محمد غزالی خان
وقف قانون پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور ان کے ساتھ حکومت کی کھلی دشمنی پر مبنی قانون کی بالخصوص دو شقوں پر بظاہر امید افزا تبصرے سے کچھ سکون کا سانس تو ضرور ملا ہے مگر ابھی پوری طرح امید وابستہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔
16 اپریل کو سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے خلاف دائر متعدد درخواستوں کی سماعت شروع کی۔ عدالت نے ایکٹ کی دو متنازع دفعات—وقف بورڈوں میں دو غیر مسلموں کی تقرری اور حکومت کو اراضی کی ملکیت کے تعین کے لیے اضافی اختیارات دینےپر آئندہ سماعت 5 مئی 2025 تک عبوری حکم امتناع جاری کیا ہے۔
اس قانون کو ہندوتوا حکومت کا مسلمانوں پر اب تک کا سب سے بڑا قانون سازی حملہ سمجھا جا رہا ہے، جو پارلیمنٹ میں بل پاس کر کے نافذ کیا گیا ہے۔
دینی امور میں ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے ادارے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے قانون پوری طرح واپس لئے جانے تک مسلمانوں سے پرامن احتجاج جاری رکھنے کی اپیل کی ہے۔دہلی، حیدرآباد، منگلور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے جاری ہیں۔
وقف کیا ہے؟
وقف ایک اسلامی نظم ہے جس کے تحت کسی جائیداد کو اللہ کے نام پر مستقل طور پر خیراتی یا مذہبی مقصد کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح وقف کی ہوئی جائداد اللہ کی ملکیت ہوجاتی ہے جسے نہ فروخت کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے غیر اسلامی مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ہندوستان میں وقف جائیدادوں کا رقبہ تقریباً 3.8 سے 3.9 ملین ایکڑ ہے، جن کی مالیت کا اندازہ تقریباً 1.2 لاکھ کروڑ روپئے (تقریباً 14.4 بلین امریکی ڈالر) لگایا جاتا ہے۔ ان میں قبرستان، مساجد، زرعی زمینیں، دکانیں اور رہائشی مکان شامل ہیں۔
وقف بورڈز: انتظامیہ اور بدعنوانی
ہر ریاست میں ایک وقف بورڈ ہوتا ہے، جس کے اراکین حکومت نامزد کرتی ہے ۔ ریاستی وقف بورڈوں کے اوپر مرکزی حکومت کا تشکیل شدہ ادارہ وقف کونسل ہوتا ہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو ریاستی بورڈ یا وقف کونسل کے اراکین کے انتخاب میں کوئی اختیار حاصل نہیں۔ یہ سب حکومت کے تشکیل شدہ ادارے ہیں۔
تمام سرکاری یا نیم سرکاری اداروں کی طرح وقف بورڈوں میں بھی بدعنوانی عام ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر ان جائیدادوں کا درست انتظام کیا جائے تو سالانہ کم از کم 1,405 کروڑ روپئے (تقریباً 169 ملین امریکی ڈالر) آمدنی حاصل ہو سکتی ہے، جب کہ 2023–24 میں تین ریاستوں سے مجموعی آمدنی صرف 1.26 کروڑ روپئے (تقریباً 1.5 لاکھ ڈالر) رہی۔ کئی ریاستوں میں تو کوئی آمدنی رپورٹ ہی نہیں ہوئی۔
سرکاری بیانیہ اور وقف کا استحصال
اگرچہ وقف بورڈ قانونی طور پر سرکاری ادارے ہیں، مگر مودی حکومت نے ان میں بدعنوانی کا الزام مسلمانوں پر عائد کر دیا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وقف بورڈ وں میں منتظمین بغیر کسی روک ٹوک کے کام کرتے ہیں اور جائیدادوں پر غیر قانونی قبضے کر لیتے ہیں۔
حکمراں جماعت بی جے پی یہ نے ایک جھوٹا پروپیگنڈا یہ کیا ہوا ہے کہ فوج اور ریلوے کے بعد وقف کے پاس ہندوستان سب سے زیادہ زمین وقف کے پاس ہے ۔ اس دعوے سے ایک تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ ہندوستان میں آج تک تمام سابقہ حکومتیں غیر معمولی مراعات دیتی چلی آئی ہیں۔ لیکن رکن پارلیمنٹ اور آل انڈیا اتحادالمسلمین رکن پارلیمنٹ اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی کے مطابق صرف چار ہندوستانی ریاستوں میں ہندو مندروں کے پاس 10 لاکھ ایکڑ سے زائد زمین موجود ہے۔ ان کے مطابق: ’تمل ناڈو میں مندروں اور مٹھوں کی زمین 4.78 لاکھ ایکڑ پر مشتمل ہے۔ آندھرا پردیش میں ہندو وقف کی زمین 4 لاکھ ایکڑ ہے۔ تلنگانہ میں 87,000 ایکڑ زمین ہندو وقف کے تحت ہے، جبکہ اوڈیشہ میں صرف 13 مندروں کے پاس 12,776 ایکڑ زمین ہے، جیسا کہ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (CAG) کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔ صرف یہ چار ریاستیں ہی مجموعی طور پر 10 لاکھ ایکڑ زمین پر محیط ہیں، اور میں نے ابھی اتر پردیش، مہاراشٹرا، بہار، بنگال، آسام اور جھارکھنڈ کو شامل بھی نہیں کیا ہے۔‘
