سوشل میڈیا اور مسلمان

social media
محمد غزالی خان

ایک دوست نے اپنی فیس بک پر ایک تصویرشےئر کی ہے جس میں قرآن مجید کے دو نسخوں سے صورۃ النّساء کی بارہویں آیت والے حصے کا عکس دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک میں غالباً کتابت کی غلطی کی وجہ سے ’’مماترکنَ ‘‘ کے بجائے ’’مماترکتم‘‘ لکھا گیا ہے ۔ تصویر کے کیپشن میں لکھا گیا ہے ، ’’نیا چاپ اور پرانے چاپ میں فرق دیکھیں اور آگے بھی شےئر کریں تا کہ ہر کسی کو معلوم ہو سکے ۔‘‘ جس شخص نے اس پوسٹ کو سوشل میڈیا پر شائع کرنے کا کام کیا ہے اس نے مومنوں کو غیرت دلاتے ہوئے یہ تبصرہ بھی کیا ہے ، ’’شےئر نہ کرنا بھی گستاخی سے کم نہیں۔ میرا کام آپ تک پہنچانا تھا باقی آپ کی مرضی۔‘‘ اس سے موصوف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کسی نے ، نعوذبااﷲ ، قرآن کریم میں تحریف کرنے کی جسارت کی ہے۔ آج کل فوٹو شاپ کے ذریعے جس طرح سے تصاویر میں تبدیلی کر کے انہیں کچھ سے کچھ بنا دینا ممکن ہو گیا ہے اور جس طرح کی گمراہ کن تصاویر سوشل میڈیا کے ذریعہ پھیلائی جا رہی ہیں انہیں دیکھ کر یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ مبینہ تحریف کی حقیقت کیا ہے۔ بہر حال جن دوستوں نے اسے آگے بڑھا نے کا نیک فریضہ انجام دیا ہے انہیں اسے یا اس جیسی دوسری تصاویر کی تشہیر کرنے میں احتیاط برتنی چاہئے۔ جہاں تک مذکورہ تصویر کا تعلق ہے جس شخص نے بھی اس ’’سازش‘‘ کا پردہ فاش کیا ہے اس کا فرض تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ اسے پھیلانے سے پہلے اس ناشر سے یا جہاں سے یہ تحریف شدہ نسخہ شائع ہوا ہے اس شہر کی کسی ذمہ دار دینی شخصیت سے رابطہ کرتا اور اس مذموم حرکت کی جانب ان کی توجہ مبزول کراتا۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ یہ نا مکمل اور غیر مصدقہ پوسٹ انٹر نیٹ پر گردش کر رہی ہے۔

یہ محض ایک مثال ہے کہ ہماری قوم ابلاغ کے اس موثر ذریعہ کو کیسے بے سود کاموں کیلئے استعمال کر رہی ہے اور اپنا اور دوسروں کا کتنا قیمتی وقت اِن کاموں میں ضائع کر رہی ہے۔ جو قارئین سوشل میڈیا، بالخصوص فیس بک، استعمال کرتے ہیں انہیں سوشل میڈیا کے ایسے بے سود اور بیکار استعمال کا تجربہ مستقل ہو رہا ہو گا۔ ابلاغ کا جو ذریعہ دین و دنیا کے علم اور معلومات کے حصول و فروغ اور با مقصد تبادلہ خیالات کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے تھا وہ محض جذباتیت اور کچھ کئے بغیر ثواب حاصل کرنے کی کوشش میں استعمال ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر بار بار خانہ کعبہ کی مختلف تصاویراس تبصرے کے ساتھ پوسٹ کی جا رہی ہیں کہ ’’کوئی بد نصیب ہی ہو گا جو اسے شےئر نہ کرے‘‘۔ یا ایک خوبصورت گلدستے کے بیچ ’’محمد‘‘ لکھ کر پوچھا جاتا ہے کہ’’ کیا کوئی دل ایسا بھی ہو گا جس میں اس نام کی محبت نہ ہو؟‘‘ اس قسم کی پوسٹس میں یہ تاکید تو ضرور ہوتی ہے کہ ، ’’جب آپ اسے شےئر کرنے لگیں گے تو شیطان آپ کو روکے گا۔‘‘

