عمران خان اور ان کے مخالفین کا بغض

محمد غزالی خان

میں پاکستان کبھی نہیں گیا ۔ممکن ہے اس بنیاد پر بہت سے دوست یہ اعتراض کریں کہ میں کسی ایسے ملک کی سیاست پر تبصرہ کیسے کرسکتا ہوں جو میں نے کبھی دیکھا تک نہیں۔ مگر ایسے تو دنیا کے بہت سے ممالک ہیں جو بہت سے لوگوں نے نہیں دیکھے ہوتے پھربھی وہاں کے سیاسی حالات اخبارات اور رسائل میں نہ سہی  سوشل میڈیا پرتو تبصرے کرتے ہی ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف بھی کرنا پڑے گا کہ بہت سے لوگ مختلف ممالک نہ دیکھنے کے باوجود، کتابوں، اخبارات،  رسائل  اور جرائد کے مطالعے کے ذریعے وہاں  کی آب و ہوا، جغرفئے، سیاست، معیشت اور تمدن کے  بارے میں  اتنی گہری معلومات حاصل کرلیتے ہیں کہ وہاں کے حالات پر ان کے تجزیے اتنے با وزن ہوتے ہیں کہ ان کے وہاں کئی سال گزارنے کا گمان ہونے لگتا ہے۔

میرا یہ دعویٰ ہرگز نہیں ہے کہ میں پاکستان کے بارے میں پاکستانیوں سے زیادہ جانتا ہوں، مگرشاید یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ جس ملک کی تخلیق کی قیمت ہم ہندوستانی مسلمان اب تک ادا کررہے ہیں اور معلوم نہیں ہماری کتنی نسلیں ادا کر یں گی ، اس کی تاریخ، تمدن، سیاست اور ثقافت سے اتنی واقفیت اور دلچسپی ضرور رکھتا ہوں کہ اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرسکوں اور اس کا اظہار بھی کر سکوں۔ اس کے باوجود میں پاکستان  کی سیاست پر تبصرہ کرنے سے پرہیز کروں گا علاوہ عمران خان کے لئے  کچھ ان بہت سے  نہایت سنجیدہ دوستوں کے ازلی بغض پررائے دینے کے  جس کے بارے میں کچھ کہنے کے لئے اپنے آپ کو مجبورپاتا ہوں۔ ’عمران خان پاکستان پر عذاب ہے‘ جیسے جملے سننے کے بعد اس نفرت کو بغض کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔  

خودغرضی انسان کا خاصہ ہے اورمیں اس عیب سے پاک ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا۔ بحیثیت مسلمان مجھے عمران خان اسلئے پسند ہے کہ وہ مسلم دنیا کا واحد لیڈر ہے جس نے شانِ رسالتﷺ میں گستاخی کے خلاف اقوام متحدہ میں آواز اٹھائی ہے۔ وہ دنیا کا واحد سیاست داں ہے ؛جس نے مغربی دنیا میں پھیلتے ہوئے اسلاموفوبیا پرکھل کر بات کی ہے۔ بحیثیت ہندوستانی مسلمان میں اس کا ممنون ہوں کیونکہ وہ دنیا کا اکیلا لیڈر ہے جس نے ہر پلیٹ فارم پر ہندو انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھائی اورآرایس ایس کو فسطائی اور دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ اقوام متحدہ میں اس کے بیان کے بعد اگلے ہی روز آرایس ایس چیف موہن بھاگوت نے دہلی میں بین الاقوامی میڈیا کو دعوت دے کراپنی صفائی پیش کی تھی۔

 عمران خان کا ماضی جو کچھ بھی رہا ہو، موجودہ حالات میں تمام مسلم دنیا میں  وہ اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان مخلص ترین سیاست داں نظر آتے ہیں اور اپنے اپنے ممالک کے ساتھ ساتھ دنیائے اسلام کے لئے بھی کچھ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ مگر مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی تردد نہیں ہے کہ یوغورمسلمانوں سےمتعلق عمران خان اوراردوغان دونوں کا موقف مایوس کن ہے۔

پاکستان میں ’مسٹرٹین‘  پرسینٹ اوراُس سابق وزیراعظم کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا  جو کسی سربراہ مملکت سےملتے وقت اپنی باڈی لینگویج سے مرعوب نظر آتا تھا  پرچیوں پرنوٹس لکھ کر لے جاتا تھا ۔ بہرحال ان باتوں کو اس بحث کے لئے چھوڑ دیتے ہیں جو اس تحریر کے بعد شروع ہو گی۔