جھوٹ کی انتہا کرتے ہوئے بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے یہ دعویٰ تک کرڈالا کہ ترکی، مصر اور عراق جیسے مسلم ممالک میں وقف کا کوئی وجود نہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام ممالک میں وقف ادارے موجود ہیں، اور ترکی میں تو ایک وقف میوزیم بھی قائم ہے۔
متنازع دفعات
نئے قانون میں “استعمال کے ذریعے وقف” waqf by user کی شق کو ختم کر دیا گیا ہے، جس کے تحت وہ جائیدادیں جو صدیوں سے دینی یا رفاہی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی تھیں، بغیر رجسٹریشن کے بھی وقف مانی جاتی تھیں۔ چونکہ وقف کی باقاعدہ رجسٹریشن 1954 میں شروع ہوئی، اس تبدیلی سے باقاعدہ رجسٹریشن شروع ہونے سے پہلے وقف کی گئی ہزاروں تاریخی مساجد اور جائیدادیں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ایک اور متنازع شق وقف بورڈ وں میں دو غیر مسلم افراد کی تقرری کی لازمی شرط ہے، جو کہ ہندوستان میں مذہبی اداروں کے خود مختار نظم کے اصول کے خلاف ہے۔ مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا کے صدر تسلیم رحمانی کے مطابق: ’ وقف بائی یوزر اور غیر مسلم اراکین کے علاوہ بھی کچھ نکات بہت بنیادی نوعیت کے ہیں مثلا ً قبائیلی علاقوں میں وقف کو ختم کرنا جہاں تقریباً ایک لاکھ اوقاف ہیں لکشدیپ وغیرہ جیسے مقامات ۔ دوسرے وقف املاک پہ مکمل طور پر آثار قدیمہ کا تصرف دینا جس میں سو سال سے پرانی تمام مساجد درگاہیں اور ان سے ملحق زمیں ہزاروں کی تعداد میں ہیں تیسرے اس قانون کے ذریعے تحفظ عبادتگاہ ایکٹ 1991 مکمل طور پر بے اثر ہوجاتا ہے اس سے بھی ایک ایک بڑا مسئلہ مستقبل میں ہو گا۔‘
مخالفت اور احتجاج
ہندوستان بھر میں اس قانون کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ 8 مئی کو پارلیمنٹ کے ایوان زیریں، لوک سبھا میں جب بل پیش کیا گیا تو نہ یہ کہ مسلم ارکان پارلیمنٹ بلکہ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم ارکان نے بھی بل کی شدید مخالفت کی۔ اپوزیشن اسے مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ امتیازی قانون قرار دے رہی ہے۔ حیدرآباد میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اسدالدین اویسی نے کہا:
“بابری مسجد اور تین طلاق پر فیصلے ہمارے خلاف گئے، پھر بھی ہم نے آئینی اصولوں کا احترام کیا۔ لیکن اب آپ اکثریت کے بل پر ہماری جائیدادیں چھیننا چاہتے ہیں، تو ہم عدالت گئے۔”
کانگریس کے رہنما اور سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے ایک ویڈیو بیان میں کہا:
’یہ اصلاح نہیں، انتقامی کارروائی ہے—سوچی سمجھی، وقت پر نپی تلی، اور آئینی لحاظ سے مشکوک۔‘
https://x.com/sambitswaraj/status/1907466815577710711?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1907466815577710711%7Ctwgr%5Eb0f7312925d0690e0c12abf51a7ae6181d4a3e9a%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fthewire.in%2Freligion%2Fturkeys-living-waqf-legacy-challenges-bjps-no-waqf-anywhere-claim
سیاسی تناظر
2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی حکومت مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے۔ اس کی متعدد مسلم مخالف چالوں میں گائے کے خود ساختہ محافظوں یا ’گاؤ رکشکوں‘ کے مسلمانوں پر اجتماعی تشدد پر معنی خیز خاموشی، مسلمانوں کے عائلی قوانین میں مداخلت ،بابری مسجد کے مقدمے میں سپریم کورٹ سے ہندوؤں کے حق میں فیصلہ دلوانا ، دستور ہند کی دفعہ 370 کو منسوخ کرکے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا اور اب اوقاف میں اصلاح کے نام پر مسلمانان ہند پر سب سے بڑا حملہ شامل ہے ۔ حکمراں جماعت کی جانب سے سوشل میڈیاپر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو فلم میں اعلان کردیا ہے کہ اگلا قدم مسلم پرسنل لاء کو ختم کرکے یکساں سول کوڈ کا نفاذ ہوگا۔
