمبر دار مرحوم سے ہوا۔ حاجی جمیل احمد نمبردار با اثر شخصیت تھے جو ہندوؤں و مسلمانوں میں یکساں مقبل تھے۔ چھودھری چرن سنگھ کی پارٹی بی کے ڈی (بھارتیہ کرانتی دل پر انہیں انتخاب کے لئے میدان میں اتارا گیا تھا [۔۔۔] عام ووٹروں کے درمیان ان کی شناخت نہیں تھی، خصوصا! مسلم ووٹران میں تو یہ چہرہ کسی بھی طرح شناسا نہیں تھا۔ اپنے  سیدھے، سپاٹ لب و لہجہ، صاف گوئی و سادہ مزاجی کے باعث عوام میں اپنی گرفت نہیں بنا پارہے تھے۔‘ (آنجہانی ناخواندہ تھے اور دستخط کرنا بھی ایم ایل اے بننے کے بعد سیکھا تھا— مبصر]

امام باڑہ جو تقسیم سے پہلے تعزیوں اور مجالس کے لئے استعمال ہوتا تھا ((فوٹو بشکریہ عبدالرحمٰن سیف)

اس انتخاب میں یہ سمجھا جارہا تھا کہ حاجی جمیل احمد نمردار اپنے اثرو رسوق اور ہندوؤں اور مسلمانوں میں

مہابیر سنگھ چند سو ووٹوں سے جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان  کی اس جیت کا سہرا دیوبند کے عرصے سے چلے آررہے چیئرمین اورکانگریس کے معروف نیتا مولوی محمد عثمان صاحب کے سر تھا، ’جنہوں نے جمیل احمد صاحب نمردار کی دیرینہ دوستی، محلہ داری، انتہائی قربت کو قربان کرکے پارٹی کو ترجیح دیتے ہوئے ٹھاکر مہاویر سنگھ جی کو کامیابی سے ہم کنار کرایا اور لطف کی بات یہ ہے کہ مہاویر سنگھ جی کے ووٹوں کی تعداد انہیں مسلم علاقوں میں زیادہ پائی گئی جو جمیل احمد صاحب مرحوم کے گڑھ مانے جاتے تھے[۔۔۔]‘

مگر ’1974 ء کے صوبائی انتخابات میں ٹھاکر مہاویرسنگھ کا مقابلہ اپنے اس دیرینہ رفیق مولانا محمد عثمان سے ہوا جس نے گزشتہ انتخابات میں انہیں دیوبند کی نمائندگی دلانے کے لئے اپنا سب کچھ داؤپر لگادیا تھا۔ الیکشن کے وقت مولانا عثمان صاحب نے کانگریس پارٹی سے اپنے لئے ٹکٹ مانگا تو ٹھاکر مہاویر سنگھ نے اس میں سیندھ لگا کر تمام تعلقات کو قربا گاہ پر چڑھا دیا۔ کانگریس کے بطن سے جنم لینے والی مرارجی ڈیسائی کی قیادت میں نوتشکیل سیاسی جماعت سولسٹ کانگریس نے موقع کو غنیمت جان کر مولانا محمد عثمان صاحب مرحوم کو الیکشن لڑنے کی پیشکش کی جسے انہوں نے قبول کرلیا [۔۔۔] لیکن عین وقت پر الیکشن کسی نہ کسی سطح پر مذہبی رنگ میں لپٹ گیا جس کا نقصان مولانا محمد عثمان صاحب کو پہنچا اور وہ اپنے سیاسی شاگرد سے شکست کھاگئے۔‘ [واضح رہے صرف خاص قصبہ دیوبند میں مسلمانوں کی  اکثریت ہے اطراف کے دیہاتوں کو شامل کرکے وہ اقلت بن جاتے ہیں — مبصر]

بقول مصنف: ’یہ بات تو 74 ء کے الیکشن میں ہی ثابت ہوچکی تھی کہ دیوبند اسمبلی سیٹ [۔۔۔] ایک مخصوص دبنگ برادری کے زیر اثر آچکی ہے، وی یر صورت میں اس سیٹ پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے [۔۔۔] تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ سکتی ہے۔  شرافت و ایمانداری کے تصور سے بالا تر ہوکر اس سیٹ  کو  اپنے قبضہ میں رکھنے کے لئے وہ تمام حدود پارکرسکتی ہے [۔۔۔]

(فوٹو بشکریہ عبدالرحمٰن سیف) ہندوؤں کا قدیم مندر دیوی کنڈ

’کانگریس کے ٹکٹ پر 84ء کے صوبائی انتخابات میں ٹھاکر مہاویر سنگھ جی پھر میدان میں آئے۔ اس دفعہ ان کے مقابلے پر آل انڈیا مسلم مجلس کے قومی نائب صدر قمر کاظمی مرحوم کے چھوٹے بھائی جوان نیتا بدر کاظمی نے داؤ آزمایا۔ بھارتیہ لوک دل نے مہندر سنگھ تیاگی اور جنتا پارٹی (چندف شیکھر) نے ابھرتی ہوئی نئی سیاسی نیتا محترمہ ششی بالا پنڈیر صاحبہ کو اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے ٹھاکر  جسونت سنگھ کو میدان میں اتارا۔ اس مرتبہ ایک ہی قابل ذکر مسلمان امیدوار کے مقابلے پر تین ٹھاکراور ایک تیاگی امیدواروں کے باعث امید کی جارہی تھی کہ شاید اس مرتبہ یہ سیٹ مسلم امیدوار کے حصے میں آجائے [۔۔۔] لیکن جب نتائج آئے تو معلوم ہوا کی ٹھاکر مہاویر سنگھ نے ایک بڑے فرق سے بدر کاظمی کو شکست سے ہم کنار کردیا۔‘

