امن کی بات چیت یا سیاسی ڈرامہ؟ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران ہندوستان اور ایران کی گفتگو

masoud modi

محمد غزالی خان

ایران کے صدر مسعود پژشکیان نے حال ہی میں ہندوستانی وزیرِاعظم نریندر مودی کو فون کر کے اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران پر کیے گئے حملوں پر بریفنگ دی۔

ہندوستانی وزارتِ خارجہ کے مطابق، مودی نے ’حالیہ کشیدگی پر ہندوستان کی گہری تشویش‘ کا اظہار کیا اور کہا کہ ’ہندوستان امن اور انسانیت کے ساتھ ہے۔‘

بیان میں کہا گیا کہ مودی نے ’فوری طور پر کشیدگی کم کرنے، مکالمے اور سفارت کاری‘ پر زور دیا اور خطے میں جلد از جلد امن، سلامتی اور استحکام کی بحالی کی حمایت دہرائی۔

تاہم، مودی کی اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ معروف دوستی — اور دونوں رہنماؤں کے مسلم مخالف رویے — اس گفتگو  کے محض رسمی یا سادہ ہونے پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب ہندوستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اس بیان سے فاصلہ اختیار کرلیا تھا جس میں ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کی گئی تھی، یہ فون کال اتنی سادہ نظر نہیں آتی۔

اس کے علاوہ اطلاعات ہیں کہ ایران کے صوبہ البرز میں دو ہندوستانی شہریوں کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

ایران نے تاریخی طور پر ہندوستان کی کئی اہم مواقع پر مدد کی ہے، اور ممکن ہے کہ صدر پژشکیان نے مودی کو ان پرانے احسانات کی یاد دہانی کرائی ہو، جن میں 1994 میں ایک بڑی سفارتی مداخلت بھی شامل ہے۔

اس وقت ہندوستان کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی دباؤ کا سامنا تھا اور اسلامی تعاون تنظیم اور مغربی طاقتوں کی قیادت میں ہندوستان پر اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کا خطرہ تھا۔

اس نازک صورتحال میں اس وقت ہندوستانی وزیرِاعظم پی وی نرسمہا راؤ نے شدید علیل وزیرِ خارجہ دینیش سنگھ کو ایک خفیہ مشن پر تہران بھیجا۔ وہیل چیئر پر ان کی آمد نے ایرانی حکام کو چونکا دیا۔ لیکن طویل بات چیت کے بعد ایران نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن میں بہندوستان کی مذمت پر مبنی او آئی سی کی قرارداد کو روکنے پر رضامندی ظاہر کردی۔

ہندوستان کے سینئر صحافی افتخار گیلانی، جو خود کشمیری ہیں،  کے مطابق، یہ سفارتی پیش رفت ہندوستان کو بین الاقوامی پابندیوں سے بچانے اور کشمیر کے مسئلے کو اقوامِ متحدہ میں عالمی مسئلہ بننے سے روکنے میں کلیدی ثابت ہوئی۔

لیکن ایران کے اس احسان کا جواب ہندوستان نے احتیاط اور اکثر مبہم رویے سے دیا ہے، جو تہران اور مغربی شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھنے کی کوشش کی عکاسی کرتا ہے۔

ہندوستان نے 2022 اور 2025 میں ایران کے جوہری معاہدے پر آئی اے ای اے کی تنقید پر مبنی ووٹنگ سے گریز کیا، اور مہسا امینی احتجاج کے بعد ایران کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے بھی غیر حاضر رہا۔ اگرچہ تجارتی تعلقات رسمی طور پر برقرار ہیں، لیکن 2018 میں امریکی پابندیاں دوبارہ لگنے کے بعد ہندوستان نے ایران سے تیل کی درآمدات میں واضح کمی کی۔

علاوہ ازیں، اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کا بڑھتا ہوا اسٹریٹیجک اور دفاعی تعاون اکثر بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر مغربی اور اسرائیلی موقف کے ساتھ ہم آہنگ رہا ہے، جس سے ایران کے ساتھ تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہواہے۔

بہر حال بی جے پی کی قیادت میں حکومت کا ایران کے لیے غیر دوستانہ رویہ نظر انداز نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ اپوزیشن کی سینئر رہنما سونیا گاندھی نے بھی اسرائیل کے ایران اور غزہ پر حملوں پر حکومتی خاموشی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے ’ہندوستانی اقدار کے مکمل طور پر منافی‘ قرار دیا ہے۔
انہوں نے اخبار دی ہندو میں لکھا:

’روزنامہ ’ہندو‘  میں شائع کئے گئے ایک مضمون میں انہوں نے لکھا ہے: ’پہلے غزہ میں تباہی پر اور اب ایران پر بلاجواز حملوں پرحکومت کی خاموشی، اخلاقی اور سفارتی روایت سے  ہمارے تشویشناک انحراف کی عکاس ہے۔ یہ صرف آواز کا خاموش ہونا نہیں بلکہ [اس کا مطلب] ہمارے اقدار کو ترک کیا جانا ہے۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ دہلی میں ایرانی سفارت خانے نے ہندوستان میں سب کا شکریہ ادا کیا—سوائے حکومت کے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری ایک پیغام میں کہا گیا:

’صیہونی حکومت اور امریکہ کی فوجی جارحیت کے مقابلے میں ایرانی قوم کی فتح کے موقع پر، نئی دہلی میں اسلامی جمہوریہ ایران کا سفارت خانہ ہندوستان کے تمام باعزت اور آزادی پسند عوام — جن میں معزز شہری، سیاسی جماعتیں، معزز ارکانِ پارلیمنٹ، غیر سرکاری تنظیمیں، مذہبی و روحانی رہنما، جامعہ کے اساتذہ، ذرائع ابلاغ کے افراد، سماجی کارکنان اور وہ تمام افراد و ادارے شامل ہیں جنہوں نے حالیہ دنوں میں مختلف طریقوں سے عظیم ایرانی قوم کے ساتھ بھرپور اور واضح یکجہتی کا مظاہرہ کیا — ان سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہے۔‘

اندرونِ ملک، ہندوستان میں مودی حکومت کے تحت بڑھتے ہوئے مسلم مخالف تشدد اور امتیازی پالیسیوں سے نبرد آزما ہے۔ صرف دو ماہ میں کم از کم آٹھ مسلمانوں کو ہجومی تشدد میں شہید کردیا گیا، اور متعدد ریاستوں — مثلاً کرناٹک، تلنگانہ، اڑیسہ، ہماچل پردیش، اور راجستھان — میں مسلمانوں پر ہجوم نے حملے کئے ہیں۔

حکومت کے اقدامات، جیسے مسلمانوں کو بنگلہ  دہشی تارکین وطن قرار دے کر زبردستی بنگلہ دیش بھیجنے کی کوشش، وقف ترمیمی قانون 2025 جو صریحاً مسلم مخالف ہے اور جس سے مسلمانوں کی مذہبی املاک پر شدید ضرب لگتی ہے، اور گجرات میں 8,000 سے زائد مسلم گھروں کی مسماری نے ادارتی تعصب کے خدشات کو  تقویت پہنچائی ہے۔

مختلف تنظیموں، اداروں اور میڈیا رپورٹوں میں ادارہ جاتی غفلت، جانبدارانہ تحقیقات، اور حکومتی سطح پر ان مظالم پر خاموشی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب انتہا پسند حکومت کی غیر تحریری پالیسیوں کا انجام ہے۔
انسانی حقوق اور دیگر تنظیموں کے رہنماؤں نے اس خطرناک صورتِ حال میں فوری احتساب اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.