2004 کے سونامی میں انڈونیشیا کے ایک شہر میں بغیر کسی نقصان کے بچ رہ جانے والی مسجد کی وہ تصویر جس کے اطراف میں سب کچھ تباہ ہو گیا تھا، تقریباً دنیا میں کہیں بھی طوفان اور زلزلہ آجانے کے بعد سوشل میڈیا پر نمودار ہو جاتی ہے اور اس مسجدکو اس نئے مصیبت زدہ شہر سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ روضہ روسول ﷺ کے اندر کی تصویر کی زیارت تو شاید انٹر نیٹ استعمال کرنے والے ہر شخص نے کر لی ہو گی۔ جبکہ وہاں تصاویر لینا تو کجا کسی کا داخلہ تک ممنوع ہے۔ غیر مصدقہ اور فوٹو شاپ کی گئی تصاویر اور ان کے بارے میں طرح طرح کی ان کہانیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جوسوشل میڈیاپر گشت کررہی ہیں۔ ثواب حاصل کرنے کی غرض سے ہر تھوڑے دن بعد کسی مرد مومن کا جذبہ ایمانی جوش مارتا ہے اور وہ فوراً ان میں سے کسی ایک تصویر کو فیس بک پر پوسٹ کردیتا ہے یا اپنے دوستوں کو ای میل کے ذریعہ ارسال کر دیتا ہے۔ اب ذرا کوئی بتائے کہ اس قسم کی پوسٹس سے کس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے اوردین کی کون سی خدمت ہوتی ہے؟ کیا اسلام کی حقانیت اور اﷲکے رسول پر ایمان لانے کے لئے اﷲ کی کتاب اور احادیث رسول ﷺ کافی نہیں کہ ہمیں بے بنیاد اور من گھڑت کہانیوں کی ضرورت پڑے؟

حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ کام کم عمر اور نا پختہ سوچ والے نوجوان اور بچے نہیں بلکہ بہت سے معمر اور پڑھے لکھے لوگ کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک دوست نے ایک تصویر پوسٹ کی جس میں دکھا یا گیا تھا کہ ریل گاڑی کے ایک ڈبے میں نماز کے لئے ایک حصہ مخصوص کیا گیا ہے۔ غالباً یہ کسی مسلم ملک کی ریل کی تصویر تھی مگر بتایا یہ گیا کہ یہ سہولت برطانیہ کی ایک ٹرین میں فراہم کی گئی ہے۔تصویر کے ساتھ لگے کیپشن میں مسلم ممالک کو شرم دلائی گئی تھی کہ ایک غیر مسلم ملک میں اہل ایمان کے لئے اتنا اچھا انتظام موجود ہے جو کسی بھی مسلم ملک میں موجود نہیں ہے۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پوسٹ کو آگے بڑھانے کا کام لندن میں رہنے والی ایک تجربہ کار اور تعلیم یافتہ شخصیت نے کیا تھا۔

دوسری پوسٹ یو ٹیوب سے لی گئی ایک ویڈیو کلپ تھی جس میں کسی یورپی ملک میں چند سیاح، اور شاید کچھ مقامی لوگ ،ایک مسجد کی تصاویر لے رہے ہیں اور مسجد سے اذان کی آواز آ رہی ہے ۔ اس کے بارے میں بتایاگیا تھا کہ برسوں پہلے حکومت نے ’’اس مسجد میں نماز اور اذان پر پابندی لگادی تھی اور اچانک ایک دن اس میں سے اذان کی آواز آنے لگی۔ مقامی لوگ حیرت زدہ ہو کر مسجد کے باہر اذان سن رہے ہیں‘‘۔ اب اسے اس ملت کی بدنصیبی کے علاوہ اور کیا کہا جائے کہ جن لوگوں نے یوروپ میں زندگیاں گزاردیں وہ یہ ویڈیو کلپ فیس بک پر پوسٹ کر کے ثواب حاصل کر رہے تھے۔ بادلوں میں کلمہ لکھا ہوا اور آسمان پر اﷲ اور محمد ﷺ کے نام نمودار ہونے کی تصاویر تو یقیناًہر فیس بک استعمال کرنے والے نے دیکھی ہوں گی۔

