لندن میں آلڈوچ کا علاقہ ’مودی کی جاگیرنہیں ہندوستان ہمارا ہے‘ کے نعروں سے گونج اٹھا

محمد غزالی خان

لندن: شدید سردی اوربارش کا مقابلہ کرتے ہوئے سیکڑوں مظاہرین نے بدھ کے روز یہاں ہندستانی سفارت خانے کے سامنے ہندوستان میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف شدید احتجاج کیا۔

مظاہرین ہاتھوں میں مختلف پیغامات والے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے اور ہندوتوا، برہمن واد اورزات پات کے خلاف ہندوستانی، ملیالم اور انگریزی میں فلک شگاف لگا رہے تھے۔ مختلف مذاہب، علاقوں اور لسانیتوں سے تعلق رکھنے والے اس اجتماع سے مختلف تنظیموں کے ذمہ داران نے خطاب کیا اورمودی حکومت کی فسطائ پالیسیوں کی سخت مذمت کی۔

اس کوشش میں کہ مظاہرین کی اکثریت انڈیا ہاؤس کے سامنے اور نزدیک رہے مگر رہ گیروں کیلئے بھی رکاوٹ نہ پیدا ہو، مظاہرین نے سڑک کے دونوں جانب قطاریں بنائی ہوئی تھیں۔

جو نعرے مظاہرے میں لگائے گئے ان میں یہ شامل تھے: ’مودی کی جاگیر نہیں ہندوستان ہمارا ہے‘؛ ’ہم لے کے رہیں گے آزادی‘؛ ’تم مانو گے کیسے نہ، ہم چھین کے لیں گے آزادی‘؛ ’این آرسی سے آزادی‘؛ ’امت شاہ سے آزادی‘؛ ’آج ہڑتال کر ہڑتال، نا مانے تو ڈیرا ڈال‘ اور ’انقلاب زندہ باد‘

اس مظاہرے کا اہتمام حقوق انسانی کی تنظیم ساؤتھ ایشیا سالیڈارٹی گروپ اور سواس انڈیا سوسائٹی، جو اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز، یونیورسٹی آف لندن، کے ہندوستانی طالب علموں کی نمائندہ تنظیم ہے، نے کیا تھا۔

منتظیم کی جانب سے جاری کئے گئے ایک اخباری بیان میں کہا گیا ہے کہ، ’ہندوستانی پارلیمنٹ میں حال میں منظور کیا گیا شہری ترمیمی بل ہندوستانی شہریت کی بنیاد پرحملہ ہے۔ اس قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے مہاجرین کو اس بنیاد پر شہری بننے کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ ہندو، سکھ، پارسی، جین یا عیسائیت میں سے کسی بھی مذہب کو ماننے والے ہوں۔ [اوراسطرح] ہندوستانی شہریت کو واضح طورپر مذہب سے جوڑکر اور نمایاں طورپر مسلمانوں کو اس سے الگ کر نے سے اس قانون کا مقصد ہندوستانی آئین کے سیکولرکردارکو مسخ کرنا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے خود بیان کردہ ہندو راشٹریہ کے خواب کی تکمیل کیلئے قانونی بنیاد فراہم کرنا ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ شہریت کے اس نئے اصول سے، ’ہندوستان کے 200 ملین مسلمانوں کو ووٹ کے حق سے محروم کئے جانے کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ این آرسی کیلئے شہریوں کو دستاویزات پیش کر کے کئی نسلوں پہلے سے اپنی حیثیت ثابت کرنی پڑے گی۔ آسام کے تجربے کی روشنی میں، جہاں یہ مشق کی جا چکی ہے، اس طریقہ کار سے عام شہریوں کو ہراساں اور پریشان کیا جائے گا، بطورخاص انہیں جو غریب ہیں اور حاشیے پرہیں اور جن کے پاس ضروری کاغذات نہیں ہیں۔ اب جبکہ حکومت پورے ملک میں این آرسی کا نفاذ کرنا چاہ رہی ہے اورسی اے اے کے ذریعے ہندوؤں کی اس بڑی تعداد کو شہریت دینا چاہ رہی ہے جواین آرسی کے اس عمل کی زد میں آئیں گے، اس عمل کے ذریعے حکومت مسلمانوں کواس حق سے خاص طور پر الگ کرنا چاہتی ہے۔‘

بیان میں جامعہ اور علیگڑھ میں پولیس مظالم کا خاص طورپر ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہےِ، ’بروز اتوار، 15 دسمبر، دہلی پولیس جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہوئی اور طلبا پرفائرنگ کرنے کیلئے پیلیٹ گنز کا استعمال کیا۔ لائبریری میں مصروف مطالعہ طالب علموں اوراقامت گاہوں کے کمروں میں آنسو گیس کے گولے پھینکے جس نے تباہی مچادی اور طالب علم زخمی ہوئے جس میں دوطالب علم گولیوں سے زخمی ہوئے۔ مسلمان طالب علموں کوشدید تشدد کا خاص طور پر نشانہ بنایا گیا اور ساتھ میں اسلاموفوبک [اسلام اورمسلمانوں کے خلاف] گالیوں کا استعمال کیا گیا۔ طالبات نے بتایا ہے کہ ان کا اقامت گاہوں میں داخل ہوکرپولیس نے ان پرجنسی حملے بھی کئے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے بھی پرامن احتجاجی طلبا پر پولیس تشدد کی متعد خبریں آئی ہیں۔ کرفیو کے نفاذ اور انٹرنیٹ کے بند کئے جانے کی وجہ سے اے ایم یو کے طلبا باہر کی دنیا سے رابطہ نہیں کرپارہے ہیں مگر ذرائع ابلاغ  نے تصدیق کی ہے کہ وہاں متعدد طلبا شدید زخمی ہوئے ہیں جن میں سے ایک طالب علم کا ہاتھ آنسو گیس کی زد میں آنے کی وجہ سے ضائع ہوگیا ہے۔‘

بیان میں شہری ترمیمی قانون کی سخت مزمت  اور این آر سی کی سخت مخالفت کرتے ہوئے ہندوستان بھر میں ان مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا ہے جو، ’اپنے جمہوری حقوق استعمال کرنے کیلئے حکومت کے ظالمانہ جبر کے خلاف جنگ کررہے ہیں۔‘

مکمل بیان ساؤتھ ایشیا سالیڈارٹی گروپ کے ویب سائٹ پر پڑا جا سکتا ہے۔

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.