محمد غزالی خان
صیہونیت اور ہندوتوا کے جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈے نے برطانوی انتخابات میں ایک ایسی ستم ظریفانہ صورتحال پیدا کردی ہے جس میں لیبرپارٹی کے قائد جیرمی کوربن — جن کی پوری زندگی فسطائیت، نسل پرستی اور آمریت کے خلاف جدوجہد اورحقوق انسانی کا علم بلند کئے رکھنے میں گزری ہے — کو صفائی پیش کرنی پڑ رہی ہے کہ نہ وہ نسل پرست ہیں اورنہ یہودی دشمن ہیں۔ ان اس کے برعکس ان کے مد مقابل کنزرویٹوپارٹی کے لیڈر بارس جانسن، جو اپنے مسلمان مخالف اورنسل پرستانہ تبصروں کیلئے بدنام ہیں، جن کا نہ تو وہ انکار کرتے ہیں اور نہ اس کیلئے معزرت پیش کرتے ہیں، ان کیلئے سات خون معاف کردئے گئے ہیں۔
جنوبی افریقہ میں نسل پرستانہ نظام کی بات ہو یا دنیا میں کہیں بھی حقوق انسانی کی خلاف ورزی کا معاملہ ہو جیرمی کاربن نے ہمیشہ اس کے خلاف آوازاٹھائی ہے۔ 80 کی دہائی میں جب اس وقت کی برطانوی وزیر اعظم مسز تھیچر، نیلسن منڈیلا کو دہشت گرد بتاتی تھیں، جیرمی کاربن کو لندن میں جنوبی افریقہ کے سفارتخانے کے سامنے نسل پرستی کے خلاف احتجاج کرنے کی پاداش میں پولیس نے گرفتارکیا تھا۔ نیلسن منڈیلا کے ایک پوتے کا کہنا ہے کہ، ’’ہمیں آج جو آزادی نصیب ہے وہ جیرمی کاربن جیسے لوگوں کی مرحون منت ہے۔‘‘
بڑے بڑے دعوے کردینا ایک بات ہے مگرجب آپ خود ڈرائیونگ سیٹ پر ہوں اوربہت سے چیلنجز کا سامنا خود کرنا پڑے اُس وقت اپنے اصولوں پر ڈٹے رہنا بالکل مختلف بات ہے۔ 2015 میں لیبرپارٹی کی قیادت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا کام جو جیرمی کوربن نے انجام دیا وہ پارلیمنٹ کے سامنے پناہ گزینوں کے برطانیہ میں داخلے اور یہاں کام کرنے کے حق میں کی جارہی ریلی میں شرکت کرنا تھا جہاں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، ’’اپنے دل و دماغ میں وسعت پیدا کیجئے اوران لوگوں کے لئے اپنے رویوں میں تبدیلی لائئے جو تباہ حال ہیں اور انہیں کسی محفوظ جگہ کی تلاش ہے، جو ہمارے معاشرے کو کچھ دینا چاہتے ہیں اور جو ہماری طرح انسان ہیں۔ امن، انصاف اور انسانیت ہر بات میں اتحاد ہی ترقی کا ضامن ہے۔‘‘
اپنے اصولوں پر وہ اتنی سختی کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ اپنے بیٹے کو سرکاری یا پرائویٹ اسکول میں بھیجنے پر ان کے اپنی شریک حیات سے سخت اختلافات ہونے کے بعد بالآخر طلاق ہوگئی۔
برطانیہ میں مضبوط یہودی لابی کے وجود اور حکومت اوربیوروکریسی میں صیہونی اثرو رسوخ کا علم ہونے کے باوجود انہوں نے مستقل فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے اور ان کے حق میں منعقد کئے جانے والے جلسے اورجلوسوں میں شریک رہتے ہیں۔ ان کی قیادت میں لیبر پارٹی نے برطانوی تاریخ کا سب سے انقلابی منشورشائع کیا جس میں کہا گیا کہ لیبرپارٹی کی حکومت بننے کے فوراً بعد فلسطین کو بحیثیت ریاست تسلیم کیا جائے گا اور یمن اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی پامالی کی وجہ سے سعودی عرب اور اسرائیل کو ہتھیار فروخت کئے جانے پرپابندی عائد کی جائے گی۔