یہ تو فیس بک کی بات تھی۔ مسلمانوں کیلئے شاید سب سے بڑا فتنہ یو ٹیوب ہے۔ یو ٹیوب ایک ایسی سہولت ہے جس میں لوگ مختلف قسم کے ویڈیو بنا کر پوسٹ کرتے ہیں اور کوئی بھی وہ شخص جو انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے وہاں ویڈیو کلپس کو دیکھ سکتاہے یا خود اپنی ویڈیو بنا کر پوسٹ کر سکتاہے ۔ ظاہر ہے یوں تو یو ٹیوب ہر قسم کے لوگ ہر طرح کے جائز اور نا جائز کاموں کے لئے استعمال کررہے ہیں۔کچھ مخلص اور اہل علم لوگ اسے دعوت و تبلیغ اور اسلا م کے بارے میں کئے جانے والے شر انگیز اور گمراہ کن پروپیگنڈے کو رد کرنے کے لئے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ مگر بہت سے ایسے ’’علما‘‘ بھی موجود ہیں (انہیں عالم کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ) جواسے محض نفرتیں پھیلانے ، ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے جاری کرنے ، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑانے اور زمین پر فساد بر پا کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

عام طور پر القاعدہ اور داعش جیسے گروہوں پر تکفیری ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے مگر’’یوٹیوب علما‘‘ کی جارحانہ اور زہریلی تقاریر سن کر تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا ہر فرقہ تکفیری ہے اور اگران سب کی بات مان لی جائے تو یقین کرنا پڑے گا کہ روئے زمین پر کوئی مسلمان بستا ہی نہیں۔ علم کے فروغ میں حصہ لینے اور آپسی اتفاق کیلئے مثبت تحقیقی کام کرنے کے بجائے یہ حضرات برسہابرس پرانی وہ تحریریں نکال نکال کر لا رہے ہیں جو لائبریریوں اور مدارس میں گرد چاٹ رہی تھیں اورجن کا عام مسلمان کو نہ تو علم تھا اور نہ اس کی وجہ سے دینی یا دنیاوی اعتبار سے ان کی زندگیوں پر کوئی اثر پڑ رہا تھا۔ اسوہ رسول ﷺ اور سیرت صحابہ پر تحقیقی کام کرنے اور نبی آخرالزماںﷺ کے نوجوان امتیوں کی کردار سازی کرنے کے بجائے مسلکی عصبیتوں اور نفرتوں سے پُر، خود پسندی ، خود توصیفی اور ذاتی انا کے مظہر، تلخی اور کرختگی کے یہ پیکرکاش ریکارڈ کروانے کے بعد اپنے ویڈیو خود سن اور دیکھ لیتے اور سیرت مصطفی ﷺ کی روشنی میں ایمانداری کے ساتھ اپنے افکار کا جائزہ لے لیتے اور اپنے آپ سے سوال کرلیتے کہ کیا ایک داعی دین کا یہی شیوہ ہوتا ہے جس کے یہ مرتکب ہو رہے ہیں؟کیا ایسا غیر مہذب لب و لہجہ اختیار کر کے یہ لوگ کسی کو اپنی بات سے متاثر کر سکتے ہیں؟ ان کی علمیت اور تقوے کا عالم یہ ہے کہ ایک فرقے کی نہایت معروف شخصیت، جو بدزبانی اور بدکلامی میں اپنی مثال آپ ہیں، سے جب ان کے معتقدین نے ان کے اپنے ٹیلی ویژن چینل پر سوال کیا کہ ’’حضرت ! آپ کی یہ مصروفیت اور دن رات جلسوں اور محفلوں میں آپ کی مستقل شرکت، تو آپ مطالعے کے لئے وقت کیسے نکالتے ہیں؟‘‘ جواب میں جو کچھ میاں صاحب نے چہرے یربہت بڑی فخریہ اور فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا وہ یہ تھا، ’’سچ بات بتادوں؟ میں پڑھتا ہی نہیں۔‘‘ یہاں پر کسی کی دل آزاری کرنا مقصود نہیں، حقیقت یہ ہے کہ جس قسم کی تقاریر یہ حضرت فرماتے ہیں ان کے لئے انہیں پڑھنے کی واقعی کوئی ضرورت نہیں۔ اور اس پر اندھے مقلد واہ واہ اور سبحان اﷲ کہہ کر حضرت کو داد دے کر ثواب حاصل کرتے رہتے ہیں۔