میں تو عمران خان کے ایک امریکن چینل کو دئے گئے انٹرویو کے پردے کے تصور پر اس حصے کا لفظی ترجمہ کرنے بیٹھا تھا جسے یا تو بہت سے مبصرین نے خود سنا نہیں یا جان بوجھ کرڈنڈی ماررہے ہیں۔ میں یہ بات ہرگز نہیں کہہ رہا ہوں کہ زنابالجبرکے واقعات کا براہ راست تعلق عورتوں کے لباس سے ہے۔ مگر جس پیرائے میں عمران خان نے وہ بات کہی ہے جس پر ایک ہنگامہ برپا ہے، اگر کوئی مرد اس سے انکار کرتا ہے تو وہ نہایت جھوٹا  شخص ہے اور وہ صرف نیک اور پاکیزہ ذہن رکھنے کا ڈھونگ رچنے کے لئے وہ اس حقیقت سے انکارکررہا ہے۔

بہرحال جنہوں نے انٹرویو خود نہیں سنا اور محض سنی سنائی بات پراظہاررائے کررہے ہیں ان کے لئے ذیل میں متعلقہ حصے کا ترجمہ لفظ بلفظ پیش ہے۔ ٹھنڈے دل سے پڑھئے اور ایمانداری سے رائے دیجئے۔

عمران خان کا انٹرویو:

سوال: آپ سے پاکستان میں جنسی تشدد اور زنا بالجر کی وبا کے بارے میں ایک سوال کیا گیا تھا۔ آپ نے مسئلے کی سنجیدگی اور پاکستان میں موجود سخت قوانین کی بات کی۔ آپ کے حوالے سے یہ بات بھی لکھی گئی کہ پردے کا تصور [جنسی جزبات بھڑکانے اور] ترغیب کو روکنا ہے۔ ہرمرد میں قوت ارادی [اتنی مضبوط] نہیں ہوتی۔ آپ نے کہا کہ بڑھتی ہوئی بے حیائی کے نتائج برآمد ہوں گے۔ [اس پر] آپ کو زنابالجبر کی شکار [خواتین] کو الزام دینے کا الزام لگایا گیا۔ اس پر آپ کا کیا جواب ہے؟

جواب: یہ بہت ہی لغو بات ہے۔ میں نے یہ بالکل نہیں کہا تھا۔ میں نے پردے کے تصور کےبارے میں بات کی تھی۔ پردے کا تصور یہ ہے کہ معاشرے میں [جنسی جزبات بھڑکانے اور] ترغیب سے پرہیز کریں۔ ہمارے یہاں ڈسکو اور نائٹ کلبز نہیں ہیں۔ یہ ایک باالکل الگ معاشرہ اور الگ طرززندگی ہے۔ لہٰذا اگر آپ جزبات کو اس حد تک برانگیختہ کردیں گے اور ان تمام نوجوانوں کے لئے جانے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے تو معاشرے پر اس کا اثرپڑے گا۔

سوال: توکیا آپ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کا [نیم برہنہ] لباس اس ترغیب میں کوئی کردار ادا کرتا ہے؟

جواب: اگر کوئی عورت مختصرسا لباس پہنے ہوئے ہے تو مردوں پر اس کا اثر [لازماً] ہوگا، علاوہ اس کے کہ وہ روبوٹ ہوں۔ یہ کامن سینس کی بات ہے۔

سوال: مگر کیا اس کی وجہ سے جنسی تشدد کی ترغیب ملتی ہے؟

جواب: اس کا انحصاراس بات پر کہ آپ کس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں لوگوں نے اس قسم کی چیز نہیں دیکھی ہے تو اس پر اس کا اثر [لازماً] پڑے گا۔ آپ جس قسم کے معاشرے میں رہتے ہیں، ممکن ہے آپ پر اس کا اثرنہ ہو۔ یہ خواہش کہ جو کچھ ہماری ثقافت میں ہے اسے دوسرے بھی اپنائیں تو یہ ثقافتی استعماریت ہے۔

سوال: جب آپ کرکٹ اسٹار تھے تو آپ کو پلے بوائے کے طورپر دیکھا جاتا تھا۔ بغیر قمیص کے آپ کی تصاویر اور آپ کے بیڈ روم کی تصایرآتی تھیں۔

جواب: جوناتھن، یہ میری ذات کا مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: مگر آپ تو ایک پیغامبر ہیں۔

جواب: جوناتھن سنو! اس مسئلے کا تعلق میرے معاشرے سے ہے۔ میری ترجیح یہ ہے کہ میرے معاشرے کا کیسا برتاؤ ہے اور میرے معاشرے کا رد عمل کیا ہوگا۔ جب ہم جنسی جرائم بڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہم بیٹھ کربات کرتے ہیں اور غور خوض کرتے ہیں کہ اس مسئلے سے کیسے نپٹیں۔ اس سے ہمارا معاشرہ متاثرہورہا ہے۔ ہمیں [لازمی طور پر]اس بارے میں کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.