محمد غزالی خان
انگریزی پڑھنے والی مسلمانان ہند کی وہ نسل جو 70 اور 80 کی دہائی تک سن شعور میں پہنچ گئی تھی اسے اچھی طرح یا د ہو گا کہ یہ وہ دور تھا جب انگریزی کے کسی روز نامے یا جریدے میں مسلمانوں سے متعلق کوئی خبر مشکل ہی سے نظر آتی تھی اور مسلمانوں کے مضامین تو کیا کوئی چھوٹا موٹات خط بھی کئی کئی ماہ بعد شاذو نادر ہی نظر آتا تھا۔انگریزی میں لکھنے والے ایک دو نام تھے جن کااندازمسلمانوں کے تعلق سے نہایت متاسفانہ اور معذرت خواہانہ ہوتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب سیکولرزم کے تمام تقاضے عید کا چاند دیکھے جانے کے بعد دور درشن پر فلم برسات کی رات کا گانا ،’’مجھے تو مل گیا بہانہ تیرے دید کا‘‘ چلا کر اور اگلے روز جامع مسجد دہلی میں عید کی نماز کا ایک منظر اور کسی کنبے کو سویاں کھاتے ہوئے دکھا کر پورے کر دئے جاتے تھے۔
پھر دیکھتے دیکھتے اچانک سید شہاب الدین )پیدائش 4 نومبر 1935 متوفی 7 مارچ (2017 کا نام کبھی اِس اخبار میں تو کبھی اُس اخبار میں۔ کبھی مضمون کی شکل میں تو کبھی خطوط کے کالم میں نظر آنا ایک معمول سا بن گیاتھا۔ پہلی مرتبہ شہاب الدین صاحب کا جو مضمون میں نے پڑھا تھا وہ آنجہانی خشونت سنگھ کے شروع کئے گئے رسالے New Delhi میں شائع ہوا تھا۔ یہ مضمون آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر کے مدیر کے آر ملکانی کے مضمون “Hindus and Muslims a question of different wave lengths” (ہندو اور مسلمان، دو سوچوں کا تضاد) کے ساتھ جواب کی شکل میں “Come out of your shell, Mr Malkani” (ملکانی صاحب اپنے لبادے سے باہر آئیے) کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد میں سید صاحب کی تحریروں کو بہت شوق سے پڑھنے لگا ۔جب انھوں نے مسلم انڈیا شروع کیا تو باقاعدگی سے خریدنا شروع کردیا۔
شہاب الدین صاحب سے میری پہلی ملاقات 1981 میں ہوئی تھی جب اے ایم یو کورٹ کی میٹنگ میں شرکت کی غرض سے علیگڑھ تشریف لائے ہوئے تھے اور ہم انہیں اپنے ہاسٹل کے سالانہ ڈنر پر مہمان خصوصی کے طور پر دعوت دینا چاہتے تھے۔ میٹنگ شروع ہونے سے کچھ ہی دیر پہلے میں اور میرے ساتھی پی وی سی آفس پہنچ گئے اور ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک پرچی شہاب الدین صاحب کو بھجوائی۔ وہ فوراًہی ہم لوگوں سے ملاقات کیلئے باہر تشریف لے آئے اور ہماری دعوت قبول کرتے ہوئے کہا، ’’جب تم لوگ تاریخ طے کر لو مجھے ایک چٹھی ڈال دینا میں فوراً جواب دوں گا۔‘‘
میری دوسری ملاقات دہلی میں ان کی رہائش پر ہوئی۔ میں وقت سے کچھ دیر پہلے پہنچ گیا تھا اور شہاب الدین صاحب اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے۔ غالباً ان کی دختر نے دروازہ کھولا تھا اور مجھے ڈرائنگ روم میں انتظار کرنے کو کہا ۔ چند منٹوں میں شہاب الدین صاحب اپنی پرانی فیٹ سے تشریف لے آئے جسے خود چلا رہے تھے۔
سید صاحب کے ساتھ میری تیسری اور تفصیلی ملاقات لندن ہوئی جب میں نے امپیکٹ انٹرنیشنل کے لئے ان کا انٹرویو غالباً 1989 میں ان کے برادرنسبتی معروف آرتھو پیڈسٹ ڈاکٹر حسن مجید صاحب (مرحوم) کی رہائش گاہ پر لیا تھا۔
