شاعر ، اردو اکادمی اترپردیش کے سابق چیئرمین اور ماہر تعلیم نواز دیوبندی کے ساتھ بات چیت

محمد غزالی خان

یوں تو نواز دیوبندی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ مگر رفاہی ا  ورملی تعلیم کے لئے ان کی خدمات کے بارے میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ ایک سال قبل اپنے آبائی وطن دیوبند میں ان کے ساتھ ایک تفصیلی بات چیت ہوئی تھی۔ کچھ سستی  اور کچھ اپنی مصروفیت کی وجہ سے اب ایک سال بعد اسے  من و عن نقل کر رہا ہوں۔ مگراس سے پہلے نواز بھائی پر ڈاکٹرالف ناظم کی مرتب کردہ کتاب  ’ذرہ نوازی‘  میں شامل  میرا ایک مضمون بھی پیش خدمت ہے جس سے قارئین کو نواز بھائی کے بارے میں کچھ مزید معلومات ملیں گی:

محمد نواز خان، جو نواز دیوبندی کے نام سے معروف ہیں اور جنہیں میں نواز بھائی کہہ کر مخاطب کرتا ہوں، یوں تو رشتے میں میرے چچا ہوتے ہیں، مگر بچپن کے دوست ہیں۔ ہم دونوں نے ایک ہی پرائمری  اور اس کے بعد ایک ہی   ہائی اسکول میں  تعلیم حاصل کی ، اورایک ہی  محلّے میں پلے بڑھے۔ یہ سطور لکھتے وقت دیوبند کے محلّہ پٹھان پورہ میں پرائمری نمبر۸ کی کچھ یادیں اس طرح تازہ ہوگئیں جیسے وہ کل کی بات ہو۔

جب میرا داخلہ پہلی جماعت میں کروایا گیا تو نواز بھائی شاید تیسری یا چوتھی جماعت میں تھے۔ اسکول کے بعد ہم محلہ قلعہ تک سرکاری ہسپتال، جو اب نگر پالیکا کا دفتر ہے، کے بیچ سے ہوتے ہوئے ساتھ ساتھ آتے اور جاتے  تھے۔

ہمارے ایک استاد اقبال انصاری صاحب ہوا کرتے  تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، تدریس کی ان میں خداداد صلاحیت تھی اور وہ اس کام کو انتہائی لگن اور شوق سے انجام دیتے تھے۔ میونسپل بورڈ کے اس چھوٹے سے اسکول میں ننھے منے شاگردوں کی دلچسپی کے لئے نئے نئے طریقے استعمال کرتے تھے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ کئی مرتبہ   بڑی جماعت کے بچوں کو چھوٹی جماعت والوں کا  استاد بنا کراپنے سامنے ان سے سبق دلوایا کرتے تھے۔ اس طرح سینئر ہونے کی وجہ سے نواز بھائی نے پرائمری اسکول میں مجھے اردو بھی پڑھائی۔

اقبال صاحب شام میں اپنے محلے میں ایک مطب بھی چلایا کرتے تھے۔ جب ہم نے اپنی درسی کتاب میں علامہ اقبال کے مشہور  ’ترانہ ہندی‘   پر’ڈاکٹر محمد اقبال‘لکھا دیکھا تو ایک عرصے تک یہی سمجھتے رہے کہ یہ ترانہ ہمارے استاد محترم نے تخلیق کیا تھا۔ مرحوم بہت ہی نستعلیق قسم کی شخصیت کے حامل تھے۔ اسکول میں ہمیشہ اسمارٹ ڈریس میں آتے ۔  عام طور پر  سرکاری اسکولوں میں اساتذہ ان چیزوں کا خیال نہیں رکھتے   (یا اس وقت نہیں رکھتے تھے) مگر اس کے برعکس مجھے یاد نہیں کہ  اقبال صاحب اسکول میں    ہوائی چپل پہن کر  اور اس حلیے میں آئے ہوں کہ ان کے کپڑوں پر عمدہ طرح سے استری نہ ہوئی ہو۔

پانچویں جماعت کے بعد جب اسلامیہ ہائی اسکول میں چھٹی جماعت میں داخلہ لیا تو نواز بھائی پھر میرے سینئر تھے۔ مگر یہاں سینیارٹی کا وہ فرق ختم ہوگیا تھا اور ہمارا تعلق گہری دوستی میں  بدل گیا تھا۔ شاعرانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ غالباً انہوں نے ساتویں یا آٹھویں جماعت سے ہی کرنا شروع کردیا تھا۔ اس کی ترغیب شاید انہیں اپنے بڑے بھائی عمر دراز خان (مرحوم) سے ملی تھی جو ایک کہنہ مشق شاعر تھے مگر معلوم نہیں کیوں مشاعروں سے اکثردورہے۔

اپنے عمدہ اخلاق، نرم گفتاری اور مرنجان مرنج  شخصیت کی وجہ سے نواز بھائی ہردلعزیزطالب علم اور اساتذہ کے پسندیدہ شاگردوں میں سے ایک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تخلیقی ذہن کے ساتھ خوبصورت آواز سے بھی نوازا ہے۔ لہٰذا اس بات کا تصورہی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ 15 اگست یا 26 جنوری اور اسکول کی دیگر تقریبات میں وہ کوئی نظم اپنی خوبصورت آواز میں سناکر تقریب کوچارچاند نہ لگادیں۔ البتہ آج کے  شاعرانہ اندازکے بجائے وہ یہ کلام دیگر طالب علموں کو ساتھ لے کر قوالی کے ایسے مسحورکن انداز میں پیش کرتے کہ سننے والوں کو محسوس ہوتا کہ کسی قوال سے باقاعدہ تربیت لے رکھی ہے۔

ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد ،میں نے علی گڑھ میں پی یوسی میں داخلہ لے لیا۔  جبکہ نوازبھائی نے مجھ سے پہلے ہائی اسکول پاس کرکے ایچ اے وی انٹرکالج اور بعد میں میرٹھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ مگر1974 میں میرے علی گڑھ آنےتک ان کے ساتھ شام کی ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔ علی گڑھ سے چھٹیوں میں گھر جاتا تو پھر نواز بھائی کے ساتھ خوب  بیٹھک جمتی۔

اخبارات اور رسائل پڑھنے کا شغف مجھے زمانہ طالب علمی سے ہی رہا ہے۔ علی گڑھ میں مولانا آزاد لائبریری، شمشاد مارکیٹ میں ایس آئی ایم کی لائبریری، اور وی ایم ہال کے کامن روم میں آنے والے مختلف اخبارات اور رسائل میں نواز بھائی کے مضامین پڑھتا اور چھٹیوں میں ملاقات پر انہیں ان مضامین پر مبارکباد دینا معمول سا بن گیا تھا۔ مگر پھر محسوس ہوا جیسے اچانک نواز بھائی  نے لکھنا بند کردیا ہو۔

سن 1983 میں، میں لندن آگیا۔ وہ انٹرنیٹ اور موبائل فون کا دور نہیں تھا کہ رابطہ رکھنا آسان ہوتا۔  لندن میں ایک بہت ہی عزیز دوست رضوان احمد فلاحی اپنے والدین سے ملنے اعظم گڑھ گئے ہوئے تھے۔ واپسی پر انہوں نے دریافت کہ کیا میں نواز دیوبندی کو جانتا ہوں۔  میں نے کہا بہت اچھی طرح۔  میں نے ان سے دریافت کیا کہ ’آپ انہیں کیسے جانتے ہیں؟‘ انہوں نے بتایا کہ ان کے قصبے میں آل انڈیا مشاعرہ منعقد ہوا تھا جہاں نواز دیوبندی نے مشاعرہ لوٹ لیا۔ نواز بھائی کی نثرنگاری سے بے وفائی اور اسے طلاق دینے کا اصل عقدہ مجھ پر اب کھلا تھا۔ پھر جب خود دیوبند گیا تو پتہ چلا کہ نواز بھائی کا شمار ماشاءاللہ برصغیر کے بڑے شعرا میں ہونے لگا ہے۔

ویسے جب بھی کسی پٹھان شاعر کو سنتا یا پڑھتا ہوں معلوم نہیں کیوں کنور مہیندر سنگھ بیدی سحرکے اعزاز میں،  غالباً دبئی میں منعقد ایک تقریب میں دلیپ کمارصاحب کے مزاحیہ فقرے اور کنور صاحب کی جوش ملیح آبادی کے ساتھ نوک جھونک ذہن میں آجاتی ہے جسے انہوں نے اپنی سوانح عمری ’یادوں کا جشن‘ میں نقل کیا ہے۔دونوں واقعات کا یہاں نقل کرنا قارئین کی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔

’یادوں کا جشن‘  میں کنورصاحب کے بیان کے مطابق بمبئی کے ایک مشاعرے میں جوش صاحب اپنی کوئی نظم سنارہے تھے جس پر زبردست داد مل رہی تھی۔ اس ماحول میں بیدی صاحب مائک پر آئے اور داد دیتے ہوئے فرمایا: ’حضرات ملاحظہ ہو، ایک پٹھان اتنی اچھی نظم سنا رہا ہے۔‘ اس پر جوش صاحب نے برجستہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’حضرات ملاحظہ ہو ایک سکھ اتنی اچھی طرح داد دے رہا ہے۔‘

ایک یاد گاری تصویر: دائیں سے بائیں: سابق رکن پارلیمنٹ اور وزیر محسنہ قدوائی، مجاہد آزادی اور معروف شاعر علامہ انور صابری، مینیجر مسلم فنڈ دیوبند اور سابق چیرمین نگر پالیکا دیوبند حسیب صدیقی (مرحوم) اور نواز دیوبندی

دوسرے واقعے میں دلیپ کمار صاحب اردو کی چاشنی اور بیدی صاحب کی شخصیت پر عمدہ اور دلچسپ تقریر کرتے ہوئے مدراس میں اردو اور ہندی کے خلاف احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’ صحیح کیا تھا اور غلط کیا تھا وہ تو اہل زبان ہی سمجھ سکتے ہیں۔ پٹھان لوگوں میں ایسے امتیاز کی عقل کم ہوتی ہے۔ اور پٹھانوں کی عقل کی طرف جب میں اشارہ کرتا ہوں تو یقین کیجئے سکھ بھائیوں کی طرف میرا کوئی اشارہ نہیں ہوتا۔‘

اس مضمون کے ذریعے میرا مقصد ان کی شخصیت کے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالنا تھا جن سے بہت سے احباب نا آشنا ہوں گے۔اب آپ  نواز بھائی  کے ساتھ میری اس گفتگو کو پڑھیں، آپ یقیناً اس دلچسپ  انٹرویو سے نہ صرف محظوظ ہوں گے ، بلکہ یہ بھی جان سکیں گے کہ ایک کامیاب انسان بننے کے لئے، کتنی قربانیاں ، کتنی ریاضتیں اور کس قدر مشکلات  برداشت  کرنی پڑتی ہیں۔

نواز دیوبندی کے ساتھ بات چیت

غزالی: میرے لئے ہی نہیں، عزیزداری، بچپن کی دوستی اور پرائمری اسکول سے لے کر ہائی اسکول تک ہم جماعت تو نہیں ہم درسگاہ ہوتے ہوئے کسی کا انٹرویو  لینا  یا انٹرویو دینا دونوں مشکل کام ہیں۔ پھربھی اپنے قارئین اورآپ کے پرستاروں کی دلچسپی کے لئے آج اس کام کو کرنا پڑرہا ہے۔اور ابھی بہت سے وہ سوالات کرنے پڑیں گے جن کے جوابات سے ذاتی طور پر تو   میں واقف ہوں مگر پھر بھی  پوچھنے پڑیں گے، تاکہ دوسرے لوگ بھی جان سکیں۔سب سے پہلے تو اپنے بچپن کے  بارے میں بتائیے اوریہ بھی بتا ئیے ے  کہ شاعری کا شوق کیسے پیدا ہوا ؟

نواز دیوبندی:   کچھ چیزیں اللہ کی طرف سےایسا  ودیعت ہوتی ہیں، جس میں انسان کا اپنا کوئی دخل نہیں ہوتا۔  مثلاً  میرا  دراز قد ہونا، میرے  دائرہ اختیار سے باہر ہے ۔ مطلب تین فٹ کا آدمی کتنا بھی چاہے کہ وہ چھ فٹ کا ہو جاۓ اسکے لئے یہ  ممکن نہیں ۔ یہ بھی  اللہ تعالیٰ کا انعام ہے کہ میری شناخت   میرا دراز قد کر دیا۔ اچھا پھر یہ بھی بڑی بات ہے کہ اللہ تعالی نے    پٹھان گھرانے میں پیدا کیا، تو قد و قامت  اور جسامت  وہ بھی الحمد للہ  ، اللہ تعالیٰ نے ٹھیک ٹھاک بنائی ۔پھر ایک اور خوش نصیبی دیکھیے  کہ دیوبند سے وابستہ کیا اور پھر ایسے  محلے سے وابستہ کیا کہ جو قلعہ کہلاتا ہے  یعنی کہ  قصبے کا بلند ترین محلہ ہے۔ تو یہ بھی میرے دائرہِ  اختیار سے باہر تھا ۔  ان سب باتوں میں سے کسی ایک پر بھی میرا کوئی اختیار نہ  تھا۔ یہ سب  قدرت کا ایک بہت بڑا عطیہ  ہیں جن کے  لئے  ہمیشہ اس کا  شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔

