محمد غزالی خان
کل سے بار بار مسلمانانِ گجرات کے قاتل کو سعودی عرب میں اعلیٰ ترین انعام دیے جانے اور بعد میں سعودی عرب و دیگر مسلم ممالک کے اس مجرم کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات پر ہندوستانی مسلمانوں کی تنقید یاد آرہی ہے۔
عقل حیران ہے کہ اگر کسی مسلم ملک کا اُس وقت ایک ظالم اور فسطائی حکمران سے تعلقات بحال کرنا غلط تھا، تو آج ’امارتِ اسلامیہ‘کا اُسی جماعت کی حکومت سے بڑھتا ہوا تعلق کیسے درست ٹھہرا؟
حالیہ بین الاقوامی سیاست نے بہرحال ایک چیز تو ثابت کردی کہ حکومتوں کے اپنے مفادات کا معاملہ ہوتا ہے تو اخلاقی یا دینی تمام تقاضے بالائے طاق رکھ کر حکومتیں صرف اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسیاں طئے کرتی ہیں۔ اور پھر بیچارے افغانیوں کو تو یہاں تک پہنچانے میں ’مملکت خداداد‘ کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے، جس نے ایک ایسے ناہنجار دوست کا کردار ادا کیا ہے جو احسان کرکے جتاتا بھی ہے اور اس بنیاد پر دوست کے روزمرہ کے گھریلو معاملات میں دخل دینا بھی اپنا حق سمجھتا ہے۔ اس ناعاقبت دوست نے اپنی حرکتوں کے باعث اب اپنی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر موساد کے ایجنٹوں کا داخلہ بہت آسان کردیا۔ اب آگےآگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
وزیرخارجہ ’ امارت اسلامی افغانستان‘ امیر خان متقی کے دورہ ہند کے دوسرے پہلو کا تعلق خود ہم ہندوستانی مسلمانوں کے دوہرے معیار سے ہے۔ جس طرح سوشل میڈیا پران کی پریس کانفرنس میں خاتون صحافیوں پر پابندی کے اقدام کو ’غیرتِ ایمانی‘ کا مظہر قرار دے کر اس کی تعریف کی گئی ہے وہ حیرتناک بھی ہے اور افسوس ناک بھی کیونکہ تعریف کرنے والے ان ’مومنین‘ میں سے صد فی صد نہیں تو ننوانوے فیصد وہ ہوں گے جو اپنی بیٹیوں کو جدید تعلیم دلوا رہے ہوں گے اور اگران کی بیٹیوں میں صلاحیت اور شوق ہوگا تو یہ انہیں پیشہ ورانہ کورسوں میں بھی داخلہ دلائیں گے۔
دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ تو متقی صاحب کے دورہ دیوبند کی خواہش پر جذبات سے ایسی مغلوب ہوئی کہ اس نے موجودہ حالات میں مہمان کے شاندار استقبال سے پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل پر بھی غور کرنا م مناسب نہ سمجھا ،الا یہ کہ ان کے دورہ ہند میں دارالعلوم کا اپنا کردار بھی ہو۔ ’مملکت خداداد‘ کی ایسٹبلشمنٹ کو شرمندہ کرنے کے لئے اگر مودی حکومت نے قبلہ محمود مدنی اور قبلہ ارشد مدنی صاحب کی خدمات حاصل کی ہوں، ماضی کے واقعات کی روشنی میں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔
مگر حالات کب اور کیسے کروٹ لیجائیں دارالعلوم کی انتظامیہ کو اس بات کا احساس رہنا چاہئے تھا۔ کل اگر حالات بدلے تو طالبان حکومت کی پالیسیاں آپ کے گلے پڑیں گی اور آپ اسلام میں خواتین کے حقوق کی دہائی دے کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے نظر آئیں گے۔ ایسا ماضی میں کئی مرتبہ ہو چکا ہے اور اس موقع پر بھی جس طرح میڈیا نے اس مسئلے کو پیش کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں دوست اور دشمن دونوں اپنے مذمتی بیانات میں ایک ہی صف میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ مہوا مووترا سے لے کر راہل گاندھی تک نے خواتین صحافیوں کو متقی صاحب کی پریس کانفرنس سے دور رکھنے کو متقی صاحب کے مطالبے پر محمول کیا ہے۔ دیر سے ہی سہی بہر حال دارالعلوم کے استاد اور جمعیۃ علماء ہند(ارشد گروپ) کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اس بات کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے کہ افغان وزیر خارجہ نے ایسا کوئی مطالبہ کیا تھا۔