یوں تو صیہونی جیرمی کوربن کے خلاف فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے کی وجہ سے ان کے خلاف ہمیشہ سے ہیں مگر خاص طور پرکوربن کی قیادت میں لیبرپارٹی کے منشور کے بعد اس مخالفت میں مزید شدت آگئی ہے۔ ایسے بہت سے یہودی ہیں جو صیہونی ذہنیت اور فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں مگر صیہونی ذہنیت والے اسرائیل پر کسی بھی تنقید کو یہودی دشمنی سے تعبیر دیتے ہیں۔
صیہونی ایجنٹوں کے ذریعے اسرائیل برطانوی انتخابات میں براہ راست مداخلت کررہا ہے۔ عوامی ہمدردی لینے کی غرض سے کبھی یہ کہہ کر جزباتی بلیک میلنگ کا حربہ استعمال کیا جاتا ہے کہ کوربن وزیراعظم بن گیا تو یہودی برطانیہ سے ہجرت کرلیں گے اور کبھی اسرائیل کی جانب سے یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ برطانیہ کے ساتھ انٹیلی جنس اور سراغ رسائی میں تعاون روک دیا جائے گا۔ جنوری 2017 میں ایک اسٹنگ آپریشن کے ذریعے الجزیرہ ٹیلی ویژن نے ثابت کیا تھا کہ اسرائیلی سفارتخانہ برطانوی ارکان پارلیمنٹ اور وزرا کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے۔ اس پروگرام میں ایک اسرائیلی سفارتکار کویہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ جن ارکان پارلیمنٹ اور سیاست دانوں کو اسرائیلی کا دشمن سمجھا جاتا ہے انہیں استائیل ان کے عہدوں سے ہٹودیتا ہے۔ الجزیرہ کے انکشافات کے بعد جیرمی کوربن نے ایک اور’’ناقابل معافی گناہ‘‘ یہ کرڈالا کہ اس وقت کی وزیر اعظم ٹریسا مے کو خط لکھ کر مطالبہ کرڈالا کہ اس معاملے کی تحقیقات کروائی جائیں۔
برطانیہ میں یہودیوں کے سب سے بڑے ربی ایفریم مروس نے کوربن کو حال ہی میں وزارت عظمیٰ کیلئے نا اہل بتاتے ہوئے یہودیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی آوازپر ووٹ دیں۔ البتہ اس پروپیگنڈے کے باوجود بہت سے یہودی اب بھی کوربن کی حمایت کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر یونیورسٹی میں ریسرچر سیج برائس نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ، ’’حالانکہ یوروپ میں اینٹی سیمیٹزم بڑھ رہا ہے مگر اسے کچھ سیاسی لوگ ایک ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کر رہے ہیں اور یہ لوگ یہ کام میرے نام پر کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا ہے، ’’یوروپ اور انگریزی بولی جانے والی دنیا میں اینٹی سمیٹزم میں اضافہ ہورہا ہے۔ مگر مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ اینٹی سمیٹزم اور نسلی منافرت کی دیگر اقسام ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ معاشرے میں ہر ایک کی عافیت اور تحفظ کے بغیر یہودیوں کے تحفظ کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے۔‘‘