میں نے  ایک بار کہا بھی تھا کہ آدمی کے نام میں اس کا کوئی اختیار شامل نہیں ہوتا ۔ والدین  اوربزرگ جو بھی نام رکھ دیتے ہیں    وہی آپ کی شناخت بن جاتا ہے۔ اس پر بھی کسی کا اپنا  اختیار نہیں  ہوتا۔آدمی  اگر  والدین کا دیا ہوا  نام بدلے تو بدل لے لیکن  عام طور پر ایسا ہوتا نہیں۔  اتفاق یہ دیکھیےےمیری خوش نصیبی کہ میرا نام کتنا شاندار رہا محمد نواز۔ ورنہ بہت آسان تھا شاہنواز ،  دلنواز  یا راحت نواز کوئی نام بھی مجھے دیا جا سکتا تھا۔ لیکن محمد نواز میں جو بات ہے، وہ شاید  نہ شاہنواز میں ہےاور نہ کسی اور دوسرے نام میں ،  بلکہ جس زمانے میں میں اپنا تحقیقی مقالہ لکھ رہا تھا  ’دارالعلوم دیوبند کی اردو صحافتی خدمات۔‘ یہ دارالعلوم دیوبند کی اردو صحافتی خدمات پر میری تحقیق کا عنوان ہے۔۔۔ میں اس پر کام کر رہا تھا اس کام کے بعد مجھے شوق ہوا سوانح علمائے دیوبند لکھنے کا۔اور ماشاءاللہ میں نے اس پر کام شروع کیا۔  یہ  میری بدنصیبی   ہے کہ میں دیوبند کا رہنے والا ہوں لیکن دارالعلوم سے میں نے براہ راست  فیض حاصل نہیں کیا۔ ویسے تو ظاہر ہے کہ مجھے اس کے در و دیوار کے سائے سے گزرنے کا اعزاز حاصل ہے لیکن  میرا تعلیمی سلسلہ سارا جدید رہا اور ماڈرن ایجوکیشن رہی ۔  میرے والد صاحب اللہ  تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کا محدث دارالعلوم دیوبند میاں صاحب  اصغر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے خاص تعلق تھا۔اس کا اندازہ آپ اس معمولی واقعے سے لگائیے کہ   جب ہمارے گھر پر کوئی  بھی جانور، گائے یا بھینس وغیرہ  بچہ دیتی تھی تو سب سے پہلا  کِھیس  ( پہلا دودھ) میاں صاحب کے یہاں جاتا تھا۔

جس زمانے میں میرا نام محمد نواز رکھا گیا، اس زمانے میں اس نام کا رواج نہیں تھا ، جیسا میں دیکھتا ہوں اپنے عمر کے لوگوں کو۔  اب تو ماشاء اللہ میرے نام کی وجہ سے بھی میرے شہر میں بڑا سلسلہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے میرے نام پر  اپنے بچوں اور اداروں  کا نام رکھا۔ تو مجھے یہ تجسس تھا کہ میرا نام میرے ابا نے منفرد کیوں رکھا؟ بڑے بھائی کا نام محمد عثمان خان رکھا پھر دوسرے بھائی کا نام محمد عمر دراز خاں رکھا،میرے    دو اور بھائی تھے جنکا انتقال ہوگیا ، انکے  نام احسان خان اور ممتاز  خاں رکھے۔ خیر جب میں نے یہ تحقیقی کام شروع کیا  اور سوانح علمائے دیوبند ترتیب دینے لگا ، یہاں پر یہ بات واضح کرتے چلوں کہ  میری اس کتاب کی  دوجلدیں چھپ کر آچکی ہیں۔ اور ہر جلد ساڑھے سات سو صفحات کی ہے۔  یعنی تقریبا ً پندرہ سو صفات کی دو جلدیں ۔ تو میں میاں اصغر حسین  رحمت اللہ علیہ پر کچھ لکھ رہا تھا۔ تبھی میں نے دیکھا کہ میاں اصغر حسین کے ایک استاد تھے؛ سہارنپور کے، انکا نام تھا مولانا محمد نواز سہارنپوری۔  میرا یہ قیاس ہے کہ چونکہ میرے ابا کو میاں  اصغر حسین صاحب رحمتہ اللہ علیہ  سےایک ارادت  تھی  تو میری ولادت کے بعد انہوں نے پوچھا ہوگا   کہ حضرت  بیٹا ہوا ہے کیا نام رکھ دوں؟  اسلئے  انہوں نے اپنے استاد محترم کے نام پر میرا نام محمد نواز رکھ دیا ہوگا۔

  یہ بھی خوش نصیبی ہی   ہے کہ بے اختیا رچیزیں  آپ کی خوش بختی میں تبدیل ہوجائیں۔ اس تعلق سے یاد آیا کہ   میں نے 1986 میں پینٹ شرٹ پہننا چھوڑ دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ  ایک دن مجھے خیال آیا کہ جب پینٹ کوٹ میں ہوتا ہوں تو نماز کی تحریک نہیں ہوتی۔   مجھے یہ لباس  ایسا لگتا تھا  جیسے مجھے  نماز سے روکتا ہو۔  خیال آتا تھا کہ پینٹ کی  کریز خراب ہو جائے گی ،کوٹ کی کریز خراب ہو جائے گی وغیرہ وغیرہ۔  ایک سفر کے دوران کرتا پائجامہ پہنے ہوئے تھا ۔ اس وقت نماز کی تحریک پیدا ہوئی، میں نے نماز ادا کی اور  بس وہیں طے کر لیا کہ آج کے بعد  انشاء ا اللہ صرف کرتا پائجامہ ہی پہنوں گا۔ایک تو یہ لباس ہے ہی انتہائی آرام دہ ،  دوسری بات یہ ہے کہ آدمی نماز کے ارادے سے جیب میں ٹوپی رکھ لے، تو ایک تقاضاجیب میں آ جاتا ہے۔

یہاں ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔  میں1998 میں  امریکہ میں ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے گیا۔ یہ ایک بڑا یادگارعالمی  مشاعرہ تھا  جس میں  پاکستان سے احمد ندیم قاسمی ،   پیر زادہ قاسم  اور جاذب قریشی صاحب  اور  ہندوستان سے  عرفان صدیقی صاحب  جیسے بڑے شعرا مدعو تھے ۔ یہ سب لوگ کہنے لگے کہ یار کیا تو  نے کرتا پائجامہ پہنا ہوا ہے۔ کم از کم  پینٹ شرٹ تو  پہنی جا سکتی ہے؟ میں نے کہا کہ پہنی تو جا سکتی ہے۔اتفاق سے  ہم ایئرپورٹ سے اترنے کے بعد باہر کی طرف جا رہے تھے،  اتنی دیر میں  چار یا پانچ امریکن میرے پاس آئے۔ انہوں نے بتایا کہ  وہ صحافی تھے ۔  انہوں نے پوچھا کہ  یہ جو لباس آپ نے پہنا ہوا ہے ،یہ کیا ہے اور کہاں کا ہے؟ اتفاق سے میں نے کرتا  پائجامہ کی افادیت  یا اسکی بہتری پر کبھی غور نہیں کیا تھا۔ بعض اوقات سوال   جواب اندر سے خود لاتا ہے۔  انہوں نے میرا فوٹو سیشن شروع کر دیا۔ پتہ نہیں قدرتی طور پر میرے ذہن میں ان کے سوالات کے جواب کیسے آنا شروع ہوگئے۔  میں نے ان سے یہ کہا کہ میں میڈیکل سائنس کا اسٹوڈنٹ تو کبھی نہیں رہا، لیکن میں یہ بات دعوے سے کہتا ہوں کہ یہ ایک آرام دہ لباس ہے اور  جسم پر سوٹ کرنے والا آرام دہ لباس  دوران ِ خون کے لئے بہتر ہے جبکہ بہت چست لباس کے  ساتھ ایسا نہیں ہے۔اس کے علاوہ  نماز کی بات تو مذہبی اعتبار سے ہے، لیکن دنیاوی اعتبار سے بھی یہ نہایت آرام دہ لباس ہے  کہ میں جس زانو سے بھی بیٹھنا  چاہوں بیٹھ سکتا ہوں۔پینٹ والا آدمی اتنی آسا  نی سے ایسا نہیں کر سکتا۔   اسی طرح نماز میں قوما،  تحیات کی طرح بیٹھنا چاہے تو اسے تنگی  ہوگی ۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ طبی نقطہ نظر سے جو مردانہ قوت ہے وہ تنگ لباس میں کم ہوتی ہے اور آسان لباس میں زیادہ ہوتی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ   آرام دہ  ہونے کے ساتھ ساتھ  یہ مہنگا نہیں ہے۔ پھر یہ ہے کہ سیلف سروس میں آ سکتا ہے یعنی  اگر میں اپنے کپڑے خود دھونا چاہوں تو باآسانی دھو سکتا ہوں پینٹ شرٹ یا  کوٹ کو تو ڈرائی کلین بھی کرانا پڑے گا۔ بہرحال بہت ساری باتیں جو اس وقت اتفاق سے میرے ذہن میں  آئیں، میں نے کہدیں۔

 اگلے دن مشاعرے سے فارغ ہو  کر جب ہم اخبار دیکھ رہے تھے تو میں   حیران  ہوا کہ ان لوگوں نے  میری بہت ساری تصویریں چھاپ رکھی ہیں۔ یہ بات ہماری خوشی اور تعجب  کا سبب تھی مگر معلوم نہیں دوستوں پر کیوں گراں گزررہی تھی جو اپنے طنز یہ جملوں سے باز نہیں آرہے تھے۔   بہرحال بہت ساری چیزی ایسی ہوتی ہے کہ جن کا زندگی میں قدرتی طور پر کچھ فیض ہو ۔

یہاں ایک اور بات یاد آگئی ، میں نے کم عمری میں ہی غزلیں لکھنا شروع کردی تھیں۔   مگرہوتا یہ تھا کہ کسی بھی اخبار کو  یہ غزلیں اشاعت کے لئے بھیجتے تھے  تو اس  زمانے میں ایک جوابی لفافہ بھیجنا ہوتا تھا۔  بہر حال یہ جوابی لفافہ ہمیشہ کام آجاتا تھا  جس میں  معذرت آجاتی تھی۔ بہت مایوسی ہوتی تھی۔

دیوبند میں ایک مشہور فوٹوگرافر قدیر صاحب   تھے جو علیم بھائی ]میرے والد:غزالی[    کے  بھی دوست تھے، بلکہ استاد بھی تھے ]قدیر صاحب نے اسلامیہ اسکول میں بحیثیت ڈرائنگ ماسٹر بھی خدمات انجام دی تھیں:  غزالی[۔ علیم بھائی نے ہی  مجھے بتایا تھا کہ کہ قدیر صاحب مرحوم ان کے استاد بھی رہے۔  ان کے بیٹے ، افسر بھائی سے ہماری دوستی   بچپن سے  ہے۔ افسر بھائی کی طرح  ہم بھی ان کو ڈیڈی کہتے تھے۔ میں نے کہا،’ کیا کریں  ڈیڈی ہم کوئی بھی غزل اخبار یا رسالے کو  بھیجتے ہیں تو وہ شکریے کے ساتھ واپس بھیج دی جاتی ہے۔‘  تو وہ کہنے لگے، ’نواز میاں! اخبار اور رسائل  میں  نئی عمر کے لکھنے والوں  کو کم ہی موقع  ملتا ہے۔   وہ نامور لوگوں کو  چھاپنا چاہتے ہیں ان کے پاس بھی فرصت نہیں ہے کہ وہ تخلیق کو دیکھیں کہ کیا معیار ہے؟  میں تمہیں ایک میدان بتاتاہوں اور وہ میدان بالکل خالی ہے ، تم اس میدان میں کام کرو۔ ‘کہا   ’جی بتائیے   ڈیڈی کیا کرنا چاہیے؟ ‘کہنے لگے کہ ’تم بچوں کے لیے  نظمیں لکھو!‘ لہٰذا  میں نے پہلی نظم لکھی ’چھتری‘ لکھ کر بھیجی:

سستے دام آتی  ہےچھتر ی

سب کے کام آتی ہے چھتری

 چھاتا بھی  یہ کہلاتی ہے

دھوپ میں سایہ بن  جاتی ہے

 صورت پےنہ جاؤ اس کی

سیرت کو اپناؤاس کی

اس زمانے میں شاید اردو دنیا کا سب سے بڑا بچوں کا میگزین’ کھلونا‘  ہوتا تھا۔  جب  اس کا جوابی لفافہ واپس آیا تو  بڑی مایوسی ہوئی۔خیر ہم نے کھول کر دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ آپ کی نظم منتخب کر لی گئی ہے۔اور یہ تیسرے شمارے میں شائع ہوگی۔ اور آپ کو عنقریب پچاس روپئے  جلد ہی موصول ہوں گے۔ یہاں سے حوصلہ افزائی شروع ہوئی اور میں نے اس میں لکھنا شروع کیا۔پھر  نورجہاں ثروت نے مجھے سنا، سننے کے بعد کہا کہ، ’بھئی  نواز! اردو  میں بچوں کی نظمیں لکھتا ہے تو ، تو بچوں کی نظمیں لکھا کر‘ اور انہوں نے مجھے بڑی خصوصیت کے ساتھ قومی آواز کے  ویکلی ایڈیشن  میں چھاپنا شروع کیا۔  وہاں سے شناخت ملی۔پھر تو ماشاء اللہ جیسی تیسی بھی  غزل بھیج دیتے   شائع ہوجاتی۔نورجہاں ثروت  نے میری اتنی ہمت افزائی کہ ’سفید پوش‘ کے عنوان سے مجھ پر   ایک مضمون  بھی  لکھ دیا۔ اس میں لکھا کہ ایک نوجوان کا صالح نوجوان ہونا، دیندار ہونا  یہ بڑی عجیب سی بات ہے لیکن مجھے ایسا لگتا ہے اس کے لباس  کی  جو سفید پوشی ہے   اس کے اندر تک پیوست ہے ۔

بہر حال بات امریکہ کے مشاعرے سے چل رہی تھی۔ وہ سارے لوگ   پہلے تو مجھے برا بھلا کہہ رہے تھے مگر اس کوریج کے بعد مجھ پر رشک کرنے لگے کیونکہ وہاں تو بڑے بڑے ناموں والے موجود تھے۔ ہماری حیثیت سب سے کم درجے کی تھی، چونکہ نہ تو ہم اتنے مشہور تھے ، نہ  اتنے بڑے تھےاور نہ اتنے صاحب علم تھے جتنے بڑے بڑے وہاں پہنچے تھے۔