بہر حال اگر متقی صاحب کے دورہ دیوبند کی خواہش آپ کو پوری کرنی ہی تھی تو کم از کم اتنے زبردست استقبال کی کوئی ضرورت نہیں تھی اوراگر آپ کو اپنی مہمان نوازی کا مظاہرہ کرنا ہی تھا تو کم از کم مہمان نوازی کے آداب کی حدود میں رہتے ہوئے معزز مہمان کو ان کی حکومت کی حماقتوں کی جانب بھی توجہ دلا دیتے۔ اس طرح آپ اپنا دینی اور اخلاقی فرض بھی پورا کر دیتے، اور کل کو خدا نخواستہ کسی وجہ سے کوئی مسئلہ کھڑا ہوا تو آپ کا یہی قدم آپ کا سب سے بڑا دفاع ہوتا۔ مہمان نوازی اپنی جگہ، مگر اگر ہمارے مہمان ظالم یا جاہل ہوں تو ان کی حماقتوں پر خاموشی جرأت نہیں، کمزوری ہے۔ اس طرح کے معاملوں میں خوشامد نہیں، نصیحت ہی سچے ایمان کی علامت کہلاتی ہے۔
معاشی یا دوسری پریشانیاں تو چھوڑیے، کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ طبی مسائل کی شکار افغان خواتین کو اس وقت کیسی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا؟ ذرا سوچئے تو سہی، کہ پیچیدہ زچگی میں ان مولویوں سمیت افغان عوام کے پاس اس کے علاوہ کیا راستہ رہ جاتا ہوگا کہ یا تو وہ زچہ کو تڑپ تڑپ کر مرنے دیں یا پھر مرد ڈاکٹر سے علاج کروائیں۔ پردہ تو ایک طرف، غیر مرد کے سامنے کپڑے تک اتارتے ہوئے اسلام کے ان نام نہاد علمبرداروں کی غیرت کا کیا حال ہوتا ہوگا؟ ان کی حماقتوں کا دفاع کرنے والوں میں کوئی بتائے تو سہی، جب لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی ہے تو خواتین ڈاکٹر تو چھوڑیے، خاتون اساتذہ اور نرسیں کیا آسمان سے اتریں گی؟۔
کاش مہمان اور میزبان اس حقیقت کو یاد رکھتے کہ چالیس پچاس سال کسی قوم کی زندگی میں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اس بات پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ ان حرکتوں سے افغانستان میں اندر ہی اندر جس طرح اسلام بیزاری اور فیمنزم (آزادیِ نسواں) کی چنگاریاں سلگنی شروع ہو چکی ہوں گی، وہ جس شدت کے ساتھ شعلے بنیں گی، اس کا اندازہ کسی بھی ذی شعور شخص کے لیے مشکل نہیں ہے۔ اس کا ایک نظارہ ہم ایران میں کر چکے ہیں، جہاں ابھی زیادہ دن نہیں گذرے جب خواتین سڑکوں پر نکل کھڑی ہوئی تھیں۔ اپنی انا کی تسکین کے لیے عوامی رد عمل کو اسلام یورپی ایجنسیوں یا این جی او تنظیموں کی کارستانی ہے کہہ دینے سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ لیکن بقول غالب دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے کہ علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم نے توازن نہ رکھا تو تو نہ صرف اسلام کا حسن ماند پڑے گا بلکہ ہم خود اپنے اعمال کے بوجھ تلے دب جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ بصیرت عطا فرمائے۔