https://twitter.com/i/status/1913978464996073775
ناقدین کے مطابق وقف ایکٹ کا مقصد صرف وقف املاک پر قبضہ کرنا نہیں، بلکہ مسلمانوں کے آئینی حقوق اور اداروں پر ضرب لگانا ہے۔ یہ قانون حکمرانی سے زیادہ بی جے پی کی انتخابی سیاست کا حصہ لگتا ہے۔
ملت کو اب خواب غفلت سے بیدا ہوجانا چاہئے
وقف کا معاملہ ہی نہیں مسلمان تنظیموں کا کردار تمام ملی مسائل پر مایوس کن رہا ہے۔ وہ اس وقت متحرک ہوتی ہیں جب پانی سر سے گزرجاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ وقف بورڈز بدعنوانی کا گڑھ بن چکے ہیں۔ حالانکہ یہ ادارے قانونی طور پر سرکاری ہیں، لیکن ان کا مذہبی اور عملی تعلق صرف مسلمانوں سے ہے۔ اس کے باوجود ملی تنظیمیں کبھی سر جوڑ کر نہیں بیٹھیں کہ کوئی لائحہ عمل تیار کیا جا سکے اور حکومت کے سامنے سنجیدہ اور قابل عمل تجاویز پیش کی جاسکیں۔ خود کانگریسی دور حکومت میں اس کے اپنے قائم کردہ سچر کمیشن کی سفارشات پر عمل کرنے تک کا مطالبہ ان تنظیموں نے نہیں کیا۔
اگرچہ سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے نے وقتی راحت دے دی ہے ، اللہ کرے کہ وقف بل پر سپریم کورٹ کا تبصرہ محض ایک سراب ثابت نہ ہو۔ بہرحال، ایک پرانی کہاوت ہے: ‘دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ اسی لیے جب تک عدالت کا حتمی فیصلہ سامنے نہیں آجاتا، شکوک و شبہات اور خدشات کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اللہ کرے فیصلہ ہمارے حق میں آئے، لیکن گزشتہ چند برسوں میں اعلیٰ عدلیہ نے انصاف کے نام پر جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ اندیشہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کہیں جج صاحبان حکومت کو ناراض کئے بغیر عدلیہ کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی کوشش نہ کریں اور اس کے لئے ایسا راستہ نکالنے کی کوشش نہ کریں جس میں ’سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘ — یعنی حکومت بھی ناراض نہ ہو اور مسلمان بھی کسی حد تک مطمئن ہو جائیں۔
بظاہر ایسے متوازن فیصلے کے لیے عین ممکن ہے کہ وقف بورڈوں میں جاری بدعنوانی اور لوٹ مار کو جواز بنا کر وہی دلیل اپنائی جائے جو ہندوتوا حکومت نے اس سیاہ قانون کی تشکیل کے لئے پیش کی ہے۔ یوں امکان یہ بھی ہے کہ عدالت وقف بائی یوزر اور دو غیر مسلموں کی تقرری کو تو آئینی خلاف ورزی قرار دے دے، مگر باقی قانون کو جوں کا توں برقرار رکھے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو شاید اسے غنیمت ہی سمجھنا پڑے۔
سچ تو یہ ہے کہ جس انداز میں وقف کی املاک کو بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے، اور جس طرح وقف بورڈوں میں بدعنوانی رائج ہے، اسے دیکھ کر یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو اگلی دو تین دہائیوں میں مساجد اور مدارس کے سوا تمام وقف املاک صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں۔
ممکن ہے کچھ احباب کو میری بات مبالغہ آمیز محسوس ہو، مگر جن کا کسی وقف بورڈ، خصوصاً اترپردیش وقف بورڈ، سے سابقہ پڑا ہو، وہ میری بات کی تائید کریں گے۔ کیا خبر، ہندوتوا حکومت کی بدنیتی اور بددیانتی ہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس غافل ملت کو بیدار کر دے اور یوں یہ قیمتی ورثہ واقعی ملت کی فلاح کے لیے استعمال ہونے کی راہ پا جائے۔
اللہ کرے ملت اس سیاہ قانون کو واپس کروانے میں کامیاب ہو، مگر یاد رکھنا چاہیے کہ محض اس قانون کی واپسی کامیابی نہیں ہوگی۔ صرف وقف ہی نہیں، بلکہ ہر ملی ادارے میں شفافیت اور دیانت داری ناگزیر ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ان اداروں کے ذمہ داران یا ان پر قابض افراد واقعی ان اداروں کو ان کے اصل مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور ان میں شفافیت لانے پر آمادہ ہیں؟