مردہ اورزندہ قوم کا فرق

محمد غزالی خان

جو غافل تھے ہشیار ہوئے جو سوتے تھے بیدار ہوئے

جس قوم کی فطرت مردہ ہو اس قوم کو زندہ کون کرے

 (دل شاہ جہاں پوری)

مندرجہ بالا کلپ برطانیہ کی برسراقتدارجماعت، کنزرویٹیو پارٹی، کے رکن پارلیمنٹ، چارلز واکر کی ہے۔ جس میں وہ ایک عمر رسیدہ احتجاجی خاتون کے گرفتار کئے جانے پرپولیس پر اظہار برہمی کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ’یہ ایک ذلیل حرکت ہے۔ وہ ایک عمر رسیدہ خاتون ہے۔‘ وہ پولیس اہلکاروں کو شرم دلاتے ہوئے کہتے ہیں،’تمہاری اپنی بھی مائیں ہوں گیں۔‘ مگر پولیس والے سنی ان سنی کرتے ہوئے خاتون کو اٹھا کر پولیس وین میں بٹھالیتے ہیں۔

کلپ میں آپ رکن پارلیمنٹ کے غصے کو صاف طور پرمحسوس کر سکتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کوئی سیاسی شعبدے بازی نہیں کررہے ہیں بکلہ ایک عمررسیدہ شہری کے احتجاج کرنے کے بنیادی حق کی پامالی پر واقعی مضطرب ہیں۔

دوسری کلپ میں وہ پارلیمنٹ میں جاکر اس مسئلے کواٹھا رہے ہیں اور سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’میں نے ابھی ابھی ایک عمررسیدہ خاتون کو گرفتارہوتے ہوئے دیکھا ہے جو چند دوسرے لوگوں کے ساتھ پر امن طریقے سے احتجاج کررہی تھی، اسے ہاؤس آف کامز کے احاطے کے باہر گرفتارکیا گیا اور ڈنڈا ڈولی کر کے پولیس وین میں بیٹھایا گیا۔ یہ ایک ذلیل حرکت ہے۔ یہ غیربرطانوی رویہ ہے۔ یہ غیر آئینی حرکت ہے۔ اور اس حکومت کو، ہمارے وزیر اعظم کو اس نا انصافی کو ابھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈم اسپیکر، کیا آپ آج ہی وزیر اعظم کو یا ہوم سیکریٹری کو اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے یہاں بلائیں گی؟ وہ ایک عمررسیدہ خاتون تھی جس کی عزت نفس پراس بات کے لئے ڈاکہ ڈالا گیا ہے کہ اس نے اپنا اور میرے حلقہ انتخاب کے لوگوں کے بنیادی حقوق کے سلب کئے جانے کے خلاف احتجاج کرنے کی جرات کی تھی۔‘

غور طلب بات یہ ہے کہ رکن پارلیمنٹ نے پولیس اہلکاروں سے احتجاج تو کیا مگر ان کے جائز یا ناجائز کام میں مداخلت نہیں کی اور نہ پولیس والوں نے بدتمیزی کی۔ دونوں کو اپنی اپنی حدود کا علم اور احساس تھا۔ رکن پارلیمنٹ کو معلوم تھا کہ اگروہ پولیس کے کام میں مداخلت کرتے تو پولیس کو انہیں فوری طور پر گرفتار کرنے اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اختیار تھا۔ اور پولیس والوں کو بھی پتہ تھا کہ انہوں نے بدتمیزی کی تو نوکری سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے اورسزاالگ بھگتیں گے۔

سوچئے! کیا یہ کام ہندوستان یا پاکستان میں ممکن تھا؟ اول تو یہ کہ ایم پی صاحب تو بڑی شئے ہوتے ہیں، وہ بھی حکمراں جماعت کے۔ وہ اکیلے کہاں چل رہے ہوتے۔ اور اتنی بڑی شخصیت کو کیا پڑی تھی کہ وہ ایک بوڑھی خاتون کے حق میں اس طرح اپنا خون جلاتے جبکہ اس سے کوئی سیاسی فائدہ بھی نہ ہونے والا ہو۔  اور اگرکوئی نیک بندہ ایسا قدم اٹھا بھی لیتا تو حکمراں جماعت اپنے ایسے ایم پی کی اس جسارت پر کیا کرتی؟ سوچئے۔ بس اتنا سا فرق ہے زندہ اور مردہ قوموں میں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.