یہ لوگ یورپ کی جس مذہب بیزاری اور آزادیِ نسواں کے نام پر پھیلی ہوئی بے حیائی کا بار بار ذکر کرتے ہیں، انہیں شاید اس کی تاریخ اور اس کے اسباب کا علم نہیں۔ ظلم خواہ فرد پر ہو، جماعت پر ہو یا جنس پر ، اس کا نتیجہ ایک نہ ایک دن نہایت ہولناکی کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ یورپ میں مذہب بیزاری کی جو تحریک اٹھی تھی، وہ صدیوں کے ظلم، جبر اور عورتوں کے استحصال کا ردِعمل تھی۔ اسلام نے تو ایسا کوئی جبر روا نہیں رکھا۔اسلام عورت کو پردے، عصمت اور احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی کے تمام میدانوں میں شرکت کا حق دیتا ہے۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ ان علمائے دین کو ہم جیسوں کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے خود خواتین کو مساوی حقوق دیے ہیں۔ امہات المسلمین سمیت کتنی ہی جلیل القدر صحابیات نے مختلف میدانوں میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ام الومنین حضرت خدیجہؓ ایک کامیاب کاروباری خاتون تھیں، ام المومنین حضرت عائشہؓ فقہ، حدیث اور سیاست میں ممتاز مقام رکھتی تھیں، حضرت حفصہؒ کے لکھنے پڑھنے کا شوق دیکھ کر آپﷺ نے ان کے لئے حضرت شفاء بنت عبداللہؓ کو ان کی اتالیق مقرر کیا اور حضرت امیر المومنین حضرت عمر ؒنے انہیں شفاء بنت عبداللہؓ کو بازار کی نگران مقرر کیا۔ اسی طرح نسیبہ بنت کعبؓ، جنگ اُحد میں مسلح ہو کر اسلام کا دفاع کیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت فوجی اور دفاعی امور میں بھی حصہ لے سکتی ہے۔ رُفیدہ الاسلمیہؓ، اسلامی تاریخ کی پہلی نرس، جو زخمیوں کا علاج کرتی تھیں۔یہ وہی ’اسلامی معاشرہ‘ تھا جو عورت کی صلاحیتوں کو دبانے نہیں بلکہ اُبھارنے کا قائل تھا۔
یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ اسلام نے عورت کو نہ صرف مساوی بلکہ عزت و احترام کے قابل حیثیت عطا کی۔ قرآن مجید نے عورت کو وارث قرار دیا، جب کہ جاہلیت کے دور میں اسے وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا۔ سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا: ’لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ‘(النساء: 32)یعنی مردوں کے لیے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کے اعمال کا حصہ۔یہ بھی قابلِ غور ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:”عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، تمہارے پاس وہ اللہ کی امانت ہیں۔”(مسند احمد)۔ اس کے برعکس مغربی دنیا میں عورتوں کوووٹ دینے کا حق کینیڈا نے 1917، جرمنی نے 1918، برطانیہ نے 1928 نے اور امریکہ نے 1920 میں دیا تھا۔
بہر حال مودی حکومت نے عورت مخالف اپنی ذہنیت کا ٹھیکرا نہایت کامیابی کے ساتھ افغان حکومت کے سر رکھ دیا اور اگر دیوبند میں متقی صاحب کو دیا گیا استقبال حکومت کی ایما پر دیا گیا ہے تو اس نے اس پوری مشق کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اپنی اس شبیہ کو بھی دھونے کی کوشش کی ہے جواس کی فسطائی اور مسلم مخالف سرگرمیوں، بالخصوص اترپردیش میں محض ’آئی لو محمدﷺ‘ کے بینر اور پوسٹر لگانے کی پاداش میں دی گئی بھیانک سزاؤں اورایک معروف عالم دین مولانا توقیر رضا کو دی گئی یوگی کی دھمکیوں کے بعد بنی ہے۔ اس موقع پردیوبندی مسلک سے جڑی ایک حکومت کے وزیر خارجہ کو شاندار استقبال کی آزادی اور سہولت دے کر یہ عیارحکومت مسلکی منافرت کو مزیدگہراکرنے کے لئے کس طرح استعمال کرے گی فی الحال اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ،البتہ جیلوں میں نا کردہ گناہوں کی سزا کاٹنے والے بریلوی مسلک کے مسلمانوں کے دلوں میں اس سے کدروت میں اضافہ تو لازماًہوا ہوگا۔