یہ بڑا دلچسپ سفر تھا۔ ہم لاس ویگاس گئے۔  ہمارے میزبان   راشد بھائی ]میرے پھوپھا  جو حسن پور مرادآباد کے ساکن ہیں: غزالی[  کے بڑے بھائی   نیر خان تھے ۔ انہوں نے لاس ویگاس میں ہوٹل میں ٹھیرایا تھا۔ ہم نے منتظمین سے کہا کہ نیر بھائی کے یہاں ٹھہرا دو۔ انہوں نے کہا، ’نہیں سب ایک ساتھ رہیں گے۔‘خیر ہمیں بتایا گیا  کہ لاس ویگاس دنیا کا پہلا شہر ہے جہاں ہوٹل سب سے سستا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ  چونکہ ہر ہوٹل میں کیسینو ہوتا ہے اور آپ کو کییسنو سے ہو کر گزرنا پڑےگا ۔ یعنی بھلے ہی آپ کو پانچ ڈالر میں پورا سوئٹ مل رہا ہو مگر   آپ کیسینو سے ہو کر گزر ینگے تو چار پانچ ہزار ہار ڈالر ہار کر آئیں گے۔ تو آپ  مشاعرے سے  آئیں اور سیدھے  کمرے میں چلے جائیں۔ ایک دن احمد ندیم قاسمی صاحب کہنے لگے ،’یار! تیری نیکی نے بڑا پریشان کررکھا ہے ۔ تو  رُکتا ہی نہیں۔یہ  کیا طریقہ ہے ؟ ا یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ آدمی  سات سمندر پار  آئے اور  گناہ  بھی نہ کرے تو پھر  کہاں جاکر گناہ کرے گا؟‘ میں نے کہا،  ’معذرت چاہتا ہوں۔‘ تو کہنے لگے ،’بھائی، گناہ کا تو بھی تجربہ ہونا چاہیے تیرے  پاس۔‘  میں نے کہا، ’آپ میرے بڑے ہیں،  محترم ہیں  لیکن میری تربیت ایسی ہوئی  ہے کہ میں گناہ کا تجربہ کرنا نہیں چاہتا،  اس لیے معافی چاہتا ہوں۔‘

وہ کہنے لگے، ’ اچھا ایسا کر  لے، تیرے بارے میں سب کی اور میری بھی   یہ رائے  ہے کہ  تو نیک آدمی ہے۔ ایسا ہے کہ تو بٹن دبادے پیسے میں لگا ؤں گا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ جیک پا ٹ لگ جائے گا۔ یار  یہ بات  ٹھیک نہیں ہے آدمی کو اتنا دقیانوس بھی نہیں ہونا چاہیے۔  ‘

مجھے ایسا لگتا ہے کہ زندگی اس دقیانوسیت کا  ہی تقاضا کرتی ہے۔  دنیا کو   بہت زیادہ ننگا ہو کر دیکھنے والے لوگ شاید بہت  بڑی آنکھیں  کرلیتے ہیں اس لئے ایسا کرتے  ہیں۔ میں نے ان سے کہا۔ ’ ٹھیک ہے بہت سارے راستے ایسے ہیں۔ جہاں آدمی وسیع النظر ہوسکتا ہے۔لیکن وہ چیز جہاں دین  اور ’’وسیع النظری‘‘  متصادم   ہوں وہاں احتیاط اور پرہیز کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔‘ لہٰذا میں تو ہوٹل میں داخل ہوتے ہی اپنے کمرے میں چلا آتا تھا۔ ایک رات ایسا ہوا کہ کسی کے رونے کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو میرا روم پارٹنر رو رہا تھا ۔  نام لینا مناسب نہیں۔ میں نے کہا خیریت؟ تو اس نے بتایا  کہ  طبیعت خراب ہے ۔ میں نے فوراً ہی نیر بھائی کو فون کیا اور بتایا کہ روم پارٹنر کی طبیعت خراب ہے۔  میں نے کہا کہ  مجھے ڈر ہے کہ ان کو دل کا عارضہ  نہ ہو ان کی بہت طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ انہوں نے چھوٹتے ہی یہ کہا کہ ’نواز بھائی یہ پوچھ لو کہ کہیں پیسے تو نہیں ہار ے وہ ؟ ‘

میرے پوچھنے پر موصوف نے بتایا کہ ایک  ایک پیسہ ہار  گئے ہیں۔  میں نے نیر بھائی سے بتایا کہ ان کا شبہ درست تھا۔ موصوف کی طبیعت تمام رقم ہارنے کی ہی وجہ سے  ہی خراب ہوئی تھی۔ پھر وہاں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ لوگ ادھار مانگ رہے تھے، جبکہ پیسے کما رکھے تھے ۔  الحمدللہ اپنے والدین کی تربیت اور اِس سرزمین کے ماحول کے اثر نے محفوظ رکھا۔

غزالی: شاعری کا شوق آپ میں کیسے پیدا ہوا؟  یہ عمر دراز بھائی مرحوم]نواز بھائ کے بڑے بھائ جو ایک کہنہ مشق شاعر تھے مگر مشاعروں سے احتراز کرتے تھے[   کے اثر کا نتیجہ ہے  یا اپنا فطری ذوق ؟

نواز دیوبندی، راحت اندور (مرحوم) ، شرکائے مشاعرہ اور مداح

‌نواز دیوبندی :  نہیں۔ بنیادی بات کیا تھی کہ  جب  ہم پرائمری نمبر 8 میں  پڑھا کرتے تھے۔  اس زمانے میں رواج یہ تھا  کہ اسکول کی ابتدا صبح کی دعا سے ہوا کرتے تھی۔  اب تو اسمبلی کہا جانے لگا ہے۔ علا مہ اقبال کی مشہور نظم ’لب پہ آتی ہے دعا  ‘  اور ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘ کے بعد قومی گیت ’جن من گن‘ ہوتا تھا ۔    پرائمری اسکول میں دوسرے درجے سے ہی  ہمیں یہ ذمہ داری مل گئی  تھی کہ پانچویں کلاس تک  دعا ہم کرایا کرتے تھے۔ ہمارے اساتذہ  یہ محسوس کرتے تھے کی ہم اچھا پڑھتے ہیں۔ جب ہم  چھٹی کلاس میں اسلامیہ اسکول  میں آئے تو  دعا کی ذمہ داری پھر ہمیں مل گئی۔ پھر یہ ہوا کے ۲۶ جنوری ۱۵ اگست کو جو پروگرام ہوتے تھے جس میں ہمیں کوئی نظم یاد کرنے کو دے دیا کرتے  تھے ۔  مگر معلوم نہیں کیوں ہم  ’سارے جہاں سے اچھا‘ کے علاوہ کوئی بھی نظم یاد نہیں کرتے تھے اور  عمر دراز بھائی سے کہہ دیتے تھے کے بھئی ۱۵ اگست ہے کوئی نظم ہمیں دے دیں۔  وہ کوئی نظم دے دیا کرتے تھے جسے  ہم دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کورس کی شکل میں پیش کردیا کرتے تھے۔  ہمار  ترنم اچھا خاصہ تھا۔اس سے پھر  یہ ہوا کہ شاعری سے  تھوڑا سا شغف          پیدا ہو گیا ۔ جب ہم ساتویں کلاس میں تھے تو کچھ الٹا سیدھا   لکھنا شروع کر دیا اور میرے پاس میری کاپیوں کے جو آخری صفحات بچتے تھے میں اسکو اکٹھا کر کے ایک ڈائری بنا لیا کرتا تھا اور اس پر اپنی صلاحیت کے لحاظ سے کچھ لکھا کرتا تھا۔ حالانکہ وہ سب کاپیاں یا ڈائریاں  گم ہو  گئیں  جن میں بڑی قیمتی چیز یں تھیں ۔   اردو ہماری شروع ہی سے ٹھیک ٹھاک تھی۔ مولانا اعجاز صاحب ]مرحوم، جو میرے استاد بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے: غزالی[بڑی محنت سے پڑھایا کرتے تھے۔

اتفاق یہ ہوا کہ ہمارے ایک پڑوسی سردار  بلونت سنگھ ککڑ  ، جو  مسیح اللہ خاں والے   مکان  میں رہا کرتے تھے۔  جیسا  کہ آپ کو معلوم  ہی ہے  تقسیم کے بعد محلے قلعے سے پاکستان ہجرت کرنے والے پٹھانوں کے خالی گھر وں میں پنجابی اور سکھ آکر آباد ہو گئے تھے۔ مگر اس کے باوجود محلے میں ہمیشہ  بھائی چارہ اور میل ملاپ کی  فضا رہی۔ آپ کا اور ہمار بچپن سکھوں اور ہندوؤں کے ساتھ کھیلتے گزرا ہے۔ سردار جی قالو قلندر  کے مزار پر مشاعرہ  کیا کرتے تھے۔  ایک دن  ہمیں بھی پتہ چلا کے مشاعرہ ہے تو ہم بھی انکے پاس گئے اور  آداب  کہہ کر عرض کیا کہ ’ سردار جی،  آپ مشاعرہ کروا رہے ہیں ہمیں بھی پڑھوا دیجئے۔‘  انھوں کہا: ’  بچوں کا مشاعرہ نہیں ہے۔ بڑوں کا ہے۔‘ ہم نے ان سے بڑی گزارش کی مگر انہوں  نے نہیں مانا۔  ہمیں  بڑا برا لگا کہ  محلے دار ہونے کے باوجود  سردار جی ہمیں موقع نہیں دے رہے ہیں۔   ہم نے سارے بچوں کو اکٹھا کیا اور پہنچے جلوس کی شکل میں’ سردار جی  مردہ باد سردار جی مردہ باد ۔‘ ہماری نعرے بازی سن کر سردار جی نکل کر آئے  اور پوچھا کے بھئ کیا بات ہو گئی۔  بچوں نے کہا  ،’آپ ہمارے محلے میں رہتے ہیں ،  محلے دار ہیں  اور اور ہم سے مشاعرہ نہیں پڑھوا رہے ہو۔‘   ہماری اس حرکت سے سردار جی ناراض ہو گئےاور ڈانٹ کر کہنے لگے، ’چلو جاؤ یہاں سے کوئی مشاعرہ وشاعرہ نہیں ہے بچوں کا۔‘   سردار جی کے گھر کے سامنے جولی خاندان رہتا تھا ] ایک ہندو پنجانی خاندان جو سردار جی کی طرح تقسیم کے بعد یہاں آباد ہوگیا تھا[۔    ہمارے بارے میں محلے میں مشہور تھا کہ ہم ٹھیک ٹھاک بچے ہیں، شریف ہیں ۔ ہمارا شور سن کر جولی صاحب کی  بڑی بیٹی ، جنہیں معلوم نہیں کیوں’ گُدّڑ‘ کے نام سے  پکارا جاتا تھا۔ وہ  گھر سے نکل کر آئیں  اور پوچھا، ’بچوں کیا بات ہوگئی؟‘ ۔  ہمیں تمام بچے ’بھیا‘ کہا کرتے تھے ۔ انہوں نے  بتایا کہ سردار جی مشاعرہ کروا رہے ہیں  اور بھیا کو پڑھوا نہیں رہے ہیں۔ وہ  ہماری وکیل بن کے بلونت سنگھ ککڑ  جی کے پاس گئیں۔خیر وہ  ہماری سفارش کر کے آئیں اور  ہمیں اجازت مل گئی ۔ سردار جی نے کہا کہ بہت پہلے آکے بیٹھ جانا مشاعرے میں۔ اور آپ سے مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے پڑھوایا جاۓ گا۔ اندازہ یہ ہوتا ہےکہ زندگی کی کسی بھی سیڑھی  کو چڑھنے  کے لئے پہلی سیڑھی پر ہی پاؤں   رکھنا ہوتا ہے۔ اور میرے خیال سے زندگی کی ترقی کا راز بھی اسی میں   مضمر  ہے کہ آپ سیڑھی در سیڑھی چڑھیں۔بہت سے لوگ جو چھلانگ لگا کر منزل پر چڑھنا چاہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اکثر وہ گر ہی جاتے ہیں۔   بہر حال ہم جا کے  بہت پہلے بیٹھے تھے۔ مشاعرے سے پہلے پڑھوا دیا گیا۔  یہ پہلا مشاعرہ تھا۔ہمارے قصبے کی   ایک ادبی فضا  ہے ۔  یہاں مختلف   نشستیں ہوا کرتی تھیں جن میں سے ایک بزم  ’گلزار ادب ‘  طرحی ماہانہ نشست   ہوا کرتی  تھی ۔ اس کے جنرل سکریٹری میرے بڑے بھائی عمردراز  خان عمر تھے۔ ہم بھی سننے جایا کرتے تھے۔ سنتے سنتے ایک سامع کب شاعر بن گیا پتہ  ہی نہیں چلا۔  لیکن ٹوٹا پھوٹا  ہم کہنے لگے۔وہاں جو طرحی نشست ہوتی تھی اس سے  ایک طرح  ملتی جس پر ہم شعر کہہ لیتے  تھے ۔ ان کو بڑے بھائی کو  دکھا دیتے تھے وہ کچھ اصلاح کردیا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ ، وہ کسی کا شعر ہے نا کہ، ’ رفتہ رفتہ انہیں وحشت کا شعور آئے گا، آتے آتے ہی سمجھ آئے گی دیوانوں میں‘ ۔

پھر تھوڑا سا ذوق شوق  بڑھا،  کچھ مطالعے کا شوق پیدا ہوا  اور کچھ پڑھنے لکھنے کا سلسلہ بڑھا۔ پھر یہ بھی ہے کہ یہاں  ایک ادبی فضا تھی۔لوگوں کے اندر ذوق شوق تھا، شعر و سخن کا رواج تھا ۔ اس  زمانے میں شیوخ برادری میں ہمارا زیادہ اٹھنا بیٹھنا تھا جہاں قصبے کی دوسری برادریوں کی بہ نسبت  علم و ادب کا زیادہ ماحول تھا۔  ہم اردو بھی  ٹھیک ٹھاک پڑھنے اور   سمجھنے لگے تھے۔ پھر کچھ شعر وعر کہنے لگے تو لوگ پزیرائی بھی  کرنے لگے،اور کہنے لگے کہ تُواچھا پڑھتا ہے۔  ہمت افزائی کی ہر شخص کو ضرورت ہوتی ہے اور کسی بھی درجے کا فنکار ہو، اس کےلئے پذیرائی تو  آکسیجن ہے۔ جتنا بھی بڑا تخلیق کارہو،فنکارہو،ناولسٹ ہو،  کہانیکار ہو، غزل نگار ہو جب تک حوصلہ افزائی نہ ہو آدمی آگے نہیں بڑھتا۔ لوگ تھوڑی سی حوصلہ افزائی کرنے لگے وہ ماحول میسر  آیا اور جیسا  کہ میں خوش نصیبی کی بات بتا رہا تھا ،  اللہ تعالیٰ نے اچھی آواز کے تحفے سے بھی نواز دیا  ۔