مگر اکیلا اسرائیل ہی برطانوی یہودیوں کے ذریعے یہاں کی سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ نریندر مودی کے ’’نئے ہندوستان‘‘ کے حامی بھی لیبرپارٹی کے خلاف مہم میں شامل ہوکرہندوؤں میں نفرت پیدا کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں تو وہ پہلے ہی واٹس ایپ کے ذریعے ایک دوسرے کوبتا رہے ہیں کہ شہریت ترمیمی بل منظورہوجانے کے بعد جب مسلمانوں کو ان کی املاک سے بے دخل کیا جائے گا تو یہ ہندوؤں کے قبضے میں آئیں گی۔
ٹائمزآف اندیا کی ایک رپورٹ کے مطابق اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی (اوایف بی جے پی) یوکے 48 ایسی سیٹوں پر لیبر پارٹی کو ہرانے کی مہم میں لگی ہے جہاں سے لیبر کم ووٹوں سے جیت کر آئ تھی۔ اوایف بی جے پی کے صدر کلدیپ سنگھ شیخاوت کے مطابق وہ تین وجوحات کی بنا پرلیبر کی مخالفت کر رہے ہیں: پہلی یہ کہ لیبر کے ارکان پالیمنٹ نے 15 اگست کے دن ہندوستانی ہائی کمیشن کے سامنے پر تشدد احتجاج میں حصہ لیا تھا، دوسرے یہ کہ کشمیرپرہاؤس آف کامبز میں ہونے والی بحث میں کسی لیبر رکن پارلمنٹ نے ہندوستان کی حمایت نہیں کی اور تیسرے یہ کہ پارٹی کانفرنس میں لیبر نے کشمیر پر قرارداد منظورکی۔ موصوف کے بقول، ’’کشمیر ہندوستان کا اندورنی مسئلہ ہے۔ لیبر پارٹی اپنی کانفرنس میں ہندوستان کے مسئے پر کیوں بحث کر رہی ہے۔ جو ہمارے حمایت کرے گا ہم اس کی حمایت کریں گے۔‘‘
کنزرویٹو پارٹی کے قائد بارس جانسن ایک ایسے مفاد پرست شخص ہیں کہ جب انہیں ضرورت پڑتی ہے تو اپنی مسلم وراثت پر فخرکا اظہارکرڈالتے ہیں اور جب ضروت پڑتی ہے تو مسلمانوں کے خلاف زہر اگل دیتے ہیں۔ موجودہ صوتحال سے وہ پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ لندن میں سوامی نارائن مندرمیں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ جاکروہاں انہوں نے نریندرمودی کی شان میں قصیدے پڑھ ڈالے اورسامعین سے کہا، ’’میں جانتا ہوں نریندر مودی ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کر رہے ہیں۔ اوربرطانوی حکومت میں ہم ان کوششوں میں بھر پور تعاون دیں گے۔‘‘
بورس جانسن نسل پرستانہ اور عورتوں کے خلاف اپنے بیانات اور نامعقول روئے کی وجہ سے بدنام ہیں مگر انہیں ان میں سے کسی ایک بات پر بھی کوئی ندامت نہیں ہوتی۔ اس کے متعلق سوالات پوچھے جانے پر وہ نہایت بے شرمی کے ساتھ اپنے بیانات کا دفاع کرتے ہیں اورسوال پوچھنے والے سے بیان کا سیاق و سباق دیکھنے کی فرمائش کرکے وضاحت دینا شروع کردیتے ہیں۔ وہ بہت سے ہندوؤں اور یہودیوں کی کم علمی اور تنگ نظری کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور مخلص کسی کیلئے بھی نہیں ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف لیبر پارٹی کے اصول پسند اور ایماندار قائد کو ہر طرح بدنام کرنے کی مہم جاری ہے کنزرویٹو پارٹی کے اندر اسلاموفوبیا کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ کنزرویٹو پارٹی کے جن اسلام دشمن پندرہ کونسلروں کو برطرف کیا گیا تھا