کرونا وائرس کیا ہے اور اس میں کیا کیفیت ہوتی ہے؟

تحریر:  ڈاکڑ عامرخان

ترجمہ: محمد غزالی خان

عام طور پر ذاتی بلاگز پر دوسروں کے مضامین شائع نہیں کیے جاتے،  مگر کرونا وائرس اور کووڈ 19 پر نہایت عام فہم انداز میں الجزیرہ پر شائع کئے گئے اس مضمون کا ترجمہ مفاد عامہ کے لیے  شائع کیا جا رہا ہے، جس میں مصنف  نے جو پیشے سےڈاکٹر اوربرطانیہ کے ایک میڈیکل کالج میں  استاد بھی ہیں بہت خوبصورتی سے سائنس جیسے  خشک اور الجھاؤ دار  موضوع کو بھی معلوماتی  اور  دلچسپ  انداز میں اس کی باریکیوں کو بتانے کی کوشش کی ہے ۔  کووڈ 19 کیا ہے ؟ وہ کیسے عمل کرتا ہے ؟ اس کے لگ جانے سے انسان کو کیوں کر اتنی تکلیف ہوتی ہے ، یہ کیسے پھیپھڑوں ، ناک کی نلیوں اور دماغ کو متاثر کرتا ہے ؟ اس سے بچاؤ کی تدابیر کیا ہیں، ڈاکٹرز اور سائنسداں اس کے تدارک کے لیے کام کررہے ہیں ان سب کا جواب آپ کو اس مضمون میں مل جائے گا ۔ محمد غزالی خان

جب ساٹھ سالہ برطانوی ڈاکٹر]محترمہ [ کلیئر گرادا،جو ایک میڈیکل پریکٹیشنر اور ’ رائل کالج آف جی پیز‘  کی سابق صدر ہیں، کو کرونا ہوا تو انہوں نے بتایا کہ ، ’مجھے آج تک کسی بیماری میں ایسی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔‘ اور یہ کہ ’اس کی تکلیف کی شدت درد زہ سے زیادہ ہوتی ہے۔‘

کرونا وائرس سے شفا یاب ہونے کے بعد انہوں نے اپنا ذاتی تجربہ آن لائن پوسٹ کیا تھا۔

شکر ہے کہ ڈاکڑ گرادا صحت یاب ہورہی ہیں ۔ مگر پہلی مرتبہ کسی کی زبانی یہ سننے کے بعد اس بیماری میں کیا کیفیت ہوتی ہے، میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ یہ وائرس جسم پر کس طرح حملہ کرتا ہے اور اس کے بعد ہم اتنی تکلیف میں کیوں ہوتے ہیں۔

ہمیں بخار اور کھانسی کیوں ہوتے ہیں؟ گلا کیوں دُکھتا ہے اور کچھ لوگوں کو پیچش یا اسہال(عرف عام میں اسے ڈائریا بھی کہتے ہیں ) کیوں ہوتی ہے۔ یہ باتیں سمجھنے کیلئے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ وائرس آپ کے جسم پر کس طرح قبضہ جماتا ہے۔

اس حد تک تو کودڈ 19 دیگر وائرس کی طرح  ہی ہوتا ہے کہ پیدا ہوتے رہنے اور پھیلنے کیلئے اسے ایک پناہ گاہ ، یعنی انسانی جسم ،کی ضرورت ہوتی ہے۔ دراصل بنیادی طورپر کوئی بھی وائرس ایک جینیاتی مادہ ہوتا ہے جو خود کچھ نہیں کرسکتا ۔ اپنے آپ کو باربار پیدا کرنے کیلئے اسے کسی جاندار مخلوق پر حملہ کرنا پڑتا ہے ۔ اس کے بغیر اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

وائرس اور جراثیم اس لحاظ سے ایک جیسے نہیں ہوتے کہ کرونا وائرس کو پنپنے کیلئے  کھانے ، پانی، گندگی پر بیٹھنے یا آرام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کا صرف ایک ہی کام ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کوباربار پیدا کرتے رہنا ۔ مگر یہ ایسا صرف اس صورت میں کرسکتا ہے ، جب اسے کوئی مناسب  جگہ  ملے۔

کووڈ 19 ، کرونا وائرس کی اکیلی قسم نہیں ہے۔ اس کی دوسری قسموں میں مڈل ایسٹ ریسپریٹری  سنڈروم کورونیورس (MERS-CoV) اور سیوئر ایکیوٹ ریسپریٹری  سنڈروم کورونیورس (SARS-CoV) شامل ہیں۔