ٖدائیں سے بائیں: ہندی کے معروف نقاد ڈاکٹر بدھی ناتھ مشرا ، نواز دیوبندی اور پروفیسر وسیم بریلوی

خاص بات یہ رہی کہ اس زمانے میں عام طور سے مشاعروں میں ایک لگا بندھا ترنم تھا ۔ جو بڑوں سے چلا آ رہا تھا جگر صاحب ، خمار  صاحب سے شمیم  جیپوری صاحب اورفنا کانپوری صاحب سے۔  مجھے  یہ شوق ہوا کہ یہ  کیابات ہو ئی، کہ ان ہی کے ترنم میں پڑھا جائے۔ لہٰذا میں نے اس میں کچھ ندرت پیدا کرنے کی کوشش کی اور ماشاءاللہ میں نے نئے نہج پر نئے انداز اور  نئےترنم  کے ساتھ پڑھنا شروع کیا۔ اس کی لوگوں نے بہت پذیرائی کی۔  اصل میں کوئی بھی نئی آواز ، کوئی بھی اچھا  ترنم آدمی  کو متاثر کرتا ہے  ۔تو مجھے اس کا بھی فائدہ ہوا۔  میں جب نئے ترنم  سے کسی غزل  کو پڑھتا تھا، اس وقت  جوان تھا آواز بھی جوان تھی۔ مجھے  اس کا بھی فائدہ ہوا تھا ۔ میری خوش نصیبی یہ ہے کہ میں نے الحمدللہ مشاعرے  کی چالیس  یا بیالیس سالہ  زندگی میں کبھی کسی شاعر کے ترنم کی نقالی نہیں کی۔البتہ  مجھے یہ اعزاز ضرور حاصل رہا کہ مشاعرے کی دنیا میں ایک  بہت بڑی تعداد نے میرے ترنم کی  پیروی کی ۔اور اس میں کو ئی حرج کی بات نہیں ہے۔ اچھی بات ہے۔ میرے لیے خوش نصیبی ہے کہ وہ راستہ جس کو میں انتخاب  کروں،لوگ اسی کو اپنا راستہ بنائیں۔ایک اور بات جس کا مجھے فائدہ  ملا وہ لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے کا قدرتی شوق تھا۔

ڈاکٹر بشیر بدر اور نواز دیوبندی اور مداح

غزالی: شاعری سے آپ نے ایک دوسری جانب قدم رکھا اور وہ ہے تعلیم یعنی  تربیتی اور تعلیمی اداروں کا قیام آپ کا شوق اور جنون معلوم ہونے لگا۔ اس چیز کا محرک کیا بنی؟

نواز دیوبندی : اصل میں میری پوری زندگی مشقت کی زندگی ہے۔ اس لحاظ سے مجھے ایک   ْسیلف میڈٗ شخصیت کہا جا سکتا ہے۔ بڑے تو  ہم ہیں نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے بہت نوازا ہے۔  مواقع ملنا، صلاحیت اور کچھ کرنے کا شوق اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی  نعمت  ہے۔ اللہ نے مجھے بہت نوازا ہے۔ مگر نوجوانوں کے لئے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بغیر مشقت اور جدوجہد کے آدمی بڑا بن ہی نہیں سکتا۔ 

پڑھنے پڑھانے کا شوق مجھے بچپن سے ہی تھا۔ جب میں پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا اس وقت اپنے پڑوس کے  ایک  بچے اور بچی کو ٹیوشن پڑھانا شروع کیا جو بہن بھائی تھے۔ وہ دونوں  پہلی کلاس میں تھے۔ میں پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا۔  اس کام کے لئے مجھے اٹھنی ، یعنی چار چار آنے، فیس ملتی تھی۔اس زمانے میں پچاس پیسے کو اٹھنّی کہا کرتے تھے،پچیس پیسے کو چونّی کہتے تھے۔ وہ اٹھنی اس وقت ہماری ضرورت بھی تھی اور ہمارا شوق بھی ۔ ہم نے انہیں   پڑھانا شروع کیا ۔لیکن ہمارا پڑھانا  لوگوں سے مختلف تھا ۔ میرے یہاں ہمیشہ سے تربیت کو اولیت رہی ہے   اور تعلیم ثانوی چیز ہے۔ لہٰذا  زیادہ توجہ ان بچوں کی تربیت پر دی۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر اچھی تربیت ہو جائے  اور کسی طالب علم میں پڑھنے کا شوق بھی ہو تو اس کی کامیابی کے امکانات کئی گنا زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔  میں ان دونوں پر  محنت  کرتا تھا  جس کی وجہ سے کچھ  مشہور ہو گیا  ۔ اسلئے لوگ مجھ سے اپنے بچوں کو  ٹیوشن پڑھوانے لگے۔ میری فیس بہت کم ہوتی تھی کیونکہ   میرا مقصد  صرف پیسہ کمانا نہیں تھا بلکہ اس علم کا فروغ اور لوگوں کو تعلیم یافتہ کرنا تھا۔ یہ جذبہ قدرتی طور سے میرے اندر بچپن سے تھا۔  میں خود بھی پڑھنا چاہتا تھا اور پڑھانا  بھی چاہتا تھا۔لہٰذا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا ۔ میں اپنے قصبے  میں ماسٹر صاحب کے نام سے مشہور ہو گیا اور خاص طور سے شیوخ کے علاقے میں، کہ بہت سارے لوگ    اپنے بچوں کو میرے علاوہ کسی  اورسے پڑھواتے ہی  نہیں  تھے۔  مواقع ملتے چلے گئے ۔

ہمارے استاد  طفیل صاحب  (اسلامیہ ہا ئی اسکول کے پرنسپل) ،اللہ انہیں صحت دے،  نےیہ شوق پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔پھر یوں ہوا کہ میرے ایک دوست  کی تقریب میں حسیب  صدیقی صاحب (منیجر مسلم فنڈ دیوبند، جو بعد میں نگر پالیکا کے چیئر مین بھی منتخب ہوئے)  سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ کچھ کام سیکھ لو مسلم فنڈ  میں نوکری لگوا دیں گے ۔ ہم اگلے دن پہنچ گئے اور ہم مسلم فنڈ  میں کام سیکھنے لگے۔

مسلم فنڈ میں اپنی محنت  اور لگن سے ہم  حسیب  صاحب کی  ضرورت بن گئے  اور انہیں یہ لگا کہ یہ  تو میرے کام کا  آدمی ہے۔یوں میرا تقرر  ہو گیا۔ اسی دوران  مجھے میرٹھ کالج میں اسسٹینٹ لیکچرار کا جاب مل گیا۔ میں نے حسیب صاحب سے کہا کہ مجھے آپ سے اجازت لینی پڑے گی۔   انہوں نے کہا کہ بھا ئی  یہ بات تو ٹھیک نہیں ہے۔ اورہمیں تم سے بڑی توقعات ہیں۔ میں نے کہا کہ   پرائیویٹ نوکری میں کیا مستقبل ہے۔ بہتر مواقعوں کی تلاش میری ضرورت ہے۔ پھر میں نے کہا کہ  میں ایک  کام کرسکتا ہوں۔ میرے  کچھ خواب ہیں جنہیں میں لکھتا رہتا ہوں  مگر  ان خوابوں کی تعبیر  پیسوں سےپوری ہوسکتی ہے اور  میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔اگر آپ  میرے خواب پورے کر دیں تو میں لیکچررشپ چھوڑ دوں گا۔ کہنے لگے کیا خواب ہیں؟

جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ زمانہ طالب علمی میں کاپیوں کے آخر میں بچے رہ جانے والے صفحات کو اکھٹا کر کے میں خود اس کی جلد بندی کیا کیا کرتا تھا اور ایک ڈائری بنالیا کرتا تھا جس میں  شاعری کے علاوہ یاد داشتیں بھی لکھا کرتا تھا۔  ان میں بہت سے خواب تھے مثلاً  یہ کہ ایک اسکول بناؤں گااس میں ایسے بچے پڑھا کریں گے۔ایسی انکی یونیفورم ہوا کرے گی۔ایسی ان کی تربیت کرا کروں گا ۔ٹیچروں کو ایسی ٹرینگ دلوایا کرونگا۔ فیس کم رکھونگا۔ایک یتیم خانہ بنا ؤں گا ،ایک مسجد بناؤں گا۔ مدرسہ بنا ٶں گا، ایک ہسپتال بنا ٶں گاوغیرہ۔ کہنے لگے کہ کہاں لکھتے ہو؟  میں گھر آیا اور پرانی ڈائریاں حسیب صاحب کو دکھائیں۔ حسیب صاحب  نے سوال کیا کہ کیا چاہتے ہو؟  میں نے کہا کہ  مسلم فنڈ  ضرورت مندوں کو قرض دیتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ  یہ  فلاحی ، رفاہی اور تعلیمی کام  بھی شروع کرے۔ انہوں نے کہا مجھے منظور ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ ایک شرط پر کہ جو پروجیکٹ بھی میں بناؤں گا وہ  آپ کو پورا کرنا ہوگا۔اور دوسری شرط یہ ہوگی کہ مالیات میرے پاس کبھی نہیں ہوگی۔ اس کا اختیار آپ کو ہوگا۔لیکن اگر میں یہ لکھ دوں گا کہ دو کرسیاں چاہئیں تو    آپ کو دو کرسیاں منگا کر دینی پڑیں گی۔ لہٰذا  جب تک میں نے  ان کے ساتھ کام کیا  اسی پر عمل پیرا رہا ۔ میں نے کبھی مالیات سے کو ئی رابطہ نہیں رکھا۔ انہوں نے کہا چل بھا  ئی ٹھیک ہے۔ہم نے  اپنی اسسٹنٹ لکچرار کی ملازمت ترک کر دی۔اور یہاں  معمولی سے پیسوں پر کام کرنے لگے۔

ہم نے سب سے پہلا پروجیکٹ مسلم فنڈ کی طرف سے  غیر سودی تعلیمی قرض دینے  کا بنایا،تاکہ  مالی مشکلات والے  مسلم اسٹوڈنٹس کو  قرض دے کر تعلیم جاری رکھنے میں مدد کی جا سکے۔  لہٰذا اس میں کام شروع ہوا۔ اس  اسکیم سے بہت سے  لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ بہت سے  لوگ  برسر روزگار ہوگئے کچھ وکیل بن گئے  مگربد نصیبی یہ رہی کہ   قرض کسی نے واپس نہیں کیا۔جب کہ اسکیم کا مقصد یہ تھا کہ آج قرض لے لیں ، برسر روزگار ہونے پر واپس کردیں تاکہ آپ کی طرح کے دوسرے لوگوں کی مدد کی جا سکے ۔ اس سے ہمارے ملی  مزاج کا  بھی پتہ چلتا ہے کہ ہمارا مزاج لینے  لینے کا ہے ،دینے کا نہیں۔ اور یہ حال ان  پڑھے لکھے لوگوں کا تھا جنہوں نے اسکیم سے فائدہ اٹھایا تھا مگر جب دوسروں کی مدد کرنے کی باری آئی تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ ہماری  احسان فراموشی اور اصول و ضوابط  کی  خلاف ورزی کا ثبوت بھی ہے۔ورنہ  بھائی ایک احسان ہوا تھا  تو اس کو لوٹانا آپ کا فرض تھا۔ کسی ایک آدھ شخص نے ایک دو قسطیں ادا کیں اور   پھر غائب ہوگئے۔ بہرحال یہ منصوبہ جاری نہ رہ سکا۔  پھر ہم نے دارالعلوم کے طلبہ کو انگریزی پڑھنا شروع کیا۔ اس زمانے میں دارالعلوم کے طلبا کے لئے انگریزی پڑھنا ممنوع تھا۔ اگر کسی کا پتہ چل جاتا تو اس کا اخراج ہوجاتا تھا۔

غزالی: یہ کس سن کی بات ہے؟

نواز دیوبندی: یہ بات ہوگی تقریبا 77 19یا 1978 کی ۔ تو بہت خاموشی  کے ساتھ  ہم نے   دارالعلوم کے طلبہ کو انگریزی پڑھانی شروع کردی۔  ویسے ہم  ٹیوشن پڑھاتے ہی تھے ۔ پھر حسیب  صاحب نے مجھےایک  اسکول  کی ذمہ داری دی کہ اس میں اصلاحات اور بہتری لائی جائے مگر کیونکہ ہم غیر متعلق شخص تھے تو  اسکول والوں نے برداشت نہیں کیا  اور میری ہر تجویز کی مخالفت شروع کردی۔ لہٰذا ہم نے معذرت کرلی اورعربی  ٹائپنگ سکھانے کا  ایک پروگرام شروع کیا۔  اس کےلئے دہلی سے دو پرانے  عربی ٹائپ رائٹرخرید کر  لائے۔

غزالی : انگریزی پڑھانے والے پروگرام کا کیا ہوا؟

نواز دیوبندی: وہ بھی  نہایت خاموشی کے ساتھ جاری رہا اور  بہت  سے طلبا نے اس سے فائدہ اٹھایا۔  میں پھر جب  عدیم الفرصت ہوگیا تو دوسرا نظام بنایا ۔  لیکن یہ انگریزی کلاسیں  کافی دنوں تک  چلتی رہیں ۔ خاموشی وقت کی ضرورت تھی۔  بہر حال اس کے ساتھ ساتھ مسلم فنڈ کے برآمدے میں یہ دو  عربی ٹائپ رائٹر لا کر رکھے۔ طلبا کو اس جانب راغب کرنے کی بہت کوشش کی مگر کوئی آتا نہیں تھا۔  لہٰذا  ہم نے یہ کیا کہ ساتھ میں پچاس روپئے وظیفہ دینے کا فیصلہ بھی کرلیا۔  اس کے بعد بھی صرف دو طالب علم آئے ۔

