محمد غزالی خان
جب کبھی کسی ایسے دوست یا متعلق کے بارے مین پڑھتا یا سنتا تھا جو پوری کوشش کرنے کے باوجود دوری کے سبب اپنے والدین میں سے کسی کی نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت نہ کر پایا ہوتو ایسی مجبوری کا شکار ہونے کا خدشہ ہلا کر رکھ دیتا تھا ۔ 12 دسمبر کی شام جب والدہ کے انتقال کی دہلا دینے والی خبر ملی تو خود اپنے آپ کو اسی بے بسی میں گھر ا پایا جس کا سامنا بہت سے تارکین وطن کو کرنا پڑتا ہے۔ کرسمس کی وجہ سے براہ راست دہلی جانے والی کسی فلائیٹ میں سیٹ نہ مل سکی ۔ جس وقت میں ہیتھرو اےئر پورٹ پر بیٹھا فرینکفرٹ کیلئے( جہاں سے دہلی کیلئے دوسرا جہاز لینا تھا) گیٹ کھلنے کا انتظار کر رہا تھا چھوٹی بہن نے روتے ہوئے موبائل کیمرے سے کفن میں لپٹی آخری سفر کی تیاری میں میری ماں کا آخری دیدار کروایا۔ چند لمحات اس معصوم صورت اور فرشتہ صفت چہرے، جس کی خوبصورتی اور معصومیت میں پانچ سال کی طویل علالت کے باوجود کمی نہیں آئی تھی، کو بے بسی کے عالم میں دیکھتا رہا جس نے کیسی کیسی تکلیفیں اٹھا کر پال پوس کر بڑا کیا تھامگر جسے مجھ جیسا بد قسمت کندھا بھی دینے سے محروم رہا۔ اس دن دل سے نکلنے والی دعاؤں سے محروم ہو گیا تھا۔ جو ہاتھ میرے لئے دعا کیلئے اٹھا کرتے تھے وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گر چکے تھے۔
ہر اولاد کیلئے اس کی ماں دنیا کی سب سے اچھی ماں ہوتی ہے اوراس اصول سے میں اور میرے بہن بھائی مستثنیٰ نہیں ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ میری والدہ کو اللہ تعالیٰ نے صرف چہرے کی بے پناہ خوبصورتی سے ہی نہیں اخلاق و کردار کی دولت سے بھی مالا مال کیا تھا۔صلہ رحمی کا وہ اعلیٰ نمونہ تھیں۔ رشتہ دار ہی نہیں، غیر رشتہ داروں کی بہترین ہم راز تھیں۔ تمام خواتین، بالخصوص نئی دلہنیں، اپنے دکھ ان سے بیان کر کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتیں اور وہ اپنے مخصوص انداز میں سمجھا بجھا کر ان کی الجھنیں کم کرنے کی کوشش کرتیں۔ کوئی مدد کیلئے ان کے پاس آتا تو انکار کرنا ان کی طبیعت میں نہیں تھا۔ جب اپنے وسائل کم پڑتے تو ہم بہن بھائیوں کو مسئلے کی نوعیت سے اس تمہید اور تاکید کے ساتھ آگاہ کرتیں : ’’نہ میں نام بتاؤں گی اور نہ تم پوچھنا۔ میں نے تمہارے کان میں بات ڈال دی باقی تم جانو۔‘‘ وہ خود بہت کم عمری میں یتیم ہو گئی تھیں اور یتیموں کے درد کو اپنا درد سمجھتی تھیں۔ جب کبھی کسی ایسے بچے سے ملتیں جی کے ماں یا باپ کا انتقال ہو گیا ہوتو اس سے خاص محبت کا اظہار کرتیں۔
انہیں تقریباً پانچ سال قبل اسٹروک ہوا تھا۔ آپریشن کے بعد جب وہ نیم بے ہوشی کے عالم میں ہسپتال میں تھیں تو چھوٹی بہنوں نے دیکھا کہ وہ ہاتھ کی انگلیاں ہلا رہی ہیں۔وہ ان کی مستقل تسبیح پڑھنے کی عادت سے واقف تھیں۔ لہٰذا ہاتھ میں تسبیح پکڑا دی اور انہوں نے با قاعدہ تسبیح کے دانے اسی طرح چلانے شروع کردئے اور ہونٹوں کو اسی طرح جنبش دینی شروع کردی جیسے بیماری سے پہلے کرتی تھیں۔ یہ بات ڈاکٹروں اور نرسوں کیلئے بھی باعث حیرت تھی اس منظر کو دیکھ کر ایک نرس چلا اٹھی کہ : ’’دیکھو دیکھو ماتا جی مالا جپ رہی ہیں۔‘‘
یوں تو ان کی موت ہم سب بہت بھائیوں کیلئے بہت بڑا نقصان ہے مگر خاص طور پر میرے ضعیف والد اورسب سے چھوٹی بہن کیلئے بہت ہی بڑا نقصان ہے جس کے بارے میں یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ میری والدہ کی اس بیماری کے بعد کر دار بدل گئے تھے کہ والدہ ایک نو مولود بچے کی طرح تھیں اور بہن ایک نہایت حساس ماں کی طرح جس نے ماں کی خدمت کا صحیح معنوں میں حق ادا کیا ہے اور جس پر ایک ڈاکٹر نے مزاقاً کہا تھا کہ : ’’ماتا جی کو تو یہ پکڑے بیٹھی ہے۔‘‘
جن کے والدین حیات ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کووالدین کی قدر کرنے،اپنے فرائض پہچاننے اور ان قرآنی احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔
’’اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھاکر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے ان کو نصیحت کی کہ ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔‘‘ (سورة لقمٰن 14)
تیرے ربّ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ:
(۱)تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اُس کی۔
(۲) والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں بُوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جِھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو،اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جُھک کر رہو، اور دُعا کیا کرو کہ ”پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح اِنہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔ “ (سورة بنی اسرائیل 24-23)
جن دوستوں نے میری والدہ کے انتقال پر تعزیتی پیغامات بھیجے ہیں اور دعائے مغفرت کی ہے ان کا بے حد مشکور ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو بہترین اجر عطا فرمائے اورآپ کی دعاؤں کو قبول فرمائے۔ میں خاص طور پر برادرم سمیع اللہ خان صاحب، جنہوں نے اس کام کیلئے لکھنؤ سے دیوبند تک کا سفر طے کیا، اور علم اللہ صاحب اور افروز عالم ساحل صاحبان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو دہلی سے دیوبند صرف تعزیت اور مجھ سے ملاقات کیلئے تشریف لائے۔