تمام اقسام کے کورونا وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ اس خاص صفت کو zoonotic (حیوانوں کی بیماری) کہا جاتا ہے۔ کووڈ 19 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی شروعات چین میں جنگلی جانوروں کے ایک بازار سے ہوئی ہے۔

کووڈ 19 وائرس بناوٹ کے لحاظ سے گولی جیسا ہوتا ہے۔ اور اسکی سطح پر تاج نما (crown) کانٹے دار تیلیاں سی اگی ہوتی ہیں۔ اسی مناسبت سے اسکو corona کا نام دیا گیا ہے۔

دیگرتمام وائرس  کی طرح کووڈ19 نام کے اس  کرونا وائرس کے  منتقل ہونے کا ذریعہ بھی  کھانسی یا چھینک سے نکلنے والی بوندیں ہوتی ہیں۔  جن لوگوں میں اس کے جراثیم ہوتے ہیں ، جب وہ چھینکتے یا کھانستے ہیں تو ان کے منہ سے نکلنے والی تھوک کی بوندیں جراثیم سے لتھڑی  ہوتی ہیں اور دوسرے لوگ یا تو انہیں سانس کے ذریعے یا جس جگہ یہ جراثیم گرے ہوتے ہیں ، اسے چھونے کے بعد جب اپنا چہرہ چھوتے ہیں اور سانس لیتے ہیں تو ان جراثیم کو اپنے جسم میں داخل کرلیتے ہیں۔

کرونا وائرس کا سفر:

جیسے ہی آپ سانس لیتے ہیں وائرس فوری طور پر آپ کے گلے اورناک کے اندر پیچھے کی جانب پہنچ جاتا ہے۔

ناک اور گلہ جہاں ایک دوسرے سے ملتے ہیں اسے mucosa  [لعابی جھلی] کہتے ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں اپنا کام شروع کرنے سے پہلے یہ کانٹے دار  جرثومے  جا کر چپک جاتے ہیں۔

جب یہ آپ کی ناک کے پیچھے پہنچتے ہیں تو کووڈ19 آپ کی ناک کے راستے کے خلیوں پر قبضہ جمالیتا ہے ۔ خلیوں کے اندر داخل ہو کر یہ وائرس انہیں ری پروگرام کرتے رہتا ہے  اور  دیگر  (قدرتی اور معمول کے )کام کو روک کرصرف کووڈ19 وائرس پیدا کرنے پر  لگ  جاتا ہے ۔

ناک اور گلے کے خلیوں کی اس تباہی سے آپ کو خشک کھانسی آنے لگتی ہے اور گلا دُ کھنے لگتا ہے۔ یہ تکلیف اس بات کی جانب اشارہ ہوتا ہے کہ آپ کے خلئے مصیبت میں ہیں اور انہیں تباہ کیا جا رہا ہے۔

اگلا مرحلہ بخارکا ہوتا ہے:

اس وقت تک آپ کی قوت مدافعت کو معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ کے جسم میں بیرونی عناصر داخل ہوچکے ہیں۔ اس میں وقت اس لیے  لگا ہے کیونکہ جب آپ کے جسم میں بیرونی عنصر داخل ہوتے ہیں تو آپ کی قوت مدافعت کو اسے پہچاننے اور اپنا دفاعی کام شروع کرنے میں وقت لگتا ہے۔ بہرحال جب وہ یہ کام شروع کرتے ہیں تو میموری سیلز (خلئے جو اس عمل کو یاد رکھتے ہیں) بھی پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ جب کبھی یہ وائرس دوبارہ آپ پر حملہ کرے گا تو آپ کی قوت مدافعت والا نظام پہلے سے زیادہ جلدی حرکت میں آجائے گا۔

آپ کی قوت مدافعت والا نظام pyrogens نام کے کیمیکل بنانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ آپ کے دماغ کو آپ کے جسم کے درجہ حرارت کو بڑھانے کی ہدایت کرتے ہیں جس کی وجہ سے آپ کو 37.8  سیلسی ایس یا اس سےبھی زیادہ بخار ہوجاتا ہے۔