غزالی: کیا ٹائپنگ سکھانے کے لئے کوئی تھا وہاں پر؟

نواز دیوبندی: جی جی دفتر ہی کے  ایک صاحب کواس کام کی ذمہ داری سونپی تھی جو  انگریزی  ٹائپنگ جانتے تھے ۔چونکہ  اصول کی ضرورت تھی نا! کی بورڈ تو اس میں تھا ہی عربی کا۔ بس یہ ہے کہ اینٹر  کیسے مارنا ہے؟ کیسے اوپر جانا ہے کیسے نیچے کرنا ہے ۔  ان دونوں طالب علموں نے  عربی ٹائپنگ  سیکھ لی۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ دو سفارتخانوں میں عربی ٹائپسٹ کی جگہیں نکلیں  اور وہ  وہاں چلے گئے ۔ اس زمانے میں سفارتخانوں  کی تنخواہیں بہت معقول ہوتی تھیں۔  جیسے ہی  دوسرے لوگوں کو ان کی کامیابی کی اطلاع  ہوئی  تو لائن لگ گئی ۔ پھر بہت سارے عربی ٹائپ رائٹر خریدنے پڑے  اور  دارالعلوم کے چوراہے پر میں  نےمسلم فنڈ کمرشیل انسٹیٹیوٹ کے نام سے ایک ادارہ کھولا ۔ وہاں ہم  طلبا کو عربی ٹائپنگ  سکھاتے تھے ۔پھر ہم نے  اردو کے دو ٹائپ رائٹرخریدے اور ان پر اردو ٹائپنگ  سکھانا شروع کر دی ۔اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ پہلے دو ٹائپسٹ ہمارے دیوبند کے  تھے  ۔ ان دونوں کو  بحیثیت ٹائپسٹ پارلیمنٹ ہاؤس میں ملازمت مل گئی۔

اس کے بعد سے پھر ہم نے انگریزی اور ہندی کی ٹائپنگ کلاسیں  بھی شروع کرائیں تو یہ  ایک بڑا انسٹیٹیوٹ بن گیا ۔ پھر حالات نے کروٹ لی ، اور مجھے  کمپیوٹر کلاسیں شروع کرانے کا شوق ہوا۔ فی الحقیقت دیوبند میں  کمپیوٹر لانے والا میں پہلا آدمی ہوں ۔ اور یہ بات تو یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس سے پہلے دیوبند میں اردو کمپیوٹر تو تھا ہی نہیں۔  میں نے یہ سب ٹائپنگ مشینیں بند کردیں  اور کمپیوٹر کلاسیں شروع کردیں۔  اس سے  مسلم فنڈ  کے بھی   بہت سے لوگ فیض یاب ہوئے،  بہت سے لوگ روزگار سے وابستہ ہو گئے ۔ بہت سے لوگوں کی جو بیک گراؤنڈ تھی اس کے پس منظرمیں یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ان کی نسلیں سدھرگئیں -پھر مجھے مزید شوق ہوا  اور  میں نے حسیب صاحب سے کہا کہ یہاں ایک ہسپتال  بنا دیجئے ۔ حسیب صاحب جنرل ہوسپیٹل   کے لئے تیار تھے مگر میں  آنکھوں  کا ہسپتال  چاہتا تھا۔ کیونکہ جنرل ہسپتال تو  یہاں بہت سے ہیں مگر آنکھوں کا اسپتال نہیں ہے۔  تب میں نے بڑی بھاگ دوڑ کی اور میں علی گڑھ جاتا تھا،  سیتاپور جاتا تھا ۔وہاں کے ڈاکٹروں سے ملتا تھا ۔علیگڑھ آئی ہاسپٹل میں معروف سرجن ڈاکٹر رضیہ تھیں۔ ۔ مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے ان کا نام رضیہ ہی ہے۔  انہوں نے بڑی مدد کی، پھر 1986 میں ہم نے آنکھوں کا اسپتال بنایا،  ماشاءاللہ یہ خوب چلا۔  اس کے بعد  میں نے 1990میں آئی ٹی آئی بنایا ۔کیونکہ مجھے ایسا لگتا تھا کہ کمیونٹی کو ہنر مندی کی ضرورت ہے۔  مسلمانوں میں ان اسکلز کی بنیاد تو پہلے ہی موجود ہے۔ مثلاً میرا ایک دوست ہے جس کا تعلق سیفی (لوہار ) گھرانے سے ہے۔ وہ اکثر کہتا ہے کہ میرے والد  ایم ایس سی کرنے کی ترغیب دینے کے بجائے اگر مجھے میکینکل انجینرنگ کی ترغیب دیتے تو میں ایک کامیاب انجینر ہوتا کیونکہ یہ  پیشہ تو ہمارے ڈی این اے میں ہے۔ چھوٹا کارخانہ ہی سہی مگر ہم نے آنکھ ہی انجینرنگ کے ماحول میں کھولی  اور اسی ماحول میں پلے بڑھے۔  مجھے اس کی یہ بات بہت پسند آئی ۔ واقعی  کوئی  معمار یا مستری اپنے بچے کوسول یا    مییکینکل  انجینئر بنادے ، نسل در نسل کاشتکاری کرتے ہوئے لوگ اگر بچوں کو ایگریکلچر میں ماسٹر کرائیں تو شاید دوسروں کی بہ نسبت وہ زیادہ کامیاب ہوں گے۔ایک کپڑا بننے والا ہے اگر اپنے بچے کو باقاعدہ متعلقہ کورس کرادے تو بہت کامیاب رہے گا۔ تو ہم نے  آئی ٹی آئی بنائی ۔حالانکہ میں  خود ایک نان ٹیکنیکل آدمی تھا ۔لیکن اندازہ یہ ہوتا ہے کہ  کسی کام کو کرنے کے لئے جنون  کا ہونا لازمی ہے۔ بس ایک جنون سوار تھا ۔بنایا پھر  اور بہترین و لاجواب بنایا  جو نمبر ون آئی ٹی آئی بن گیا ۔ آئی ٹی آئی کے بعد موٹر ڈرائیونگ سینٹر بنایا ۔ اس کے ذریعے بھی لوگوں کو بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع ملے۔ ماشاء اللہ  یہ  خوب چلتا ہے ۔ اس کے بعد اسکول بنایا جو مسلم فنڈ کی طرف سے تھا اب تو خیر وہ انٹرکالج ہوگیا ۔  بہرحال یہ کام کرنے کا شوق ہمیشہ سے رہا تو یہ وہی کیڑا تھا جس نے عمل کی جانب راغب کیا۔

تجربے اور مشاہدات نے مجھے یہ بتایا کہ شاید بیٹیوں کو تعلیم یافتہ  بنانا وقت کا سب سے اہم کام ہے ۔ اگر  ہم بیٹیوں کی  عمدہ تعلیم کا انتظام کردیں تو   ملت کو بہترین بیویاں  اور بہترین مائیں  ملیں گی جس سے شاید ایک بہت بڑا انقلاب آ جائے گا ۔ جب رسول کریم ﷺ  نے خود دو بیٹیوں  یا دو بہنوں کی اچھی تربیت اور پرورش کرنے والے کو جنت کی بشارت دے دی تو اس کے آگے کسی مسلمان کے لئے تعلیم نسواں  کی اہمیت بتانے کے لئے  اور کون سی دلیل کی ضرورت رہ جاتی ہے؟ 

لہٰذا میں نے ماں بنانے کا بہترین کارخانہ شروع کیا  اور ایک  گرلس اسکول بنایا۔ اللہ  تعالیٰ نے برکت اور کامیابی سے نوازنا شروع کردیا۔  سب سے پہلا کام جو میں نے کیا تھا  وہ مسلم فنڈکی طرف سے  مسلم پبلک گرلز کا قیام تھا۔ یہ محلہ گدی واڑے میں  پبلک نرسری اسکول  ہوا کرتا تھا جسے   وہاں سے منتقل کرکے پبلک گرلز اسکول بنایا گیا۔  حالانکہ حسیب صاحب یہ چاہتے تھے کہ یہ بوائز اینڈ گرلز کا اسکول  ہو مگر  میں کہتا تھا اسپیشلائزیشن ہو تو زیادہ اچھا ہے ۔یوں  بیٹیوں کے لیے  گرلس اسکول کا قیام عمل میں آیا ۔

نواز عظمت علی خان گرلز کالج مظفر نگر

 پھر 2000 میں امیرعالم خان صاحب، جو  وقف بورڈ کے چیئرمین تھے،  انہوں نے زبردستی ایک اور ذمہ داری تھمادی۔  مظفرنگرمیں ایک گرلز  اسکول تھا وہ ختم ہو رہا تھا ۔، بلکہ حالت نزع میں تھا۔ ذرا سوچیں میں  مظفرنگر کہاں جاتا۔  لیکن انہوں نے حضرت مولانا مرغوب الرحمٰن صاحب سے کہلوایا کہ ذرا نواز کو  سمجھائیں۔مجھے  مولانا سے محبت  تھی۔  میرے تمام عذر اور مجبوریوں کو رد کرتے ہوئے  حضرت نے کہدیا کہ یہ  میرا حکم ہے۔ اس کے بعد میرے پاس ذمہ داری قبول کرنے اور مولانا سے دعا کی درخواست کرنے کے  علاوہ کچھ رہ ہی نہیں گیا تھا۔  تو سن2001 میں   نواب عظمت علی خاں گرلز اسکول کی ذمہ داری سنبھالی۔

اس وقت اس  میں  275بچیاں پڑھتی  تھیں ۔ آج ماشاءاللہ 5000 بچیاں پڑھتی ہیں۔   اس اسکول کے لئے رات دیر گئے تک کام کرتا تھا۔  جو   ٹیویشن پڑھاتا تھا وہ   چھوڑ دینے پڑے۔ رات کو چھتیس گڑھ ایکسپریس  سے واپس آتا تھا۔

  اسکول کے ایک پلاٹ پر  پہلوانوں نے قبضہ کیا ہوا تھا  جہاں  انہوں نے اکھاڑہ بنایا ہوا تھا۔ میں نے ان کے ساتھ عصر اور مغرب کی نماز پڑھنی شروع کردی ۔پھرایک دن  انہیں مسجد میں  بلا کر  کہا کہ بتاؤ اس جگہ  کا حساب وکتاب اسی مسجد میں کرو گے یا  اللہ تعالیٰ کے دربار میں؟ کہنے لگے ، ’کیا مطلب؟‘  وہ جگہ کافی قیمتی ہے کیونکہ وہ  میناکشی ٹاکیز کے چوراہے پر ہے۔ پوچھنے لگے، ’کیا چاہو جی آپ؟‘ میں نے کہا کہ یہ وقف کی جگہ ہے۔ خالی کردو گے تو ملت اور تمہاری بچیوں کے کام آئے گی۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا اجر دے گا۔ ورنہ مقدمہ اللہ تعالیٰ  کی عدالت میں تو پیش ہو گا ہی ۔ اللہ نے ان کے دل میں بات ڈال دی اور انہوں نے وہ جگہ اسکول کو واپس کردی۔ اسے    ہم نے پہلے پرائمری اسکول بنایا  پھر ، الحمدللہ ، وہیں انٹر کالج اور  ڈگری کالج بنایا ۔ اور اب ماشااللہ 2022 میں انگلش میڈیم  اسکول بھی قائم کردیا۔

  مجھے تو اس کام کا شوق تھا ۔ ملت کے جن لوگوں کو اس کام میں دلچسپی تھی جب انہیں میری  حقیر سی خدمات  اور تجرنے کا علم ہونے لگا تو مجھ سے رابطہ کرنے لگے۔  اپنے تعلق کے لوگوں سے بھی میں اسکول بنانے کی فرمائش کرتا۔ جواب ملتا کہ ہمیں تو اس کا کوئی تجربہ نہیں۔ میں کہتا کہ رہنمائی میں کروں گا۔  میری یہ ترکیب اس لئے کامیاب رہی کہ جس کسی کی بھی اس معاملے میں مدد کی ،  کبھی مینیجمنٹ کمیٹی  میں شامل نہیں ہوا  اور نہ کبھی کوئی مالی ذمہ داری لی۔ اس کی وجہ سے کسی کو یہ خیال پیدا نہیں ہوا کہ میرے کوئی ذاتی مفادات ہیں یا میں ان کے لئے مسئلہ پیدا کروں گا۔  انہیں یقین ہوگیا کہ  یہ  ایک مخلص شخص  ہے ۔  عہدہ نکل گیا پیسہ نکل گیا پھر لالچ کے لئے بچاکیا؟ 

غزالی: دیگر جگہوں  کی طرح آپ کے  اس تجربے   سے اس سطح پر فیضیاب ہونے سے دیوبند کیوں محروم ہے؟

نواز دیوبندی: دیکھیے سب سے بڑی بات کیا ہے کہ میرے پاس مالی وسائل نہیں  ہیں۔ ادارہ بنانا اتنا آسان  کام نہیں ہے۔ یہ بڑی دولت چاہتا ہے۔  اللہ تعالی نے مجھے شہرت، شناسائی اور شناخت ہر نعمت سے نوازا ہے مگر میں نے کبھی مانگنے کا کام نہیں کیا ۔  مشاعروں سے  اور اپنی محنت مزدوری سے کمائی تمام دولت میں نے نواز پبلک اسکول میں جھونک دی۔  جو کچھ بھی  جائیداد مکان سب میں نے اس پہ لگادیا ۔ یہ  سب بغیر کسی کی مدد کے بنانا بھی  تو کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ  جو میرے دوست احباب رہے، جیسے کسی رکن  پارلیمنٹ نے کمرہ بنوا دیا ۔ یا ذاتی تعلقات کی بنا پر خود اپنی مرضی سے  کچھ تعاون کردیا۔ جن دیگر لوگوں کے لئے اسکول بنائے، ان کے  تو اپنے  وسیع ذرائع ہیں۔ مثال کے طور پر خرجہ  میں  ایک اسکول کی تعمیر میں ایک صاحب کی مدد  اور رہنمائی کی ہے۔  ان کے پاس  بہت ساری جگہیں ہیں۔ میرے ذمہ صرف نگرانی  اور اسکول شروع کروانا تھا۔

