محمد غزالی خان
پاکستان کے صوبہ سندھ میں رفاحی کام کرنے والی کسی تنظیم نے ہندوؤں کو کھانا دینے سے یہ کہہ کرانکارکردیا ہے کہ یہ کھانا ان کیلئے نہیں ہے۔
یہ خبر ہندوستان کے کئی اخبارات میں نمایاں طریقے سے شائع ہوئی ہے۔ اس خبرمیں سیاسی کارکن ڈاکٹرایوب مرزا صاحب کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران سندھ میں اقلیتوں کو بحرانی صورتحال کا سامنا ہے۔
البتہ پاکستانی سوشل میڈیا سائٹس اور اخبارات میں اس خبرکی تردید کی گئی ہے اور مندروں میں راشن پہنچانے کی دیڈیو کلپس بھی پوسٹ کی گئی ہیں۔
پاکستان کی بڑی خیراتی تنظیم جے ڈی سی نے کراچی کےایک مندر میں امداد پہنچاتے ہوئے ایک کلپ اپنی فیس بک پر پوسٹ کر کے اس پروپیگنڈے کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے۔
کچھ پاکستانی ہندوؤں نے بھی سوشل میڈیا پراس خبر کی تردید کی ہے۔
یوں تو دونوں ممالک کا میڈیا ایک دوسرے کے خلاف منفی خبروں کو کی تشیہر سے باز نہیں آتا اور ممکن ہے کہ کہیں کوئی ایک واقعہ ہوا ہو جسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ مگر کیا ہم اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ مسلمانوں میں ایسی سوچ موجود ہے؟
اس خبرنے کئی سال پہلے اسی طرح کا ایک اورواقعہ تازہ کردیا جس کی خبرمیں پاکستانی چینل اے آروائی پر سنی تھی۔ اُس قت تھرپارکر کے علاقے میں قحط جیسی صورتحال تھی اور خاص طورپر بچوں میں بیماریاں پھیل رہی تھیں۔ اُس وقت بھی وہاں کام کرنے والی تنظیموں نے بچوں کو دوائیں دینے سے یہ کہہ کرانکار کردیا تھا کہ یہ دوائیں زکوٰت کے پیسے سے خریدی گئی تھیں لہٰذا ہندوؤں کو نہیں دی جا سکتیں۔
اس ضمن میں کل کا ایک واقعہ بھی سنا دیتا ہوں۔ میرا ایک بہت ہی عزیز دوست ہے۔ ایک دعا وہ مستقل مانگتا ت ہے کہ اﷲ تعالیٰ دولت دے تو ساتھ میں دل بھی دے۔ اور سچ بات یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے دونوں نعمتوں سے مالا مال کیا ہے۔ کار خیر بالکل اس انداز میں کرتا ہے کہ ایک ہاتھ سے دے تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ لاک ڈاؤن میں پسنے والے غریبوں میں کھانا تقسیم کرنے کی غرض سے کل اس نے کچھ رقم ہندوستان میں اپنے ایک جاننے والے کو بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ وہ صاحب بھی اسی کی طرح نہایت رازدارانہ انداز میں یہ مدد مستحقین تک پہنچا دیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ دونوں کو دین و دنیا میں بہترین اجر عطا فرمائے۔ مگر اس مرتبہ میرے اس دوست نے خاص طورپر ان صاحب کو یہ تاکید بھی کی ہے کہ مدد دینے میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق نہ کریں۔ کیونکہ موصوف کی ایک ہندوستانی مفتی صاحب سے بھی دوستی ہے ، تو ان سے اپنی اس تاکید پر بھی رائے مانگ لی۔ مفتی صاحب نے فوراً فرمایا کہ غیرمسلموں کیلئے صدقے سے کام چلائیے۔ جب میرے دوست نے مجھ سے یہ بات بتائی تو میں نے اسے مفتی صاحب کا پرانا قول یاد دلادیا جو موصوف نے کسی دوسرے مسئلے پر فرمایا تھا کہ، ’سب سے بڑا مفتی تمہارا اپناضمیر ہے‘ ۔
سوچنے کی بات ہے کیا اسلام کسی بھوکے کو مرتے دیکھنے اور زکوٰت مسلمانوں کے لئے بچا کر رکھنے کی غیر انسانی حرکت کی تعلیم دے سکتا ہے؟ سوچئے اگر کوئی مسلمان آپ ﷺ کے وقت میں ایسی حرکت کا مرتکب ہوتا تو آپ ﷺ کا رد عمل اس پر کیا ہوتا؟ حضرت عمر رضی الله تعالی عنه نے تو اپنے دور خلافت میں ضرورتمند یہودیوں کے لئے بیت المال سے وظیفے دئے تک دئیے تھے۔
بہرحال مسلمانوں میں اس فسطائی سوچ کے وجودسے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کب اور کہاں سے شروع ہوئی اور اس کا خاتمہ کیسے کیا جائے ان سوالات پر سنجیدگی سے سوچے جانے اور اس سلسلے میں عملی قدم اٹھائے جانے کی سخت ضرورت ہے۔ کیسا شرم کا مقام ہے کہ ہم دعویٰ تو کرتے ہیں ایسے نبی کے امتی ہونے کا جو انسانیت نوازی اور اعلیٰ اخلاق سے دلوں کو جیتنے کی پوری تاریخ انسانی میں اپنی مثال آپ ہے۔ مگر افسوس بحیثیت قوم ،بلا تفریق مذہب و ملت ضرورت مندوں تک پہنچنے کی جو قوم اس وقت بہترین مثال قائم کررہی ہے وہ ہم نہیں سکھ ہیں۔