بخار آپ کی قوت مدافعت کے نظام کے دوسرے حصوں کو متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ وائرس کیلئے سازگار یا مخالف ماحول بھی پیدا کرتا ہے۔ (میڈیکل سائنس میں) یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ بخار دراصل انفیکشن کے خلاف لڑنے میں مدد کرتا ہے ، مگر کیونکہ اس کی وجہ سے ہمیں طبیعت خراب محسوس ہوتی ہے تو ہم اسے کم کرنے کو کوشش کرتے ہیں۔

اس وائرس سے لوگوں کی طبیعت اس لیے زیادہ اوراتنی تیزی کے ساتھ خراب ہورہی ہے  کہ یہ وائرس  انتہائی سرعت  کے ساتھ خود کو پیدا کرتا رہتا ہے اور جارحانہ انداز میں یہ جسم پر حملہ کرتا ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ اکژ لوگوں کے لیے  بات بخار، کھانسی اور شاید گلے کی  درد  تک ہی  محدود ہوجائے گی ۔ پانچ یا سات دن کے اندر اندر آپ کی قوت مدافعت والے نظام نے وائرس کو ختم کرنے کا خاطرخواہ کام انجام دے دیا ہوگا اور آپ صحتیاب ہورہے ہوں گے۔

جب پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں:

البتہ کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی قوت مدافعت اتنی جلدی حرکت میں نہیں آئے گی اور وائرس اس مرحلے کے بعد بھی پھیلتا رہے گا۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں ،  جن کی قوت مدافعت یا تو بیماری ، کمزوری یا غذائیت کی کمی کی وجہ سے کمزور ہے یا انہیں پہلے ہی سے دیگر بیماریاں لاحق ہیں۔

جیسے جیسے وائرس اورزیاداہ بڑھتا ہے اوران لوگوں کے اجسام میں مزید خلیوں کو متاثرکرتا ہے ، یہ پھیپھڑوں تک پہنچنے والے ہوا کے راستے کو متاثرکرتا ہے۔ یہاں پر یہ پھیپڑوں کے خلیوں پر حملہ کرتا ہے جس کی وجہ سے پھیپڑوں کیلئے آکسیجن اندر لینا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو باہر نکالنا مشکل ہوجاتا ہے اور یوں سانس پھولنا شروع ہوجاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کرونا وائرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سانس لینے میں مشکلات پیدا کرتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ان خلیوں کو نقصان پہنچتا ہے جن کا کام سانس لینے کے ہمارے نظام کو چلانا ہوتا ہے۔

جیسے جیسے کووڈ 19 وائرس پھیپڑوں کے حصوں پر حملہ آور ہوتا ہے ، ان میں سوجن پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے اور ان میں پانی اور پیپ بھرجاتا ہے۔ اس مرحلے پر آپ کو نمونیہ ہوجاتا ہے۔

اگر پھیپھڑوں میں  مزید سوجن آجاتی ہے اور پانی اور بھرجاتا ہے تو مریض کو وینٹلیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور ،افسوس ، اگر پھیپڑے کام کرنا بند کردیں تو موت واقع ہو سکتی ہے۔

کچھ لوگوں نے کووڈ 19 وائرس کی علامات میں پیچش بھی بیان کی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ کووڈ19 ناک کے راستے سے آپ کی آنتوں تک پہنچ کر وہاں بھی مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ ہلکی پھیلی کیفیات والے لوگوں کو بھی پیچش کی شکایت ہو سکتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس فضلے کے ذریعے پھیلنے کا خطرہ موجود ہے جس پر میڈیکل پروفیشنلز ہنگامی طور پر تحقیق کا کام کررہے ہیں۔

صورتحال مستقل بدل رہی ہے اور اس وائرس کے بارے میں نئی نئی معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔ بہرحال یہ بات  زور دے کر  بتائی جانی چاہیے کہ اکثر لوگ ہلکی پھلکی  یا درمیانے درجے کی علامات کا سامنا  کرنے کے بعد صحت یاب ہوجائیں گے  جس کے بعد   ان کی قوت مدافعت   میں کووڈ 19 کے خلاف  لڑنے کی استعداد پیدا ہوجائےگی۔

(ڈاکٹر عامر خان برطانیہ میں ڈاکٹر ہیں اور ایک یونیورسٹی میں سینئر لیکچرار ہیں

مفاد عامہ کیلئے الجزیرہ ڈاٹ کام سے ترجمہ کیا گیا۔)

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.