ایک دوسرے صاحب ، جن کا تعلق مخالف مسلک سے ہے اور بد زبانی اور تلخ بیانی ان کا بھی طرّہ امتیاز ہے، اپنے ایک بیان میں فرما رہے ہیں، ’’میرا علاج کیا ہوا، تڑپتا ہے! ‘‘ حضرت! اﷲ آپ کے حال پر رحم فرمائے، کوئی معالج مریض کو آرام پہنچاتا ہے یا اسے تڑپاتا ہے؟ بہرحال شکر ہے کہ آپ کو اس تکلیف کا تو احساس ہے جو آپ کے مخاطبین کوآپ کی بدزبانی سے ہوتی ہو گی۔ اب ذرا اپنی اس کمزوری کا علاج بھی فرمالیں ۔ اس سے شاید آپ اپنی صحیح بات موثر اور داعیانہ انداز میں سمجھا سکیں۔ منفی طریقہ اختیار کر کے تو آپ صرف لوگوں میں ضد پیدا کر سکتے ہیں۔جس جذبے کے ساتھ آپ احادیث کا حوالہ دیتے ہیں وہ قابل ستائش ہے مگر کاش آپ ان احادیث پر بھی غور فرمالیتے جن میں آپﷺ نے اعلیٰ اخلاق پر زور دیا ہے۔

سوشل میڈیا میں تیسری سہولت yahoogroups یا googlegroups ہیں۔ ایسے گروپس کوئی ایک فرد یا ٹیم چلاتے ہیں جنہیں moderator کہا جاتا ہے۔ یہ گروپس الیکٹرانک چوپال کا کردار ادا کرتے ہیں جن میں شرکاء دنیا کے مختلف شہروں اور ممالک میں بیٹھے ہوتے ہیں اور مختلف موضوعات اور مسائل پر اپنی آراء کا اظہار کرتے ہیں یا ایسے مضامین دوسرے شرکاء کے ساتھ شےئر کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں جو انھوں نے انٹرنیٹ پر پڑھے ہوتے ہیں۔مفید اور معلوماتی مضامین کے تبادلے اور تہذیب کے دائرے میں اظہار رائے کی حد تک تویہ ایک بہت مفید ذریعہ ہے مگر جب کسی حساس مسئلے پر بحث شروع ہو جائے تو وقت برباد کرنے کا بد ترین شغل ہے۔ کسی بھی محفل کو مہذب رکھنے کے لئے شرم اور آنکھ کے لحاظ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ مگر انٹرنیٹ گروپس میں شرکاء چونکہ صرف ای میل کے ذریعہ حصہ لیتے ہیں لہٰذا آنکھ کے لحاظ کا کوئی رول اس میں نہیں ہوتا۔ اگرچہ چند ایک کے علاوہ شرکا ء کی کبھی ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات نہیں ہوتی پھر بھی کچھ عرصے تک کسی گروپ میں شرکت کے بعد ایک دوسرے کے خیالات اور اور شخصیت کا بخوبی اندارہ ہو جاتا ہے۔ البتہ کچھ کردار اتنے پر اسرار ہوتے ہیں کہ کئی کئی سال بعد بھی ان کی اصلیت کا پتہ نہیں چل پاتا ۔

بہت سے دیگر فرقوں اور قوموں کی طرح ہندوستانی مسلمانوں کے بھی متعدد انٹرنیٹ گروپس موجود ہیں مثلاً
AMUnetwork@yahoogroups, Worldofaligs@yahoogroups, Aligarhforum@yahoogroups, Aligarhnetwork@yahoogroups, Indianmuslims@yahoogroups, Muslimindians@yahoogroups and NRIndians@googlegropusوغیرہ ۔

ان گروپس نے پڑھے لکھے ہندوستانی مسلمانوں کو مختلف موضوعات پر آزادانہ تبادلہ خیالات کے لئے اہم پلیٹ فارم فراہم کئے ہیں۔ مگر شاید صرف علیگڑھ فورم ، اے ایم یو نیٹ ورک اور ورلڈ آف علیگزصرف تین ایسے گروپس ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو نشستند، گفتندبرخاستند تک محدود رکھنے کے بجائے مستحق اور ہونہار طلبا اور طالبات کو وظائف دینے کی خدمت بھی انجام دی ہے۔ یہاں پران گروپوں کا مختصر تعارف نہ کروانا ان کے ساتھ زیادتی ہو گی۔