نواز گرلز پبلک اسکول دیوبند

غزالی: نواز گرلز اسکول دیوبند کے بارے میں کچھ  بتائیے یہ کس کلاس تک ہے؟

نواز دیوبندی:  یہ  بارہویں ( 10+2 )تک ہے۔ یہ  پہلا اسکول ہے  جو  ماشاءاللہ پہلے ہی سال میں   منظور ہوا ۔ 

اصل میں ہم نے جان بوجھ کر گرلز ایجوکیشن کو شروع کیا۔چوں کہ مجھے ایسا لگتا ہےکہ یہ ملی ترقی کا سب سے شارٹ روٹ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہر چیز اپنے نتیجے سے پہچانی جاتی ہے۔ اب آپ بچیوں کا رزلٹ دیکھیں کہ کتنا شاندار آرہا ہے ۔ اس کے برعکس لڑکوں کا رزلٹ اتنا ہی خراب ہے۔  لٰہذا جو رزلٹ  اچھا دے رہا ہو  ہماری توجہ  کا  وہ زیادہ مستحق ہے۔لڑکیاں ہی تو مستقبل کی مائیں ہیں جن کے ہاتھ میں  نسلوں کے مستقبل ہوں گے۔   ان ہی کے ذریعے   قوم سدھر ے گی۔

جب ہم نے  منظوری کے لئے درخواست دی تو  ہمیں چیئرمین صاحب(سی بی ایس سی بورڈ) نے بلایا اور بلاکر مشورہ دیا کہ آپ مخلوط اسکول  کی منظوری لیں آپ کیوں گرلز کے لئے درخواست دے رہے  ہیں؟  ہم نے کہا کہ ہم پروفیشنل آدمی نہیں ہیں ہم ایک جذبے  اور ایک مشن کے تحت یہ کام کر رہے ہیں۔   اس پر  انہوں نے کہا کہ آپ کو بلانے کا مقصد ہی حقیقت معلام کرنا تھی،  کیونکہ میں نے اپنے عملے   سے کہا  تھا کہ یا تو  یہ کوئی بے وقوف آدمی ہے  یا پھر ویژن کا آدمی ہے جس نے ایسا کیا ہے ورنہ بہترین بات  یہی تھی کہ  مخلوط  تعلیم کے لئے درخواست دیتا۔  پھر انہوں نے ہمیں اسی سال منظوری   دے دی  اور جو پروسیس تھا وہ سارا  مکمل  ہوا۔  پینل آیا اور جو چیزیں ضروری  ہوتی ہیں وہ ہوئیں۔اس طرح ہمارے اسکول کو  منظوری مل گئی ۔ پہلے دسویں،  پھر بارہویں  کی اور ماشاء اللہ اب تک   ہمارے چھ بیچ بارہویں کے جاچکے ہیں۔اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ عمر کے اعتبار سے ہمارے اسکول کی عمر ابھی کم ہے لیکن  نتائج کے اعتبار سے آس پاس کے علاقوں کے ناطقہ بند رکھتے ہیں۔جب کہ جو تیس تیس سال کے پرانے اسکول ہیں ان سے کمپٹیشن ہے ہمارا۔ہمارا  پہلا بیچ 2013 میں شروع ہو کر بارہویں میں آیا۔

غزالی:  بظاہر دیوبند کا آپ کا تجربہ دوسرے تجربات سے مختلف ہے۔ دارالعلوم اور یہاں کے خاص مسلم اکثریتی ماحول میں کس قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا؟

نواز دیوبندی:  دیکھیے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس قوم کے ہم خادم  ہیں  اس  کا تعلیمی مزاج نہیں ہے۔ تعلیم ان کی  ترجیح  نہیں ہے۔ ہماری ترجیحات شاندار  ولیمہ،  عالیشان مکان،  مہنگی  بائک یا  مہنگی کار ہے۔ اس  رویے کا سامنا کرنا آسان  کام نہیں ہے ۔ یعنی تیز ہوا کے جھونکوں میں چراغ جلانا  بہت مشکل کام ہے؟ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اللہ نے  مجھ پر خاص  کرم فرمایا   اور لوگوں نے اعتبار بہت کیا ۔ میری مالی مدد کی یا نہیں کی لیکن اس درسگاہ میں اپنی بچیوں  کوپڑھنے   ضرور بھیجا ۔ ورنہ دیکھئے نا 2012 میں اسکول شروع کیا اور 2019 جب تک لاک  ڈاؤن چلا   850 بچیاں پڑھتی تھیں۔ ایک خالص  گرلز اسکول  میں  850 بچیاں معنی رکھتے ہیں ۔ جس قصبے کی آبادی ایک لاکھ ہو۔پھر ایک لاکھ کی آبادی میں بھی  ہم نے جس علاقے میں اسکول بنایا  وہ بھی صد فی صد مسلم اکثریتی علاقہ  ہے ۔ مزید یہ کہ صرف گرلز اسکول ہونے کی وجہ سے لڑکے اس منصوبے سے باہر ہو گئے،  ورنہ یہ تعداد دو ہزار ہوتی ۔ میں اپنے  وطن کے لوگوں کی شکایت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے  مجھ پر بھروسہ اور اعتماد کر کے اور اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو میرے اسکول میں بھیج کر میرے ساتھ بہت   تعاون  کیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ ماشااللہ 163 بچیوں کو مفت پڑھاتا ہوں ،جس کے ماں باپ نہیں اس  کو  بیٹی بنا کر سارے تعلیمی اخراجات ادا کرتا ہوں۔ بہت سے غریب جو اپنی بچیوں کی تعلیم  میں کہیں اور سے مدد کی  توقع نہیں رکھتے میرے پاس ایک  امید  لے  کر آتے ہیں۔ میں ان کی اس توقع کو    اللہ تعالیٰ کا  انعام سمجھتا ہوں ۔ مجھے اللہ  تعالیٰ نے اس قابل بنادیا  ورنہ میں  اس لائق نہیں تھا ۔میرے حالات ،میرے وسائل  ایسے نہیں تھے کہ میں اسکول وغیرہ کا اتنا بڑا ادارہ چلا  سکتا اور لوگوں کی ایسی کوئی مدد کرسکتا ۔ اللہ تعالیٰ اس خدمت کو قبول فرمائے اورمیرے والدین اور میرے لئے تا قیامت صدقہ جاریہ بنائے رکھے۔

غزالی: ایک طرف تو معاشی حالت ہے ہی خستہ۔ دوسری جانب پرائیویٹ  اسکولوں کے اپنے تقاضےہیں۔ ایک چھوٹے سے اسکول کے لئے  163 بچیوں کے تمام تعلیمی اخراجات برداشت کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔  یہ آپ کیسے کرتے ہیں؟

نواز دیوبندی:  دیکھیے میں ایک بات آپ سے بتاتا ہوں کہ اس میں سب سے بنیادی بات نیت  کی ہے ۔  جیسا میں پہلے کہہ چکا ہوں ہمارے وسائل ایسے نہیں تھے  کہ اتنا بڑا  ادارہ  بنائیں وہ بھی   ایک  چھوٹے سے قصبے میں۔اللہ تعالیٰ نے ہمت دی اور ہم نے کام شروع کردیا ورنہ ہمیں بالکل    اندازہ نہیں تھا کہ   اسکول اس طرح  کامیابی کے ساتھ سے چل جائے گا ۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید ان کی مقدرات سے ہمارا اسکول چلتا ہے۔ فیس کے سلسلے میں بھی دشوار یاں تو بہت ہوتی  ہیں  ۔لیکن کسی ڈاکٹر کا    مریض تعاون نہ کر رہا ہو  تو ڈاکٹر کو  اس کا   اس کا علاج کرنا تو نہیں چھوڑنا چاہئے۔ ہم تو ملی معالج   ہیں۔ لہٰذا   ان  بچیوں کو پڑھانا ہماری ذمہ داری ہے ۔ایسی صورتحال میں کوئی بڑا منافع نہیں ہوتا  لیکن اگر ہمارا  اسکول خسارے  کا شکار نہیں ہے تو کافی ہے۔ انشاءاللہ  جیسے جیسے تعداد بڑھے  گی فائدہ  بھی ہوجائے گا ۔لہٰذا میں  توسمجھتا ہوں کہ جتنی فیس معاف کر دوں گا  میرا اسکول اتنا ہی ترقی کرے گا۔

غزالی : آپ کو فروغ اردو کا بھی ایک جنون رہا ہے۔ اس جنون کا اسکول میں بھی کوئی نمونہ دیکھنے کو ملتا ہے؟

نواز دیوبندی: ہمارے یہاں اردو ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔  ہم تمام بچوں کو اردو پڑھاتے ہیں۔ایک طرح سے سبھی بچوں کو اردو پڑھاتے ہیں،  زبردستی تو نہیں کرتے  لیکن ان کو رغبت ضرور دلاتے ہیں اور ان کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔  ماشاء اللہ ہمارے سارے بچے اردو پڑھتے ہیں۔اور اسی  طرح آٹھویں کلاس تک اسلامک اسٹڈیز پڑھاتے ہیں۔پھر نویں کلاس سے سی بی ایس سی بورڈ کا سلیبس شروع ہوجاتا ہے۔  تو پھر  وہ مجبوری ہوجاتی ہے کہ کوئی بچہ اردو لینا چاہتا ہے لے ،  نہ لینا چاہتا ہے نہ لے۔

غزالی: آجکل ایک ٹرینڈ چلا ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا پر، کہ جب بھی مسلمانوں میں تعلیم کی کمی کی بات ہوتی ہے، فوراً یونیورسٹی تعمیر کرنے کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔  جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کو کسی طرح ہائی اسکول تک پہنچا دیا جائے ۔ ان میں تعلیم کا شوق ہوگا تو خود اپنی جگہ بنا ہی لیں گے۔ لہٰذا ضرورت اسکولوں کی ہے نہ کہ یونیورسٹیوں کی۔ یونیورسٹیاں تو جو بڑے دے کر چلے گئے تھے،  ملت انہیں بھی سنبھال نہیں پا رہی ہے؟ ۔

نواز دیوبندی: مسلمانوں کوبنیادی معیاری تعلیم کی ضرورت ہے۔  یونیورسٹی لیول پر جاتے جاتے اگر آپ  معیار قائم رکھ پا رہے ہیں تو ہندوستان میں لاکھ حالات خراب ہوں یہاں، یا کہیں اور  قدر و قیمت  ہمیشہ  معیار والے لوگوں کی ہوگی۔ آپ چوبیس کیریٹ کا سونا بن جائیں تو آپ کی قیمت لگے گی۔  موجودہ حالات میں بھی آپ دیکھیں کہ یہ  اہلیتی امتحانات میں  کامیابی حاصل کرکے آئی اے  ایس بھی  اگر بن رہے ہیں تو    54  لڑکے آئی  اےایس بن کر نکل رہے ہیں۔یہی حال پی سی ایس کا ہے کہ اس میں ہماری تعداد بہت ہی کم ہوتی ہے۔    بہرحال جو صورتحال ہے اس سے  پتہ چلتا ہے کہ مقابلے کی سوچ پیدا نہیں ہورہی ہے۔ یہ سوچ  تب  پیدا ہوگی جب ہماری بنیاد مضبوط ہوگی۔ہماری ملت  کے بچوں کے پاؤں کمزور ہیں۔کمزور پاؤں کا آدمی ریس میں حصہ لینا چاہتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے؟ بنیادی طور پرہمارے  اسکول  ہونے چاہئیں،ہمارا اپنا سسٹم ہونا چاہیے،ہماری اپنی تربیت ہونی چاہیے اس کے  کئی فوائد ہیں اول تو یہ  کہ اس سے تعلیم کا تحفظ ہوگا اور اس سے تمدن کا تحفظ ہوگا۔اگر آپ دوسروں کے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں توظاہر ہے کہ  وہی کلچر آپ کو اختیار کرنا ہوگا ۔ آپ ان سے شکایت نہیں کرسکتے۔ ظاہر ہے  وہ  اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت  سکھاتے ہیں ۔ تو  ہمیں اپنے اسکولوں کی ضرورت ہے، خصوصیت سے ابتدائی اسکولوں کی ضرورت ہے ۔  مزید یہ کہ یہ مقابلے کا  دور ہے ۔ مقابلہ کرنے کی استعداد ہے  تو کسی بھی بہترین یونیورسٹی میں آپ داخلہ  لے سکیں گے، اور کسی  کمپٹیشن  میں بیٹھ سکیں گے۔ لہٰذا مسلمانوں کو یونیورسٹی کی نہیں  ابتدائی  معیاری تعلیمی اسکولوں کی ضرورت ہے۔ ایک بات اور بتاتا ہوں کہ عام طور پر مسلمان پیسے کا رونا روتے ہیں کہ صاحب ہم غریب ہیں۔ مجھے اس  حقیقت سے انکار بھی نہیں ہے مگر  ان کی غربت کا  اندازہ ان کے ولیمے  ، عقیقے اور ختنے کی دعوتوں   اور ان کے جہیز  سے لگایا جانا چاہیے۔ وہاں یہ غریب نہیں رہتے۔ البتہ اسکول کے کیمپس میں داخل ہوتے ہی غریب ہوجاتے ہیں۔  تو پتہ یہ چلتا ہے کہ یہ  غریب ذہنی اعتبار سے  ہیں نہ کہ مالی اعتبار سے۔  جن کی پہلی ترجیح تعلیم ہے،  وہ اس پر غربت کے باوجود تمام تر توجہ دیتے ہیں۔فضول خرچی نہیں کرتے اپنے بچوں کی فیس ادا کرتے ہیں۔

غزالی: کیونکہ اردو سے بھی آپ کو بہت لگاؤ ہے یہاں تک کہ آپ نے دیوبند میں اردو دروازہ تک  تعمیر کروادیا  ۔ہندوستان میں  اردو کا مستقبل آپ کے نزدیک کیسا ہے؟