انٹر ویو کے بعد میں ہم دونوں شمالی لند سے سینٹرل لندن کیلئے ٹیکسی سے روانہ ہوئے جہاں سید صاحب کی ایک پریس کانفرنس ہونی تھی۔ راستے میں میں نے دیکھا کہ سید صاحب نے آنکھیں بند کیں اور آہستہ آہستہ کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے۔ ہو سکتا ہے کہ فرصت کے لمحات میں مالک کائنات کو یاد کرنے کا ان کا یہ معمول ہو۔ مگران کے گھر والوں کے علاوہ شاید ہی کبھی کسی نے ان کی شخصیت کا یہ پہلو دیکھا ہو۔
ان کی تحریریں اور تقاریر سید صاحب کے ہمت و عزم اور ملی محبت کا جیتا جاگتا ثبوت تھے۔ پھر بھی خاص طورپر مرادآباد کے 1980 کے بدنام زمانہ فساد کے بعد پارلیمنٹ میں کی گئی ان کی تقریر اور سنڈے میگزین میں لکھا گیا ان کا مضمون ان کی جرا ت کا بہترین نمونہ تھا۔
سفارت کاری جیسے با عزت اور پر کشش کیرےئر کوقربان کرکے سیاست میں آنے کے بعد سید صاحب نے اپنے آپ کو ملت کیلئے وقف کردیا تھا۔ میڈیا کے جارحانہ اورمخالف رویے کی پروا نہ کرتے ہوئے وہ مسلسل ملی مسائل پوری جرات مندی کے ساتھ بولتے اور لکھتے رہے۔ 80 کی دہائی میں انھوں نے تمام جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ کو یکجا کیا اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ مسلم مسائل کے تعلق سے ایک وفد کی شکل میں ملاقات کی ۔ اس موقع پر ٹائمز آف انڈیا میں لکھے گئے دھمکی آمیز اداریے کا عنوان ،”Playing with fire” (آگ کا کھیل ) مجھے ابھی تک یاد ہے جس میں حدف شہاب الدین صاحب ہی کو بنایا گیا تھا۔
کہتے ہیں کہ کسی کی ہمت و صبر کا اصل امتحان مشکل کی گھڑی میں ہوتا ہے۔ بظاہر اکلوتے جوان بیٹے کی امریکہ میں پر اسرار حالات میں موت سے زیادہ سخت وقت مرحوم کیلئے کون سا آیا ہو گا؟ مگر ایسے سانحے کے بعد بھی وہ بدستور پہلے کی طرح کام کرتے رہے۔
بحیثیت سفیر اور تین مرتبہ بحیثیت رکن پارلیمنٹ کے حیثیت سے کام کے دوران مرحوم کو سیولرازم کا نقاب پہنے بہت سے لوگوں کے بد نما اور اصل چہرے دیکھنے کا موقع ملا تھا اور شاید مودہ نام نہاد سیکولر جماعتوں سے وہ مایوس ہو چکے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مظفر نگر کے فسادات کے بعد راشٹریہ سہارا کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے مسلمانوں کو نئی حکمت عملی کا مشورہ دیا تھا۔
ؐؐؔ ملت کی یہ بھی عجیب بد نصیبی ہے کہ مولانا محمد علی جوہر ہوں یا شہاب الدین اپنے کسی مخلص قائدکو اس نے الزام لگائے بغیر نہیں چھوڑا۔ (مولانا محمد علی اور شہاب الدین صاحب میں ایک اور بات قدر مشترک ہے کہ دونوں کو انگریزی اور اردو دونوں پر عبول حاصل تھا اور دونوں نے جتنا لکھا ہے وہ کئی نئی توایک ضخیم کتاب کے برابر تو ہو گا مگر دونوں میں سے کسی کو بھی ایک کتاب مرتب کرنے کا وقت نہیں ملا)
ملی حقوق اور ملت کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف مسلسل جدو جہد اور تمام تر قربانیوں کے باوجودشہاب الدین صاحب پر مسلم انڈیا کے نام پر کروڑوں کا چندہ جمع کرنے جیسے الزام لگے۔ 80 کی دہائی میں ایک افواہ یہ بھی پھیلائی گئی کہ سید صاحب آر ایس ایس کے ایجنٹ تھے اوریہ کہ واجپائی انہیں اسی ایجنڈے کے تحت سیاست میں لائے تھے۔ ایک افواہ تو اس حد تک اڑائی گئی کہ آر ایس ایس کے قائدین کے گھروں میں سید صاحب کی تصویریں لگی ہیں۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ جس نو جوان مسلم صحافی نے ٹیلیگراف کے گپ شپ کے کالم میں یہ طنزیہ تحریر لکھی تھی اس نے بعد میں مجھے خود بتایاکہ یہ کام اس کاتھا۔ البتہ سید صاحب کے مخالفین کے نزدیک یہ بات صحیفہ آسمانی سے کم نہ تھی جسے خوب پھیلایا گیا اور کچھ اردو اخبارات بھی اس خبر کو استعمال کرنے میں پیچھے نہ رہے۔ ایک اور دوست ، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، نے اس سے بھی زیاد ہ مضحکہ خیز کہانی سنائی اور ان کا سورس کانگریس کی ایک معروف شخصیت تھی۔ اﷲ تعالیٰ میرے دوست کی مغفرت کرے بعد میں انھوں نے سید صاحب کے بارے میں اپنی رائے بدل لی تھی۔
