سپریم کورٹ کے فیصلے پرتنقیدی تقریر کی پاداش میں اے ایم یو برج کورس کا ڈائریکٹر تبدیل

راشد شاز کی تقریر جو یونیورسٹی انتظامیہ کو بہت گراں گزری

محمدغزالی خان

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق علیگڑھ مسلم یونورسٹی میں برج کورس کے ڈائرکٹر راشد شاز صاحب کوان کے عہدے سے  برطرف کر کے ان کی جگہ سیاسی گٹھ جوڑ کی صلاحیت اور مذہبی شباہت رکھنے والے ایک شخص کا تقررکردیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے وائس چانسلرصاحب کی جانب سے ایک نوٹس جاری کیا گیا تھا جس میں تدریسی یا غیر تدریسی عملے کوسختی کے ساتھ ہدایت کی گئی تھی کہ بابری مسجد پرعدالتی فیصلے پر کسی بھی طرح کا بیان نہ دیا جائے۔ مگر راشد شاز صاحب نے اس حکم نامے کو سختی کے ساتھ رد کرتے ہوئے ایک تقریرکرڈالی جو یو ٹیوب پر موجود ہے اورقارئین کی دلچسپی کیلئے ہم یہاں بھی پوسٹ کر رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ موصوف کے خلاف یہ اقدام بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے پران کی اس تقریر کی وجہ سے اٹھایا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اس سے پہلے ایک موقع پر وائس چانسلر طارق منصور صاحب نے شاز صاحب سے برج کورس کے کچھ طلبا کو ان کے ساتھ دہلی ایک ایسے پروگرام میں بھیجنے کی بھی فرمائش کی تھی جہاں ان طالب علموں کو اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی کے ہاتھوں اسناد دی جانی تھیں اور ان کی تصاویر کھینچی جانی تھیں مگر شازصاحب نے اس خوشامدانہ اقدام کی سختی کے ساتھ مخالفت کی۔

واضح رہے برج کورس دینی مدارس سے فراغت حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کیلئے تیار کیا گیا ایک سالہ کورس ہے جس میں انہیں انگریزی، کمپیوٹراسکلز اور دیگرمضامین کی تیاری کروا کریونیرسٹی میں پڑھائے جانے والے دیگر کورسز میں داخلہ لینے کی اہلیت پیدا کی جاتی ہے اور یہ کورس خالصتاً فارغین مدارس کیلئے ہے۔

میں شازصاحب کا مداح ہوں اور نہ میرا ان سے اس وقت کوئی رابطہ ہے۔ وہ علیگڑھ میں شاید مجھ سے چند سال جونئر تھے۔ اس کے بعد ان کے ساتھ آخری اتفاقی ملاقات لندن میں ۹۰ کی دہائی میں ہوئی تھی جب وہ یہاں اپنی پی ایچ ڈی کیلئے مواد جمع کرنے کی غرض سے آئے تھے۔

میں نے ان کی زیادہ تحریریں نہیں پڑھی ہیں لہٰذا میں ان پریا ان پرکئے گئے اعتراضات پررائے بھی نہیں دے سکتا۔ جو کچھ پڑھا ہے ان میں ان کی تعلی پسندی سے سخت الجھن ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کی مدلل بات میں بھی کہیں کہیں ہلکا پن محسوص ہوتا ہے۔ بہر حال میں اس بات کا اعتراف بلا تردد کرتا ہوں کہ ان کی تقریروں اور تحریروں سے دین اور ملت کیلئے ان کا اخلاص اور گہرا تفکر واضح طورپر ابھرکر آتا ہے۔ خیالات سے اتفاق یا اختلاف اپنی جگہ۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے یہ جملے بہت سے دوستوں پر گراں گزریں گے۔ مگر حق بات کہی جانی چاہئے اور حق یہی ہے کہ جو بہت سے الزامات شاز صاحب پر لگائے گئے ہیں وہ صرف اور صرف ہماری روایتی شدت پسندی کا نتیجہ ہیں۔

شازصاحب کو برج کورس سے ہٹائے جانے کی خبر سے ان کے بہت سے ناقدین اور بدخواہ یقیناً بہت خوش ہوں گے۔ کوئی بھی شخص ناگزیر نہیں ہوتا اور شاز صاحب کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے سے نہ برج کورس بند ہو گا اور نہ فوری طور پر اس میں کوئی تبدیلی آئے گی۔  مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی کام سلیقے سے کرنے کیلئے اسے ایک مشن کے طورپر کرنا ضروری ہے اور شازصاحب نے فارغین مدارس کی مدد کیلئے برج کورس کو مشن کی طرح چلایا ہے اور اس میں اپنا خون جگر صرف کیا ہے۔جس کا اعتراف ان کے تمام شاگرد بلا تکلف کرتے ہیں۔

شاز صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ ایک چھت کے نیچے تمام مسالک کے مدارس کے فارغین کو ایک دوسرے کو برداشت کرنے اورشریفانہ انداز میں اپنی بات رکھنے کا سلیقہ سکھا دیتے ہیں۔ اعتراض کرنے والے ابھی تک مثال دے کر یہ نہیں بتا سکے کہ شاز صاحب نے کون کون سے طالب علم کو بے دین بنا دیا ہے۔

وائس چانسلر طارق منصورصاحب اپنی بی جے پی دوستی کیلئے کافی نام کما چکے ہیں۔ ممکن ہے کہ آہستہ آہستہ برج کورس میں طلبا کی تعدا کو کم کرکے یا بہت سے کورسزکا دروازہ ان کیلئے بند کرکے کسی وقت اس کورس کو مکمل طور پر بند ہی کردیا جائے۔

بدقسمتی سے مسلمانوں میں بی جے پی کی فسطائی حکومت کو خوش کرنے کی دوڑ لگی ہے اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی انتظامیہ اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتی۔ بظاہر برج کورس کے ڈائرکٹر کی تبدیلی کوئی اتنا بڑا واقعہ نہیں ہے مگر فی الحقیقت یہ یونیورسٹی کے بھگوا کرن کی جانب ایک قدم ہے۔

ایک بات جو لازمی طورپر کہی جانی چاہئے وہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اولڈ بوائز اور اے ایم یو اولڈ بوائزایشی سی ایشنز ہیں جن کا کام خاص مواقع پرجمع ہوجانا اور یونیورسٹی ترانہ گا کر ڈنرکھانا رہ گیا ہے۔ اس وقت وائس چانسلرطارق منصور صاحب امریکہ میں موجود ہیں۔ مادر علمی کے ذمہ دار کی حیثیت سے ان کی جتنی ضیافت اور عزت افزائی کی جائے کم ہے مگر ساتھ میں اولڈ بوائز پر مادرعلمی کا قرض ہے کہ وہ وائس چانسلر صاحب کی ان کے غلط اقدامات پر خبر لے ڈالیں اور ممکن ہو تو امریکہ کی یونیورسٹیوں میں طلبا کی سیاسی سرگرمیاں بھی دکھا دیں کہ ایک آزاد قوم اپنے تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور طلبا کو کیسی آزادی دیتی ہے۔

2 Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.