نواز دیوبندی : زبانوں کا مستقبل لمحہ  دو لمحہ میں نہیں بدلتا۔ اردو کی بدنصیبی یہ ہے کہ اردو والے خود اردو سے بیزار ہیں۔  ہمارے یہاں خرابی  یہ ہے کہ ہم نے تمام توقعات سرکاروں سے وابستہ کر رکھی ہیں ۔ ہمیں بھیک مانگنے کی عادت ہوگئی ہے۔ بھیک مانگنے والی قومیں ترقی نہیں کرپاتیں۔ کسی بھی زبان کو زندہ رکھنے کے لیے اہل زبان کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے۔ سرکاروں کی ذمہ داری  اتنی   نہیں ہوتی۔ سرکاریں کچھ مدد کرسکتی ہیں۔سرکار تھوڑی بہت  آکسیجن تو دے سکتی ہے زبان کو زندگی نہیں دے سکتی ۔زندگی اہل زبان دیتےہیں  اس کو بول کر،اس کو برت کر ،اس کو استعمال کرکے،لیکن اردو زبان کا مستقبل ایسا نہیں ہے کہ اتنی جلدی ختم ہوجائے یہ بڑی سخت جان ہے۔

اردو دروازہ دیوبند

غزالی:  یہاں آپ سے تھوڑا نہیں شدید اختلاف ہے۔ جب مساجد میں نوٹس اور اشاریے ہندی میں نمودار ہوجائیں، مسلم گھرانوں کی زبان میں سنسکرت نما الفاظ اور اصطلاحات استعمال ہونے لگیں اور دینی کتب کی ہندی میں  اشاعت  ضروری ہوجائے، دعوتی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ اسلئے کیونکہ نئی نسل اردو نہیں پڑھ سکتی تو  اردو کے مستقبل کے بارے میں کوئی بھی خوش گمانی خود فریبی معلوم ہوتی ہے۔ کبھی اپنے بچپن میں آپ نے مسلم گھرانوں میں ہندی اخبارات آتے دیکھے تھے؟ منتری، ودھایک، سنسد، بھاشن، پرشاسن،  آتنک واد، سماچار ، اور پرچار جیسے الفاظ سنے تھے؟

نواز دیوبندی: زبانی لفظیات تو مرتی رہتی ہیں ۔ جو غالب کی زبان تھی وہ آج زندہ نہیں ہے  ان کے اشعار ضرور زندہ ہیں ۔یہ  بھی ایک حقیقت ہے کہ اردو پڑھنا لوگوں نے کم کردیا ہےتو اس کی وجہ سے لفظ تو بدلتے رہتے ہیں رفتہ رفتہ۔لیکن میرے خیال سے اس کی سخت جانی  اسے زندہ رکھے  گی۔  اتنی جلدی تھوڑی مرے گی ۔ کوئی زبان سو دو سو سال میں نہیں مرتی۔ اس کو مرنے کے لیے بڑی مدت چاہیے۔اصل ضرورت رسم الخط زندہ رکھنے  کی  ہے بس۔حالاں کہ آج ہندی میں اردو پر  بہت کام ہورہا ہے ۔ رسم الخط دیوناگری ہے اور شاعری کی سب سے زیادہ کتابیں دیوناگری میں چھپ رہی ہیں۔اردو کی کتاب اگر ہماری چھپتی ہے تو وہ گیارہ سو کا ایڈیشن نکالنا مشکل ہوتا ہے  جبکہ دیو ناگری کا ایڈیشن   ساڑے پانچ ہزار کا بھی ہو  تو پتہ چلتا ہے کہ ڈیڑھ مہینے میں ختم ہوگیا ۔ آپ کی  فکر  حق بجانب ہے۔  اس طرف توجہ دی جانی چاہئے۔  زبان کو زندہ رکھنے کی کیا تدابیر کی جائیں۔اس میں سے ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ ہمیں رسم الخط کی طرف متوجہ ہوناچاہیے۔ہم اپنے بچوں کو بڑی حد تک جن اسکولوں میں بھیجتے ہیں وہاں سے آنے کے  بعد ان کے پاس اردو تو کیا  قرآن پڑھنے کا  بھی وقت نہیں ہوتا۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کم سے کم ہم اپنے گھروں کے ماحول کو تو ٹھیک رکھیں۔ جو بات آپ کہہ رہے ہیں کہ گھروں میں یہ الفاظ نہیں آتے تھے تو گھروں سے ہی تو سیکھتے تھے۔

اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ شادی  کے دعوت نامے  تک ہندی میں آرہے ہیں ۔ پریس والوں نے شادی خانہ آبادی لکھ رکھا  ہے ۔ بس اتنا غنیمت ہے۔ ولیمے کو ولیمہ لکھ دیا ورنہ اس کا بھی کچھ ترجمہ کردیں گے۔

غزالی: آپ کا   یوپی اردو  اکادمی سے بھی تعلق رہا ہے جہاں آپ نے بحیثیت چیئرمین خدمات انجام دیں۔   ان دنوں ملک اور صوبے دونوں کے حالات کافی بہتر تھے۔ وہاں آپ کے کیا مشاہدات اور تجربات رہے؟

نواز دیوبندی:  جن لوگوں نے بھی اکیڈمی بنائی ہوگی ، غالباً اردو اکیڈمی 1973 میں بنائی گئی تھی۔   میں سمجھتا ہوں کہ بنانے والے مخلص تھے اور ہوتا بھی یہی ہے کہ  کسی ادارے کا قیام ہی مخلص لوگوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔  بعد میں تو ان سے فیض حاصل کرنے والے اور غرض وابستہ رکھنے والے لوگ رہ جاتے ہیں۔تو  اردو اکادمی کے بانیان کے ذہن میں بھی یقیناً  اردو کی فلاح اور بہبود ہی تھی ۔۔ بدنصیبی  یہ ہے کہ  اردو کے ادارے ہوں یا زبان اس کی تنزلی،اس کا زوال اس کی گراوٹ آپ اس کو کچھ بھی کہیں اس کے سب سے بڑے ذمہ دار ہم خود ہوتے ہیں   اور ہم  الزام تراشی کرکے دوسروں کو اس کا ذمہ دار  ٹھہراتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی زبان ہو یا کوئی قوم،کوئی ادارہ ہو یا کوئی سماج جب تک دوسروں کا الزام دیتا رہے گا اس کی ترقی کے امکانات روشن نہیں ہوں گے۔ترقی شروع ہی تب ہوتی ہے جب تجزیہ ٹھیک ہونے لگے۔ جب تک اپنی غلطی کا احساس نہ ہو اصلاح ہونا ممکن نہیں۔  یہ صحیح ہے کہ اردو اکادمی سے بہت بڑا کام کیا جاسکتا ہے بہت بڑا کام لیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے جس طرح کے افراد کی ضرورت ہوتی ہے اس کا فقدان ہے۔ سرکار ان لوگوں کا انتخاب ہی نہیں کرتی جو اردو والے ہوتے ہیں ۔عام طور پر سیاسی لوگوں کا انتخاب ہوتا ہے جنہیں اردو کے بارے  میں یا اردو کے مسائل کے بارے میں   گہرائی سے واقفیت  نہیں ہوتی  کہ وہ اردو کے لئے صحیح خدمت انجام دے سکیں اور اس کے مسائل کو حل کرسکیں۔لیکن کبھی کبھی ایسی سرکاریں بھی آتی ہیں جو صحیح لوگوں کا انتخاب کرتی ہیں۔ اس وقت ان صحیح لوگوں کی ذمہ داری  بہت بڑھ جاتی ہے ۔

میں نے ایک بات محسوس کی کہ جس زمانے میں ہم  اردو اکادمی کے ذمہ دار بنائے گئے حالاں کہ میری ویسی کوئی خواہش نہیں تھی کہ ہم  ذمہ دار ہوں۔ اگر اس زمانے میں جو سرکار تھی   اس میں بھاشا سنستھان اترپردیش  کا ذمہ دار گوپال داس نیرج کو بنایا گیا تھا۔  ظاہر ہے کہ ہندی کا  بہت بڑا نام ہے۔ ہندی اکادمی کا چیرمین  ادے پرتاپ سنگھ صاحب کو بنایا تھا۔ ظاہر ہے وہ ہندی کے بڑے آدمی ہیں۔   پھر ہندوستانی اکیڈمی کے چیرمین بھی ایک کوی کو  بنایا تھا ،پنجابی اکادمی کے چیرمین  بھی جس کو بنایا تھا وہ ایک کوی تھا۔   اس وقت تقریبا ًسبھی لوگ ادب اور ساہتیہ سے واقف لوگوں کو ذمہ دار بنایا  گیا تھا ۔اور ہمیں بھی اس وقت یہ موقع ملا۔ ہماری تھوڑی سی بدنصیبی یہ رہی کہ غیر ضروری  طور پر ہمارا  اچھا خاصا وقت  ایک صاحب کی ناعاقبت اندیشی کی نذر ہو گیا۔ لیکن مثبت سوچ کا جو ہمارا مزاج ہے  وہ ہم نے وہاں بھی زندہ رکھا اور ہم نے ٹکراؤ  کی زندگی سے بچ کر کام کی زندگی کو  ترجیح دی اور رفتہ رفتہ کام کرنا شروع کردیا ۔ میں تو   اپنی آنے والی نسلوں سے بھی یہ کہنا چاہتا  ہوں کہ کبھی بھی  ٹکراؤ میں اپنی طاقت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے ۔اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے ۔ادارے بھی برباد ہوجاتے ہیں اور ادارہ بنانے والے  بھی ۔لہٰذا ہم نے کام کیا اور اللہ نے اس کا  بہتر نتیجہ نکالا اور دیکھیے اترپردیش اردو اکادمی کے بارے میں وزیر اعلی اکھلیش یادو صاحب کی موجودگی میں ہندی اکادمی  کے چیرمین ادے پرتاپ سنگھ صاحب نے یہ بات کہی تھی کہ  کام کرنے کے سلسلے میں ہماری اکادمی کو اترپردیش  اردو اکادمی سے پریرنا  لینی چاہیے   ۔

سب سے پہلا کام تو جو میں نے کیا تھا  وہ عمارت کی تزئین و آرائش کا کیا۔صفائی ستھرائی ہمارا مذہبی مزاج ہونا چاہیے ،قومی مزاج ہونا چاہیے ۔میں نے جاکر دیکھا کہ برا حال تھا۔سب سے پہلے جاکر پینٹنگ کرائی ،ارے بھائی کتے کا بھی مزاج ہوتا ہےکہ دم ہلا کر  پہلے صفائی کرکے بیٹھتا ہے  ۔اور ہمارے ساتھ تو یہ ہے کہ  صفائی تو ہمارا نصف ایمان ہے ۔ اس کے بعد پھر ہم نے بہت ویل  ڈیکوریٹیڈ اکادمی بنائی ۔  ایک بڑا کام  میں نے یہ کیا کہ  جو آڈیٹوریم تھا وہ کھاد ہوچکا تھا  ۔  چھتیں گرچکی  تھیں۔  اس کی  دیواریں گل گئی تھیں  ۔  میں نے اس کو اردو آڈیٹوریم کا نام دیااور تین سو سیٹ کا سینٹرلڈ اے سی آڈیٹوریم  بنایا۔  لکھنو کا پہلا  اردو آڈیٹوریم۔ دوسرا پھر میں نے یہ کیا کہ اردو اکادمی میں پچاسی سیٹ کا ایک پریم چند ہال بنایا ۔ چوں کہ اردو آڈیٹوریم  کرائے پر دیا جاتھا ۔  بہت مناسب کرایا وصول کیا جاتا ہے یعنی  پندرہ سو روپے گھنٹہ اس کی فیس تھی ۔پریم چند ہال ہم نے غریب مصنفین کے لیے بنایا کہ جن کے پاس پیسے نہ ہوں  وہ آئیں اور اپنی مفت تقریبات منعقد کریں۔ کسی کی کتاب کارسم اجرا ہو، کوئی نشست ہو یا کوئی پروگرام ہو۔پھر میں نے  آفس کو کورپوریٹ آفس بنایا ، بہترین فرنیچر  منگوا کر کے ،کیبن بنوائے،پھر ایک  بڑا کام یہ ہوا کہ جو وہاں کی لائبریری تھی میں نے اسے ڈیجیٹل کرانا  شروع کیا ۔   یہ ایک بڑا کام  تھا۔  جب میں چھوڑ کر آیا ہوں تو وہاں باون لاکھ صفحات ڈیجیٹلائز ہوچکے تھے۔لائبریری کو بہت ڈیکوریٹ بنایا،بیٹھنے کی سیٹوں کو بہت شاندار بنایا۔اس کے علاوہ میں  نے کمپیوٹر سنٹر اسٹارٹ کیا،اردو سکھانے  کے لیے۔  حالاں کہ میں نے  اس میں ملٹی لینگول انسٹی ٹیوٹ بنا یا ۔ یعنی  اردو کمپیوٹر سنٹر بنایا لیکن ہندی اور انگریزی بھی سکھاتے تھے ۔

پھر اسی اردو اکادمی میں میں نے اردو ماس کمیونیکیشن اینڈ میڈیا سنٹر بنایا اور باقاعدہ ویڈیو اسٹوڈیو بنایا ، ایک آڈیو اسٹوڈیو بنایا اور  پورا میڈیا سنٹر بنایا  ۔ اسے بہت ڈیکوریٹ کیا بہت بہترین ریکارڈنگ  کے انتظامات کیے  ۔  اس میں شارٹ ٹرم کورسز شروع کیے،جنرلزم کے  میڈیا سے رلیٹیڈ،کیمرہ مین ،ایڈیٹنگ کرنے والا، پروف ریڈینگ کرنے والا، فوٹو گرافی کرنے والا،یا ویڈیو گرافی کی ایڈیٹنگ کرنے والا،اسکرپٹ رائٹر  ،ڈائیلوگ رائٹر اس کے چھوٹے چھوٹے کورسز چھ چھ مہینے نو نو مہینے  کے شروع  کرائے وہ ابھی بھی چل رہے ہیں۔