علیگڑھ فورم ڈاکٹر رضی رضی الدین صاحب ، جو واشنگٹن میں ایک سائنس داں ہیں، چلاتے ہیں۔وہ اس گروپ کے ذریعہ ملک کی ایسی مختلف تنظیموں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں جو ہونہار مگر مالی طور پر نہایت مجبور طلبا کی فیس ادا کرنے ، نوجوانوں کی روز گار میں رہنمائی اور مختلف شعبہ جات کے امتحانا ت کی تیاری کر واتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق رضی صاحب کے نئے منصوبوں میں اعظم گڑھ میں ایک ڈگری کالج کا قیام ہے۔ رضی صاحب کا آبائی وطن اعظم گڑھ ہے۔

ورلڈ آف علیگز، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی طلبا یونین کے سابق صدر اور سینئر سرجن ڈاکٹرمحسن رضا صاحب چلاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج میں بحیثیت استاد کام کرنے کے علاوہ ایران اور عمان میں کئی سال بحیثیت سرجن کام کر چکے ہیں۔ وہ مسلمان طلبا کے لئے وظائف کا کام 1971 سے کر رہے ہیں۔گزشتہ سال بھی ورلڈ آف علیگز نے 130 وظائف دےئے تھے جن میں تین آئی آئی ٹی طلبا، مدارس کے فارغ 48 طلبا جنہوں نے علیگڑھ میں مختلف کورسوں میں داخلے لئے تھے اور 42 طلبا و طالبات کی ہاسٹل اور کھانے کی ایک سال کی فیس کی ادائیگی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کینسر، بطور خاص خواتین میں پستان کے کینسر، سے متعلق عوام میں آگہی پیدا کرنے سے متعلق ایک منصوبے سے جڑے ہیں اوراس سلسلے میں اب تک علیگڑھ کے اطراف میں بہت سے کیمپوں کا اہتمام کر چکے ہیں۔

اے ایم یو نیٹ ورک کو ڈاکٹر شہیر صاحب اور افضل عثمانی صاحب چلاتے ہیں۔ یہ دونوں حضرات بھی امریکہ میں بحیثیت سائنس داں کام کرتے ہیں۔ افضل صاحب کا تعلق اعظم گڑھ سے اور شہیر صاحب کا تعلق شاہجہاں پورسے ہے۔

ان تمام گروپوں میں ہندوستان اور بین الاقوامی اور ملی سیاست سے لے کر ہر طرح کے موضوعات پرآزادانہ بحث ہوتی ہے۔ اب تک ان سب نے اپنے آپ کو مسلکی اختلافات اور فقہی مباحث سے دور رکھا ہے۔ البتہ این آر اینڈینز اپنے آپ کو ان اختلافات اور نیم ملاؤں کے اختلافات اور بحثوں میں الجھنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بدمزگی اور گندگی سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکا ہے۔باوجود اس کے کہ یہ سب سے زیادہ فعال اور شاید سب سے بڑا گروپ ہے، جس میں سابق وزیرسلمان خورشیدصاحب ، مدیر ملی گزٹ ڈاکٹر ظفرالاسلام خان صاحب، صدر مسلم مجلس مشاورت نوید حامد صاحب اور کمال فاروقی صاحب سمیت بہت سی مسلمان شخصیات شامل ہیں، اس کے ماڈریٹر پاشا پٹیل صاحب کی شناخت ہنوز ایک معمہ ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک فرضی نام ہے۔ بار بار پوچھنے پر بھی پاشا صاحب اپنے آپ کو پردے میں رکھے ہوئے ہیں۔

بہر حال ان انٹرنیٹ گروپوں کی فعالیت اور افادیت یا ان کا موازنہ کرنا ہمارامقصود نہیں۔ یہ موازنہ برسبیل تذکرہ ہو گیا ورنہ اصل مقصد سوشل میڈیا کے غلط اور غیر ذمہ دارانہ استعمال کی طرف توجہ دلانا تھا کیونکہ عام طور پر والدین اور بڑے اس بارے میں تو متفکر رہتے ہیں کہ بچے انٹر نیٹ کے ذریعے غلط لوگوں کے رابطے میں نہ آجائیں یا غلط ویب سائٹس پر نہ چلے جائیں مگر خود بالغ و عاقل لوگ کس نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ اس کاناجائز استعمال کرتے ہیں اس کا انہیں احساس تک نہیں ہوتا۔

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.