دیوبند میں موجود عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مہاویر سنگھ نے اس مرتبہ بھی فرقہ وارانہ کارڈ کھیلا اور ہندوؤں میں جاجا کر یہ کہ کر التجائیں کیں کہ: ’کیا ایک چھوکرے سے شکست دلوا کرذلیل کرواؤ گے اورایک ور پاکستان بنواؤ گے؟‘

یہ شرمناک کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ یہی کہانی 1989 کے پارلیمانی انتخابات میں دہرائی گئی۔ اس مرتبہ جنتا پارٹی نے  قمر کاظمی صاحب کو اپنا امیدواربنا کر میدان میں اتارا۔ قمر صاحب جنتا پارٹی کے قائد، جو بعد میں وزیراعظم کے عہدے تک پہنچے، کے بہت نزدیک تھے۔ ان کا شمار دیوبند کی بہت سنجیدہ اورمعتبر شخصیات میں ہوتا تھا اور ہندو اور مسلمان دونوں ان کا احترام کرتے تھے۔ ان کے مقابلے میں کانگریس نے ایک ایسے ٹھاکر کو میدان میں اتارا جو کا دیوبند سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مصنف کے بقول: ’مہاویر رانا کا مقابلہ قمر کاظمی مرحوم سے بہت دلچسپ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ قمر صاحب مرحوم یہ سیٹ جیتنے کے باوجود محض اپنی ضرورت سے [۔۔۔] سے زیادہ شرافت کی بنا پر ہارے۔ راقم اس وقت کا عینی شاہد ہے جبن گنتی کےساتویں راؤنڈ میں قمر صاحب مرحوم کو زبردستی خالص بےایمانی اور دھاندلی بازی سے ہرایا گیا تھا۔ قمر صاحب چھ راؤنڈ تک اپنے حریف سے آگے تھے، ساتویں راؤنڈ میں ان کے 49 ووٹوں کے اوپر کانگریس کا ایک ووٹ لگا یا گیا، پچاس پچاس ووٹوں کی ڈی مہاویر رانے کے ووٹوں میں رکھ کر ان کی بڑھٹ دکھائی جانے لگی۔‘

(فوٹو بشکریہ عبدالرحمٰن سیف) سولہویں صدی کی خانقاہ کا دروازہ

کتاب میں مصنف نے اس قصبے کی تاریخ سے متعلق اور بھی بہت سی دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں۔ ہندی ترجمے میں انہوں نے محلوں اور دیوبند کے علماء اور بزرگوں سے متعلق معلومات حذف کردیں۔ اللہ کرے دوسرے ایڈیشن میں وہ حذف شدہ معلومات کو بھی شامل کرلیں۔ بہر حال محلوں کی بات آئی ہے تو ایک  تصحیح کرتا چلوں کہ دیوبند میں پٹھانوں کے  صرف دو قبیلے آباد ہیں۔ یوسفزئی محلہ قلعہ اور کاکڑ محلہ پٹھان پورا میں آباد ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ دو سال قبل  میرے بچوں نے کہیں یہ پڑھ لیا کہ پٹھان یہودی النسل ہیں۔ مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا اس کا کوئی ثبوت نہیں مگر کچھ لوگوں کا خیال ہے۔ بیٹوں سے زیادہ بیٹیوں کو اپنے نسب کے بارے میں تجسس پیدا ہوگیا۔ لہٰذا میرا ڈی این ای ٹیسٹ کروادیا جس میں یہودی النسل ہونا تو نہیں البتہ خاندان کا افغانستان سے ہجرت کرنا ثابت  ہوگیا۔

اسی طرح ہمارے جد امجد اوردارالعلوم کے پہلے بیچ میں ہونہار طالب علم اور بعد میں استاذ مولانا عبدالعزیز خانؒ کے بارے میں مصنف نے خود دارالعلوم کی روداد سے معلومات حاصل کی ہیں پھر بھی انہوں نے زیادہ تر خاندانی ذرائع کو زیادہ استعمال کیا ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ اہم کتاب دیوبند کی تاریخ کے حوالے ہی سے ایک عمدہ ریفرنس بک نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے ساتھ آج تک ہوتی آرہی ذیادتیوں کا بھی ایک ٹھوس ثبوت ہے۔ بہرحال قارئین کو یہ خیال رہے کہ یہ کتاب قصبہ دیوبند کی تاریخ ہے نہ کہ دارالعلوم کی جس میں اس عظیم درسگاہ کے بارے میں کافی معلومات ہیں مگرمفصل نہیں۔ اسی لئے 80 کی دہائی میں مولانا قاری طیب صاحبؒ کے خلاف ہنگامہ آرائی کرکے کانگریزی حکومت کی پشت پناہی والے گروپ کے قبضہ کرنے کے بارے میں اس میں کچھ نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.