کیا ہندوتوا حکومت سپریم کورٹ کو آزاد اور خودمختار رہنے دے گی؟

محمد غزالی خان

سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں کی چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اور یہ کہ باغی جج اپنے اپنے کام پر واپس چلے گئے ہیں۔تازہ ترین پیش رفت کے بارے میں یہ اطلاعات دی جا رہی ہیں کہ باغی ججوں کی آدھے گھنٹے کی ایک ملاقات چیف جسٹس دیپک مشرا کے ساتھ ہوئی ہے ۔

اس سے قبل بار کونسل آف انڈیا کے صدر منن کمار مشرا نے کہا ہے کہ ’’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اختلافات کو دور کر دیا گیا ہے اور سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے ۔‘‘ حالانکہ صرف اتنا ہوا ہے کہ چیف جسٹس دیپک مشرا نے ان باغی ججوں کے اٹھائے گئے سوالات پر غور کرنے کیلئے ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے مگر ان چار ججوں میں سے کوئی بھی اس کمیٹی میں نہیں ہے۔

واضح رہے کہ بار کونسل کے صدر منن کمارمشرا حکمراں پارٹی بی جے پی کے رکن ہیں اور کچھ عرصہ پہلے اپنی ایک ٹوئیٹ میں وہ یہاں تک دعویٰ کر چکے ہیں کہ نریندر مودی گاندھی کا دوسرا جنم ہیں۔

12 جنوری کو سپریم کورٹ کے باغی ججوں نے ایک پریس کانفرینس کر کے بتایا تھا کہ چیف جسٹس کو بار بار آگاہ کرنے کے باوجود بہت سے سنجیدہ مسائل پر انھوں نے کوئی توجہ نہیں دی اسلئے نہایت رنج کے ساتھ انہیں یہ پریس کانفرنس بلانی پڑی ہے۔ انھوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ جس انداز میں سپریم کورٹ کا کام کاچ چل رہا ہے اس سے ملک کی جمہوریت کو سخت خطرات لاحق ہیں۔

اس چار رکنی ٹیم کی رہنمائی کرنے والے جج جسٹس چیلمیشور نے پریس کانفرنس میں کہا تھا ، ’’ہم یہ نہیں چاہتے کہ آج سے بیس سال بعد دانشوران یہ کہیں کہ جسٹس، گوگوئی، لوکر اور کرین جوزف نے اپنی روحوں کا سودا کر لیا تھا اور آئین کے مطابق اپنے فرائض پورے نہیں کئے تھے۔‘‘

چیف جسٹس مشرا کے نام لکھے گئے ایک خط میں ان ججوں نے ان پر الزام لگایا ہے کہ وہ اہم اور نہایت سنجیدہ نوعیت کے ایسے مقدمات جن کا اثر دور رس ہو گا اور ملک کے مستقبل پر پڑے گا اپنی مرضی کی بینچز کے سپرد کرتے ہیں اور ان فیصلوں میں وہ ضوابط کا پاس نہیں رکھتے۔ اپنے الزام کے ذریعہ ان ججوں نے اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس اہم مقدموں کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جن بہت سے مقدمات کا ان ججز نے ذکر کیا ہے ان میں سے اہم ترین کیس ہندوستان کے تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کی عدالت کے جج بی ایچ لوئیا کی موت سے متعلق ہے جو نہایت مشکوک حالات میں واقع ہوئی تھی۔ 

جسٹس لوئیا بی جے پی کے صدر امت شاہ کے خلاف ماورائے عدالت قتل کے ایک اہم مقدمے کی شنوائی کر رہے تھے۔ امت شاہ وزیر اعظم نریندر مودی کے معتمد ترین سیاست داں ہیں اور 2002 میں نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کے دوران گجرات کے انسانیت سوز فسادات کے دوران اس صوبے کے وزیر داخلہ تھے۔ اس فساد کے بارے میں ہندوستان میں برطانوی سفارتخانے کی لیک شدہ ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس میں ’’نسل کشی کی تمام علامات موجودہیں‘‘۔

امت شاہ کو 2010 میں سہراب الدین شیخ اور ان کی اہلیہ کوثر بی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا مگر مقدمے کی کسی بھی پیشی میں وہ عدالت کے رو برو حاضر نہ ہوئے۔ کیس کی شنوائی کرنے والے جج جے ٹی اُٹ پٹ کا تبادلہ کردیا گیا اور ان کی جگہ بی ایچ لوئیا کو لایا گیا۔ 