افسوس کا مقام ہے کہ اپنے اور پرائے دونوں میں ہی سید صاحب کے بارے غلط فہمیوں کا شکار رہے۔ یہاں یر ایک دلچسپ واقع نقل کرنا بے جانہ ہو گا۔ میرے ایک بہت قریبی دوست دہلی کے پروفیسر ہلال احمد 2004 میں لندن کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ادارے اسکول آف آرینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے ایک مقالہ شہاب الدین صاحب کے مسلم انڈیا کے اداریوں کی بنیاد پر تحریر کیا اور اسے اپنے سپر وائزر کو دکھایا جو ہندوستان میں سیاسی اور سماجی حالات کے ماہرہیں۔ مقالہ پڑھنے کا بعد موصوف نے تبصرہ فرمایا ، ’’میں تو شہاب الدین کو ایک مسلم فرقہ پرست سمجھتا تھا اور پہلی مرتبہ ان کی تحریر کے اقتباسات پڑھے ہیں جن سے وہ ایک بہت بڑے سیاسی مفکر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔‘‘ شہاب الدین صاحب پر یہ مقالہ مشتاق مدنی صاحب کی مرتب کردہ کتاب Syed Shahabuddin Outstanding Voice of Muslim India میں شامل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر شہاب الدین صاحب اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرلیتے تو آخری ایام عیش و عشرت میں گزارتے۔ مگر اس کے بر عکس جیسا کہ ایک مضمون میں ڈاکٹر جاوید جمیل صاحب نے لکھا ہے کہ ایک موقع پر شہاب الدین صاحب نے ان سے کہا ،’’ڈاکٹر جمیل کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میرے پاس بہت دولت ہے؟ ہمارے یہاں ہفتہ میں صرف دو مرتبہ گوشت پکتا ہے ۔ اس لئے نہیں کہ ہمیں ایسا کرنے کا شوق ہے بلکہ ہماری اتنی ہی بساط ہے۔ او ر یہ پرانی فیٹ کارجو آفس کے باہر کھڑی ہے میری اتنی بھی گنجائش نہیں ہے کہ میں اسے ٹھیک کروا سکوں۔‘‘
اس مضمون کا اختتام میں سلمان خورشید صاحب کے ان جملوں کے ساتھ کرتا ہوں جو انھوں نے سید صاحب پر مندرجہ بالا کتاب کے اجرا ء کے وقت 2003 میں کہے تھے، ’’کچھ تنگ نظر لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے بابری مسجد اور مسلم پرسنل لاء جیسے مسائل گھٹیا سیاست کی غرض سے اٹھائے تھے۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جو استفادہ اُن (شہاب ادلین صاحب) سے حاصل کر سکتے تھے وہ ہم نہیں کر پائے۔ ‘‘ اس کے بعد شہاب الدین صاحب کی جانب رخ کر کے انھوں نے مزید کہا، ’’آپ پر ذور آواز اور واضح الفاظ میں اپنی بات کہتے ہیں۔ اگر کسی کو معلوم نہ ہو کہ آپ سفیر رہ چکے ہیں تو آپ کی شخصیت سے وہ کبھی اس بات کا اندازہ نہیں لگا پائے گا۔ آپ نے مردوں اور عورتوں کے دلوں پر حکمرانی کی ہے۔ آپ کی شکل میں ہمیں ایک قائد، ایک اعلیٰ مثال اور ایک رول ماڈل ملے ہیں ۔‘‘
اﷲ تعالیٰ مرحوم کی لغزشوں کا معاف فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے ۔ آمین
یہ مضمون جدید خبر 9 مارچ 2017 ، اسٹار نیوز اور ملت ٹائمز میں شائع ہو چکا ہے