محمد غزالی خان
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے نصراللہ ہاسٹل، وی ایم ہال، میں میرے سینئر ہی نہیں بلکہ پڑوسی عشرت فیروزبھائی کا کل، ۳۰ ستمبر ۲۰۲۰ کو ، علیگڑھ میں انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا إليه راجعون۔ عشرت بھائی کافی عرصے سے ذیابطیس اوردیگر امراض میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے گردے بری طرح متاثر ہوگئے تھے۔
عشرت بھائی، جاوید حبیب، اختر الواسع، عارف محمد خان (ان موصوف کا نام مجبوراً لکھنا پڑ رہا ہے۔ بہرحال یہ ایک تاریخی حقیقت ہے)، اعظم خان اوراقلیتی کردار کی بحالی کی جنگ میں پیش پیش رہنے والے دیگر طلبا سے تو جونئیر تھے مگراس جنگ میں فعال کردار ادا کرنےوالوں میں شامل رہے۔
ہمارے زمانہ طالب علمی تک علیگڑھ مثبت مسلم سیاست کا مرکز تھا اور ہمارا ہاسٹل، جس میں عشرت بھائی کے علاوہ اعظم خان اور ندیم ترین بھائی (ندیم بھائی اورعشرت بھائی بہت ہی نزدیکی دوست بلکہ ہم پیالہ ہم نوالہ تھے ندیم بھائی شاید کمرہ نمبر ۲۸ میں تھے۔) جیسے محرک سینئر طلبا موجود تھے، وہاں سیاسی سرگرمیوں کا کچھ زیادہ ہونا لازمی تھا۔ عشرت بھائی اعظم خان صاحب والی طلبا یونین میں سینئر کیبنیٹ بھی تھے۔
اُس وقت کی علیگڑھ اسپرٹ کی اک جھلک کے طور پر ایک دلچسپ واقعے کا تذکرہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ ہمارے ہاسٹل میں دو گروپ تھے۔ ایک اعظم خان مخالف اور دوسرا ان کا حامی۔ اعظم خان حامی گروپ میں تین سینئرز،عشرت بھائی، ندیم بھائی اور اختر ضمیربھائی نزدیک ترین دوست تھے۔ علیگڑھ چھوڑ کر اختربھائی (جو عشرت بھائی کے روم میٹ بھی تھے) دبئی چلے گئے تھے۔ وہاں پہنچ کرظاہر ہے اپنی پہلی تنخواہ سے تو انہوں نے اپنے والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کو تو تحفے تحائف بھیجے ہی ہوں گے مگر اس موقع پراپنے ہاسٹل کے ساتھیوں کو نہیں بھولے، جن کی خاص دعوت کے لئے انہوں نے عشرت بھائی کو کچھ رقم بھیجی تھی۔ مگرکیونکہ فوراً ہی رمضان شروع ہوگیا تھا تو عشرت بھائی نے اس رقم سے پورے ہاسٹل کے لئے شاندارافطارکا اہتمام کیا تھا۔
میں نصراللہ ہاسٹل کے کمرہ نمبر ۳۴ میں تقریباً دو سال رہا اورعشرت بھائی کمرہ نمبر ۳۳ میں رہتے تھے۔ بعد میں، میں کمرہ نمبر ۲۵ میں، اپنے قریبی دوست اور کلاس فیلو وسیم احمد قادری (ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف انڈیا) کے ساتھ منتقل ہوگیا تھا۔ علیگڑھ میں ایک ہی ہاسٹل میں میرا اور عشرت بھائی کا تقریباً نو سال ساتھ رہا۔
امرجنسی کے دوران جب پورے ملک میں خوف کا عالم تھا، علیگڑھ میں بھی طلبا یونین تحلیل کی جا چکی تھی اوراعظم خان کوگرفتارکرلیا گیا تھا۔ اس ماحول میں طلبا کا محتاط ہوجانا لازمی تھا۔ مگر جب سالانہ گروپ فوٹو کھنچنے والا تھا تو عشرت بھائی، جو تعلقات کو نبھانے میں اپنی مثال آپ تھے، ندیم بھائی اور اختر ضمیر بھائی نے موقف اختیارکیا کہ اس گروپ فوٹو میں سامنے والی کرسیوں، جو سینئرز، وارڈن اور پرووسٹ صاحبان کے لئے مخصوص ہوتی تھیں، میں سے ایک پر اعظم خان کی تصویررکھی جائے گی۔ جونئیر ہونے کے باوجود میں ان لوگوں میں تھا جنہوں نے ان کی اس تجویز کی پرزور حمایت کی تھی۔ مگر وارڈن صاحب اس کی ہمت نہ کرپائے اور اعظم خان مخالف کچھ سینئرزنے بھی وارڈن صاحب کی تائید کی۔ بہرحال اس سال گروپ فوٹو نہیں کھنچا۔
عشرت بھائی اچھے لکھاری ہی نہیں تھے ایک عمدہ مقرر بھی تھے۔ جلسوں اورثقافتی پروگراموں کی نظامت وہ مخصوص علیگیرین انداز میں نہایت عمدگی کے ساتھ انجام دیتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اپنی تحریری صلاحیت کا استعمال تو جاری رکھا اور ’ستون‘ کے نام سے ایک معیاری میگزین بھی نکالا مگر تقریر صلاحیت کا انہوں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ عشرت بھائی علیگڑھ کی روایت تہذیب کا ایک نمونہ تھے۔
عشرت بھائی نے سائیکلوجی میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ صحافت کا انہیں اتنا شوق تھا کہ اپنی اس ڈگری کو بھی انہوں نے استعمال نہیں کیا جبکہ وہ ہونہار طالب علموں میں تھے۔ مگرشوگراوردیگربیماریوں نے انہیں اتنا گھیرلیا تھا کہ صحافت میں بھی زیادہ دن ایکٹو نہ رہ سکے۔ لمبے عرصے سے ڈائلسس پر تھے۔ لندن آنے کے بعد میرا ان سے رابطہ ختم ہوگیا تھا۔ علیگڑھ میں میرے چچا ڈاکٹر یوسف خان (شعبہ عربی ) سے جب بھی ملتے تو کہتے کہ غزالی سے بات کرنے کو بہت دل چاہ رہا ہے۔ مگرچچاجان سے میرا نمبر لینا بھول جاتے اور چچا جان، عشرت بھائی سے ان کا نمبر لینا بھول جاتے۔ جب عشرت بھائی فیس بک پر آئے تو وائس کال کے ذریعے اور بعد میں فون پر کئی مرتبہ بات ہوئی۔ مگر کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ جب میں نے فون کیا تو عشرت بھائی ہسپتال میں داخل تھے۔ اس خیال سے کہ عشرت بھائی کو ڈسٹرب نہ کروں میں نے فون کرنا بند کردیا تھا۔ میں محسوس کررہا تھا کہ ان کی صحت اس لائق بھی نہیں رہی تھی کہ فیس بک پر ایکٹو رہ سکتے۔
اللہ تعالیٰ عشرت بھائی کے درجات بلند کرے، ان کا شمار علیین میں فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