غزالی: کیا یہ کورسز مفت ہوتے ہیں؟

نواز دیوبندی:   کورسز مفت تو نہیں ہوتے بس ایک نومینل سی فیس ہوتی ہے۔برائے نام۔  دو سو ڈھائی سو روپے معنی نہیں رکھتی ۔  پھر میں نے یہ کیا کہ اس کو اردو ماس کمیونیکیشن بنایا  وہاں بھی ملٹی لینگول  جرنلزم شروع کیا،تاکہ اس کی مارکیٹ ویلیو ہو سکے۔ تو ہم نے ان کو اردو  صحافت بھی سکھائی اور ہندی پترکاریتا   بھی،  چوں کہ موجودہ زمانے  میں ٹیلی ویژن کے اینکر کو ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو بہترین انگریزی بھی آنی چاہیے بہترین  ہندی بھی آنی چاہیے اور جنہیں بہترین اردو آتی ہو تلفظ ٹھیک ہونے کی وجہ سے وہ تو اس میدان میں مار کھا ہی نہیں سکتا۔

اس طرح  بہت سے  مختصر مدتی کورس چل رہے ہیں،  میں نے اس طرح سے روزگار کے موا قع  بھی مہیا کرائے۔ پہلے  اردو اکادمی  کا  یہ  کام نہیں تھا۔ اس کی ابتدا میں نے کی۔ لہٰذا گورنمنٹ سے  اجازت لے کر یہ کام کو شروع کئے اور اس کا بجٹ  بھی دلوایا۔ اسی طر ح  جس  لائبریری کو ہم نے ڈیجیٹل کیا تھا ، اس  کو بہت شاندار بناناچا ہتا تھا لیکن  وقت نہیں تھا میرے پاس۔ باون لاکھ صفحات بھی معنی رکھتے ہیں۔ اس کے بعد  میں نے وہاں آئی ایس اسٹڈی سینٹر  بنایا اردو  آئی ایس اسٹڈی سینٹر اس کا نام اردو اس لیے رکھنا ضروری تھا کہ  وہ اردو اکادمی کی طرف سے تھا  تو اس میں  بھی ہم ملٹی لینگول بچے ہی تیار کرتے تھے ۔ تو ظاہر  ہے کہ سب سے پہلی بات تو یہ  کہ ہم نے اردو والوں کے یہاں مسابقتی ذہنیت  کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ،ایک دیا اور ایک نور روشن کیا ۔ پہلے تو تصور ہی نہیں تھامسابقت  کا،  سفارش سے لوگ نوکری ڈھونڈتے تھے  تو یہ پروجیکٹ بالکل نیا تھا ۔  ہندوستان  کی کسی بھی اکادمی میں اس طرح کا کوئی کانسپٹ ہی نہیں تھا  یہ پہلا کانسپٹ تھا لیکن اس وقت کی حکومت نے ہماری گزارش کو قبول کیا اور ہمیں بجٹ بھی دیا اور ہم نے اس کو بنایا اور بناکر پھر چلایا اور اس میں بڑی تعداد میں بچے کامیاب ہوئے۔

اصل میں بات یہ ہے  کہ  اختلافات تو  قوموں کو برباد کردیتے  ہیں اداروں  کو تباہ کردیتے  ہیں۔لہذا ہم نے پوری زندگی مثبت سوچ کے ساتھ  گزاری اور جتنے دن وہاں  رہے اسی مثبت سوچ   سے کام لیا اور اللہ تعالی نے اس کی برکت سے کامیابی عطا کی ۔دیکھیے بڑا کام ہوا یہ  آئی ایس اسٹڈی سینٹر کا۔ اس سے ایک بڑا کام یہ ہوا کہ اردو والے یہ سوچنے  لگے کہ ہم بھی آئی اے ایس بن سکتے ہیں۔ ہم بھی پی سی ایس بن سکتے ہیں۔ ایک کام   یہ بھی ہوا کہ  مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری شروع ہوگئی ۔

ایک بات  غزالی بھائی یاد رکھیے کہ حالات کتنے بھی نازک ہوں ، کتنے بھی کڑوے ہوں لیکن ہمارے ملک میں آج بھی جس کو کوالٹی کہتے ہیں  اس کے امکانات روشن ہیں۔ اگر آپ باصلاحیت ہیں تو ایک جگہ سے نظرانداز کیے جاسکتے ہیں،دو جگہ سے نظر انداز کیے جاسکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ ساری دنیا نظر انداز کردے۔ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہماری قوم بغیر سر کے  تاج پہننا چاہتی ہےپہلے سر بنانا پڑے گا پھر تاج کی طلب کی جائے گی  ۔تو ہمیں چاہیے یہ کہ ہم   مضبوط بنیں اور اپنی نئی نسلوں کو تیار کریں۔  انہیں آگے بڑھنے کی ترغیب دیں ۔نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سارے مسلمان بچے جو مختلف میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ  رہے ہیں اگر وہ باصلاحیت ہیں تو وہ آگے  بڑھ رہے ہیں اور آرہے ہیں۔یہ تھرڈویزنر کا زمانہ نہیں ہے،  یہ تو ٹاپرس کا زمانہ ہے ۔

جب ہم نے 2017 میں اردو اکادمی   چھوڑی  تو اس وقت میری تجویز منظور ہوگئی تھی  جس میں ہم نے  طے کیا تھاکہ ہر سال سی بی ایس بورڈ  کو  گیارہ ماہ کے لئے پچاس  اردو ٹیچر دیا کریں گے  اور  ان کی تنخواہ ہم دیں گے۔  بارہ مہینے کی اس لیے نہیں دے سکتے کہ پھر وہ مستقل ملازم ہوتا  جہاں ہم مجبور تھے۔ سی بی ایس ای  بورڈ میں بھی اردو ہے لیکن ٹیچر نہیں ۔ دوسرا طریقہ  سرکار سے مطالبہ کرنا تھا ۔ کون مطالبات  آسانی سے مانتا ہے ۔ منوانے کا بھی ایک  لمبا طریقہ کار ہے ۔ بہرحال  میری  یہ تجویز پاس ہوگئی تھی اور ہمیں اس پر کام کرنا تھا مگر افسوس کہ یہ    کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔ یہ ایک اچھا پروجیکٹ تھا کہ بھئی  پچاس اسکولوں کو ہم ایک ایک ٹیچر  فراہم کرتے اس سے پچاس  لوگوں کوروزگار ملتا۔ ہرسال،پچاس اسکولوں کو اردو پڑھنے کے لیے ملتی۔میرا ایک  اور منصوبہ اردو اکادمی کے تحت دارالترجمہ بنانے کے  کا تھا کیونکہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں  کہ زبان کو محدود کیوں رکھا جائے۔  دوسری زبانوں میں کیا  ہو رہا ہے  ہمیں اس کی بھی خبر ہونی چاہیے ۔ تو ہم نے یہ طے کیا تھا کہ اردو سے دوسری زبانوں میں اور دوسری زبانوں سے  اردو میں تراجم ہوں۔اس کے لئے ہم نے باقاعدہ   ایک  ٹرانسلیشن ہاؤس بنادیا تھا۔  پورا ہال تیار کرادیا تھا  کام شروع ہونا تھا ۔ حالات بدل گئے اور یہ کام بھی رہ گیا۔

ایسے ہی میں نے ایک نیا پروگرام شروع کیابچوں کا مشاعرہ  ۔ اس کے لئے ہم ہر اسکول کو پچیس ہزار روپے دیتے تھے شرط یہ  ہوتی تھی کہ بچے ہی شاعر ہوں گے ۔ اس میں بچے پڑھتے تو معروف شعرا کا ہی کلام  مثلاً  کوئی جگر  مرادآبادی کی غزل پڑھ رہا ہے ، کوئی فراق گورکھپوری  صاحب کی غزل  پڑھ رہا ہے کوئی نواز دیوبندی کو  پڑھ رہا ہے ،کوئی راحت اندوری  کا کلام  پڑھ رہا ہے۔ مقصد تو ان میں ایک ادبی ذوق پیدا کرنا تھا۔ مزے کی بات یہ کہ  ہم نے صدارت   بھی بچے سے ہی کراتے تھے ، مہمان خصوصی بھی بچے ہی کو بناتے تھے ۔ شرط یہ ہوتی تھی کہ  جو اسکول کا ٹاپر ہوگا وہ چیف گیسٹ بنے گا جو اردو کا ٹاپر ہوگا وہ صدارت کرے گاجو تھرڈ نمبر کا بچہ کا ہوگا وہ اینکرنگ کرے گا،بڑا کوئی بندہ نہیں بیٹھے گا۔ سب نیچے بیٹھ کر سنیں گے  اس کا بڑا  شاندار رسپونس آیا۔ ہم نے پورے اترپردیش میں سو ٹاپ مشاعرے کیے ۔

اسی طرح ہم نے ایک اور  بہت شاندار پروگرام شروع کیا   تھا،  جس کے تحت ضلع میں   انٹر اور ہائی اسکول کے اردو مضمون کے ٹاپر کو   ’ٖفخر ضلع‘ کا  خطاب دیا جاتا تھا۔ جیسے سہارنپور میں کوئی ٹاپر ہے تو اسے ‘ فخر سہارنپور‘  کا  خطاب  اور  پانچ ہزار ایک سو روپے کا ایک چیک  ،ایک ہزار روپے کی کتابیں ،  اس کی امی کو  ایک گھڑی اور والد  کو پین دیا جاتا تھا۔  استاذ کو اکیس سو روپے اور ’فخر تدریس‘  کا خطاب دیا جاتا تھا۔   اس کے اسکول کے پرنسپل کو ایک توصیفی سرٹیفکیٹ بناکر دیتے تھے۔  اس کے سرٹیفکیٹ بھی ہم نے اتنے شاندار بنوائے تھے کہ پورے اترپردیش میں شور مچادیا۔  یہ پروگرام لکھنو میں کرایا جاتا تھا۔  سارے ہوٹل بک ہوجاتے تھے۔ اندرا گاندھی  پرتھشٹھان میں یہ پروگرام ہوتا تھا۔

میں نے افسران کے لئے بھی اردو  کلاسیں  شروع کی تھیں جو  کلکٹریٹ میں چلائی جاتی تھیں۔  لکھنو میں کلکٹریٹ میں سو لوگ پڑھتے تھے۔  ٹیچر  ہمارا جاتا تھا  ۔  ڈی ایم صاحب بھی پڑھنے آتے تھے ،  کمشنر صاحب، اور  ایس پی  صاحب ، اے ڈی ایم ،  ایس ڈی ایم ،   تحصیلدار  اور،کلرک  سب ہی سب  پڑھنے آتے تھے ۔ معاشرے کی حساسیت کے پیش نظر پھر ہم نے  افسران  کی کلاس الگ چلائی   اور لوور کی کلاس الگ چلائی  ۔پھر میں نے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں اردو کلاسیں چلوادیں ۔ میرا ماننا یہ تھا کہ اگر یہ لوگ اردو سیکھ جائیں گے تو تعصب کم ہوجائے گا اور جو کمیونیکیشن گیپ ہے وہ ختم ہوجائے گا۔دوسری بات کہ یہ دستاویز ات کو  خود  پڑھنے لگیں گے ،صحیح فیصلہ کرنے لگیں گے۔

 دیوبند میں میں نے ہندوستان کا سب سے پہلا اردو دروازہ بنوایا۔یہ ہندوستان کی تاریخ کا پہلا اردو دروازہ ہے۔  اس ملک میں کشمیری دروازہ بھی  ہے،دلی دروازہ بھی ہے دنیا بھر کے دروازے ہیں لیکن  اردو دروازہ نہیں تھا ،اس حقیر فقیر نے سب سے پہلا اردو دروازہ بنوایا۔

ایک اور کام جو میں نے کیا وہ یہ تھا کہ  شعراء و ادباء کو وظائف آٹھ سو سے بارہ سو روپے ملتے تھے  میں  نے  اسے تین ہزار روپے کیے اور کتابوں کی اشاعت کے لیے بڑی فراخدلی سے کام لیا۔ میں نے، زیادہ سے زیادہ کتابیں چھاپیں۔

غزالیٰ: شکریہ نواز بھائی ۔ کہنے اور سننے کے لیے بہت کچھ ہے، کیا بتائیں اور کیا رہنے دیں، اب آپ بھی تھک گئے ہوں گے۔ باقی باتوں کو پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ البتہ آخر میں اپنی پسند کے چند اشعار سنانے کی درخواست پر اس طویل بات چیت کو ختم کرتے ہیں۔
نواز دیوبندی: ضرور۔ ملاحظہ ہو:

کل اس کا دوست ملا تو یہ وہم دور ہوا
میں سوچتا تھا مجھے یاد کرتا ہوگا وہ

*********************************
بادشاہوں کا انتظار کریں
اتنی فرصت کہاں فقیروں کو

*********************************
یہ کتنے سخت ہیں پروردگار کے بندے
وہ کتنا نرم ہے پروردگار ہوتے ہوئے

*********************************
کل میں الجھ گیا تھا چچازاد بھائی سے
والد نے آ کے خواب میں دھمکا دیا مجھے

*********************************
یہ اسپتال نہیں کوچہُ محبت ہے
یہاں مریض کو اچھا نہیں کیا جاتا

*********************************
ایک نئی جاگیر بنانا چاہتے ہیں
ہم بیٹے کو میر بنانا چاہتے ہیں
*********************************
پھول بھی ہوں ڈل جھیل بھی ہو اور قاتل بھی
ہم دل کو کشمیر بنانا چاہتے ہیں

*********************************
محفل میں جسے غور سے سب دیکھ رہے تھے
دیکھا نہ اسے میں نے تو اس نے مجھے دیکھا

*********************************
جب ہاتھ میں شیشہ تھا نہ ساغر تھا نہ مینا
گر دل نہیں ٹوٹا ہے تو پھر چھن سے گرا کیا

*********************************
اس سے زیادہ مانگنے والا اور کر بھی کیا سکتا ہے
آنکھیں نم کر رکھی ہیں اور دامن پھیلا رکھا ہے
*********************************

اے ! مصوّر کم زیادہ کا تو میں قائل نہیں
میرے جیسی ہی مری تصویر آنی چاہیئے
*********************************
تم اپنی لون کی کاروں پہ اتنا کیوں اکڑتے ہو
چلو! رکشہ سے چلتے ہیں تکبّر ٹوٹ جائے گا
*********************************
وہ ہمارے حال دل پر سر بزم جب ہنسیں گے
یہ ہمارے آنسوؤں کا نیا امتحان ہوگا
*********************************

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.