جج لوئیا نے امت شاہ کو عدالت میں حاضر ہونے کے کئی احکامات بھیجے جن میں سے میں 31 اکتوبر 2014 کو عدالت میں حاضر ہونے کو کہا گیا تھا۔مگر ممبئی میں موجود ہونے کے باوجود امت شاہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ جج لوئیا نے ا مت شاہ کو15 دسمبر 2014 کو لازماً حاضر ہونے کا حکم دیا اور پہلی دسمبر 2014 کو ناگپور میں ان کی موت واقع ہو گئی۔ جج لوئیا کے خاندان والوں اور بہت سے ججوں نے سرکاری بیانیے کو ماننے سے انکار کردیا کہ ان کی موت حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ 

جج لوئیا کے گھر والوں نے کارواں میگزین 20) نومبر (2017 کو بتایا کہ مہارشٹرا ہائی کورٹ کے ثابق جج موہت شاہ نے امت شاہ کے حق میں فیصلہ کرنے کے عوض جج لوئیا کو 100 کروڑ روپئے کی رشوت کی پیشکش کی تھی۔ 

جج لوئیا کی موت کے بعد ان کی جگہ تعینات کیے جانے والے جج ایم بی گوساوی نے امت شاہ کو تمام الزامات سے بری کردیا۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پی سدا شوم نے اس فیصلے کے خلاف اپیل منظور کرنے سے انکار کردیا۔اس کا انعام انہیں ریٹارمنٹ کے فوراً بعدکیرالہ کا گورنر بناکر دیا گیا۔

نہ یہ کہ سپریم کورٹ کے جج کو پہلی بار جج بنایا گیا، اپنی صفائی میں اس تک پہنچ گئے کہ ایک بیان میں فرمایا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنے گاؤں واپس جا کر کھیتی باڑی نہیں کر سکتے۔

ہندوستانی سپریم کورٹ کے ججز کا ایک وقار وہ بھی تھا جس کا مظاہرہ جسٹس ہدایت اﷲ نے کیا تھا۔ 3 مئی 1969 ڈاکٹر ذاکر حسین کے اچانک انتقال کے بعد اس وقت کے صدر وی وی گری قائم مقام صدر بن گئے۔ مگر اب ووی گری اس مخمصے میں تھے کہ آیا ان کو بحیثیت قائم مقام صدارت کے عہدے سے مستعفی ہو کر انتخاب میں حصہ لینا چاہئے۔ اپنی سوانح عمری My Own Boswell میں آنجہانی ہدایت اﷲ نے لکھا ہے کہ ان کے والد کے ساتھ اپنی دوستی کا ذکر کرتے ہوئے وی وی گری نے جسٹس ہدایت اﷲ سے کہا کہ قائم مقام صدارت کے عہدے سے مستعفی ہو کر وہ اس جگہ پر ان کا تقرر کرنا چاہیں گے۔ اس کا جواب ہدایت اﷲ نے یہ دیا کہ ’’آپ کو جو کرنا ہے وہ آپ کیجئے قانون اپنا کام کرے گا۔‘‘ وی وی گری نے دوسرا سوال ان سے یہ کیا کہ مجھے اپنا استعفیٰ کس کے نام بھجینا چاہئے۔ اس کا جواب جسٹس نے یہ دیا ’’بحیثیت چیف جسٹس مشورہ دینا میرے فرائض منصبی میں نہیں آتا۔ لہٰذا آپ کو اٹارنی جنرل سے رجوع کرنا چاہئے۔‘‘

جہاں تک موجودہ حکومت اور عدلیہ کے تعلقات کا معاملہ ہے وہ بی جے پی کے بر سراقتدار آتے ہی اس وقت خراب ہونا شروع ہو گئے تھے جب حکومت نے سپریم کورٹ کلیجئم کی سفارشات کو نا منظور کرتے ہوئے قابق سالیسٹر جنرل گوپال سبرامنیم کو جج مقرر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مبصرین کے مطابق سبرامنیم سے حکومت کی ناراضگی کی وجہ وہ رپورٹ تھی جو موصوف نے بحیثیت ایمیکس کیوری امت شاہ کے خلاف تیار کی تھی۔ اب اسے حکومتی دباؤ کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ اسی کلیجئم نے اگلے چند دنوں میں ایک ایسے شخص کا نام تجویز کیا جو امت شاہ کا وکیل رہ چکا تھا اور جسے حکومت نے فوراً منظور بھی کر لیا۔ 

