محمد غزالی خان
لندن: اتوارکے روز برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی سرکاری رہائش گاہ، ۱۰ ڈاؤئنگ اسٹریٹ، کے باہر سیکڑوں ہندوستانی نژاد برطانوی شہریوں نے ہندوستان میں انسانی حقوق کی کھلی پامالی اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کیا ہے جہاں سے وہ جلوس کی شکل میں ہندوستانی سفارتخانے پر پہنچے۔
مظاہرین نے ہاتھوں میں مختلف پیغامات والے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے۔ ایک پر لکھا تھا، ’خاموشی جرم ہے‘، دوسرے میں کہا گیا تھا، ’نفرت احتجاج نہیں جرم ہے‘، تیسرے پر درج تھا، ’مسلمان ہونے کی وجہ سے لنچنگ بند کرو‘۔ کچھ پلے کارڈز پر مودی، یوگی، کپل مشرا، یتی نرسنگھانند اور دیگر ہندوتوا لیڈروں کی بڑی بڑی تصاویر یں تھیں جن پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا، ’مطلوب ہے‘ اور اس کے نیچے ایک لائن میں اس کا جرم بیان کیا گیا تھا۔
پلے کارڈز پرانسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ان افراد کی تصاویر بھی تھیں جو ہندوا تو حکومت کے عتاب کا شکار ہوئے ہیں۔ ایک پلے کارڈ پر آفرین فاطمہ کی تصویرتھی جس پر لکھا تھا، ’ہم آفرین فاطمہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘ دوسرے پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا ’ہم ان کے ساتھ ہیں‘ جس کے نیچے تیستا سیتلواد، آربی سری کمار اور راجیو بھٹ کی تصایر تھیں۔
ہندوستانی ہائی کمیشن کی جانب روانہ ہونے سے پہلے مظاہرین سے رکن پارلیمنت کلوڈیا ویب سمیت متعدد تنظیموں کے نمائندوں نے خطاب کیا۔
ماہر تعلیم اور منتظم تنظیموں میں سے ایک ’ساؤتھ ایشیا سالیڈاریٹی گروپ‘ کی کلپنا ولیم نے کہا: ’ہندوستان میں ناگزیرنسل کشی میں وزیراعظم بورس جانسن اور حکومت برطانیہ شریک جرم ہیں۔‘
حالیہ دورہ ہندوستان کے دوران بورس جانسن کی بے حسی یاد دلاتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ہم وہ منظرکبھی نہیں بھول سکتے جب مودی دہلی اور یوپی میں مسلمانوں کے گھر مسمار کروانے کے لئے جے سی بی بلڈوزربھیج رہا تھا —— اور حال ہی میں ہم نے الہ آباد میں بہادر ایکٹوسٹ فاطمہ کا گھر مسمار ہوتے دیکھا ہے —— ٹھیک اس وقت وزیراعظم بورس جانسن میڈیا کے سامنے جے سی بی بلڈوزرپر چڑھ کر پوز دے رہے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’لہٰذا آج میری اپنی تنظیم، ساؤتھ ایشیا سالیڈاریٹی گروپ اور یہاں موجود وہ تمام بیس کی بیس تنظییں جنہوں نے اس مظاہرے کا انتظام کیا ہے، وزیراعظم سے کہنا چاہتے ہیں: نسل کشی میں مدد کرنا بند کرو۔ ہندوستان میں فسطائیت کی مدد کرنا بند کرو۔‘
کلپنا ولسن نے مزید کہا: ’جو کچھ 2002 میں ہوا تھا ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔ ہم ان قیمتی جانوں کو کبھی نہیں بھولیں گے جو ضائع کردی گئیں۔‘
کلپنا نے کانگریس کے مرحوم رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری اورہرقدم پران کی مدد کرنے والی معروف ایکٹوسٹ تیستا سیتلواد کوخراج تحسین پیش کیا اور کہا: ’ہم ذکیہ جعفری کی ناقابل فراموش بہادری کو کبھی نہیں بھولیں گی جوبیس سال تک اصل مجرم کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لئے جنگ لڑتی رہیں۔ ہمیں اس اصل مجرم کا نام بھی معلوم ہے اور وہ نریندر مودی ہے جس نے قتل عام کا حکم دیا تھا۔‘
کلپنا نے تیستا سیتلواد کی جرات اور ذکیہ جعفری کی ہرقدم پرمدد جاری رکھنے کی تعریف کی اور کہا: ’مگر وہ اب خود جیل میں ہیں اور ہم ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘
اسٹرائیو یوکے نام کی مسلمان تنظیم کے صدر صغیرمحمد صاحب نے کہا کہ ہندوتوا اورہندوازم دو مختلف چیزیں ہیں۔ انہوں نے کہا: ’ہندوتوا عناصر ہندو مذہب کوہائی جیک اوراس پراپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ صغیرصاحب نے مزید کہا: ’میرا یقین کیجئے، بحیثیت مسلمان مجھ سے زیادہ اورکون جانتا ہو گا جو اس کے مذہب کے نام پر [نا قابل قبول] حرکتوں کا ارتکاب کئے جانے کی تکلیف کو سمجھتا ہو گا۔ ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ ہندوازم ہندوتوا نہیں ہے۔ ہماری لڑائی ہندوتوا کے نظریے کے خلاف ہے۔‘
لیسٹر ایسٹ کی رکن پارلیمنٹ کلوڈیا ویب نے کہا: ’میں یہاں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں، صحافیوں اور دیگر لوگوں کو مجرم بنائے جانے اور مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزرچلانے کی مہم کی مخالفت کرنے آئی ہوں۔‘
اقلیتوں کے خلاف کئے جانے والے جرائم گنواتے ہوئے لیبرپاڑی رکن پارلیمنٹ نے ہندوستان کے تئیں حکومتی رویے کی سخت مذمت کی۔ انہوں نے کہا: ’حکومت کو ہندوستان میں تقسیم کرو اور حکومت کرو کی سامراجی دور کی پالیسی جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہندوستان سے برطانیہ کے تجارتی معاہدوں کی حقیقت کھولے جانے کی ضرورت ہے۔ ان میں انسانی حقوق سے متعلق قانون سازی کا فقدان ہے۔ اسلئے اس کی مخالفت کرنا ہمارا فرض ہے۔‘
دیگرمقررین کی طرح مسلم ایسو سی ایشن کی رغد التکریتی نے مسلمانوں کے قتل، لنچنگ اورمسلمان خواتین کی عصمت دری کے واقعات کی سخت مزمت کی۔ بی جے پی کی ہندوتوا حکومت کے چند جرائم گنواتے ہوئے انہوں نے مسلم اکثریتی علاقے لکشدویپ کا خاص طورپر زکر کیا اور بتایا کہ وہاں گائے کے گوشت پرپابندی لگادی گئی ہے اور شراب سے متعقل قوانین میں ڈھیل دے دی ہے۔
دیگر اور کئی مقررین نے بھی مظاہرین سے خطاب کیا۔