محمد غزالی خان
لندن: پارلیمنٹ اسکوائرپر مہاتما گاندھی کے مجسمے کے سامنے شہری ترمیمی بل اور این آر سی کے خلاف طلبائے قدیم علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا کامیاب مظاہرہ صرف ان لوگوں کیلئے ہی باعث حیرت نہیں ہو گا جو ان دونوں دانش گاہوں کے فارغین کی انجمنوں کے کلچر سے واقف ہیں بلکہ یہ اُس دبے ہوئے غصے کا ثبوت بھی ہے جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہندوستانیوں، بلخصوص ہندوستانی مسلمانوں کے سینوں میں مودی اور امت شاہ کے جنون اور بی جے پی کی فسطائیت کے خلاف سلگ رہا ہے۔
ان دونوں اداروں کے قیام کے پس منظر اور اس سے جڑی سیاسی تاریخ ، تحریک اور فکر کے باوجود ان کے طلبائے قدیم کی انجمنوں میں کسی ایسے مسئلے پر تبصرہ کرنا یا کسی ایسی تحریک میں شامل ہونا جسے سیاسی مسئلے سے تعبیر کیا جا سکتا ہو، بزدلی کی حد تک غیر ضروری احتیاط کا ایک کلچرموجود ہے۔
تاہم آج کے مظاہرے میں نہ یہ کہ انہوں نے بھاری تعداد میں حصہ لیا بلکہ مسلسل بارش کے باوجود دو گھنٹے سے زیادہ جم کر نعرے بازی کی جس میں ہندوتوا، بی جے پی اور فسطائیت مخالف نعروں کے علاوہ ’آزادی‘ اور ’انقلاب ‘ کے وہ نعرے بھی شامل تھے جو اس وقت پورے ہندوستان میں لگائے جا رہے ہیں۔
منتظمین کی جانب سے ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا گیا ہے جس میں جامعہ اور اے ایم یو کے طلبا کے ساتھ اظہاریکجہتی کیا گیا ہے اور پرامن احتجاج کے ان کے حق کی حمایت کی گئی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ، ’ہم جے ایم آئی، اے ایم یو اور دیگر [مقامات پر ہونے والے] پر امن احتجاج پر کی جانے والے پولیس کی بربریت کی شدت کے ساتھ مذمت کرتے ہیں۔ اس میں غیرمتناسب طاقت کا استعمال، تشدد، آنسو گیس اور نہتے طالب علموں پرفائرنگ شامل ہیں۔‘
بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے: تفرقہ انگیزاین آرسی اور سی اے اے کو ختم کیا جائے، جے ایم آئی اور اے ایم یو میں پولیس کی ذیادتی کی غیرجانب دارانہ عدالتی تحقیق کروائی جائے، قصوروار پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی جائے، اور ہندوستا ن بھر میں انٹرنیٹ بحال کیا جائے۔
مظاہرے میں حقوق انسانی کی تنظیم ساؤتھ ایشیا سالیڈارٹی گروپ سمیت بہت سی تنظیموں نے شرکت کی۔
جامعہ کے دہلی میں ہونے کی وجہ سے مودی حکومت وہاں کی خبروں کو نہیں روک پائی مگر اب آہستہ آہستہ جو خبریں علیگڑھ سے آنا شروع ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جس بربریت اورسفاکی کو مظاہرہ پولیس نے وہاں کیا ہے وہ جامعہ میں ہونے والے ظلم سے بہت زیادہ ہے۔