ہندوستان میں حکومتوں کا تحقیقاتی اداروں کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنا اور عدالتوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم جہان تک سپریم کورٹ کا تعلق ہے اس کے ججوں کی یہ تاریخ رہی ہے کہ انھوں نے کسی بھی حکومت کے دباؤ کو تسلیم کرنے سے ہمیشہ انکار کیا ہے اور اس ادارے کے وقار اور خود مختاری پر آنچ نہ آنے دینے میں بڑی جرا ء ت اور دلیری کا مظہرہ کیا ہے۔ انصاف کے اصولوں پر سختی سے عمل کرنے کا ہی نتیجہ تھا کہ تا حال ہندوستان میں مذہبی اقلیتیں بالخصوص مسلمان جنہیں کسی دوسرے ادارے یر بالکل بھروسہ نہیں اس پر بھر پور اعتماد کرتے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 16 مئی 2014 کو جس دن عام انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا گیا اور نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی فاتح جماعت کے طور پا سامنے آئی اس دن بھی سپریم کورٹ نے 11 ایسے مسلمانوں کو با عزت بری کیا تھا جنہیں صوبہ گجرات میں اکشر دھام مندر پر حملے کے الزام میں سزائے موت سنائی دی گئی تھی۔ عدالت کی خود مختاری اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی دوسری تازہ ترین مثال منی لانڈرنگ کے الزام میں ڈاکٹر ذاکر نائک پر چل رہے ایک مقدمے کی ہے جس میں جج نے اینفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ کو ذاکر نائک کی املاک ضبط کرنے سے نہ یہ کہ روک دیا بلکہ اس کی نیت پر بھی سوال اٹھا تے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ، ’’میں آپ کو ایسے دس (ہندو) باباؤں کے نام بتا سکتا ہوں جن کے املاک کی مالیت 10,000 کروڑ روئے سے زیادہ کی ہے اور جن پر مجرمانہ مقدات ہیں۔۔۔کیا آپ نے ان میں سے کسی کے خلاف کار روائی کی ہے؟‘‘

ہندو احیاء پرستی کی ذہریلی فضا اور کلیدی مقامات پر بی جے پی کے ہمدردوں کے تقرر کے بعد ہندوستانی عدلیہ کی خود مختاری کا مستقبل خطرے میں ضرور ہے۔ حکومتی مشینری پس پردہ جج لوئیا کے لواحقین کو خاموش کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ اور وہ ان کے بیٹے انجو لوئیا سے ممبئی میں ایک پریس کانفرنس کروانے اور وہاں پر اس بات کا اعلان کروانے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ انہیں اپنے باپ کے دل کے حملے میں فوت ہوجانے پر کسی طرح کا کوئی شبہ نہیں ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے انھوں نے اپنے رشتہ داروں کو لکھے گئے ایک خط میں مہاراشٹرا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس موہت شاہ کی آمد کے بارے میں بتاتے ہوئے لکھا تھا : ’’آج والد کی موت کے ڈھائی ماہ بعد مہاراشٹرا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہمارے گھر پر آئے تھے۔ میں ان کے چہرے پر احساس جرم صاف طور پر دیکھ سکتا تھا۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ سیاست داں ہماری گھر کے کسی بھی فرد کے کسی بھی فرد کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں اور مجھ میں ان سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔‘‘

بہر حال اب وقت ہی بتائے گا کہ اصولوں کی جنگ لڑنے والے ان چارججوں کو ان کے جج ساتھیوں اور وکلا کی کتنی سپورٹ ملتی ہے اور ہندوستان کا یہ مایہ ناز ادارہ اپنی خود مختاری قائم رکھنے میں کامیاب ہو گا یا نہیں۔ خدا نخواستہ اگر اس کی خود مختاری اور غیر جانب داری پر ضرب پڑتی ہے تو یہ مذہبی اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں اور دیگر کمزور طبقات کیلئے بہت بڑا نقصان ہو گا۔

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.