انہیں خاموشی کے ساتھ واپس لے لیا گیا ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کی سابق صدر سعیدہ وارثی، جنہوں نے اگست 2014 میں غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری پر برطانوی حکومت کی پالیسی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بحیثیت فارن آفس منسٹر استعفیٰ دے کر برطانوی سیاست میں زلزلہ پیدا کردیا تھا اور اپنی جماعت میں اسلاموفوبیا کے خلاف جہاد کرتی رہی ہیں موجودہ صورتحال پر اپنی مایوسی اور اپنی جماعت سے اپنے تعلق کی مثال ایک ’’تکلیف دہ طلاق‘‘ سے دے کر کرتی ہیں۔ ان کے بقول، ’’مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں ایسے ازدواجی رشتے میں بندھی ہوئی ہوں جس میں مجھ پر ذیادتی ہورہی ہے اور میں ایسے شخص کے ساتھ نباہ کر نے پر مجبور ہوں جس کے ساتھ مجھے نہیں رہنا چاہئے۔ اب میرے لئے کنزرویٹوپارٹی میں رہنا اچھا نہیں ہے۔‘‘
جہاں تک ہندوتواایجنٹوں کی سرگرمیوں کا تعلق ہے، ہندوستانی نژاد برطانوی مصنفہ اور حقوق انسانی کی سرگرم رکن امرت ولسن کا کہنا ہے، ’’یہ سب کچھ اچانک نہیں ہونے لگا۔ زمین پہلے ہی زخیزتھی۔ اس ملک میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک منظم اندازمیں اسلاموفوبیا، عورت مخالف اورجنگجوئیت کے نظرئے کوپھیلایا ہے جسے ہندوتوا کہا جاتا ہے۔‘‘
وہ مزید لکھتی ہیں، ’’ان تنظیموں میں ہندو سیوم سنگھ (ایچ ایس ایس ، جو آرایس ایس کی غیرملکی شاخ ہے اور جو مسولنی کی بلیک شرٹس کے طرز پر بنائی گئی ہے (جو ہندوستان میں مسلمانوں، عیسائیوں، اور دلتوں کے خلاف زنابالجبراور ہجومی تشددکی ترغیب دیتی ہے)؛ سیوا انٹرنیشنل، جو ایچ ایس ایس کے ساتھ مل کر برطانیہ میں لاکھوں پونڈ جمع کرکے ہندوستان میں آرایس ایس کو پہنچانے کیلئے قائم کی گئی تھی؛ ہندو فورم آف بڑٹین؛ نیشنل کونسل فیر ہندو ٹیمپلز (این سی ایچ ٹی) شامل ہیں جوبہت سی ہندو تنظیموں اورمذہبی اسکولوں سے لی کر یوگا کلبوں تک منسلک ہیں۔
سال 2016 میں بھی خیراتی اداروں پر نظررکھنے والے برطانوی ادارے چیرٹی کمیشن نے ایچ ایس ایس کو تنبیہ کی تھی کہ وہ، ’’اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ آرایس ایس کا اس پر کوئی اثر نہ ہو، عملی اقدامات کرے۔‘‘
کیا جیرمی کوربن کے خلاف پروپیگنڈہ ہندو ووٹروں پر اثرانداز ہوگا؟ برطانیہ میں دلت تنظیموں کے اجتماعی ادارے کاسٹ واچ یو کے کے ستپال منن کا کہنا ہے، ’’ہم جانتے ہیں کہ ہندوتوا تنظیمیں ماضی میں بھی نام نہاداعلیٰ زاتوں کے ووٹ بٹورنے کی کوشش کرچکی ہیں۔ اب کیونکہ لیبر نے کشمیریوں کی حمایت کی ہے تو یہ انہیں ایک نیا شوشہ مل گیا ہے۔ مگر اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اعلیٰ زات کے دولت مند ہندوؤں نے ہمیشہ ہی کنزرویٹو پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔ ہرچار ہندوؤں میں سے ایک دلت ہے جن کی بڑی اکثریت کے بارے میں امکان یہ ہے کہ وہ لیبر پارٹی کو ہی ووٹ دیں گے۔‘‘